لاہور میٹروبس کا افتتاح…باقی صوبے بھی تقلید کریں
ایسا ملک جو قبائلی اور جاگیرداری نظام میں جکڑا ہوا ہے‘ وہاں اس قسم کے منصوبے اس لیے ضروری ہوتے ہیں۔
KARACHI:
لاہور میں ملکی تاریخ کے پہلے میٹرو بس منصوبے کی تکمیل کے بعد اتوار کو اس کا افتتاح کر دیا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے تختی کی نقاب کشائی کر کے اس پراجیکٹ کا افتتاح کیا ۔ افتتاحی تقریب میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف' ترکی کے نائب وزیراعظم بیکر بزدیگ' استنبول کے ڈپٹی میئر احمت سلامت' ترک سفیر بابر حزلان، سعودی عرب کے سفیر سمیت 50 سے زائد ممالک کے سفارتکاروں' سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں' ارکان پارلیمنٹ' صوبائی وزراء' علماء مشائخ' سینئر ٹی وی اینکر پرسنز' دانشوروں' کالم نگاروں اور طلبا و طالبات نے بھی شرکت کی۔
آج کے دور میں کسی ملک اور قوم کی ترقی کو ناپنے کا ایک ذریعہ جدید ٹرانسپورٹ سسٹم بھی ہے۔جد ید ٹرانسپورٹ سسٹم کے لیے بہترین شاہراہوں اور ریل کی پٹڑیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لاہور میں ریپڈ ٹرانسپورٹ بس سروس کا آغاز اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یقیناً یہ ایک مشکل اور صبر آزما منصوبہ تھا لیکن اس منصوبے پر جس تیز رفتاری سے کام کیا گیا' پاکستان جیسے ملک میں اس کی مثال مشکل سے ہی ملتی ہے' گو اس منصوبے کا ابھی کچھ کام باقی ہے لیکن میٹرو بس چلانے کے لیے جس انفرااسٹرکچر کی ضرورت تھی' وہ مکمل ہو گیا ہے'باقی ذیلی سڑکوں کی تعمیر اور مرمت کا کام تیزی سے جاری ہے۔ اس بس سروس سے لاہور کے مکین ہی نہیں بلکہ کراچی' حیدر آباد' کوئٹہ' پشاور' راولپنڈی' میانوالی' رحیم یار خان' بہاولپور' ڈیرہ غازی خان اور ملتان سے لاہور آنے والے مسافر بھی مستفید ہو سکیں گے۔
لاہور میٹرو بس منصوبے پر بہت سے اعتراضات بھی اٹھائے جا رہے ہیں' اس منصوبے پر کثیر اخراجات کے حوالے سے دلائل دیے جا رہے ہیں۔ کسی منصوبے پر کوئی اصولی اعتراض کرنا' ہر پاکستانی کا حق ہے تاہم تمام تر اعتراضات کے باوجود یہ حقیقت بھی مد نظر رہنی چاہیے کہ ایک ایسا ملک جو قبائلی اور جاگیرداری نظام میں جکڑا ہوا ہے' وہاں اس قسم کے منصوبے اس لیے ضروری ہوتے ہیں کہ ان کے ذریعے ہی پرانے نظام کو توڑا جا سکتا ہے' اگر ملک میں موٹرویز' ایکسپریس ویز ، جدید ٹرین سسٹم اور میٹرو بس سسٹم ہو گا تو عوام کو ایک شہر سے دوسرے شہر اور شہر کے اندر آنے جانے میں بہت آسانیاں ہوں گی' اس طریقے سے روز گار میں اضافہ ہو گا اور لسانیت اور صوبائیت کمزور ہو گی۔ بدقسمتی سے پاکستان میں حکمرانوں نے ہمیشہ ڈنگ ٹپائو پالیسی اختیار کی۔
