عمران خان کا کنفیوژن
عمران خان صرف ’تبدیلی‘کے نعرے اور ’وژن‘ پر قائم رہتے تو آئی آر اے کا سروے اُن کی مقبولیت میں کمی کا اعلان نہ کرتا۔
ISLAMABAD:
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو عملی سیاست میں قدم رکھے اب تقریباً 20 سال کا عرصہ مکمل ہونیوالا ہے، ان کا بین الاقوامی کرکٹ کیرئیر بھی لگ بھگ 21 سال پر مشتمل ہے 19سال کی عمر میں بین الاقوامی کرکٹ میں قدم رکھنے والے عمران خان اب زندگی کی 60 بہاریں گزار چکے ہیں ۔عمر کے اس حصے میں انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ زندگی کے بقیہ ایام سکون کے ساتھ پوتے پوتیوں اورنواسے نواسیوں کے درمیان بسر کیے جائیں بالخصوص تب جب کہ مالی آسودگی بھی میسر ہو۔ 60 سال کے بعد کی زندگی کو ہمارے ہاں عموماً ریٹائرڈ لائف کہا جاتا ہے مگرخان صاحب کی لغت میں شاید ریٹائرمنٹ نام کا لفظ موجود نہیں ہے اسی لیے پاکستان اور بھارت کی بلے بازوں کے لیے نہایت سازگار اور فاسٹ بالرز کے لیے غیرموزوں وکٹوں پر ان تھک محنت کے بعد بے شمار کامیابیاں سمیٹنے والے عمران خان اب کراچی ،لاہور ،ملتان، پشاور اورکوئٹہ جیسے سیاسی مراکز کو یہ جانتے ہوئے بھی آئندہ انتخابات میں فتح کرنے کے پروگرام بنا رہے ہیں کہ ان علاقوں میں پہلے ہی مختلف سیاسی جماعتیں اور ان کے مضبوط امیدوار اپنی گرفت مضبوط کیے بیٹھے ہیں ۔یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ 1997 اور 2002 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو ان شہروں میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اگر خان صاحب 2008 کے عام انتخابات میں حصہ لیتے تو شاید نتیجہ مختلف نہ ہوتامگر اس کا کیا کیجیے کہ خان صاحب ظہورِقادری کے بعد بھی ایک گیند پر تمام وکٹیں اڑانے پر مُصرہیں ۔
اگرچہ عمران خان نے اصولی سیاست کا نعرہ لگاتے ہوئے کوچہ سیاست میں قدم رکھا تھا مگرپہلی ٹھوکر انھوں نے سابق صدرپرویز مشرف کے ہاتھوں کھائی جب انھوں نے نہ صرف اُن کانہایت مشکل اور ابتدائی وقت میں ساتھ دیا بلکہ نوگیارہ کے بعد بننے والی نئی افغان پالیسی کا دفاع بھی کیا مگر اکتوبر 2002 کے عام انتخابات میں شکست کے بعد عمران خان مشرف مخالف کیمپ میںکھڑے نظرآئے اور افغان پالیسی کا دفاع کرنیوالے خان صاحب جلد ہی اس پالیسی کے اتنے بڑے ناقد ٹھہرے کہ بعض تجزیہ کار انھیں طالبان خان کہنے پر مجبور ہوگئے ۔عمران خان کی سیاست میں ایک نئی اور واضح تبدیلی گزشتہ سال کے اواخر میں نظر آئی جب انھوں نے مختلف سیاسی جماعتوں کے سینیر رہنماؤں اور بااثر سیاستدانوں کو یہ کہہ کر اپنی جماعت میں بھرتی کرنا شروع کردیا کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو پھر انھی بااثر افراد پر انحصار کرنا ہوگا۔ پی ٹی آئی میں نئے چہروں کی شمولیت پر پرانے چہرے نہ صرف مضطرب نظر آئے بلکہ شیریں مزاری سمیت کتنے ہی نام عمران خان کو خدا حافظ کہہ گئے ۔اس سے پہلے، تحریک انصاف کے چیئرمین سانحہ 12مئی کے بعد ایم کیوایم پر بجلیاں گراتے اور برطانوی عدالت کا درکھٹکھٹاتے نظر آئے مگر پھر وہ وقت بھی آیا جب خان صاحب سے ایم کیوایم سے متعلق سوال ہوتا تو وہ مسکراتے ہوئے جواب دیتے کہ ہر گیند پر شاٹ نہیں کھیلا جاتا بعض گیندیں چھوڑ بھی دی جاتی ہیں ۔
