لاہور کے لیے ایک عجوبہ
سڑکیں چوڑی کی جائیں مگر شہروں میں راستوں پر موجود کتنے ہی مکان گرانے پڑیں گے اور پھر ان کا متبادل۔
نیا کیا بہت ہی نیا زمانہ، نئی دنیا اور اس کے نئے راستے بچھانے کا زمانہ، یہ سب اہل لاہور نے بڑے تعجب کے ساتھ گزشتہ اتوار کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ پرانی رواں سڑک کے اوپر ایک نئی سڑک بچھا دی گئی اور پھر اس پر بالکل نئی وضع اور ماڈل کی بسیں رواں کر دی گئیں اور یوں لاہور والے کم پیسوں اور تیز رفتار کے ساتھ فاصلے طے کرنے لگے۔ بلا روک ٹوک ٹریفک جس کا اہل لاہور ان دنوں تصور بھی نہیں کر سکتے اور جو لاہوریوں کے لیے ایک عیاشی بن چکی ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک کا اس قدر ہجوم ہے کہ سفر کے وقت کے اندازے ہی ختم ہو گئے ہیں۔کوئی کچھ بھی اندازہ لگا لے کہ کب کہیں جانے کے لیے روانہ ہوا تھا لیکن ٹریفک کے ہجوم سے راستہ تلاش کرتا اور بناتا ہوا نہ جانے کب منزل پر پہنچا۔ یوں زندگی کے معمولات ہاتھ سے نکل گئے۔
نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں والا مضمون بنا رہا لیکن بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ اس طرح یہ سب کب تک چلے گا۔ سڑکیں چوڑی کی جائیں مگر شہروں میں راستوں پر موجود کتنے ہی مکان گرانے پڑیں گے اور پھر ان کا متبادل۔ یہ سوچ کر ہول آتا تھا۔ سواری رکھنے والے شہریوں سے کوئی کیا کہے کہ سڑکوں پر آنا چھوڑ دیں۔ ادھر شہروں میں راستوں پر مختصر پلوں کا رواج چلا ہے کہ کچھ ٹریفک زمینی سڑک چھوڑ کر ادھر کسی پل پر سے گزر جائے، خود بھی رواں رہے اور دوسروں کا راستہ بھی نہ روکے چنانچہ پاکستان کے بڑے شہروں میں ایسے پل تعمیر کیے گئے جن سے ٹریفک کے ہجوم میں کچھ افاقہ تو ہوا مگر بات پھر بھی نہ بنی بہر کیف کسی حد تک نا ممکن یا ناقابل فہم ایک راستہ یہ نکالا گیا کہ بڑی سڑکوں کے اوپر ایک اور سڑک بچھا دی جائے یعنی تعمیر کر دی جائے۔
کنکریٹ کا فرش بچھایا جائے اور اس کے اوپر نئی سڑک چلا دی جائے پھر ٹریفک کا رخ اس سڑک پر موڑ دیا جائے اس طرح گویا ایک کی بجائے دو سڑکیں بن جائیں، اوپر کی سڑک پر کوئی ٹریفک اس کا راستہ نہ روکے یعنی اسے کراس نہ کرے اور یہ اندھا دھند چلتی رہے اور سفر جلد ختم ہوجائے۔ کہنے کو تو یہ سب آسان تھا لیکن مصنوعی سڑکوں کا منصوبہ عمل کی دنیا میں ایک خواب ہی سمجھیں۔ لاہور کے رہنے والے پنجاب کے وزیراعلیٰ نے اپنے شہر کے لیے اس کا یہ سخت مرحلہ طے کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر عمل بھی کر لیا۔ پنجاب کے خزانے سے اس کے اپنے اربوں روپے خرچ کیے گئے اور ایک پرانے برادر ملک کا فنی عملی تعاون حاصل کیا گیا، یوں ترکی اور پاکستان کے مسلمانوں کے درمیان یہ پرانا اور تحریک خلافت والا تعلق نئے زمانے کی نئی جہتوں سے آشنا ہوا۔ محبت و پیار اور غمگساری اور دست و بازو بننے کے نئے راستے تلاش کیے گئے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کوئی دوستی یوں بھی ہوتی ہے۔ کوئی خوش اور نعرہ زن ہوا اور کوئی حسد کے مارے گنگ ہو گیا۔