معیشت کی بہتری ان کی ترجیح نہیں تھی اور نہ ہی شہریوں کو جدید سہولتیں پہنچانا' ان کا منشور تھا۔سب کو معلوم ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں کراچی ملک کا جدید ترین اور مہذب شہر تھا' کبھی اس شہر میں ٹرام چلا کرتی تھی' اگر حکمران چاہتے تو آج یہ ٹرام، زیرزمین ٹرین سسٹم میں تبدیل ہوچکی ہوتی لیکن افسوس ہم نے آگے تو کیا بڑھنا تھا جوٹرام چل رہی تھی' وہ بھی ناپید ہو گئی۔کراچی میںٹرانسپورٹ کا نظام مفلوج ہوچکا ہے۔اس شہر کے ماس ٹرانزٹ سسٹم اور ماسٹر پلان نقش بر آب ثابت ہوئے، سرکلر ریلوے کو تین بار زندہ کرنے کی کوشش ہوئی اسے ناکامی سے دوچار ہونا پڑا،اربوں روپے کی لاگت سے کے آر ٹی سی اور دیگر پبلک بسوں کے شیڈول متعارف کرائے گئے مگر وزارت ٹرانسپورٹ غیر فعال رہی ۔
کراچی آبادی اور ٹرانسپورٹ کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا کوئی بھی مثالی ماڈل پیش نہیں کرسکا، گرین بسوں کی حالیہ ناکامی ایک المیہ سے کم نہ تھی۔جب کہ اسی شہر میں8 فروری 1883 ء کو ٹرامیں چلنا شروع ہوئیں۔ پہلے اسٹیم پاور پھر پٹرول اور اس کے بعد ڈیزل سے ٹراموں کے کئی روٹس بنے یہ ٹرامیں بندر روڈ، صدر،سولجر بازار،کیماڑی،چاکیواڑہ اور بولٹن مارکیٹ تک مسافروں کو سفر سہولتیں مہیا کرتی رہیں، 1886 میں ٹراموں کے ساتھ گھوڑے باندھے گئے، پھر خصوصی اسٹیم کاریں متعارف کرائی گئیں، ایسٹ انڈیا کمپنی کی ٹرامیں 1949 ء میں محمد علی ٹرام وے کمپنی لمیٹڈ کے نام منتقل ہوئیں ، ان ہی مذکورہ سڑکوں کو دو رویہ بنایا گیا، 30 نومبر1975 ء میںٹرامیں بند ہوئیں تو کراچی میں ٹرانسپورٹ کلچر بری طرح متاثر ہوا۔
اس دن سے آج تک پبلک سیکٹر نے شہر کے اقتصادی ،سماجی اور ڈیموگرافک تقاضوں کے مطابق کشادہ بسوں کے فلیٹ متعارف نہیں کرائے، جو بسیں چلیں وہ جلد ناکارہ ہوکر ورکشاپوں میں کھڑی کردی گئیں ۔گزشتہ 4 عشروں سے کراچی میں بلٹ ٹرین ، انڈر وے،اور ڈبل ڈیکر بسوں کے فلیٹوں کے کئی منصوبے بنے مگر نوکر شاہی کی ناتجربہ کاری، عدم دلچسپی ، کرپشن،نااہلیت اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے کراچی ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کا جنگل بن چکا ہے جہاں آج بھی میٹرو بس یا بلٹ ٹرین متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے۔ کراچی کے ساتھ ساتھ کوئٹہ کو جدید ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہے، بلوچستان کے کوسٹل علاقوں میں کوئی پبلک ٹرانسپورٹ یا بس سروس نہیں ہیں، جب کہ بین الصوبائی سفری سہولتوں کے حوالے سے حیدرآباد ، سکھر،نواب شاہ اور اندرون سندھ کے دیگر شہروں میں نجی ٹرانسپورٹرز نہ ہوتے تو عوام کو اونٹوں ، بیل گاڑیوں اور ٹرکوں پر سفر کرنا پڑتا۔دوسری طرف قیام پاکستان سے قبل شہریوں کو ٹرانسپورٹ کی بنیادی ذمے داری کی فراہمی میںتاریخی ادوار کا اگر جائزہ لیا جائے تو دلچسپ ہے ۔