سال 2013 عمران خان کو ایک فیصلہ کن موڑ پر لے آیا ہے ،اگر تمام مراحل خیریت سے گزر گئے تو پھر مئی میں عام انتخابات کا انعقاد یقینی ہے اور سونامی کے دعوؤں اور نعروں کی تصدیق انتخابی نتائج سے ہی ہوگی مگر عام انتخابات سے ذرا قبل طاہر القادری کی شکل میں پاکستانی سیاست میں ایک پرانا کردار دوبارہ متحرک ہوگیا ہے ۔عمران خان اس مرحلے پر بھی واضح طور پر کنفیوژن کا شکار دکھائی دے رہے ہیں۔انھوں نے قادری صاحب کے ایجنڈے کی تو بھرپور حمایت کی مگر لانگ مارچ میں شرکت سے گریز کرتے رہے پھر اچانک ایک روز ٹیلیویژن اسکرین پر اپنے 7 مطالبات پیش کردیے ،خیال تھا کہ اگلے مرحلے میں وہ علامہ صاحب کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے مارچ میںشمولیت کا اعلان بھی کردینگے مگر میاں صاحب نے جیسے ہی تمام اپوزیشن جماعتوں کو رائے ونڈ میں اکٹھا کرکے یہ پیغام دیا کہ انتخابات میں تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی تو تھوڑی دیر بعد تحریک انصاف کا یہ بیان بھی سامنے آگیا کہ وہ اور ان کی جماعت لانگ مارچ میں شرکت نہیں کرینگے ۔
گزشتہ دنوں جب قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی نے الیکشن کمیشن سے یکجہتی کے لیے دھرنے کا اعلان کیا توعمران خان نے اس میں شمولیت کا اعلان کرکے سب کوخوشگوار حیرت میں مبتلا کردیاکہ چلو اسی بہانے اپویشن جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوں مگر چندہی گھنٹوں بعد یہ خبر آئی کہ پی ٹی آئی دھرنے میں شرکت نہیں کرے گی ۔
اسی طرح تحریک انصاف الیکشن کمیشن میں اصلاحات کا مطالبہ تو کر رہی تھی مگر اب چار قدم آگے بڑھ کر وہ بھی الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے طاہر القادری کے مطالبے کی حمایت کررہی ہے ۔تحریک انصاف کے دو سینئررہنماؤں جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی کی علامہ طاہر القادری سے ملاقات نے تجزیہ کاروں کو یہ سوچنے پر بھی مجبور کردیا ہے کہ آخر پی ٹی آئی قیادت کو ایسی کیا مجبوری درپیش ہے کہ وہ علامہ صاحب کو اس قدر اہمیت دے رہی ہے !تحریک انصاف کی قیادت اس سوال کا جواب دینے سے بھی قاصر ہے کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی صورت میں بروقت انتخابات کیسے ممکن ہو سکیں گے ؟تو کیا پی ٹی آئی بھی انتخابات کے التواء کے اس خفیہ منصوبے کا حصہ ہے جس کی بازگشت ہر لمحہ شہر اقتدار میں سنائی دے رہی ہے ۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے مطالبے پر مسلم لیگ کے رہنما احسن اقبال کا یہ بیان بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ اس مطالبے سے انتخابی عمل میں خلل ڈالنے والی جماعتیں کھل کے سامنے آگئی ہیں ۔
ہمارا اندازہ بلکہ یقین ہے کہ عمران خان بروقت انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں اور وہ یہ بات سمجھتے ہیں کہ بلا تعطل جمہوری عمل جاری رہنے میں ہی ملک و قوم کی عافیت ہے مگر ان کے بعض اقدامات اور فیصلوں نے خود ان کے حامیوں کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے ۔ایک ایسے وقت جب قوم ووٹ کے ذریعے تبدیلی لانے کے لیے تیار بیٹھی ہے تو عمران خان ان قوتوں اور شخصیات سے بغلگیر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں جو عوام کا اعتماد کھوچکی ہیں۔ ایسے میں مسلم لیگ ن کے رہنما میاں محمد نواز شریف تمام تر رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں اور اس کی وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ گزشتہ پانچ سال سے صرف ایک نعرے پر اکتفا کیے بیٹھے ہیں اور وہ ہے 'جمہوریت کا تسلسل '۔