پانامہ کا بھونچال
وزیر اعظم نواز شریف کا نام اس میں شامل نہیں تھا مگر ان کے خاندان کے کئی افراد کے نام پر آف شور کمپنیاں موجود تھیں۔
نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کے بعد ملک کے سیاستدانوں کا عمران خان سے خوف کھانا اور انھیں مافوق الفطرت سیاستداں سمجھنا واجبی سا ہی لگتا ہے کیونکہ انھوں نے حکمرانوں کو پل بھر میں ہیرو سے زیرو بنانے میں وہ کمال دکھایا کہ عقل دنگ ہے۔ عدالت کے پانچوں جج صاحبان نے میاں صاحب کو نااہل قرار دے کر انصاف کی ایک مثال تو قائم کی مگر اس فیصلے پر ملک کے اندر اور باہر جتنا لکھا اور بولا جا رہا ہے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔
بہرحال فیصلہ جو بھی آیا اس کا اثر اتنا ضرور ہوا کہ ہمارے سیاستدانوں کو آئین کی شقوں 62 اور 63 کی تلواریں اب اپنے سروں پر لٹکتی محسوس ہونے لگی ہیں۔ یہ شقیں آمرانہ دور میں جنرل ضیا الحق نے سیاستدانوں کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے آئین میں شامل کرائی تھیں۔ ان شقوں پر جب خود جنرل ضیا الحق پورے نہیں اترے تھے جو پرہیزگاری میں مشہور تھے تو موجودہ دور کے سیاستدان بھلا ان شقوں پر کہاں پورا اتر سکتے ہیں۔ بہرحال اب وقت کا تقاضا ہے کہ اگر سیاست کرنا ہے تو ان شقوں کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوگا۔
اب بدعنوانی، لوٹ کھسوٹ اور کمیشن ختم، حکومت میں آنے کے بعد تمام ذاتی کاروباری سرگرمیاں ختم اور اب بس صرف تنخواہ پر ہی گزارا کرنا ہوگا۔ اس نئے رجحان سے لگتا ہے کتنے ہی سیاستدان سیاست چھوڑ کر اپنے کاروبار کی طرف لوٹنے کی سوچیں گے۔ دراصل پاناما لیکس نے سیاستدانوں کے لیے کئی مسائل کھڑے کردیے ہیں۔ اب وہ سرکاری عہدے پر رہ کر آف شور کمپنیاں قائم کرنے کا شوق پورا نہیں کرسکتے اور اگر پکڑے گئے تو انھیں اپنی تین نسلوں تک کا حساب کتاب دینا پڑ سکتا ہے۔ جیساکہ میاں صاحب کے ساتھ ہوا شاید ان کا احتساب اتنا سخت نہ ہوتا اگر تحریک انصاف ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر نہ پڑجاتی۔
میاں صاحب کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے کوئی بدعنوانی نہیں کی ان کا ایک ایک پیسہ ان کی خالص کمائی کا ہے۔ میاں صاحب کا کہنا اپنی جگہ ہے مگر ہمارے ہاں اقتدار کا حصول محض پیسہ کمانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ کئی سیاستدانوں نے اپنی کرپشن اور بددیانتی سے ملک کو بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔ ان کی اس روش کی وجہ سے ملک میں نہ صرف غربت کا دور دورہ ہے بلکہ جمہوریت بھی مذاق بن کر رہ گئی ہے جب بھی وہ اقتدار میں آتے ہیں اپنی بدعنوانیوں کی وجہ سے ملک کو مشکل میں پھنسا دیتے ہیں۔
حزب اختلاف کے رہنما بھی بہتی گنگا سے سرشار ہونے اور اپنی خالی تجوریوں کو بھرنے کے لیے برسر اقتدار پارٹی کی حکومت کو گرانے میں مشغول ہوجاتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں ہماری سرحدوں کی نگہبان فوج کو ملکی انتظام کو بھی سنبھالنے کی دعوت دینے لگتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں اب تک جتنے بھی مارشل لا لگے وہ فوج نے خود نہیں لگائے انھیں لگانے کے لیے خود سیاستدانوں نے فوج سے اپیلیں کی تھیں۔
پرویز مشرف کے 12 اکتوبر 1999 کو لگائے جانے والے مارشل لا کے لیے بابائے جمہوریت نصراللہ خان کے نواز حکومت کے خلاف اور مارشل لا کے حق میں دیے گئے بعض بیانات بنیاد بنے تھے۔ کاش کہ ہمارے سیاستدان اقتدار کے لیے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا بند کردیں اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں تو شاید ہمارے ہاں مارشل لا لگانے کی کبھی ضرورت پیش نہ آئے۔ اس وقت ملک میں خیر سے جمہوریت قائم ہے جس کا سورج ایک آمرکی حکومت کو بڑی مشکل سے ختم کرنے کے بعد طلوع ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی نے کسی طرح اپنے پانچ سال مکمل کیے تھے۔
