غریب کی کس کو فکر
کسی ملک میں بھی ایسے حالات و کیفیات درست نہیں ہوتیں بلکہ کہا جاتا ہے زوال کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔
کہا جاتا ہے بعض اشخاص یا جس کا خاندان چور ہوتا ہے، وہ خواہ کسی کام پر متعین ہو لیکن اپنی عادت سے مجبور ہوتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے وہ جاتے ایسے علاقے میں ہیں جہاں لوگ معصوم، سیدھے، نیک صفات کے ہوں، سمجھ لیں وہاں ان کی چاندی ہی چاندی بلکہ پھر سونا ہے۔ اتفاق یہ بھی ہے کہ ان کی بری حرکات و سکنات، اعمال و کردار، مال و زر کی افادیت کا عالم لوگوں پر اثرانداز بلکہ یہ کہیں کہ معلوم نہیں ہوتا۔ اثرانداز تو ضرور ہوتا ہے جس کو وہ اپنی عیاری، جھوٹ کے ذریعے ایسے کہانی گھڑتے ہیں جن سے یہ سادہ لوگ ان کی باتوں میں آجاتے ہیں۔
ہم نے ان ملکوں کو ترقی کرتے دیکھا، جب جاکر تحقیق کی تو معلوم یہ ہوا کہ انھوں نے اپنے سرکردہ لیڈروں کو اچھا چھان پٹخ کر منتخب کیا، بلکہ شروع سے ایسے ملکوں کے لیڈرز کی بذات خود برائیوں، بدکرداری، عوام کا مال ہڑپ کرنے پر توجہ نہیں ہوتی بلکہ اس ملک کے سربراہ بچپن سے ملک و قوم سے ہمدردی، ایمانداری و دیانتداری، قانون کی بالادستی پر تعلیم و تربیت حاصل ہوتی ہے۔عام لوگوں کو بھی وہی تعلیم حاصل ہوتی ہے جو سربراہان مملکت کو میسر آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے ملک خوشحال ہوتا ہے اور عوام کی ساری ضروریات پوری ہوتی ہیں۔
ہماری بدنصیبی ہے ہر آنے والے نے ہم کو بڑے سبز باغ اور سنہرے سپنے دکھائے لیکن ملک و قوم جوں کی توں، بلکہ مزید ابتری آتی گئی۔ اس وقت وہ حالات پیدا ہوچکے ہیں ایک غریب انسان سوچتا ہے اگر میں نے آج کا دن ضایع کردیا یا مجھے مزدوری نہ ملی تو شاید کل میرے اور میرے بچوں کے لیے کھانے کو کچھ نہ ہو۔ اس نہج پر لاکھڑا کیا کہ وہ آگے کچھ نہ سوچے بلکہ سوچنے کے لیے دماغ ہی کھوکھلا کردیا، صرف ایک بات بیٹھ گئی کسی نہ کسی طرح پیٹ بھرنا ہے۔
کسی ملک میں بھی ایسے حالات و کیفیات درست نہیں ہوتیں بلکہ کہا جاتا ہے زوال کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔ بات صاف ہے جب غربت اس قدر بڑھے گی کہ پیٹ کی آگ بجھانے کے علاوہ کوئی اور سوچ نہیں رہے گی تو یقیناً برائی جنم لے گی، کرائم میں اضافہ ہوگا، بدحالی عروج پر ہوگی، انتشار بڑھے گا۔ اگر ہم سیکڑوں سال پیچھے جائیں تو ہمیں بہت سے ممالک میں ایسی باتیں نظر آئیں گی۔ لیکن وہ لوگ سدھرتے چلے گئے اور ان میں سدھار آگیا۔ جو راست پر ہیں پرامن، خوشحال ہیں اور جن کو راست پر جان بوجھ کر نہیں لایا گیا وہ پرآشوب زندگی بسر کر رہے ہیں۔