تاہم جس تیزی سے کراچی میں تعمیراتی ترقی ہوئی اور جسے آج ماڈل سٹی ہونا چاہیے تھا وہ شہرکنکریٹ سٹی اور بلند افلاک عمارتوں اور تجارتی پلازائوں کا مرکز تو بنتا گیا مگر اسی تناسب سے پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کا جدید نظام قائم کرنے کی ہر کوشش انتظامی سطح پر بھی ناکام ثابت ہوئی اور ان کی نگہداشت اور صفائی کا سسٹم بھی نا اہلیت، تساہل اور عملے کی کام چوری کے باعث ٹائیں ٹائیں فش ثابت ہوا ۔ بسیں کھٹارہ بن گئیں،ان کے شیشے ، فوم والی سیٹیں اور انجن و قیمتی سامان چوری ہوئے،ورکشاپ میں مینٹیننس کا کوئی بھی مکینزم قائم نہیں ہوسکا۔ قطع نظر ان لگژری بسوں کے جو 50 اور 60 کی دہائیوں میں سوئیڈن،جرمنی،برطانیہ اور دیگر ملکوں سے برآمد کی گئیں کراچی کو کسی بھی حکومت نے ٹرانسپورٹ کے شفاف، باوقار، تہذیب افروز اور جدیدید ترین نظام سے آراستہ کرنے کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا،اور ایک پھٹیچر ٹرانسپورٹ سسٹم اس عظیم شہر کا منہ چڑاتا ہوا نظرآتا ہے۔لاہور میں میٹرو بس کے منصوبے سے چاروں صوبوں کی حکومتوں کو سبق سیکھنا چاہیے۔ عجیب بات یہ ہے کہ انگریز کے دور میں پشاور سے طورخم تک ٹرین کا ٹریک موجود تھا لیکن آج پشاور کی جو حالت وہ سب کے سامنے ہے۔سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا حکومتوں کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے اپنے شہروں میں ایسے منصوبے شروع کریں اور وفاقی حکومت موٹرویز اور ایکسپریس ویز اور ریلوے کو جدید بنانے پر توجہ دے۔
لاہور میں ملکی تاریخ کے پہلے میٹرو بس منصوبے کی تکمیل کے بعد اتوار کو اس کا افتتاح کر دیا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے تختی کی نقاب کشائی کر کے اس پراجیکٹ کا افتتاح کیا ۔ افتتاحی تقریب میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف' ترکی کے نائب وزیراعظم بیکر بزدیگ' استنبول کے ڈپٹی میئر احمت سلامت' ترک سفیر بابر حزلان، سعودی عرب کے سفیر سمیت 50 سے زائد ممالک کے سفارتکاروں' سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں' ارکان پارلیمنٹ' صوبائی وزراء' علماء مشائخ' سینئر ٹی وی اینکر پرسنز' دانشوروں' کالم نگاروں اور طلبا و طالبات نے بھی شرکت کی۔
آج کے دور میں کسی ملک اور قوم کی ترقی کو ناپنے کا ایک ذریعہ جدید ٹرانسپورٹ سسٹم بھی ہے۔جد ید ٹرانسپورٹ سسٹم کے لیے بہترین شاہراہوں اور ریل کی پٹڑیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لاہور میں ریپڈ ٹرانسپورٹ بس سروس کا آغاز اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یقیناً یہ ایک مشکل اور صبر آزما منصوبہ تھا لیکن اس منصوبے پر جس تیز رفتاری سے کام کیا گیا' پاکستان جیسے ملک میں اس کی مثال مشکل سے ہی ملتی ہے' گو اس منصوبے کا ابھی کچھ کام باقی ہے لیکن میٹرو بس چلانے کے لیے جس انفرااسٹرکچر کی ضرورت تھی' وہ مکمل ہو گیا ہے'باقی ذیلی سڑکوں کی تعمیر اور مرمت کا کام تیزی سے جاری ہے۔ اس بس سروس سے لاہور کے مکین ہی نہیں بلکہ کراچی' حیدر آباد' کوئٹہ' پشاور' راولپنڈی' میانوالی' رحیم یار خان' بہاولپور' ڈیرہ غازی خان اور ملتان سے لاہور آنے والے مسافر بھی مستفید ہو سکیں گے۔