مبصرین کے مطابق یہ حکومت سیاسی چپقلش اور اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے بہت کمزور رہی، صدر زرداری اگر مفاہمتی پالیسی پر عمل نہ کرتے تو وہ ہرگز اپنے پانچ سال پورے نہ کرپاتے۔ اس دور میں بھی پیپلز پارٹی کے دو وزرائے اعظم کو نااہل قرار دیا گیا تھا جس کی وجہ کرپشن قرار دیا گیا تھا۔ صدر زرداری پر کھلے عام کرپشن کا الزام لگایا جاتا ہے جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی اس وقت تک بدنام ہوتی رہے گی اور اس کے مخالفین اسے عدالتوں کی طرف گھسیٹنے کی دھمکیاں دیتے رہیں گے جب تک وہ اس ضمن میں اپنی مکمل صفائی پیش نہیں کرتی۔
2013 کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) الیکشن جیت کر اسلام آباد کے سنگھاسن پر براجمان ہوئی تو اس کے سامنے مسائل کا انبار تھا۔ سب سے بڑا چیلنج طالبان کی دہشت گردانہ کارروائیوں پر قابو پانا تھا۔ پنجاب اور کراچی میں کچھ مذہبی انتہا پسند گروپ بھی تباہی پھیلا رہے تھے اس وقت کراچی میں ایک لسانی پارٹی کے عسکری ونگ نے بھی کراچی کے عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا تھا۔ یہاں روزانہ بیس سے پچیس افراد ان کی گولیوں کا نشانہ بن رہے تھے۔
نواز حکومت نے فوج کے ساتھ مل کر آپریشن ضرب عضب اور پھر آپریشن ردالفساد کے ذریعے بڑی حد تک ملک کو دہشت گردوں سے پاک کردیا ہے ان کی حکومت سے پہلے معیشت جو دیوالیہ پن کے قریب پہنچ چکی تھی اسے بتدریج بہتری کی جانب گامزن کردیا ہے کاش کہ عمران خان صبر سے کام لیتے تو ملک کے حالات مزید بہتر ہوسکتے تھے مگر وہ الیکشن کیا ہارے کہ ملک میں قیامت کا سماں برپا ہوگیا۔
پہلے حکومت پر دھاندلی کے الزامات لگائے گئے جو تمام غلط ثابت ہوئے مگر انھوں نے نواز شریف کا پیچھا نہ چھوڑا اور ان کی حکومت کو گرانا اپنا نصب العین بنالیا جمہوری ممالک میں بہت ہی کم ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ وہاں کی حکومتیں اپنی مدت پوری نہ کریں مگر ہمارے ہاں 70 سال سے یہ کھیل ہوتا چلا آرہا ہے کہ آج تک کسی جمہوری حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اسی لیے ہماری جمہوریت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ابھی نوخیز ہے اور اسے مکمل درخت بننے میں بہت وقت لگے گا کیونکہ جمہوریت کے دشمن خود پاکستانی سیاست داں ہیں۔ جب اچانک پوری دنیا میں پانامہ پیپرز کا نزول ہوا اور پاکستان کے چار سو کے قریب لوگوں کے نام اس میں شامل تھے۔ ان سب کی باہر قائم کی گئیں آف شور کمپنیوں کا راز اس میں فاش کیا گیا تھا۔
وزیر اعظم نواز شریف کا نام اس میں شامل نہیں تھا مگر ان کے خاندان کے کئی افراد کے نام پر آف شور کمپنیاں موجود تھیں۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اپنی آف شور کمپنیوں کے ہوتے ہوئے بھی میاں صاحب کے خاندان کی آف شور کمپنیوں میں قومی خزانے سے پیسہ لوٹ مار کرکے سرمایہ کاری کرنے کا الزام لگا کر عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹادیا۔ اب اسی مقدمے کے ذریعے عدالت عالیہ نے میاں صاحب کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا ہے۔ اب جب کہ عام انتخابات میں ایک سال سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے، ان کی تنخواہ کی غلطی کو درگزر کیا جا سکتا تھا۔
جہاں تک میاں صاحب کی طرز حکمرانی کا تعلق ہے کچھ غلطیاں ان سے بھی سرزد ہوئی ہیں۔ بقول چوہدری نثار میاں صاحب کے کچھ وزیر اور مشیر بھی انھیں بدنام کرنے کے درپے رہے ہیں ۔ جہاں تک عمران خان اور شیخ رشید کا تعلق ہے وہ پاناما کیس میں بالکل دشمنوں کی طرح میاں صاحب سے پیش آتے رہے ہیں ان کی اسی دشمنی کی وجہ سے شاید میاں صاحب اور ان کے رفقا کو نااہلی کے فیصلے پر تحفظات پیدا ہوئے ہیں۔
