سوندھی خوشبو سے مہکتا تھر
اس علاقے میں صحت بخش جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں
تھر میں بارش کا سلسلہ جاری ہوتے ہی سندھ کے مختلف علاقوں میں رہنے والے بے اختیار تھر کی جانب کھنچے چلے جاتے ہیں۔ ویسے تو ہر خطے کا حسن بارش سے دوبالا ہو جاتا ہے مگر صحرا کی پیاسی ریت کی خوشبو کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔
پھر یہ ریت مہکتے ہوئے جنگلی پھولوں و پودوں سے آراستہ ہوجاتی ہے۔ سرسبز ریت کے ٹیلے اور ان کے درمیان سرسراتی ہوا، مٹھیاں بھر بھر کے خوشبو کا ہر طرف چھڑکاؤ کرنے لگتی ہے۔ تمام صحرائے تھر، سوندھی خوشبو سے مہک اٹھتا ہے۔ اس وقت بھی بارش ہو رہی ہے۔ گڈی بھٹ کی اونچائی سے، مٹھی کے گھر بارش میں خاموشی کے ساتھ بھیگ رہے ہیں۔ گرتی بوندوں کا ترنم کانوں میں رس گھول رہا ہے۔ وقت، حالات اور رویوں کے ستائے ہوئے لوگ بے حد خوش دکھائی دے رہے ہیں۔ اس بار ہر طرف بہت سے لوگ نظر آئے۔ لوگوں کا سیر و سیاحت کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ذہنوں میں سفر کا سوچ کر کئی خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ مگر تھر فطری خوبصورتی کے ساتھ محفوظ خطہ بھی کہلاتا ہے۔
مٹھی، تھرپارکر کا بڑا شہر ہے۔ وقت کے ساتھ یہ شہر بھی رنگ بدلتا رہا ہے۔ اب یہاں کالج، اسپتال اور ریڈیو اسٹیشن بھی ہیں۔ یوگا برین سینٹر کا بورڈ بھی نظر آیا۔ صبح لوگ گڈی بھٹ آ کر یوگا کرتے ہیں۔ آج صبح پانچ بجے کوہ مری کا سا سماں لگ رہا تھا۔ بادلوں نے گڈی بھٹ پر واقع ڈیزرٹ ریسٹ ہاؤس کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ سرمئی اجالوں اور کہرے میں ڈوبا مٹھی شہر طلسماتی منظر پیش کر رہا تھا۔ بادلوں کے پاس سیراب کرنے کا ہنر ہے اور ریت سیراب ہونے کا سلیقہ رکھتی ہے۔ لیکن انسان کو پیاس کا صحرا بنے رہنا اچھا لگتا ہے شاید اس کی ذات پر بے کراں نعمتوں کی برسات ہوتی رہتی ہے۔ مگر وہ انھیں محسوس کیے بنا اپنی ذات میں خالی پن سمیٹے رکھتا ہے۔ فقط ایک کمی کی خاطر تمام نعمتوں کو ٹھکرا دیتا ہے۔ انسان کبھی بادل یا ریت کا صحرا بن کر تو دیکھے۔
یہ بارش صبح سے برسے چلے جا رہی ہے۔ اگر یہ برسات دو سو یا تین سو ملی میٹر تک برستی ہے تو کھیتوں کے لیے زندگی کی نوید بن جاتی ہے۔ بصورت دیگر فصل و مویشیوں کا بڑا نقصان ہوتا ہے۔ 2003ء اور 2011ء کی برساتیں یاد ہیں، جب تھر کے کافی علاقے سیلاب کی زد میں آ کر خوشحالی کھو بیٹھے تھے۔
تھر کی خوشحالی بارشوں کی مرہون منت ہے۔ تھری لوگ، زیادہ تر فطرت کے قریب فطری علاقوں اور لوک دانش مندی پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ وہ موسموں کی تبدیلیوں، ہوا کے رخ، چاند، ستاروں، سورج اور پرندوں کے توسط سے اپنی زندگی کا رخ متعین کرتے ہیں۔ ان کے مطابق چھ قسم کی ہوائیں بارش برساتی ہیں۔ جنوبی، مغربی ہواؤں کو پورب یا کاچھیل کا نام دیا جاتا ہے۔ جو برسات کی شدت کو توڑنے کا سبب بنتی ہیں، جب کہ اکتوبر یا نومبر کی برسات فصلوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی۔
تھر کے لوگ درختوں کے پھلنے، پھولنے سے بھی ماحولیاتی معلومات حاصل کرتے ہیں۔ مثال کونبھٹ کے درخت کے پتے شکستہ یا درخت دور سے سوکھا ہوا دکھائی دے، تو اس کا مطلب ہے بارش برسنے والی ہے۔ جس سال شدید سردیاں پڑتی ہیں تو اندازہ لگایا جاتا ہے کہ بارشیں بھی بے حساب برسیں گی۔