لاہور میٹرو بس منصوبے پر بہت سے اعتراضات بھی اٹھائے جا رہے ہیں' اس منصوبے پر کثیر اخراجات کے حوالے سے دلائل دیے جا رہے ہیں۔ کسی منصوبے پر کوئی اصولی اعتراض کرنا' ہر پاکستانی کا حق ہے تاہم تمام تر اعتراضات کے باوجود یہ حقیقت بھی مد نظر رہنی چاہیے کہ ایک ایسا ملک جو قبائلی اور جاگیرداری نظام میں جکڑا ہوا ہے' وہاں اس قسم کے منصوبے اس لیے ضروری ہوتے ہیں کہ ان کے ذریعے ہی پرانے نظام کو توڑا جا سکتا ہے' اگر ملک میں موٹرویز' ایکسپریس ویز ، جدید ٹرین سسٹم اور میٹرو بس سسٹم ہو گا تو عوام کو ایک شہر سے دوسرے شہر اور شہر کے اندر آنے جانے میں بہت آسانیاں ہوں گی' اس طریقے سے روز گار میں اضافہ ہو گا اور لسانیت اور صوبائیت کمزور ہو گی۔ بدقسمتی سے پاکستان میں حکمرانوں نے ہمیشہ ڈنگ ٹپائو پالیسی اختیار کی۔
معیشت کی بہتری ان کی ترجیح نہیں تھی اور نہ ہی شہریوں کو جدید سہولتیں پہنچانا' ان کا منشور تھا۔سب کو معلوم ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں کراچی ملک کا جدید ترین اور مہذب شہر تھا' کبھی اس شہر میں ٹرام چلا کرتی تھی' اگر حکمران چاہتے تو آج یہ ٹرام، زیرزمین ٹرین سسٹم میں تبدیل ہوچکی ہوتی لیکن افسوس ہم نے آگے تو کیا بڑھنا تھا جوٹرام چل رہی تھی' وہ بھی ناپید ہو گئی۔کراچی میںٹرانسپورٹ کا نظام مفلوج ہوچکا ہے۔اس شہر کے ماس ٹرانزٹ سسٹم اور ماسٹر پلان نقش بر آب ثابت ہوئے، سرکلر ریلوے کو تین بار زندہ کرنے کی کوشش ہوئی اسے ناکامی سے دوچار ہونا پڑا،اربوں روپے کی لاگت سے کے آر ٹی سی اور دیگر پبلک بسوں کے شیڈول متعارف کرائے گئے مگر وزارت ٹرانسپورٹ غیر فعال رہی ۔
کراچی آبادی اور ٹرانسپورٹ کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا کوئی بھی مثالی ماڈل پیش نہیں کرسکا، گرین بسوں کی حالیہ ناکامی ایک المیہ سے کم نہ تھی۔جب کہ اسی شہر میں8 فروری 1883 ء کو ٹرامیں چلنا شروع ہوئیں۔ پہلے اسٹیم پاور پھر پٹرول اور اس کے بعد ڈیزل سے ٹراموں کے کئی روٹس بنے یہ ٹرامیں بندر روڈ، صدر،سولجر بازار،کیماڑی،چاکیواڑہ اور بولٹن مارکیٹ تک مسافروں کو سفر سہولتیں مہیا کرتی رہیں، 1886 میں ٹراموں کے ساتھ گھوڑے باندھے گئے، پھر خصوصی اسٹیم کاریں متعارف کرائی گئیں، ایسٹ انڈیا کمپنی کی ٹرامیں 1949 ء میں محمد علی ٹرام وے کمپنی لمیٹڈ کے نام منتقل ہوئیں ، ان ہی مذکورہ سڑکوں کو دو رویہ بنایا گیا، 30 نومبر1975 ء میںٹرامیں بند ہوئیں تو کراچی میں ٹرانسپورٹ کلچر بری طرح متاثر ہوا۔