ساری بات یہاں آکر ختم ہوجاتی ہے ہم اپنی تہذیب و ثقافت، تربیت، بلند کرداری، نیک اعمال کو چھوڑتے جا رہے ہیں۔ ہمارے بڑوں نے جو کہا اس کو بھول بیٹھے، بلکہ اگر کوئی ہمیں کسی بزرگ کی بات بیان کرے تو ہم اس کو مثال سمجھ کر جدیدیت پر آجاتے ہیں۔ یہ میری ذاتی باتیں ہیں جو میں نے محسوس کیں، بہت سی باتوں کو سمجھنے اور جاننے کے لیے میں بزرگوں سے ملتا رہا، دیگر ممالک کی خاک چھانتا رہا۔ میں اس نتیجے پر پہنچنے کا خواہش مند تھا کہ یہ سمجھ سکوں کہ اس قدر تیزی سے زوال کے روگردان کیسے جب کہ پہلے مدتوں میں زوال آئے اور چلے گئے، لیکن اب تو دنوں اور گھنٹوں میں نئے زوال، نئی تبدیلی، نئی باتیں، نئی حرکتیں ظاہر ہو رہی ہیں۔ تحقیق و تنقید ہر دور کا خاصا رہی لیکن زیادہ وہ مثبت پہلو پر نظر آئی، اب اچھائی پر تنقید اور تحقیق ناپید ہے، وجہ شاید یہ ہو کہ اگر تحقیق کی تو ہم اپنے موجودہ اعمال، بدکرداری کے برابر نہ سمجھیں۔
اکثر لوگوں کو بڑی آس و امید ہے کہ اب حالات ضرور تبدیل ہوں گے، بالکل صحیح کہہ رہے ہیں، لیکن جب تک برائی کو جڑ سے نہ اکھاڑیں گے تو بہتری دکھاوے کا نام ہوگی۔ برائی کہیں بھی کسی شکل میں کسی شخص میں کیوں نہ ہو، وہ بری ہے، لہٰذا اس کو جڑ سے اکھاڑنا لازم و ملزوم ہے۔ قومیں اسی وقت ترقی کرتی ہیں جب وہ اپنے ملک سے برائی کو ختم کردیں۔ ایک ایسا سچائی و صداقت کا انقلاب جو تمام برائیوں کے پیچھے لگ جائے اور ان کو اکھاڑ کر پھل دار پودے لگانا شروع کردے، یہ پھل دار پودے جب بڑے ہوکر تن آور درخت بنیں گے تو شاید اور پھل بھی دیں گے۔
آج کا لگایا ہوا درخت اگر 20 سال بعد تن آور بن جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ برائی کے جو درخت تھے وہ ختم ہوچکے ہیں۔ ماضی میں شیرشاہ سوری بادشاہ نے جو جرنیلی سڑک تعمیر کی، اس نے اس کے الٹے سیدھے کناروں میں تناور پھل اور سایہ دار درخت لگائے جو بعد میں شجر سایہ و پھل نکلے۔ علاوہ ازیں ہر دس کوس بعد ایک سرائے، کھانے کے لیے باورچی خانے، پینے کے لیے کنوئیں کھدوائے۔ کوئی مسافر دھوپ سے بچ سکتا، رات کو سرائے میں سو سکتا، بھوکا باورچی خانے جاکر پیٹ بھر سکتا، پیاسا کنوئیں سے پانی نکال کر پی سکتا، حتیٰ کہ گھوڑے، بیل وغیرہ باندھنے کے لیے ان کی جگہ بھی دستیاب تھی۔
دن و رات پہرہ دار موجود رہتے اگر کسی مسافر کے ساتھ کسی شے کی چوری ہوتی تو وہاں کا بڑا افسر معطل کردیا جاتا۔ خوف کی وجہ سے چوری ڈاکے نہیں تھے۔ بات بہت پرانی لیکن سچی ہے، کوئی کہانی، افسانہ یا من گھڑت بات نہیں، یہ تاریخ میں موجود ہے۔ لیکن اب تاریخ میں کیا ہے، بجلی ناپید، پانی دستیاب نہیں، رہنے کے لیے جگہ نہیں، چوری، ڈاکہ زنی کی کوئی روک تھام نہیں۔ آخر کیوں؟ دور تو بہت آگے جا چکا ہے شیرشاہ سوری سے زیادہ کچھ کیا جاسکتا ہے۔ افسوس جو کچھ تاریخی ہیروز نے کیا اب کوئی تاریخی ہیرو نظر نہیں آرہا۔