تھر کے کھانے بھی مزے دار ہیں، جیسے کھمبی یا مریڑے کا سالن وغیرہ بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ تھر کی شالیں، گج، کپڑا اور کڑھائی وغیرہ کی ملکی و غیر ملکی مارکیٹ میں بڑی مانگ ہے۔ پورے تھر میں گھریلو ہنر کی صنعتیں موجود ہیں۔ شالیں اور کپڑے ہاتھ سے تیار کیے جاتے ہیں۔ دکانیں رلیوں، بیڈ شیٹس، ٹوپیوں، پرس و دیگر اشیا سے بھری ہوئی، خریداروں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہیں۔
یہاں سے سستے داموں میں اشیا خرید کر ملکی و غیر ملکی مارکیٹ میں منہ مانگے داموں سے فروخت کی جاتی ہیں۔ جب کہ تھر کی محنت کش خواتین کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ یہاں کے محنت کشوں کی زندگی مشکلات سے بھری ہے۔ دوسرے دن ننگر پارکر کے لیے نکلے تو تمام راستہ سبزے سے سرشار نظر آیا۔ ننگرپارکر کے کارونجھر پہاڑ کی خوبصورتی بارشوں میں عروج کو پہنچ جاتی ہے۔ یہ پہاڑ ایک ہزار فٹ اونچے ہیں۔ کارونجھر سے بارش کا پانی جھرنوں کی صورت بہہ رہا ہے اور چھوٹی ندیوں میں تقسیم ہو کر جنت نظیر کا منظر پیش کر رہا ہے۔
کافی رہائش کے ریسٹورنٹ بن گئے ہیں مگر پھر بھی مسافروں کے لیے سہولتیں ناکافی ہیں۔ رینجرز کی چیک پوسٹ پر گاڑیاں گھنٹوں کھڑی رہیں۔ ننگر میں رہائش کی سہولیات نہ ہونے کی باعث، اکثر لوگ مٹھی میں رہائش پذیر ہوتے ہیں اور صبح سے شام تک ننگرپارکر میں سیر و تفریح کر کے واپس لوٹتے ہیں۔ اگر اس علاقے پر توجہ دی جائے تو یہ سیاحوں کے لیے ایک بہترین تفریح کا مرکزی علاقہ بن سکتا ہے اور مقامی لوگوں کو بھی روزگار کے مواقع مل سکیں گے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ سندھ کے بہت سے خوبصورت علاقے ہنوز غیر دریافت شدہ ہیں اور سیاحت کا شعبہ مستقل نظر انداز ہو رہا ہے۔
تھر کی خاص بات یہاں کا سکوت اور خاموشی ہے۔ جس کی وجہ سے ہواؤں کا گیت صاف سنائی دیتا ہے۔ پتوں کی سرسراہٹ کی مدھر موسیقی سننے والوں کو مسائل کی دنیا سے بہت دور لے جاتی ہے۔
جھرنے کا جل ترنگ اور پرندوں کی چہچہاہٹ بے اختیار روح میں اتر جاتی ہے۔ تازو پرندہ ، بابیھو، کوا، کانگڑی، مالہاری، تیتر، چب، ڈھولر اور مور پرندے یہاں کی فضاؤں کو لازوال حسن بخشتے ہیں۔
تھر میں موسم بدلتے ہی منظر بھی بدل جاتے ہیں۔ بارشوں کے موسم تھر کو لازوال حسن عطا کرتے ہیں۔ بارش کے جاتے ہی تمام تر جھرنے سوکھ جاتے ہیں۔ خشک سالی میں تھر میں آ کر پیدل چلنے اور اپنی روح سے ہم کلام ہونے کا بھرپور موقع ملتا ہے۔ ننگر میں واقع گؤ مکھ، ساڑدرو، انچل سریا، بھوڈیس، کجلاسر، کاسبو ودیگر جگہیں سیاحوں کو اپنے سحر میں مکمل طور پر جکڑ لیتی ہیں۔
اس علاقے میں صحت بخش جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں، جو اپنی افادیت میں موثر سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن بظاہر خوبصورت نظر آنے والی زندگی کئی مسائل سے نبرد آزما ہے۔ صحت کی سہولیات کی کمیابی اور وقت پر علاج میسر نہ ہونے کے باعث لوگوں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ برسات کے دنوں میں زہریلے کیڑے اور سانپ بھی باہر نکل آتے ہیں۔