میاں نواز شریف نے اپنے اقتدار میں موٹروے بنا کر ملک کے راستے آسان کر دیئے اور اب ان کے بھائی نے لاہور کو نئے راستے بنا کر دے دیئے ہیں۔ فی الحال یہ راستہ ایک سڑک کے اوپر سے گزر رہا ہے لیکن ایک بار جب کوئی نیکی شروع ہوتی ہے تو پھر وہ پھیلتی ہے رکتی نہیں ہے۔ یہ دونوں بھائی سیاستدان ہیں اور ان کے اندر وہ خرابیاں بھی ہیں جو سیاستدانوں میں ہوا کرتی ہیں لیکن ان خرابیوں میں نیکیاں بھی ملی ہوئی ہیں، اتفاق ہے کہ بالکل اس وقت اور اسی دن لاہور میں دو تعمیراتی کاموں کا افتتاح ہوا۔ ایک جناب صدر زرداری صاحب کا وسیع و عریض محل یا قلعہ جو صرف ان کی ذاتی اور خاندانی رہائش کے لیے مخصوص ہے اور ایک یہ سڑک جو ہزاروں لاکھوں انسانوں کے لیے ہے اور ان کے راستے آسان کر دے گی۔ فرق آپ خود ملاحظہ کیجیے۔
وہ جو مثل مشہور ہے کہ خوشبو وہ ہے جو اپنا پتہ خود دے نہ کہ وہ جو عطار بتائے اور سنگھائے۔ میں نے خود ڈرائیونگ چھوڑ دی ہے اور سیر سپاٹا بھی محدود کر دیا ہے لیکن اب پروگرام بنا رہا ہوں کہ ایک دن اس سڑک پر مسافر بن کر یہاں سے گزروں اور لاہور کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جا کر پھر واپس پہنچوں، اس طرح پتہ چلے کہ یہ سڑک کیا ہے۔ ابھی تک میں نے اس کا نام نہیں سنا، اس کے نیچے والی پرانی سڑک کا بڑا حصہ فیروز پور روڈ کہلاتا ہے۔ اس نئی سڑک کا بھی کوئی مختصر سا نام رکھ دیا جائے لیکن خدا کے واسطے مختصر اور آسان نام جو زبانوں پر چڑھ جائے۔
مال روڈ کا نام شاہراہ قائداعظم رکھا گیا مگر لوگوں نے اب تک اسے مال روڈ ہی کہا ہے اگر جناح روڈ نام ہوتا تو اب وہ زبان زد عام ہوتا۔ ناموں کے ایسے کئی لطیفے بھی ہیں شاہراہ آغا سر سلطان حمد ثالث مگر یہ اب تک ڈیوس روڈ ہی ہے اور اسی طرح شاہراہ عبدالحمید بن بادیس اب تک ایمپریس روڈ ہی ہے۔ یہ انگریزوں کی بنائی ہوئی سڑکیں تھیں جن کے نام بدلنے کا ہمیں کوئی حق نہیں ہے، خود نئی سڑکیں بنائیں اور جو چاہیں نام رکھ دیں لیکن آسان قومی نام ہوں، حکمرانوں کے نہیں جنہوں نے قومی و سرکاری خرچ پر اپنے نام سے کوئی تعمیر کی۔
ایک انتہائی کربناک خبر پڑھی ہے کہ قائد کے نام والے کسی قومی ادارے کا نام بھٹو صاحب کے نام پر رکھا جا رہا ہے اگر یہ سچ ہے اور اس پر عمل بھی ہوتاہے تو پھر آئین میں ایک ترمیم کر کے کہا جائے کہ یہ ملک قائداعظم محمد علی جناح نے نہیں سرشاہنواز بھٹو نے بنایا تھا۔ یہ آسان طریقہ ہے اور اس کے بعد کوئی اس آئینی ترمیم پر اعتراض بھی نہیں کرے گا۔ بات لاہور کی اس نئی سڑک کی ہو رہی ہے جو لاہور کو آزادی کے دور کا ایک اور تحفہ ہے۔ مینار پاکستان کے بعد یہ دوسرا تحفہ ہے۔
