سیاست میں سنجیدگی وقت کا تقاضا
عائشہ گلالئی نے در حقیقت ایک دل سوز بحث کا دروازہ کھولا ہے
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ترقی اور خوشحالی کے سفر کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے 10سالہ ترقیاتی منصوبہ جات کو آئندہ 10 ماہ میں مکمل کیا جائے گا۔ جمعہ کو اپنی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے وزیراعظم کی حیثیت سے اعتماد کا اظہار کرنے پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے اظہار تشکر کیا اور تمام وزراء کو ہدایت کی کہ وہ آنے والے دنوں میں اپنی وزارتوں کے امور کار کے بارے میں آگاہی کے لیے پریزنٹیشن دیں، تمام وزراء ان سے شب و روز رابطہ کر سکتے ہیں۔
خدا کرے یہ پیشرفت ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مفید ثابت ہو کیونکہ ایک حلف یافتہ کابینہ اور اس کے ابتدائی اجلاس سے وابستہ امیدوں کی ملکی سیاست میں اہمیت اس لیے بڑھ گئی ہے کہ ملک جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کی ایک غیر معمولی آزمائش سے گزر رہا ہے، احتساب کا عمل شروع ہو چکا ہے، مشکل فیصلے کرنے ہیں، کچھ ڈلیور کرنا بھی ہے، اس لیے نئی حکومت کو اس امتحانی دورانئے میں ہر قیمت پر ٹھوس نتائج دینا ہونگے جب کہ جمہوری عمل کی شفافیت اور کامیابی کے ساتھ ساتھ ملکی مسائل، عوام کی مشکلات اور داخلی و خارجی خطرات و نظریات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے جو ان دنوں شدت کے ساتھ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں گردش کر رہے ہیں اور جن سے جمہوری عمل کو تقویت اور اعتباریت ملنے کے بجائے عوام میں ذہنی انتشار اور لاحاصل بحث و تکرار کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
ایک طرف نئے حکومتی سیٹ اپ کو فری ہینڈ ملا ہے، اسے سیاسی افراط و تفریط، بے یقینی، چپقلش، سیاسی جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں کے مابین اشتعال انگیز بیان بازی اور محاذ آرائی کے خاتمہ پر دو باتوں کی وجہ سے توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے اول، پاناما کیس کے فیصلہ کے تناظر میں عدالت عظمیٰ اور فوج کے بارے میں اضطراب انگیز بیانات کی موجودہ لہر رکنا چاہیے، دوم، اداروں کو ہدف نہیں بنانا چاہیے، عدالتی فیصلہ کے عیوب و محاسن پر تنقید کا حق سب کو حاصل ہے مگر ججوں کی ذات کو ہدف ملامت بنانا، ان کی نیتوں پر شک کرنے کی کوئی محب وطن حمایت نہیں کر سکتا۔
اس ضمن میں پاکستان بار کونسل نے پاناما کیس کے تاریخی فیصلہ کے بعد سپریم کورٹ اور ججز کے خلاف منظم مہم کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے توہین عدالت قرار دیا ہے اور کہا کہ پاکستان بار کونسل سمیت ملک بھر کے وکلاء سپریم کورٹ اور تمام معزز ججز کے ساتھ کھڑے ہیں، واضح رہے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے گزشتہ روز عاصمہ جہانگیر کی طرف سے وزیراعظم کی نااہلی کے فیصلے کے حوالے کی گئی گفتگو سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے بیان واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
عاصمہ جہانگیر نے جمعرات کو نیشنل پریس کلب میں صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے ملکی سیاست، ماضی سمیت حالیہ پاناما کیس میں عدالتی فیصلہ میں اسٹیبلشمنٹ کے غیر مرئی اشارہ، وزرائے اعظم کی برطرفیوں، پاک بھارت تعلقات، کشمیر، فوجی عدالتوں،18ویں ترمیم اور فاٹا میں اصلاحات و اقدامات سمیت کئی موضوعات کو جس ماحول میں چھیڑا وہ خاصا ہنگامہ خیز ہے ، اس سے زیادہ مناسب یہ تھا کہ وہ یہی باتیں کسی موقر عدالتی فورم پر کہتیں جو قانونی اور آئینی معاملات کو ڈسکس کرنے کی صحیح جگہ ہے۔
عاصمہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہو گا، مگر اسی سانس میں انھوں نے وضاحت کی کہ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ شاہراہ دستور کو بند کر دیا جائے، بہرحال ملک میں اس وقت بیانات ، قیاس آرائیوں کا سیلاب ہے جس سے ابہام کی صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔ اصولی طور پر قانونی معاملات کو قانونی انداز میں طے کیا جانا چاہیے۔
ادھر عمران، گلالئی سکینڈل کی گونج پارلیمنٹ میں بھی سنائی دی، عائشہ گلالئی نے در حقیقت ایک دل سوز بحث کا دروازہ کھولا ہے، خواتین جو پہلے سے معتوب اور جرائم کی درد انگیز صورتحال سے دوچار ہیں انہیں مزید رسوا کیے جانے کے اندیشے سر اٹھا سکتے ہیں، قومی اسمبلی نے عائشہ گلالئی کی جانب سے عمران خان پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے ان کیمرہ خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تحریک منظور کر لی جس کا پی ٹی آئی چیف عمران خان نے خیر مقدم کیا ہے، اسپیکر قومی اسمبلی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینگے جو ایک ماہ میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ ایوان میں پیش کریگی، رکن اسمبلی جمشید دستی نے عائشہ گلالئی کو دوسری قندیل بلوچ قرار دیتے ہوئے کہا اس سے کام لے کر اسے راستے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔
قبل اس کے کہ ایسا کچھ ہو ارباب اختیار اس بحث کو جلد منطقی انجام تک پہنچائیں۔ گلالئی واقعہ نے سیاسی جماعتوں کی تعلیم یافتہ اور فعال خواتین رہنماؤں اور لاکھوں ورکرز کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا ہے، خواتین پر رکیک فقرہ بازیوں اور حملوں سے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں محفوظ نہ رہ سکیں، لہٰذا وزیراعظم سیاسی حالات کا ادراک کریں، سیاست میں سنجیدگی، مکالمہ میں شائستگی وقت کا تقاضہ ہے، ملک میں کسی بھی وقت کچھ ہونے کا گمراہ کن تاثر اور اندیشے بالکل ختم ہونے چاہئیں۔
خدا کرے یہ پیشرفت ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مفید ثابت ہو کیونکہ ایک حلف یافتہ کابینہ اور اس کے ابتدائی اجلاس سے وابستہ امیدوں کی ملکی سیاست میں اہمیت اس لیے بڑھ گئی ہے کہ ملک جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کی ایک غیر معمولی آزمائش سے گزر رہا ہے، احتساب کا عمل شروع ہو چکا ہے، مشکل فیصلے کرنے ہیں، کچھ ڈلیور کرنا بھی ہے، اس لیے نئی حکومت کو اس امتحانی دورانئے میں ہر قیمت پر ٹھوس نتائج دینا ہونگے جب کہ جمہوری عمل کی شفافیت اور کامیابی کے ساتھ ساتھ ملکی مسائل، عوام کی مشکلات اور داخلی و خارجی خطرات و نظریات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے جو ان دنوں شدت کے ساتھ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں گردش کر رہے ہیں اور جن سے جمہوری عمل کو تقویت اور اعتباریت ملنے کے بجائے عوام میں ذہنی انتشار اور لاحاصل بحث و تکرار کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
ایک طرف نئے حکومتی سیٹ اپ کو فری ہینڈ ملا ہے، اسے سیاسی افراط و تفریط، بے یقینی، چپقلش، سیاسی جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں کے مابین اشتعال انگیز بیان بازی اور محاذ آرائی کے خاتمہ پر دو باتوں کی وجہ سے توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے اول، پاناما کیس کے فیصلہ کے تناظر میں عدالت عظمیٰ اور فوج کے بارے میں اضطراب انگیز بیانات کی موجودہ لہر رکنا چاہیے، دوم، اداروں کو ہدف نہیں بنانا چاہیے، عدالتی فیصلہ کے عیوب و محاسن پر تنقید کا حق سب کو حاصل ہے مگر ججوں کی ذات کو ہدف ملامت بنانا، ان کی نیتوں پر شک کرنے کی کوئی محب وطن حمایت نہیں کر سکتا۔