ٖاگر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی صرف 'تبدیلی'کے نعرے اور 'وژن'پر عملی طور پر قائم رہتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ آئی آر اے کا سروے اُن کی مقبولیت میں کمی کا اعلان نہ کرتا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو عملی سیاست میں قدم رکھے اب تقریباً 20 سال کا عرصہ مکمل ہونیوالا ہے، ان کا بین الاقوامی کرکٹ کیرئیر بھی لگ بھگ 21 سال پر مشتمل ہے 19سال کی عمر میں بین الاقوامی کرکٹ میں قدم رکھنے والے عمران خان اب زندگی کی 60 بہاریں گزار چکے ہیں ۔عمر کے اس حصے میں انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ زندگی کے بقیہ ایام سکون کے ساتھ پوتے پوتیوں اورنواسے نواسیوں کے درمیان بسر کیے جائیں بالخصوص تب جب کہ مالی آسودگی بھی میسر ہو۔ 60 سال کے بعد کی زندگی کو ہمارے ہاں عموماً ریٹائرڈ لائف کہا جاتا ہے مگرخان صاحب کی لغت میں شاید ریٹائرمنٹ نام کا لفظ موجود نہیں ہے اسی لیے پاکستان اور بھارت کی بلے بازوں کے لیے نہایت سازگار اور فاسٹ بالرز کے لیے غیرموزوں وکٹوں پر ان تھک محنت کے بعد بے شمار کامیابیاں سمیٹنے والے عمران خان اب کراچی ،لاہور ،ملتان، پشاور اورکوئٹہ جیسے سیاسی مراکز کو یہ جانتے ہوئے بھی آئندہ انتخابات میں فتح کرنے کے پروگرام بنا رہے ہیں کہ ان علاقوں میں پہلے ہی مختلف سیاسی جماعتیں اور ان کے مضبوط امیدوار اپنی گرفت مضبوط کیے بیٹھے ہیں ۔یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ 1997 اور 2002 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو ان شہروں میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اگر خان صاحب 2008 کے عام انتخابات میں حصہ لیتے تو شاید نتیجہ مختلف نہ ہوتامگر اس کا کیا کیجیے کہ خان صاحب ظہورِقادری کے بعد بھی ایک گیند پر تمام وکٹیں اڑانے پر مُصرہیں ۔
اگرچہ عمران خان نے اصولی سیاست کا نعرہ لگاتے ہوئے کوچہ سیاست میں قدم رکھا تھا مگرپہلی ٹھوکر انھوں نے سابق صدرپرویز مشرف کے ہاتھوں کھائی جب انھوں نے نہ صرف اُن کانہایت مشکل اور ابتدائی وقت میں ساتھ دیا بلکہ نوگیارہ کے بعد بننے والی نئی افغان پالیسی کا دفاع بھی کیا مگر اکتوبر 2002 کے عام انتخابات میں شکست کے بعد عمران خان مشرف مخالف کیمپ میںکھڑے نظرآئے اور افغان پالیسی کا دفاع کرنیوالے خان صاحب جلد ہی اس پالیسی کے اتنے بڑے ناقد ٹھہرے کہ بعض تجزیہ کار انھیں طالبان خان کہنے پر مجبور ہوگئے ۔عمران خان کی سیاست میں ایک نئی اور واضح تبدیلی گزشتہ سال کے اواخر میں نظر آئی جب انھوں نے مختلف سیاسی جماعتوں کے سینیر رہنماؤں اور بااثر سیاستدانوں کو یہ کہہ کر اپنی جماعت میں بھرتی کرنا شروع کردیا کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو پھر انھی بااثر افراد پر انحصار کرنا ہوگا۔ پی ٹی آئی میں نئے چہروں کی شمولیت پر پرانے چہرے نہ صرف مضطرب نظر آئے بلکہ شیریں مزاری سمیت کتنے ہی نام عمران خان کو خدا حافظ کہہ گئے ۔اس سے پہلے، تحریک انصاف کے چیئرمین سانحہ 12مئی کے بعد ایم کیوایم پر بجلیاں گراتے اور برطانوی عدالت کا درکھٹکھٹاتے نظر آئے مگر پھر وہ وقت بھی آیا جب خان صاحب سے ایم کیوایم سے متعلق سوال ہوتا تو وہ مسکراتے ہوئے جواب دیتے کہ ہر گیند پر شاٹ نہیں کھیلا جاتا بعض گیندیں چھوڑ بھی دی جاتی ہیں ۔