خبریں ملی ہیں کہ اس سڑک کے اوپر جانے کے لیے بجلی سے چلنے والے ایکسیلٹر بھی ہوں گے۔ ہمارے ہاں بجلی کہاں اگر ہو بھی تو اس پر اعتبار کون کرے، ظاہر ہے جنریٹر لگائے ہوں گے ،گویا اس سڑک کی دو پیچیدہ مشینیں ہوں گی۔ ہماری نا فرض شناسی اور کوتاہی کیا یہ کام سر انجام دیتی رہے گی کیونکہ سڑک تو ہر وقت چلتی ہی رہے گی۔ اس سڑک کے منصوبے کے معمار یہ سوچ لیں اور اس کا فول پروف انتظام کر لیں۔ ورنہ ان کے سیاسی مخالف خوش ہو جائیں گے۔
نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں والا مضمون بنا رہا لیکن بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ اس طرح یہ سب کب تک چلے گا۔ سڑکیں چوڑی کی جائیں مگر شہروں میں راستوں پر موجود کتنے ہی مکان گرانے پڑیں گے اور پھر ان کا متبادل۔ یہ سوچ کر ہول آتا تھا۔ سواری رکھنے والے شہریوں سے کوئی کیا کہے کہ سڑکوں پر آنا چھوڑ دیں۔ ادھر شہروں میں راستوں پر مختصر پلوں کا رواج چلا ہے کہ کچھ ٹریفک زمینی سڑک چھوڑ کر ادھر کسی پل پر سے گزر جائے، خود بھی رواں رہے اور دوسروں کا راستہ بھی نہ روکے چنانچہ پاکستان کے بڑے شہروں میں ایسے پل تعمیر کیے گئے جن سے ٹریفک کے ہجوم میں کچھ افاقہ تو ہوا مگر بات پھر بھی نہ بنی بہر کیف کسی حد تک نا ممکن یا ناقابل فہم ایک راستہ یہ نکالا گیا کہ بڑی سڑکوں کے اوپر ایک اور سڑک بچھا دی جائے یعنی تعمیر کر دی جائے۔
کنکریٹ کا فرش بچھایا جائے اور اس کے اوپر نئی سڑک چلا دی جائے پھر ٹریفک کا رخ اس سڑک پر موڑ دیا جائے اس طرح گویا ایک کی بجائے دو سڑکیں بن جائیں، اوپر کی سڑک پر کوئی ٹریفک اس کا راستہ نہ روکے یعنی اسے کراس نہ کرے اور یہ اندھا دھند چلتی رہے اور سفر جلد ختم ہوجائے۔ کہنے کو تو یہ سب آسان تھا لیکن مصنوعی سڑکوں کا منصوبہ عمل کی دنیا میں ایک خواب ہی سمجھیں۔ لاہور کے رہنے والے پنجاب کے وزیراعلیٰ نے اپنے شہر کے لیے اس کا یہ سخت مرحلہ طے کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر عمل بھی کر لیا۔ پنجاب کے خزانے سے اس کے اپنے اربوں روپے خرچ کیے گئے اور ایک پرانے برادر ملک کا فنی عملی تعاون حاصل کیا گیا، یوں ترکی اور پاکستان کے مسلمانوں کے درمیان یہ پرانا اور تحریک خلافت والا تعلق نئے زمانے کی نئی جہتوں سے آشنا ہوا۔ محبت و پیار اور غمگساری اور دست و بازو بننے کے نئے راستے تلاش کیے گئے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کوئی دوستی یوں بھی ہوتی ہے۔ کوئی خوش اور نعرہ زن ہوا اور کوئی حسد کے مارے گنگ ہو گیا۔
