معرکہ بڈھ بیر کا ہیرو
وہ ایک اچھا طالب علم ہی نہیں بلکہ بہت عمدہ کھلاڑی اور لکھاری بھی تھا
بڈھ بیر کا نام پہلی بار طالب علمی کے دنوں میں امریکی جاسوس طیارے یوٹو کے حوالے سے سنا تھا جو روس کی فضاؤں میں دراندازی کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا اسے زمین پر اتار کر اس کے پائلٹ (جس کا نام غالباً فرانسس پاورز تھا) کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور امریکا کو ہوائی اڈہ اور امداد فراہم کرنے کے جرم میں روس نے پاکستان کے نقشے کے گرد سرخ دائرہ لگا دیا تھا۔ پاک فضائیہ سے متعلق ڈرامہ سیریل لکھنے کے دوران بھی یہ نام مختلف حوالوں سے کان میں پڑا مگر بوجوہ اس کا کوئی واضح نقش قائم نہ ہو سکا البتہ کوئی دو برس قبل جب یہاں دہشت گردوں نے ایک بڑا حملہ کیا تو ایک بار پھر یہ خبروں میں آ گیا اور اس کے ساتھ ہی وطن عزیز کے ایک عظیم سپوت کیپٹن سید اسفند یار بخاری شہید کا نام بھی چاروں طرف گونج اٹھا کہ اس دلیر اور غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل نوجوان نے سینے پر گولی کھا کر شہادت کا عظیم درجہ حاصل کرنے سے پہلے دشمن کے حملے کو ناکام بنا کر نہ صرف ہزاروں لوگوں کی جانیں بچائیں بلکہ اپنی باکمال پلاننگ اور بے مثال قائدانہ صلاحیت سے کام لیتے ہوئے تمام حملہ آوروں کا صفایا بھی کر دیا۔
ان دنوں دہشت گردی کی کارروائیاں اسقدر تواتر سے ہو رہی تھیں کہ یہ خبر چند دن گرم رہنے کے بعد واقعات کے ہجوم میں گم ہونا شروع ہو گئی۔ دو تین تقریبات میں شہید کی حوصلہ مند ماں کی گفتگو سننے کا موقع ملا تو اس نوجوان کی کچھ اور خوبیوں سے آگاہی ہوئی لیکن اس کی جو مفصل اور بھرپور تصویر اس کے استاد اور معروف شاعر پروفیسر ظہیر قندیل کی مرتب کردہ کتاب ''معرکہ بڈھ بیر کا ہیرو'' میں سامنے آئی ہے وہ اس اعتبار سے بھی ایک قیمتی دستاویز ہے کہ اس میں صرف شہید کی مختصر مگر شاندار زندگی کے شب و روز اور شہادت کی تفصیل کو ہی قلم بند نہیں کیا گیا بلکہ ایک ایسی باعمل' بامقصد اور حوصلوں کو بلند کرنے والی مثال کو بھی محفوظ کر دیا گیا ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے ایک تحریک بھی ہے اور مشعل راہ بھی۔اس دوران میں مجھے شہید کے والد محترم ڈاکٹر سید فیاض بخاری صاحب سے بھی بات کرنے کا موقع ملا ہے اور ایک بار پھر اس بات کی اہمیت واضح ہوئی کہ ماں باپ کی تربیت' زندگی کے بارے میں ان کے انداز فکر اور عملی مثال کس طرح سے ان کی اولاد کے ذہنی اور عملی رویوں میں متعین اور ظاہر ہوتی ہے۔