سال 2013 عمران خان کو ایک فیصلہ کن موڑ پر لے آیا ہے ،اگر تمام مراحل خیریت سے گزر گئے تو پھر مئی میں عام انتخابات کا انعقاد یقینی ہے اور سونامی کے دعوؤں اور نعروں کی تصدیق انتخابی نتائج سے ہی ہوگی مگر عام انتخابات سے ذرا قبل طاہر القادری کی شکل میں پاکستانی سیاست میں ایک پرانا کردار دوبارہ متحرک ہوگیا ہے ۔عمران خان اس مرحلے پر بھی واضح طور پر کنفیوژن کا شکار دکھائی دے رہے ہیں۔انھوں نے قادری صاحب کے ایجنڈے کی تو بھرپور حمایت کی مگر لانگ مارچ میں شرکت سے گریز کرتے رہے پھر اچانک ایک روز ٹیلیویژن اسکرین پر اپنے 7 مطالبات پیش کردیے ،خیال تھا کہ اگلے مرحلے میں وہ علامہ صاحب کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے مارچ میںشمولیت کا اعلان بھی کردینگے مگر میاں صاحب نے جیسے ہی تمام اپوزیشن جماعتوں کو رائے ونڈ میں اکٹھا کرکے یہ پیغام دیا کہ انتخابات میں تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی تو تھوڑی دیر بعد تحریک انصاف کا یہ بیان بھی سامنے آگیا کہ وہ اور ان کی جماعت لانگ مارچ میں شرکت نہیں کرینگے ۔
گزشتہ دنوں جب قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی نے الیکشن کمیشن سے یکجہتی کے لیے دھرنے کا اعلان کیا توعمران خان نے اس میں شمولیت کا اعلان کرکے سب کوخوشگوار حیرت میں مبتلا کردیاکہ چلو اسی بہانے اپویشن جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوں مگر چندہی گھنٹوں بعد یہ خبر آئی کہ پی ٹی آئی دھرنے میں شرکت نہیں کرے گی ۔
اسی طرح تحریک انصاف الیکشن کمیشن میں اصلاحات کا مطالبہ تو کر رہی تھی مگر اب چار قدم آگے بڑھ کر وہ بھی الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے طاہر القادری کے مطالبے کی حمایت کررہی ہے ۔تحریک انصاف کے دو سینئررہنماؤں جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی کی علامہ طاہر القادری سے ملاقات نے تجزیہ کاروں کو یہ سوچنے پر بھی مجبور کردیا ہے کہ آخر پی ٹی آئی قیادت کو ایسی کیا مجبوری درپیش ہے کہ وہ علامہ صاحب کو اس قدر اہمیت دے رہی ہے !تحریک انصاف کی قیادت اس سوال کا جواب دینے سے بھی قاصر ہے کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی صورت میں بروقت انتخابات کیسے ممکن ہو سکیں گے ؟تو کیا پی ٹی آئی بھی انتخابات کے التواء کے اس خفیہ منصوبے کا حصہ ہے جس کی بازگشت ہر لمحہ شہر اقتدار میں سنائی دے رہی ہے ۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے مطالبے پر مسلم لیگ کے رہنما احسن اقبال کا یہ بیان بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ اس مطالبے سے انتخابی عمل میں خلل ڈالنے والی جماعتیں کھل کے سامنے آگئی ہیں ۔
ہمارا اندازہ بلکہ یقین ہے کہ عمران خان بروقت انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں اور وہ یہ بات سمجھتے ہیں کہ بلا تعطل جمہوری عمل جاری رہنے میں ہی ملک و قوم کی عافیت ہے مگر ان کے بعض اقدامات اور فیصلوں نے خود ان کے حامیوں کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے ۔ایک ایسے وقت جب قوم ووٹ کے ذریعے تبدیلی لانے کے لیے تیار بیٹھی ہے تو عمران خان ان قوتوں اور شخصیات سے بغلگیر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں جو عوام کا اعتماد کھوچکی ہیں۔ ایسے میں مسلم لیگ ن کے رہنما میاں محمد نواز شریف تمام تر رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں اور اس کی وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ گزشتہ پانچ سال سے صرف ایک نعرے پر اکتفا کیے بیٹھے ہیں اور وہ ہے 'جمہوریت کا تسلسل '۔ٖاگر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی صرف 'تبدیلی'کے نعرے اور 'وژن'پر عملی طور پر قائم رہتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ آئی آر اے کا سروے اُن کی مقبولیت میں کمی کا اعلان نہ کرتا۔