افغانستان سے فوجی سازوسامان کی واپسی کا آغاز
طالبان امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف گوریلا جنگ تو جاری رکھے ہوئے ہیں مگر اب وہ شاید امریکا کے لیے بڑا خطرہ نہیں رہے۔
KARACHI:
افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے سلسلے میں ساز و سامان کی منتقلی کا پہلا مرحلہ باقاعدہ شروع ہو گیا ہے۔ اتوار کو بگرام ایئر بیس سے 25کنٹینروں پر مشتمل سامان کو طورخم کے راستے کراچی روانہ کر دیا گیا۔ امریکا نے 2001ء میں نائن الیون کے واقعے کے بعد القاعدہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے افغانستان پر چڑھائی کر دی تھی۔ امریکا نے اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دے کر عالمی مسئلہ بنا دیا۔ پاکستان کو بھی بادل نخواستہ اس جنگ میں امریکا کے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے بڑی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔
امریکا کا دعویٰ تھا کہ وہ افغانستان میں دہشت گردی ختم کر کے امن قائم کر دے گا۔ اس جنگ میں اس نے طالبان حکومت ختم کر دی اور القاعدہ کے بڑے بڑے رہنمائوں سمیت بالآخر اس کے سربراہ اور ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن کو بھی ہلاک کر دیا۔ امریکا نے القاعدہ کو زیادہ خطرہ قرار دیتے ہوئے زیادہ توجہ اس کے خاتمے پر مرکوز رکھی کیونکہ اس کے خیال میں القاعدہ مالی لحاظ سے زیادہ مضبوط' فوجی تربیت اور جدید ٹیکنالوجی میں مہارت رکھنے کے سبب اس کے لیے بڑا خطرہ بن سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے القاعدہ سے کبھی مذاکرات کے لیے ڈول نہیں ڈالا مگر طالبان کے ساتھ اس کے مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا۔ امریکا القاعدہ کے بڑے بڑے رہنمائوں کو ہلاک کر کے اس کی کمر تو پہلے ہی سے توڑ چکا تھا' اسامہ کی ہلاکت کے بعد اب امریکا کے لیے بڑا خطرہ بھی راستے سے ہٹ گیا۔
تتر بتر پہاڑوں میں چھپے ہوئے طالبان امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف گوریلا جنگ تو جاری رکھے ہوئے ہیں مگر شدید نقصان اٹھانے کے بعد اب وہ بھی شاید امریکا کے لیے بڑا خطرہ نہیں رہے۔ طالبان کی گوریلا جنگ اور مزاحمت کے خاتمے کے لیے امریکا ان سے مذاکرات کے سلسلہ کو آگے بڑھا رہا ہے۔اسی تناظر میں گزشتہ دنوں قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا دور ہوا اور اب قطر میں طالبان کا دفتر کھولنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے تاکہ مستقبل میں امریکا اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے اسے بآسانی استعمال کیا جا سکے ۔ امریکا یہ سمجھتا ہے کہ القاعدہ اور طالبان اب اس کے لیے خطرہ نہیں رہے لہٰذا وہ افغانستان سے انخلا کر سکتا ہے۔ صدر اوباما نے 2014ء میں افغانستان سے فوجیں نکالنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
اب 25 کنٹینروں پر مشتمل فوجی سازو سامان کی منتقلی امریکی افواج کی افغانستان سے واپسی کی ابتدائی تیاریاں ہیں۔ چند ہفتے بعد مزید کنٹینرز پاکستان داخل ہوجائیں گے۔ افغانستان میں سبکدوش ہونے والے ایساف کے کمانڈر جنرل جان ایلن کا کہنا ہے کہ اگرچہ اتحادی افواج آئندہ سال افغانستان چھوڑنے جا رہی ہیں تاہم امریکی افواج کے مکمل انخلا کا امکان نہیں۔ ایساف کے نئے کمانڈر جنرل جوزف ڈنفورڈ افغانستان سے 2014ء تک انخلا کے اعلان کردہ امریکی شیڈول کے مطابق افغانستان میں آخری ایساف کمانڈر ہو سکتے ہیں۔ افغانستان میں امریکی جنگ سے پاکستان شدید متاثر ہوا اور اب امریکی افواج کے انخلا کے بعد بھی پاکستان کو نئی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اب ایک طویل عرصے بعد افغانستان بھی ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے' مستقبل میں افغانستان کا سیاسی ڈھانچہ کیا ہو گا ابھی بہت کچھ طے ہونا باقی ہے۔ پاکستان کو بھرپور انداز میں آگے بڑھتے ہوئے افغانستان کے بارے میں اپنا لائحہ عمل طے کرنا ہو گا کیونکہ وہاں کوئی ایسا سیاسی شیڈول طے نہیں پایا جانا چاہیے جس سے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچے ورنہ پاکستان کو اپنی مغربی سرحدوں پر پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان کے افغانستان اور وسط ایشیا کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارتی تعلقات ہیں۔ اس لیے پاکستان کو امریکا پر زور ڈالنا چاہیے کہ افغانستان کے بارے میں کوئی ایسی پالیسی تشکیل نہ دے جس سے پاکستان کے مفادات پر زد آئے۔ نئی افغان حکومت پر بھارت بھی اثر انداز ہو کر پاکستان کو دبائو میں لا سکتا ہے۔ اس لیے پاکستان کو بڑی حکمت عملی سے افغانستان کے بدلتے ہوئے حالات کا رخ اپنی حمایت میں موڑنا ہو گا۔
افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے سلسلے میں ساز و سامان کی منتقلی کا پہلا مرحلہ باقاعدہ شروع ہو گیا ہے۔ اتوار کو بگرام ایئر بیس سے 25کنٹینروں پر مشتمل سامان کو طورخم کے راستے کراچی روانہ کر دیا گیا۔ امریکا نے 2001ء میں نائن الیون کے واقعے کے بعد القاعدہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے افغانستان پر چڑھائی کر دی تھی۔ امریکا نے اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دے کر عالمی مسئلہ بنا دیا۔ پاکستان کو بھی بادل نخواستہ اس جنگ میں امریکا کے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے بڑی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔
امریکا کا دعویٰ تھا کہ وہ افغانستان میں دہشت گردی ختم کر کے امن قائم کر دے گا۔ اس جنگ میں اس نے طالبان حکومت ختم کر دی اور القاعدہ کے بڑے بڑے رہنمائوں سمیت بالآخر اس کے سربراہ اور ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن کو بھی ہلاک کر دیا۔ امریکا نے القاعدہ کو زیادہ خطرہ قرار دیتے ہوئے زیادہ توجہ اس کے خاتمے پر مرکوز رکھی کیونکہ اس کے خیال میں القاعدہ مالی لحاظ سے زیادہ مضبوط' فوجی تربیت اور جدید ٹیکنالوجی میں مہارت رکھنے کے سبب اس کے لیے بڑا خطرہ بن سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے القاعدہ سے کبھی مذاکرات کے لیے ڈول نہیں ڈالا مگر طالبان کے ساتھ اس کے مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا۔ امریکا القاعدہ کے بڑے بڑے رہنمائوں کو ہلاک کر کے اس کی کمر تو پہلے ہی سے توڑ چکا تھا' اسامہ کی ہلاکت کے بعد اب امریکا کے لیے بڑا خطرہ بھی راستے سے ہٹ گیا۔
تتر بتر پہاڑوں میں چھپے ہوئے طالبان امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف گوریلا جنگ تو جاری رکھے ہوئے ہیں مگر شدید نقصان اٹھانے کے بعد اب وہ بھی شاید امریکا کے لیے بڑا خطرہ نہیں رہے۔ طالبان کی گوریلا جنگ اور مزاحمت کے خاتمے کے لیے امریکا ان سے مذاکرات کے سلسلہ کو آگے بڑھا رہا ہے۔اسی تناظر میں گزشتہ دنوں قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا دور ہوا اور اب قطر میں طالبان کا دفتر کھولنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے تاکہ مستقبل میں امریکا اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے اسے بآسانی استعمال کیا جا سکے ۔ امریکا یہ سمجھتا ہے کہ القاعدہ اور طالبان اب اس کے لیے خطرہ نہیں رہے لہٰذا وہ افغانستان سے انخلا کر سکتا ہے۔ صدر اوباما نے 2014ء میں افغانستان سے فوجیں نکالنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
اب 25 کنٹینروں پر مشتمل فوجی سازو سامان کی منتقلی امریکی افواج کی افغانستان سے واپسی کی ابتدائی تیاریاں ہیں۔ چند ہفتے بعد مزید کنٹینرز پاکستان داخل ہوجائیں گے۔ افغانستان میں سبکدوش ہونے والے ایساف کے کمانڈر جنرل جان ایلن کا کہنا ہے کہ اگرچہ اتحادی افواج آئندہ سال افغانستان چھوڑنے جا رہی ہیں تاہم امریکی افواج کے مکمل انخلا کا امکان نہیں۔ ایساف کے نئے کمانڈر جنرل جوزف ڈنفورڈ افغانستان سے 2014ء تک انخلا کے اعلان کردہ امریکی شیڈول کے مطابق افغانستان میں آخری ایساف کمانڈر ہو سکتے ہیں۔ افغانستان میں امریکی جنگ سے پاکستان شدید متاثر ہوا اور اب امریکی افواج کے انخلا کے بعد بھی پاکستان کو نئی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اب ایک طویل عرصے بعد افغانستان بھی ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے' مستقبل میں افغانستان کا سیاسی ڈھانچہ کیا ہو گا ابھی بہت کچھ طے ہونا باقی ہے۔ پاکستان کو بھرپور انداز میں آگے بڑھتے ہوئے افغانستان کے بارے میں اپنا لائحہ عمل طے کرنا ہو گا کیونکہ وہاں کوئی ایسا سیاسی شیڈول طے نہیں پایا جانا چاہیے جس سے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچے ورنہ پاکستان کو اپنی مغربی سرحدوں پر پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان کے افغانستان اور وسط ایشیا کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارتی تعلقات ہیں۔ اس لیے پاکستان کو امریکا پر زور ڈالنا چاہیے کہ افغانستان کے بارے میں کوئی ایسی پالیسی تشکیل نہ دے جس سے پاکستان کے مفادات پر زد آئے۔ نئی افغان حکومت پر بھارت بھی اثر انداز ہو کر پاکستان کو دبائو میں لا سکتا ہے۔ اس لیے پاکستان کو بڑی حکمت عملی سے افغانستان کے بدلتے ہوئے حالات کا رخ اپنی حمایت میں موڑنا ہو گا۔