کیپٹن سید اسفند یار شہید کا دنیاوی اور رائج کیلنڈر کے حوالے سے اس دنیائے فانی میں قیام کا دورانیہ 14اگست 1988ء سے 18ستمبر 2015ء تک تقریباً 27برس پر محیط رہا لیکن اس مختصر سے عرصے میں بھی اس نوجوان نے اپنی غیرمعمولی شخصیت کے جو روپ دکھائے انھیں پروفیسر ظہیر قندیل نے بارہ ابواب میں تقسیم کر کے 193 صفحات میں اس طرح سے پھیلا دیا ہے کہ نومولود اسفند یار کی پہلی چیخ سے لے کر شہادت کی ساعت میں لگائے گئے آخری نعرے تک آپ اسے اپنی آنکھوں کے سامنے پھلتا پھولتا اور ان محاسن کا اظہار کرتا ہوا دیکھ سکتے ہیں جن کا اظہار اسکول کے ابتدائی برسوں سے شمشیر اعزاز پانے اور پھر کوچ کے مثالی اور شاندار لمحے تک اس کے قدم سے قدم ملا کر چلتے دکھائی دیتے ہیں۔
دیکھا گیا ہے کہ بیشتر غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل وہ لوگ جن کی دنیاوی عمر نسبتاً مختصر رہی ان میں ایک بات مشترک ہے کہ نہ صرف بہت ابتدا میں ہی ان کے تخلیقی جوہر کھلنا شروع ہو جاتے ہیں بلکہ ان کے سفر کی رفتار بھی غیرمعمولی طور پر تیز ہوتی ہے جیسے ان کے اندر یہ احساس کسی پر اسرار طریقے سے موجود ہو کہ ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ اس کتاب ''معرکہ بڈھ بیر کا ہیرو'' کو پڑھنے کے دوران بھی اس احساس نے مجھے گھیرے رکھا۔ بچپن میں اسفند یار شہید جسمانی طور پر بہت دبلا پتلا اور بظاہر کمزور سا بچہ تھا مگر اس وقت کے جو چند واقعات بیان کیے گئے ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نفسیاتی' ذہنی اور فکری اعتبار سے وہ غیرمعمولی طور پر بہادر اور مضبوط تھا اور لیڈر شپ کی فطری صلاحیت اس وقت بھی اس کے کردار میں اپنی جھلک دکھا رہی تھی جس کو عرف عام میں کھیلنے کھانے کا زمانہ کہا جاتا ہے، وہ ان لوگوں میں سے تھا جو ہمہ وقت اپنے نصب العین سے نہ صرف جڑے رہتے ہیں بلکہ گرنے کا ماتم کرنے کے بجائے ہمہ وقت اپنی توجہ سنبھلنے اور فتح کے حصول تک مقابلہ کرنے کے لیے اس پر مرکوز رکھتے ہیں۔
وہ ایک اچھا طالب علم ہی نہیں بلکہ بہت عمدہ کھلاڑی اور لکھاری بھی تھا جب اس نے میڈیکل کی ڈگری کے بجائے فوج میں کمیشن لینے کا اعلان کیا تو کئی حوالوں سے اس کا یہ فیصلہ غلط اور جذباتی نظر آتا تھا مگر شمشیر اعزاز حاصل کرنے سے لے کر اپنی جرات مندانہ شہادت کے ایمان افروز لمحے تک وقت نے ثابت کیا کہ اس کا فیصلہ کس قدر صحیح تھا۔یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ ہماری تاریخ میں فوج اور سول حکومتوں کے باہمی تعلقات کی تاریخ کوئی بہت زیادہ مثالی نہیں ہے جس کا براہ راست منفی اثر ہمارے فوجی جوانوں اور افسروں کی ان لازوال قربانیوں پر پڑا ہے کہ ہر محاذ پر ان کی طرف سے دی جانے والی شاندار قربانیوں کو بھی بعض صورتوں میں وہ تعظیم نہیں مل سکی جس کے وہ حق دار تھے ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ملکوں میں یہ بحث کم و بیش ہر جگہ جاری ہے کہ جمہوری نظام میں فوج کا دخل اور مقام کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟ اس پر تو اختلاف رائے ممکن ہے لیکن وہ فوجی جوان اور افسر جو اپنے گھروں' رشتہ داروں' دوستوں اور پیاروں سے دور رہ کر ہر محاذ پر اپنا فرض ادا کرتے ہوئے جانوں کی بازی لگاتے ہیں ان کے اس جذبے اور عمل پر دورائے نہیں ہو سکتیں۔