اس دن سے آج تک پبلک سیکٹر نے شہر کے اقتصادی ،سماجی اور ڈیموگرافک تقاضوں کے مطابق کشادہ بسوں کے فلیٹ متعارف نہیں کرائے، جو بسیں چلیں وہ جلد ناکارہ ہوکر ورکشاپوں میں کھڑی کردی گئیں ۔گزشتہ 4 عشروں سے کراچی میں بلٹ ٹرین ، انڈر وے،اور ڈبل ڈیکر بسوں کے فلیٹوں کے کئی منصوبے بنے مگر نوکر شاہی کی ناتجربہ کاری، عدم دلچسپی ، کرپشن،نااہلیت اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے کراچی ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کا جنگل بن چکا ہے جہاں آج بھی میٹرو بس یا بلٹ ٹرین متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے۔ کراچی کے ساتھ ساتھ کوئٹہ کو جدید ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہے، بلوچستان کے کوسٹل علاقوں میں کوئی پبلک ٹرانسپورٹ یا بس سروس نہیں ہیں، جب کہ بین الصوبائی سفری سہولتوں کے حوالے سے حیدرآباد ، سکھر،نواب شاہ اور اندرون سندھ کے دیگر شہروں میں نجی ٹرانسپورٹرز نہ ہوتے تو عوام کو اونٹوں ، بیل گاڑیوں اور ٹرکوں پر سفر کرنا پڑتا۔دوسری طرف قیام پاکستان سے قبل شہریوں کو ٹرانسپورٹ کی بنیادی ذمے داری کی فراہمی میںتاریخی ادوار کا اگر جائزہ لیا جائے تو دلچسپ ہے ۔
تاہم جس تیزی سے کراچی میں تعمیراتی ترقی ہوئی اور جسے آج ماڈل سٹی ہونا چاہیے تھا وہ شہرکنکریٹ سٹی اور بلند افلاک عمارتوں اور تجارتی پلازائوں کا مرکز تو بنتا گیا مگر اسی تناسب سے پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کا جدید نظام قائم کرنے کی ہر کوشش انتظامی سطح پر بھی ناکام ثابت ہوئی اور ان کی نگہداشت اور صفائی کا سسٹم بھی نا اہلیت، تساہل اور عملے کی کام چوری کے باعث ٹائیں ٹائیں فش ثابت ہوا ۔ بسیں کھٹارہ بن گئیں،ان کے شیشے ، فوم والی سیٹیں اور انجن و قیمتی سامان چوری ہوئے،ورکشاپ میں مینٹیننس کا کوئی بھی مکینزم قائم نہیں ہوسکا۔ قطع نظر ان لگژری بسوں کے جو 50 اور 60 کی دہائیوں میں سوئیڈن،جرمنی،برطانیہ اور دیگر ملکوں سے برآمد کی گئیں کراچی کو کسی بھی حکومت نے ٹرانسپورٹ کے شفاف، باوقار، تہذیب افروز اور جدیدید ترین نظام سے آراستہ کرنے کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا،اور ایک پھٹیچر ٹرانسپورٹ سسٹم اس عظیم شہر کا منہ چڑاتا ہوا نظرآتا ہے۔لاہور میں میٹرو بس کے منصوبے سے چاروں صوبوں کی حکومتوں کو سبق سیکھنا چاہیے۔ عجیب بات یہ ہے کہ انگریز کے دور میں پشاور سے طورخم تک ٹرین کا ٹریک موجود تھا لیکن آج پشاور کی جو حالت وہ سب کے سامنے ہے۔سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا حکومتوں کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے اپنے شہروں میں ایسے منصوبے شروع کریں اور وفاقی حکومت موٹرویز اور ایکسپریس ویز اور ریلوے کو جدید بنانے پر توجہ دے۔