یاروں کے یار شاہجہاں ایس کریم

ہمارے دوست کے ساتھ نہ جانے کیسے ان کی یاری ہوگئی جو انھوں نے خوب نبھائی بھی

انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ، کراچی کے بانی اور سابق بیوروکریٹ، شاہجہاں ایس کریم بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ موت برحق ہے اور ہر ذی نفس کو اس کا مزہ چکھنا ہے۔ آج وہ گئے،کل ہماری باری ہے۔ ریلوے اسٹیشن کے ٹکٹ گھر پر لگی مسافروں کی لمبی قطار کی طرح ہم سب بھی مرنے کے لیے قطار میں لگے اپنی باری کا انتظارکررہے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا اس کی باری کب آئے گی، بس جب کسی کی باری آجاتی ہے اور وہ اپنی آخری منزل کی طرف چل پڑتا ہے تب ہمیں پتہ چلتا ہے کہ لو وہ بھی گیا۔

کچھ اسی قسم کے احساسات اور تاثرات میرے بھی تھے جب میں نے شاہجہاں ایس کریم کے انتقال کی خبر سنی، اگرچہ میرا ان سے براہ راست کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ دوستی یا ذاتی تعلق کا دعویٰ تو دورکی بات ہے میری کبھی ان سے بالمشافہ ملاقات بھی نہیں ہوئی، پھر بھی آج ان سے متعلق باتوں اور یادوں کو اپنے کالم کا موضوع بنا رہا ہوں، ہے نا عجیب بات! شاہجہاں صاحب سے میرا غائبانہ تعارف سب سے پہلے ایک دوست کے توسط سے ہوا جو کسی زمانے میں ایک اخبار میں ہمارے ساتھ بطور رپورٹر کام کرتے تھے اور بینظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں اْسی اخبار کے چیف ایڈیٹر بن گئے تھے۔

ٹرسٹ کے زیر انتظام نکلنے والے اس اخبارکا ایڈیٹر یا چیف ایڈیٹر بلحاظ عہدہ اس کا چیف ایگزیکٹو بھی ہوتا تھا اور ظاہر ہے اس کے لیے مالی وسائل پیدا کرنا اس کی اولین ذمے داری ہوتی تھی۔ شاہجہاں ایس کریم اْس زمانے میں سندھ کے سیکریٹری انفارمیشن ہوا کرتے تھے۔ سرکاری اشتہارات تو ان کے کنٹرول میں تھے ہی کہ جس اخبارکو جتنے چاہیں دیں یا نہ دیں، اشتہاری ایجنسیوں پر بھی ان کا اثر ورسوخ بڑا کام کرتا تھا۔

ہمارے دوست کے ساتھ نہ جانے کیسے ان کی یاری ہوگئی جو انھوں نے خوب نبھائی بھی۔ شاید ہی کوئی ایسا سرکاری اشتہار ہوگا جو اس کے اخبارکو نہ ملا ہو، پھر انھوں نے یہ انتظام بھی کر دیا کہ اخبار کو ان سرکاری اشتہارات کے بلوں کی ادائیگی ہر ماہ مقررہ تاریخ کو پابندی اور باقاعدگی سے ہو۔ اخبار چلانے کے لیے یہی آمدنی بہت تھی لیکن ہمارے دوست نے اپنے یارکی سرکاری حیثیت اور اثر ورسوخ کا بھرپور فائدہ اٹھانے کا ایک اور طریقہ یہ نکالا کہ ہر روزدیگر بڑے اخبارات میں چھپنے والے ایجنسیوں کے اشتہارات کی فہرست بنواکر شاہجہاں صاحب کے دفتر پہنچتے اور فہرست ان کے حوالے کرکے خود آرام سے کرسی پر ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے، آگے کام کرنے کی باری سیکریٹری صاحب کی ہوتی جو ایک ایک ایجنسی کو فون کرکے وہ اشتہار اس اخبارکو بھی جاری کرنے کی فرمائش کرتے اور کہتے بھئی اوپر سے سخت دباؤ ہے اورکچھ نہیں تو میری نوکری ہی کا کچھ خیال کرو۔

نتیجہ اس کا یہ نکلتا کہ ہمارے دوست کے دفتر پہنچنے سے پہلے ایجنسیوں کے ان تمام اشتہارات کے آرٹ پول بمع ریلیز آرڈر ان کی میز پر دھرے ہوتے۔ یوں کریم صاحب کے دور میں ہمارے دوست کی پانچوں گھی میں تھیں۔ وہ تو اْن سے پتہ نہیں کیسے چوک ہوگئی اور وہ ایچ ڈی اے کے ایک ڈاریکٹر کے خلاف ایم کیو ایم کے مبینہ جناح پور پلان کے حوالے سے خبریں شایع کرنے کی پاداش میں اپنی نوکری گنوا بیٹھے، اس کے باوجود جاتے وقت وہ اخبار کے بینک اکاؤنٹ میں لاکھوں کا بیلنس چھوڑ گئے۔