کیپٹن سید اسفند یار شہید کی اس بے مثال قربانی' جذبہ حب الوطنی' فرض شناسی اور جان کے نذرانے کی یہ کہانی صرف ایک فرد کی زندگی اور شہادت کا احوال ہی نہیں وہ ایمان افروز قوت بھی ہے جو ہمیں ہمارے ہونے کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ ان امکانات اور صلاحیتوں سے بھی آگاہ کرتی ہے جو رب کریم نے ہمیں عطا کی ہیں اور ہمارے ساتھ ساتھ ہماری اگلی نسلوں کو بھی افتخار اور شکر گزاری کی وہ نعمت عطا کرتی ہے جس کے رگ و پے میں سید اسفند یار بخاری جیسے شہیدوں کا لہو دوڑ رہا ہے۔
ان دنوں دہشت گردی کی کارروائیاں اسقدر تواتر سے ہو رہی تھیں کہ یہ خبر چند دن گرم رہنے کے بعد واقعات کے ہجوم میں گم ہونا شروع ہو گئی۔ دو تین تقریبات میں شہید کی حوصلہ مند ماں کی گفتگو سننے کا موقع ملا تو اس نوجوان کی کچھ اور خوبیوں سے آگاہی ہوئی لیکن اس کی جو مفصل اور بھرپور تصویر اس کے استاد اور معروف شاعر پروفیسر ظہیر قندیل کی مرتب کردہ کتاب ''معرکہ بڈھ بیر کا ہیرو'' میں سامنے آئی ہے وہ اس اعتبار سے بھی ایک قیمتی دستاویز ہے کہ اس میں صرف شہید کی مختصر مگر شاندار زندگی کے شب و روز اور شہادت کی تفصیل کو ہی قلم بند نہیں کیا گیا بلکہ ایک ایسی باعمل' بامقصد اور حوصلوں کو بلند کرنے والی مثال کو بھی محفوظ کر دیا گیا ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے ایک تحریک بھی ہے اور مشعل راہ بھی۔اس دوران میں مجھے شہید کے والد محترم ڈاکٹر سید فیاض بخاری صاحب سے بھی بات کرنے کا موقع ملا ہے اور ایک بار پھر اس بات کی اہمیت واضح ہوئی کہ ماں باپ کی تربیت' زندگی کے بارے میں ان کے انداز فکر اور عملی مثال کس طرح سے ان کی اولاد کے ذہنی اور عملی رویوں میں متعین اور ظاہر ہوتی ہے۔
کیپٹن سید اسفند یار شہید کا دنیاوی اور رائج کیلنڈر کے حوالے سے اس دنیائے فانی میں قیام کا دورانیہ 14اگست 1988ء سے 18ستمبر 2015ء تک تقریباً 27برس پر محیط رہا لیکن اس مختصر سے عرصے میں بھی اس نوجوان نے اپنی غیرمعمولی شخصیت کے جو روپ دکھائے انھیں پروفیسر ظہیر قندیل نے بارہ ابواب میں تقسیم کر کے 193 صفحات میں اس طرح سے پھیلا دیا ہے کہ نومولود اسفند یار کی پہلی چیخ سے لے کر شہادت کی ساعت میں لگائے گئے آخری نعرے تک آپ اسے اپنی آنکھوں کے سامنے پھلتا پھولتا اور ان محاسن کا اظہار کرتا ہوا دیکھ سکتے ہیں جن کا اظہار اسکول کے ابتدائی برسوں سے شمشیر اعزاز پانے اور پھر کوچ کے مثالی اور شاندار لمحے تک اس کے قدم سے قدم ملا کر چلتے دکھائی دیتے ہیں۔