بجلی تو غائب لیکن ساتھ میں پینے کا پانی بھی ناپید، تعلیمی ادارے وعدوں کے ساتھ دھول بن کر اڑ گئے، شفاخانہ ایک بستر پر دو یا تین مریض حتیٰ کہ برآمدے اور دروازے کے کنارے مریضوں کو رکھا ہے، ڈاکٹر کمیاب، نرسیں اتنی کم جو موجودہ مریضوں کے لیے نہ ہونے کے برابر۔ روزگار ناپید۔ کسی لڑکے نے کتنی بھی تعلیم حاصل کرلی اب وہ اس قدر مجبور ہے کہ کہیں اس کو چپڑاسی کی ملازمت مل جائے وہ کرلے گا اور ایسا دیکھا ہے ایم اے پاس لڑکا چپڑاسی کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ یہ صرف اس 95 فیصد طبقے کے لیے ہے جو غریب، غریب تر، یا سفید پوش درمیانہ طبقہ کہلاتا ہے۔ سفید پوشی ایسی ہے کہ کسی سے اپنا مسئلہ بھی نہیں کہہ سکتا، اس نے سفید پوشی کو قائم رکھا ہے۔
لکھنؤ میں آج بھی کچھ بگڑے نواب کہلاتے ہیں، کام تو ہے نہیں جو کریں۔ ہاتھ کا خوبصورت ململ کا کڑھا ہوا کرتا اور سفید پاجامہ پہنے باہر ایک بڑے نوابی حلیے میں جب نکلتے ہیں تو کرتے کی ایک سائیڈ جیب میں چنے بھنے ہوئے اور دوسری جیب میں بادام پستے رکھتے ہیں۔ خود سیدھے ہاتھ والی جیب میں ڈال کر بھنے ہوئے چنے کھاتے جا رہے ہیں۔ جب کوئی ان کا واقف کار، دوست احباب مل گیا۔ بڑی شان سے دوسری جیب میں ہاتھ ڈال کر پستے بادام نکال کر دے رہے ہیں کہتے ہیں ارے میاں نوش فرمائیں یہ پستے بادام کھا رہا ہوں آپ بھی لیں۔
اب یہ اندازہ کرلیں کہ ان سفید پوش بگڑے ہوئے نوابین نے اپنے آپ کو ابھی بھی کس طرح رکھا ہے جب کہ وہ اب کچھ نہیں ان کے گھر جائیں تو باہر ٹاٹ کا پڑا پردہ اپنے منہ سے بولے گا یہ ہے اجڑے نواب کا گھر۔ ہمارے ہاں بے چارے سفید پوش اس طرح تو نہیں لیکن پھر بھی وہ اپنی وضع داری پر ہیں۔ہر آنے والی حکومت کو معلوم ہوتا ہے کہ آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس بڑھتی ہوئی آبادی کو ضروریات زندگی فراہم کرنا حکومت کا کام ہے۔ لیکن نہ جانے کیوں ایسا نظر نہیں آتا۔ شفاخانوں میں اضافہ، تعلیمی اداروں میں اضافہ، بجلی میں اضافہ، صاف پانی میں رسائی، بے گھر لوگوں کو رہائش مہیا کی جائے، جب کہ ایسا نہیں۔
ہم نے ان ملکوں کو ترقی کرتے دیکھا، جب جاکر تحقیق کی تو معلوم یہ ہوا کہ انھوں نے اپنے سرکردہ لیڈروں کو اچھا چھان پٹخ کر منتخب کیا، بلکہ شروع سے ایسے ملکوں کے لیڈرز کی بذات خود برائیوں، بدکرداری، عوام کا مال ہڑپ کرنے پر توجہ نہیں ہوتی بلکہ اس ملک کے سربراہ بچپن سے ملک و قوم سے ہمدردی، ایمانداری و دیانتداری، قانون کی بالادستی پر تعلیم و تربیت حاصل ہوتی ہے۔عام لوگوں کو بھی وہی تعلیم حاصل ہوتی ہے جو سربراہان مملکت کو میسر آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے ملک خوشحال ہوتا ہے اور عوام کی ساری ضروریات پوری ہوتی ہیں۔
ہماری بدنصیبی ہے ہر آنے والے نے ہم کو بڑے سبز باغ اور سنہرے سپنے دکھائے لیکن ملک و قوم جوں کی توں، بلکہ مزید ابتری آتی گئی۔ اس وقت وہ حالات پیدا ہوچکے ہیں ایک غریب انسان سوچتا ہے اگر میں نے آج کا دن ضایع کردیا یا مجھے مزدوری نہ ملی تو شاید کل میرے اور میرے بچوں کے لیے کھانے کو کچھ نہ ہو۔ اس نہج پر لاکھڑا کیا کہ وہ آگے کچھ نہ سوچے بلکہ سوچنے کے لیے دماغ ہی کھوکھلا کردیا، صرف ایک بات بیٹھ گئی کسی نہ کسی طرح پیٹ بھرنا ہے۔