دلچسپ بات کہ یہ کہانی اْس دوست نے خود مجھے ایک ضیافت میں سنائی تھی جو انھی شاہجہاں ایس کریم صاحب نے کراچی جیمخانہ اور پی سی کے سامنے واقع اپنی سرکاری رہائش گاہ میں دی تھی جب وہ سندھ کے چیف سیکریٹری تھے اور میں ایک اخبار کے ایڈیٹر کی حیثیت سے اس میں شریک تھا۔ مزے کی بات کہ وہاں بھی میری شاہجہاں صاحب سے ملاقات نہ ہوسکی۔ میں ایڈیٹوریل نوٹ لکھے بغیر ضیافت میں شرکت کے لیے آگیا تھا کہ اس کے لیے سخت تاکید کی گئی تھی۔ وہ اندر کسی اہم شخصیت سے بات چیت میں مصروف تھے اس لیے مجھے مجبوراً ان سے ملاقات کا شرف حاصل کیے بغیر ہی دفتر لوٹنا پڑا۔ میرے وہ سابق چیف ایڈیٹر دوست وہاں بھی کچھ اس شان سے تشریف فرما تھے کہ موصوف سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا تھا، جن صاحب کے ساتھ بیٹھے تھے انھوں نے بھی باوجود سرکاری ملازم ہونے کے خوب چڑھا رکھی تھی۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے ان صاحب نے شامیانے کے اندر سے، جہاں ہم بیٹھے تھے، باہر لان کی طرف اشارہ کرکے بتایا تھا کہ حْر ہلچل کی ناکامی اور تحریک کے روح رواں بڑے پیر صاحب پاگارو کی گرفتاری (بعد ازاں پھانسی) کے بعد انگریز ان کے دونوں کمسن صاحبزادوں کو یرغمال بناکر لندن بھیجنے کے لیے جب کراچی لائے تو انھیں کچھ عرصہ اسی کوٹھی میں نظر بند رکھا گیا تھا۔

اپنی یادیں تازہ کرتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ایک بار دونوں بھائی کرکٹ کھیل رہے تھے کہ بال دیوارکے اوپر سے ٹپہ کھاکر باہر سڑک پر جا گری، ان کے بقول وہ اس وقت سڑک سے گزر رہے تھے اور انھوں نے ہی انھیں بال اٹھا کر دی تھی جس پر دونوں بھائیوں نے با آواز بلند ان کا شکریہ ادا کیا اور ہاتھ ہلاکر اظہارِ خیرسگالی کرنا بھی نہیں بھولے۔ تو ہم بات کر رہے تھے شاہجہاں ایس کریم کی جنہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے چیئرپرسن کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی تھیں۔ ان کی جنم بھومی پٹنہ، بھارتی صوبے بہار کا سب سے بڑا شہر ہے۔

علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ امریکا چلے گئے جہاں انھوں نے ایریزونا یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا۔ پاکستان لوٹنے کے بعد وہ سینٹرل سپیریئر سروسز (سی ایس ایس) کے مقابلے کے امتحان میں بیٹھے اور امتیازی نمبروں کے ساتھ کامیاب ہوئے۔ یہ 1957ء کی بات ہے جب انھوں نے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ (ڈی ایم جی) میں شمولیت سے سرکاری ملازمت شروع کی جس کے دوران شاہجہاں ایس کریم صاحب ڈپٹی کمشنر، کمشنر، صوبائی اور وفاقی سیکریٹری، ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے سربراہ سمیت مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ یہ سلسلہ 1994ء میں اْس وقت اختتام پذیر ہوا جب آپ 22 ویں گریڈ میں سندھ کے چیف سیکریٹری کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انھوں نے فروغ تعلیم کا اپنا مشن جاری رکھا اور آئی او بی ایم کی بنیاد رکھی، جو اب کراچی کا معروف بزنس اسکول ہے اور جہاں سے تحصیل علم کرنے والوں کی تعداد 7 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین بیوروکریٹ تھے، ان کی یاد داشت بہت تیز تھی اور کتابیں پڑھنے کے شوقین تھے۔ علامہ آئی آئی قاضی اور ایم اے قریشی کے بعد جو بالترتیب اپنی قائم کردہ درسگاہوں سندھ یونیورسٹی جام شورو اور اسلامیہ کالج کراچی میں ہی آسودہ خاک ہیں، شاہجہاں ایس کریم نے بھی اپنی ابدی آرام گاہ کے طور پر آئی او بی ایم کورنگی کریک کا انتخاب کیا جہاں انھیں وصیت کے مطابق منگل 18 جولائی کو سپرد خاک کر دیا گیا۔

میں نے جان بوجھ کر انھیں اعلیٰ تعلیم یافتہ لکھا ہے کیونکہ سندھ کے سیکریٹری انفارمیشن تو علی احمد بروہی بھی رہ چکے تھے جن کی تعلیمی قابلیت نان میٹرک تھی اور جو ریاست خیرپور میرس کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے نتیجے میں اہل نہ ہونے کے باوجود اس اعلیٰ منصب تک پہنچے۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر اپنے دوست کی طرح (جس کا میں شروع میں ذکر کر چکا ہوں) میرا شاہجہاں ایس کریم کے ساتھ یارانہ ہوتا تو میں انھیں مشورہ دیتا کہ وہ سندھ کے سیکریٹری انفارمیشن کا عہدہ قبول نہ کریں اور احتجاجی نوٹ میں لکھیں کہ جس محکمے کا سربراہ ایک ان پڑھ آدمی رہ چکا ہو، اس میں شمولیت میں اپنے لیے باعثِ توہین سمجھتا ہوں۔ اچھا ہی ہوا میرا مرحوم کے ساتھ ایسا کوئی تعلق نہیں تھا ورنہ ان کے لیے مسائل اور مشکلات کا ہی باعث بنتا۔
Load Next Story