اس ضمن میں پاکستان بار کونسل نے پاناما کیس کے تاریخی فیصلہ کے بعد سپریم کورٹ اور ججز کے خلاف منظم مہم کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے توہین عدالت قرار دیا ہے اور کہا کہ پاکستان بار کونسل سمیت ملک بھر کے وکلاء سپریم کورٹ اور تمام معزز ججز کے ساتھ کھڑے ہیں، واضح رہے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے گزشتہ روز عاصمہ جہانگیر کی طرف سے وزیراعظم کی نااہلی کے فیصلے کے حوالے کی گئی گفتگو سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے بیان واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
عاصمہ جہانگیر نے جمعرات کو نیشنل پریس کلب میں صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے ملکی سیاست، ماضی سمیت حالیہ پاناما کیس میں عدالتی فیصلہ میں اسٹیبلشمنٹ کے غیر مرئی اشارہ، وزرائے اعظم کی برطرفیوں، پاک بھارت تعلقات، کشمیر، فوجی عدالتوں،18ویں ترمیم اور فاٹا میں اصلاحات و اقدامات سمیت کئی موضوعات کو جس ماحول میں چھیڑا وہ خاصا ہنگامہ خیز ہے ، اس سے زیادہ مناسب یہ تھا کہ وہ یہی باتیں کسی موقر عدالتی فورم پر کہتیں جو قانونی اور آئینی معاملات کو ڈسکس کرنے کی صحیح جگہ ہے۔
عاصمہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہو گا، مگر اسی سانس میں انھوں نے وضاحت کی کہ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ شاہراہ دستور کو بند کر دیا جائے، بہرحال ملک میں اس وقت بیانات ، قیاس آرائیوں کا سیلاب ہے جس سے ابہام کی صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔ اصولی طور پر قانونی معاملات کو قانونی انداز میں طے کیا جانا چاہیے۔
ادھر عمران، گلالئی سکینڈل کی گونج پارلیمنٹ میں بھی سنائی دی، عائشہ گلالئی نے در حقیقت ایک دل سوز بحث کا دروازہ کھولا ہے، خواتین جو پہلے سے معتوب اور جرائم کی درد انگیز صورتحال سے دوچار ہیں انہیں مزید رسوا کیے جانے کے اندیشے سر اٹھا سکتے ہیں، قومی اسمبلی نے عائشہ گلالئی کی جانب سے عمران خان پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے ان کیمرہ خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تحریک منظور کر لی جس کا پی ٹی آئی چیف عمران خان نے خیر مقدم کیا ہے، اسپیکر قومی اسمبلی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینگے جو ایک ماہ میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ ایوان میں پیش کریگی، رکن اسمبلی جمشید دستی نے عائشہ گلالئی کو دوسری قندیل بلوچ قرار دیتے ہوئے کہا اس سے کام لے کر اسے راستے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔
قبل اس کے کہ ایسا کچھ ہو ارباب اختیار اس بحث کو جلد منطقی انجام تک پہنچائیں۔ گلالئی واقعہ نے سیاسی جماعتوں کی تعلیم یافتہ اور فعال خواتین رہنماؤں اور لاکھوں ورکرز کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا ہے، خواتین پر رکیک فقرہ بازیوں اور حملوں سے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں محفوظ نہ رہ سکیں، لہٰذا وزیراعظم سیاسی حالات کا ادراک کریں، سیاست میں سنجیدگی، مکالمہ میں شائستگی وقت کا تقاضہ ہے، ملک میں کسی بھی وقت کچھ ہونے کا گمراہ کن تاثر اور اندیشے بالکل ختم ہونے چاہئیں۔