کارونجھر کے اربوں سال پرانے یہ پہاڑ نہ فقط اپنی قدامت میں حسین ہیں بلکہ ان کے وجود میں فطرت کی روح دھڑکتی ہے۔ ان پہاڑوں کے درمیان بہت سی آنکھوں کی روشنیاں جھلملاتی ہیں، جو لوگ پیچھے چھوڑ گئے شاید وہ اپنی روح بھی ان پہاڑوں کے درمیان بہتے ہوئے پانی کے جھرنوں میں کہیں چھوڑ جاتے ہیں۔
پھر یہ ریت مہکتے ہوئے جنگلی پھولوں و پودوں سے آراستہ ہوجاتی ہے۔ سرسبز ریت کے ٹیلے اور ان کے درمیان سرسراتی ہوا، مٹھیاں بھر بھر کے خوشبو کا ہر طرف چھڑکاؤ کرنے لگتی ہے۔ تمام صحرائے تھر، سوندھی خوشبو سے مہک اٹھتا ہے۔ اس وقت بھی بارش ہو رہی ہے۔ گڈی بھٹ کی اونچائی سے، مٹھی کے گھر بارش میں خاموشی کے ساتھ بھیگ رہے ہیں۔ گرتی بوندوں کا ترنم کانوں میں رس گھول رہا ہے۔ وقت، حالات اور رویوں کے ستائے ہوئے لوگ بے حد خوش دکھائی دے رہے ہیں۔ اس بار ہر طرف بہت سے لوگ نظر آئے۔ لوگوں کا سیر و سیاحت کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ذہنوں میں سفر کا سوچ کر کئی خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ مگر تھر فطری خوبصورتی کے ساتھ محفوظ خطہ بھی کہلاتا ہے۔
مٹھی، تھرپارکر کا بڑا شہر ہے۔ وقت کے ساتھ یہ شہر بھی رنگ بدلتا رہا ہے۔ اب یہاں کالج، اسپتال اور ریڈیو اسٹیشن بھی ہیں۔ یوگا برین سینٹر کا بورڈ بھی نظر آیا۔ صبح لوگ گڈی بھٹ آ کر یوگا کرتے ہیں۔ آج صبح پانچ بجے کوہ مری کا سا سماں لگ رہا تھا۔ بادلوں نے گڈی بھٹ پر واقع ڈیزرٹ ریسٹ ہاؤس کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ سرمئی اجالوں اور کہرے میں ڈوبا مٹھی شہر طلسماتی منظر پیش کر رہا تھا۔ بادلوں کے پاس سیراب کرنے کا ہنر ہے اور ریت سیراب ہونے کا سلیقہ رکھتی ہے۔ لیکن انسان کو پیاس کا صحرا بنے رہنا اچھا لگتا ہے شاید اس کی ذات پر بے کراں نعمتوں کی برسات ہوتی رہتی ہے۔ مگر وہ انھیں محسوس کیے بنا اپنی ذات میں خالی پن سمیٹے رکھتا ہے۔ فقط ایک کمی کی خاطر تمام نعمتوں کو ٹھکرا دیتا ہے۔ انسان کبھی بادل یا ریت کا صحرا بن کر تو دیکھے۔
یہ بارش صبح سے برسے چلے جا رہی ہے۔ اگر یہ برسات دو سو یا تین سو ملی میٹر تک برستی ہے تو کھیتوں کے لیے زندگی کی نوید بن جاتی ہے۔ بصورت دیگر فصل و مویشیوں کا بڑا نقصان ہوتا ہے۔ 2003ء اور 2011ء کی برساتیں یاد ہیں، جب تھر کے کافی علاقے سیلاب کی زد میں آ کر خوشحالی کھو بیٹھے تھے۔
تھر کی خوشحالی بارشوں کی مرہون منت ہے۔ تھری لوگ، زیادہ تر فطرت کے قریب فطری علاقوں اور لوک دانش مندی پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ وہ موسموں کی تبدیلیوں، ہوا کے رخ، چاند، ستاروں، سورج اور پرندوں کے توسط سے اپنی زندگی کا رخ متعین کرتے ہیں۔ ان کے مطابق چھ قسم کی ہوائیں بارش برساتی ہیں۔ جنوبی، مغربی ہواؤں کو پورب یا کاچھیل کا نام دیا جاتا ہے۔ جو برسات کی شدت کو توڑنے کا سبب بنتی ہیں، جب کہ اکتوبر یا نومبر کی برسات فصلوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی۔
تھر کے لوگ درختوں کے پھلنے، پھولنے سے بھی ماحولیاتی معلومات حاصل کرتے ہیں۔ مثال کونبھٹ کے درخت کے پتے شکستہ یا درخت دور سے سوکھا ہوا دکھائی دے، تو اس کا مطلب ہے بارش برسنے والی ہے۔ جس سال شدید سردیاں پڑتی ہیں تو اندازہ لگایا جاتا ہے کہ بارشیں بھی بے حساب برسیں گی۔