کسی ملک میں بھی ایسے حالات و کیفیات درست نہیں ہوتیں بلکہ کہا جاتا ہے زوال کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔ بات صاف ہے جب غربت اس قدر بڑھے گی کہ پیٹ کی آگ بجھانے کے علاوہ کوئی اور سوچ نہیں رہے گی تو یقیناً برائی جنم لے گی، کرائم میں اضافہ ہوگا، بدحالی عروج پر ہوگی، انتشار بڑھے گا۔ اگر ہم سیکڑوں سال پیچھے جائیں تو ہمیں بہت سے ممالک میں ایسی باتیں نظر آئیں گی۔ لیکن وہ لوگ سدھرتے چلے گئے اور ان میں سدھار آگیا۔ جو راست پر ہیں پرامن، خوشحال ہیں اور جن کو راست پر جان بوجھ کر نہیں لایا گیا وہ پرآشوب زندگی بسر کر رہے ہیں۔
ساری بات یہاں آکر ختم ہوجاتی ہے ہم اپنی تہذیب و ثقافت، تربیت، بلند کرداری، نیک اعمال کو چھوڑتے جا رہے ہیں۔ ہمارے بڑوں نے جو کہا اس کو بھول بیٹھے، بلکہ اگر کوئی ہمیں کسی بزرگ کی بات بیان کرے تو ہم اس کو مثال سمجھ کر جدیدیت پر آجاتے ہیں۔ یہ میری ذاتی باتیں ہیں جو میں نے محسوس کیں، بہت سی باتوں کو سمجھنے اور جاننے کے لیے میں بزرگوں سے ملتا رہا، دیگر ممالک کی خاک چھانتا رہا۔ میں اس نتیجے پر پہنچنے کا خواہش مند تھا کہ یہ سمجھ سکوں کہ اس قدر تیزی سے زوال کے روگردان کیسے جب کہ پہلے مدتوں میں زوال آئے اور چلے گئے، لیکن اب تو دنوں اور گھنٹوں میں نئے زوال، نئی تبدیلی، نئی باتیں، نئی حرکتیں ظاہر ہو رہی ہیں۔ تحقیق و تنقید ہر دور کا خاصا رہی لیکن زیادہ وہ مثبت پہلو پر نظر آئی، اب اچھائی پر تنقید اور تحقیق ناپید ہے، وجہ شاید یہ ہو کہ اگر تحقیق کی تو ہم اپنے موجودہ اعمال، بدکرداری کے برابر نہ سمجھیں۔
اکثر لوگوں کو بڑی آس و امید ہے کہ اب حالات ضرور تبدیل ہوں گے، بالکل صحیح کہہ رہے ہیں، لیکن جب تک برائی کو جڑ سے نہ اکھاڑیں گے تو بہتری دکھاوے کا نام ہوگی۔ برائی کہیں بھی کسی شکل میں کسی شخص میں کیوں نہ ہو، وہ بری ہے، لہٰذا اس کو جڑ سے اکھاڑنا لازم و ملزوم ہے۔ قومیں اسی وقت ترقی کرتی ہیں جب وہ اپنے ملک سے برائی کو ختم کردیں۔ ایک ایسا سچائی و صداقت کا انقلاب جو تمام برائیوں کے پیچھے لگ جائے اور ان کو اکھاڑ کر پھل دار پودے لگانا شروع کردے، یہ پھل دار پودے جب بڑے ہوکر تن آور درخت بنیں گے تو شاید اور پھل بھی دیں گے۔
آج کا لگایا ہوا درخت اگر 20 سال بعد تن آور بن جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ برائی کے جو درخت تھے وہ ختم ہوچکے ہیں۔ ماضی میں شیرشاہ سوری بادشاہ نے جو جرنیلی سڑک تعمیر کی، اس نے اس کے الٹے سیدھے کناروں میں تناور پھل اور سایہ دار درخت لگائے جو بعد میں شجر سایہ و پھل نکلے۔ علاوہ ازیں ہر دس کوس بعد ایک سرائے، کھانے کے لیے باورچی خانے، پینے کے لیے کنوئیں کھدوائے۔ کوئی مسافر دھوپ سے بچ سکتا، رات کو سرائے میں سو سکتا، بھوکا باورچی خانے جاکر پیٹ بھر سکتا، پیاسا کنوئیں سے پانی نکال کر پی سکتا، حتیٰ کہ گھوڑے، بیل وغیرہ باندھنے کے لیے ان کی جگہ بھی دستیاب تھی۔