دیکھا گیا ہے کہ بیشتر غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل وہ لوگ جن کی دنیاوی عمر نسبتاً مختصر رہی ان میں ایک بات مشترک ہے کہ نہ صرف بہت ابتدا میں ہی ان کے تخلیقی جوہر کھلنا شروع ہو جاتے ہیں بلکہ ان کے سفر کی رفتار بھی غیرمعمولی طور پر تیز ہوتی ہے جیسے ان کے اندر یہ احساس کسی پر اسرار طریقے سے موجود ہو کہ ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ اس کتاب ''معرکہ بڈھ بیر کا ہیرو'' کو پڑھنے کے دوران بھی اس احساس نے مجھے گھیرے رکھا۔ بچپن میں اسفند یار شہید جسمانی طور پر بہت دبلا پتلا اور بظاہر کمزور سا بچہ تھا مگر اس وقت کے جو چند واقعات بیان کیے گئے ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نفسیاتی' ذہنی اور فکری اعتبار سے وہ غیرمعمولی طور پر بہادر اور مضبوط تھا اور لیڈر شپ کی فطری صلاحیت اس وقت بھی اس کے کردار میں اپنی جھلک دکھا رہی تھی جس کو عرف عام میں کھیلنے کھانے کا زمانہ کہا جاتا ہے، وہ ان لوگوں میں سے تھا جو ہمہ وقت اپنے نصب العین سے نہ صرف جڑے رہتے ہیں بلکہ گرنے کا ماتم کرنے کے بجائے ہمہ وقت اپنی توجہ سنبھلنے اور فتح کے حصول تک مقابلہ کرنے کے لیے اس پر مرکوز رکھتے ہیں۔
وہ ایک اچھا طالب علم ہی نہیں بلکہ بہت عمدہ کھلاڑی اور لکھاری بھی تھا جب اس نے میڈیکل کی ڈگری کے بجائے فوج میں کمیشن لینے کا اعلان کیا تو کئی حوالوں سے اس کا یہ فیصلہ غلط اور جذباتی نظر آتا تھا مگر شمشیر اعزاز حاصل کرنے سے لے کر اپنی جرات مندانہ شہادت کے ایمان افروز لمحے تک وقت نے ثابت کیا کہ اس کا فیصلہ کس قدر صحیح تھا۔یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ ہماری تاریخ میں فوج اور سول حکومتوں کے باہمی تعلقات کی تاریخ کوئی بہت زیادہ مثالی نہیں ہے جس کا براہ راست منفی اثر ہمارے فوجی جوانوں اور افسروں کی ان لازوال قربانیوں پر پڑا ہے کہ ہر محاذ پر ان کی طرف سے دی جانے والی شاندار قربانیوں کو بھی بعض صورتوں میں وہ تعظیم نہیں مل سکی جس کے وہ حق دار تھے ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ملکوں میں یہ بحث کم و بیش ہر جگہ جاری ہے کہ جمہوری نظام میں فوج کا دخل اور مقام کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟ اس پر تو اختلاف رائے ممکن ہے لیکن وہ فوجی جوان اور افسر جو اپنے گھروں' رشتہ داروں' دوستوں اور پیاروں سے دور رہ کر ہر محاذ پر اپنا فرض ادا کرتے ہوئے جانوں کی بازی لگاتے ہیں ان کے اس جذبے اور عمل پر دورائے نہیں ہو سکتیں۔
کیپٹن سید اسفند یار شہید کی اس بے مثال قربانی' جذبہ حب الوطنی' فرض شناسی اور جان کے نذرانے کی یہ کہانی صرف ایک فرد کی زندگی اور شہادت کا احوال ہی نہیں وہ ایمان افروز قوت بھی ہے جو ہمیں ہمارے ہونے کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ ان امکانات اور صلاحیتوں سے بھی آگاہ کرتی ہے جو رب کریم نے ہمیں عطا کی ہیں اور ہمارے ساتھ ساتھ ہماری اگلی نسلوں کو بھی افتخار اور شکر گزاری کی وہ نعمت عطا کرتی ہے جس کے رگ و پے میں سید اسفند یار بخاری جیسے شہیدوں کا لہو دوڑ رہا ہے۔