تھر کے کھانے بھی مزے دار ہیں، جیسے کھمبی یا مریڑے کا سالن وغیرہ بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ تھر کی شالیں، گج، کپڑا اور کڑھائی وغیرہ کی ملکی و غیر ملکی مارکیٹ میں بڑی مانگ ہے۔ پورے تھر میں گھریلو ہنر کی صنعتیں موجود ہیں۔ شالیں اور کپڑے ہاتھ سے تیار کیے جاتے ہیں۔ دکانیں رلیوں، بیڈ شیٹس، ٹوپیوں، پرس و دیگر اشیا سے بھری ہوئی، خریداروں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہیں۔
یہاں سے سستے داموں میں اشیا خرید کر ملکی و غیر ملکی مارکیٹ میں منہ مانگے داموں سے فروخت کی جاتی ہیں۔ جب کہ تھر کی محنت کش خواتین کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ یہاں کے محنت کشوں کی زندگی مشکلات سے بھری ہے۔ دوسرے دن ننگر پارکر کے لیے نکلے تو تمام راستہ سبزے سے سرشار نظر آیا۔ ننگرپارکر کے کارونجھر پہاڑ کی خوبصورتی بارشوں میں عروج کو پہنچ جاتی ہے۔ یہ پہاڑ ایک ہزار فٹ اونچے ہیں۔ کارونجھر سے بارش کا پانی جھرنوں کی صورت بہہ رہا ہے اور چھوٹی ندیوں میں تقسیم ہو کر جنت نظیر کا منظر پیش کر رہا ہے۔
کافی رہائش کے ریسٹورنٹ بن گئے ہیں مگر پھر بھی مسافروں کے لیے سہولتیں ناکافی ہیں۔ رینجرز کی چیک پوسٹ پر گاڑیاں گھنٹوں کھڑی رہیں۔ ننگر میں رہائش کی سہولیات نہ ہونے کی باعث، اکثر لوگ مٹھی میں رہائش پذیر ہوتے ہیں اور صبح سے شام تک ننگرپارکر میں سیر و تفریح کر کے واپس لوٹتے ہیں۔ اگر اس علاقے پر توجہ دی جائے تو یہ سیاحوں کے لیے ایک بہترین تفریح کا مرکزی علاقہ بن سکتا ہے اور مقامی لوگوں کو بھی روزگار کے مواقع مل سکیں گے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ سندھ کے بہت سے خوبصورت علاقے ہنوز غیر دریافت شدہ ہیں اور سیاحت کا شعبہ مستقل نظر انداز ہو رہا ہے۔
تھر کی خاص بات یہاں کا سکوت اور خاموشی ہے۔ جس کی وجہ سے ہواؤں کا گیت صاف سنائی دیتا ہے۔ پتوں کی سرسراہٹ کی مدھر موسیقی سننے والوں کو مسائل کی دنیا سے بہت دور لے جاتی ہے۔
جھرنے کا جل ترنگ اور پرندوں کی چہچہاہٹ بے اختیار روح میں اتر جاتی ہے۔ تازو پرندہ ، بابیھو، کوا، کانگڑی، مالہاری، تیتر، چب، ڈھولر اور مور پرندے یہاں کی فضاؤں کو لازوال حسن بخشتے ہیں۔
تھر میں موسم بدلتے ہی منظر بھی بدل جاتے ہیں۔ بارشوں کے موسم تھر کو لازوال حسن عطا کرتے ہیں۔ بارش کے جاتے ہی تمام تر جھرنے سوکھ جاتے ہیں۔ خشک سالی میں تھر میں آ کر پیدل چلنے اور اپنی روح سے ہم کلام ہونے کا بھرپور موقع ملتا ہے۔ ننگر میں واقع گؤ مکھ، ساڑدرو، انچل سریا، بھوڈیس، کجلاسر، کاسبو ودیگر جگہیں سیاحوں کو اپنے سحر میں مکمل طور پر جکڑ لیتی ہیں۔
اس علاقے میں صحت بخش جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں، جو اپنی افادیت میں موثر سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن بظاہر خوبصورت نظر آنے والی زندگی کئی مسائل سے نبرد آزما ہے۔ صحت کی سہولیات کی کمیابی اور وقت پر علاج میسر نہ ہونے کے باعث لوگوں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ برسات کے دنوں میں زہریلے کیڑے اور سانپ بھی باہر نکل آتے ہیں۔
کارونجھر کے اربوں سال پرانے یہ پہاڑ نہ فقط اپنی قدامت میں حسین ہیں بلکہ ان کے وجود میں فطرت کی روح دھڑکتی ہے۔ ان پہاڑوں کے درمیان بہت سی آنکھوں کی روشنیاں جھلملاتی ہیں، جو لوگ پیچھے چھوڑ گئے شاید وہ اپنی روح بھی ان پہاڑوں کے درمیان بہتے ہوئے پانی کے جھرنوں میں کہیں چھوڑ جاتے ہیں۔