دن و رات پہرہ دار موجود رہتے اگر کسی مسافر کے ساتھ کسی شے کی چوری ہوتی تو وہاں کا بڑا افسر معطل کردیا جاتا۔ خوف کی وجہ سے چوری ڈاکے نہیں تھے۔ بات بہت پرانی لیکن سچی ہے، کوئی کہانی، افسانہ یا من گھڑت بات نہیں، یہ تاریخ میں موجود ہے۔ لیکن اب تاریخ میں کیا ہے، بجلی ناپید، پانی دستیاب نہیں، رہنے کے لیے جگہ نہیں، چوری، ڈاکہ زنی کی کوئی روک تھام نہیں۔ آخر کیوں؟ دور تو بہت آگے جا چکا ہے شیرشاہ سوری سے زیادہ کچھ کیا جاسکتا ہے۔ افسوس جو کچھ تاریخی ہیروز نے کیا اب کوئی تاریخی ہیرو نظر نہیں آرہا۔
بجلی تو غائب لیکن ساتھ میں پینے کا پانی بھی ناپید، تعلیمی ادارے وعدوں کے ساتھ دھول بن کر اڑ گئے، شفاخانہ ایک بستر پر دو یا تین مریض حتیٰ کہ برآمدے اور دروازے کے کنارے مریضوں کو رکھا ہے، ڈاکٹر کمیاب، نرسیں اتنی کم جو موجودہ مریضوں کے لیے نہ ہونے کے برابر۔ روزگار ناپید۔ کسی لڑکے نے کتنی بھی تعلیم حاصل کرلی اب وہ اس قدر مجبور ہے کہ کہیں اس کو چپڑاسی کی ملازمت مل جائے وہ کرلے گا اور ایسا دیکھا ہے ایم اے پاس لڑکا چپڑاسی کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ یہ صرف اس 95 فیصد طبقے کے لیے ہے جو غریب، غریب تر، یا سفید پوش درمیانہ طبقہ کہلاتا ہے۔ سفید پوشی ایسی ہے کہ کسی سے اپنا مسئلہ بھی نہیں کہہ سکتا، اس نے سفید پوشی کو قائم رکھا ہے۔
لکھنؤ میں آج بھی کچھ بگڑے نواب کہلاتے ہیں، کام تو ہے نہیں جو کریں۔ ہاتھ کا خوبصورت ململ کا کڑھا ہوا کرتا اور سفید پاجامہ پہنے باہر ایک بڑے نوابی حلیے میں جب نکلتے ہیں تو کرتے کی ایک سائیڈ جیب میں چنے بھنے ہوئے اور دوسری جیب میں بادام پستے رکھتے ہیں۔ خود سیدھے ہاتھ والی جیب میں ڈال کر بھنے ہوئے چنے کھاتے جا رہے ہیں۔ جب کوئی ان کا واقف کار، دوست احباب مل گیا۔ بڑی شان سے دوسری جیب میں ہاتھ ڈال کر پستے بادام نکال کر دے رہے ہیں کہتے ہیں ارے میاں نوش فرمائیں یہ پستے بادام کھا رہا ہوں آپ بھی لیں۔
اب یہ اندازہ کرلیں کہ ان سفید پوش بگڑے ہوئے نوابین نے اپنے آپ کو ابھی بھی کس طرح رکھا ہے جب کہ وہ اب کچھ نہیں ان کے گھر جائیں تو باہر ٹاٹ کا پڑا پردہ اپنے منہ سے بولے گا یہ ہے اجڑے نواب کا گھر۔ ہمارے ہاں بے چارے سفید پوش اس طرح تو نہیں لیکن پھر بھی وہ اپنی وضع داری پر ہیں۔ہر آنے والی حکومت کو معلوم ہوتا ہے کہ آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس بڑھتی ہوئی آبادی کو ضروریات زندگی فراہم کرنا حکومت کا کام ہے۔ لیکن نہ جانے کیوں ایسا نظر نہیں آتا۔ شفاخانوں میں اضافہ، تعلیمی اداروں میں اضافہ، بجلی میں اضافہ، صاف پانی میں رسائی، بے گھر لوگوں کو رہائش مہیا کی جائے، جب کہ ایسا نہیں۔