میاں نواز شریف نے اپنے اقتدار میں موٹروے بنا کر ملک کے راستے آسان کر دیئے اور اب ان کے بھائی نے لاہور کو نئے راستے بنا کر دے دیئے ہیں۔ فی الحال یہ راستہ ایک سڑک کے اوپر سے گزر رہا ہے لیکن ایک بار جب کوئی نیکی شروع ہوتی ہے تو پھر وہ پھیلتی ہے رکتی نہیں ہے۔ یہ دونوں بھائی سیاستدان ہیں اور ان کے اندر وہ خرابیاں بھی ہیں جو سیاستدانوں میں ہوا کرتی ہیں لیکن ان خرابیوں میں نیکیاں بھی ملی ہوئی ہیں، اتفاق ہے کہ بالکل اس وقت اور اسی دن لاہور میں دو تعمیراتی کاموں کا افتتاح ہوا۔ ایک جناب صدر زرداری صاحب کا وسیع و عریض محل یا قلعہ جو صرف ان کی ذاتی اور خاندانی رہائش کے لیے مخصوص ہے اور ایک یہ سڑک جو ہزاروں لاکھوں انسانوں کے لیے ہے اور ان کے راستے آسان کر دے گی۔ فرق آپ خود ملاحظہ کیجیے۔
وہ جو مثل مشہور ہے کہ خوشبو وہ ہے جو اپنا پتہ خود دے نہ کہ وہ جو عطار بتائے اور سنگھائے۔ میں نے خود ڈرائیونگ چھوڑ دی ہے اور سیر سپاٹا بھی محدود کر دیا ہے لیکن اب پروگرام بنا رہا ہوں کہ ایک دن اس سڑک پر مسافر بن کر یہاں سے گزروں اور لاہور کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جا کر پھر واپس پہنچوں، اس طرح پتہ چلے کہ یہ سڑک کیا ہے۔ ابھی تک میں نے اس کا نام نہیں سنا، اس کے نیچے والی پرانی سڑک کا بڑا حصہ فیروز پور روڈ کہلاتا ہے۔ اس نئی سڑک کا بھی کوئی مختصر سا نام رکھ دیا جائے لیکن خدا کے واسطے مختصر اور آسان نام جو زبانوں پر چڑھ جائے۔
مال روڈ کا نام شاہراہ قائداعظم رکھا گیا مگر لوگوں نے اب تک اسے مال روڈ ہی کہا ہے اگر جناح روڈ نام ہوتا تو اب وہ زبان زد عام ہوتا۔ ناموں کے ایسے کئی لطیفے بھی ہیں شاہراہ آغا سر سلطان حمد ثالث مگر یہ اب تک ڈیوس روڈ ہی ہے اور اسی طرح شاہراہ عبدالحمید بن بادیس اب تک ایمپریس روڈ ہی ہے۔ یہ انگریزوں کی بنائی ہوئی سڑکیں تھیں جن کے نام بدلنے کا ہمیں کوئی حق نہیں ہے، خود نئی سڑکیں بنائیں اور جو چاہیں نام رکھ دیں لیکن آسان قومی نام ہوں، حکمرانوں کے نہیں جنہوں نے قومی و سرکاری خرچ پر اپنے نام سے کوئی تعمیر کی۔
ایک انتہائی کربناک خبر پڑھی ہے کہ قائد کے نام والے کسی قومی ادارے کا نام بھٹو صاحب کے نام پر رکھا جا رہا ہے اگر یہ سچ ہے اور اس پر عمل بھی ہوتاہے تو پھر آئین میں ایک ترمیم کر کے کہا جائے کہ یہ ملک قائداعظم محمد علی جناح نے نہیں سرشاہنواز بھٹو نے بنایا تھا۔ یہ آسان طریقہ ہے اور اس کے بعد کوئی اس آئینی ترمیم پر اعتراض بھی نہیں کرے گا۔ بات لاہور کی اس نئی سڑک کی ہو رہی ہے جو لاہور کو آزادی کے دور کا ایک اور تحفہ ہے۔ مینار پاکستان کے بعد یہ دوسرا تحفہ ہے۔
خبریں ملی ہیں کہ اس سڑک کے اوپر جانے کے لیے بجلی سے چلنے والے ایکسیلٹر بھی ہوں گے۔ ہمارے ہاں بجلی کہاں اگر ہو بھی تو اس پر اعتبار کون کرے، ظاہر ہے جنریٹر لگائے ہوں گے ،گویا اس سڑک کی دو پیچیدہ مشینیں ہوں گی۔ ہماری نا فرض شناسی اور کوتاہی کیا یہ کام سر انجام دیتی رہے گی کیونکہ سڑک تو ہر وقت چلتی ہی رہے گی۔ اس سڑک کے منصوبے کے معمار یہ سوچ لیں اور اس کا فول پروف انتظام کر لیں۔ ورنہ ان کے سیاسی مخالف خوش ہو جائیں گے۔