بہرحال فیصلہ جو بھی آیا اس کا اثر اتنا ضرور ہوا کہ ہمارے سیاستدانوں کو آئین کی شقوں 62 اور 63 کی تلواریں اب اپنے سروں پر لٹکتی محسوس ہونے لگی ہیں۔ یہ شقیں آمرانہ دور میں جنرل ضیا الحق نے سیاستدانوں کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے آئین میں شامل کرائی تھیں۔ ان شقوں پر جب خود جنرل ضیا الحق پورے نہیں اترے تھے جو پرہیزگاری میں مشہور تھے تو موجودہ دور کے سیاستدان بھلا ان شقوں پر کہاں پورا اتر سکتے ہیں۔ بہرحال اب وقت کا تقاضا ہے کہ اگر سیاست کرنا ہے تو ان شقوں کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوگا۔
اب بدعنوانی، لوٹ کھسوٹ اور کمیشن ختم، حکومت میں آنے کے بعد تمام ذاتی کاروباری سرگرمیاں ختم اور اب بس صرف تنخواہ پر ہی گزارا کرنا ہوگا۔ اس نئے رجحان سے لگتا ہے کتنے ہی سیاستدان سیاست چھوڑ کر اپنے کاروبار کی طرف لوٹنے کی سوچیں گے۔ دراصل پاناما لیکس نے سیاستدانوں کے لیے کئی مسائل کھڑے کردیے ہیں۔ اب وہ سرکاری عہدے پر رہ کر آف شور کمپنیاں قائم کرنے کا شوق پورا نہیں کرسکتے اور اگر پکڑے گئے تو انھیں اپنی تین نسلوں تک کا حساب کتاب دینا پڑ سکتا ہے۔ جیساکہ میاں صاحب کے ساتھ ہوا شاید ان کا احتساب اتنا سخت نہ ہوتا اگر تحریک انصاف ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر نہ پڑجاتی۔
میاں صاحب کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے کوئی بدعنوانی نہیں کی ان کا ایک ایک پیسہ ان کی خالص کمائی کا ہے۔ میاں صاحب کا کہنا اپنی جگہ ہے مگر ہمارے ہاں اقتدار کا حصول محض پیسہ کمانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ کئی سیاستدانوں نے اپنی کرپشن اور بددیانتی سے ملک کو بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔ ان کی اس روش کی وجہ سے ملک میں نہ صرف غربت کا دور دورہ ہے بلکہ جمہوریت بھی مذاق بن کر رہ گئی ہے جب بھی وہ اقتدار میں آتے ہیں اپنی بدعنوانیوں کی وجہ سے ملک کو مشکل میں پھنسا دیتے ہیں۔
حزب اختلاف کے رہنما بھی بہتی گنگا سے سرشار ہونے اور اپنی خالی تجوریوں کو بھرنے کے لیے برسر اقتدار پارٹی کی حکومت کو گرانے میں مشغول ہوجاتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں ہماری سرحدوں کی نگہبان فوج کو ملکی انتظام کو بھی سنبھالنے کی دعوت دینے لگتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں اب تک جتنے بھی مارشل لا لگے وہ فوج نے خود نہیں لگائے انھیں لگانے کے لیے خود سیاستدانوں نے فوج سے اپیلیں کی تھیں۔
پرویز مشرف کے 12 اکتوبر 1999 کو لگائے جانے والے مارشل لا کے لیے بابائے جمہوریت نصراللہ خان کے نواز حکومت کے خلاف اور مارشل لا کے حق میں دیے گئے بعض بیانات بنیاد بنے تھے۔ کاش کہ ہمارے سیاستدان اقتدار کے لیے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا بند کردیں اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں تو شاید ہمارے ہاں مارشل لا لگانے کی کبھی ضرورت پیش نہ آئے۔ اس وقت ملک میں خیر سے جمہوریت قائم ہے جس کا سورج ایک آمرکی حکومت کو بڑی مشکل سے ختم کرنے کے بعد طلوع ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی نے کسی طرح اپنے پانچ سال مکمل کیے تھے۔
مبصرین کے مطابق یہ حکومت سیاسی چپقلش اور اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے بہت کمزور رہی، صدر زرداری اگر مفاہمتی پالیسی پر عمل نہ کرتے تو وہ ہرگز اپنے پانچ سال پورے نہ کرپاتے۔ اس دور میں بھی پیپلز پارٹی کے دو وزرائے اعظم کو نااہل قرار دیا گیا تھا جس کی وجہ کرپشن قرار دیا گیا تھا۔ صدر زرداری پر کھلے عام کرپشن کا الزام لگایا جاتا ہے جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی اس وقت تک بدنام ہوتی رہے گی اور اس کے مخالفین اسے عدالتوں کی طرف گھسیٹنے کی دھمکیاں دیتے رہیں گے جب تک وہ اس ضمن میں اپنی مکمل صفائی پیش نہیں کرتی۔
2013 کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) الیکشن جیت کر اسلام آباد کے سنگھاسن پر براجمان ہوئی تو اس کے سامنے مسائل کا انبار تھا۔ سب سے بڑا چیلنج طالبان کی دہشت گردانہ کارروائیوں پر قابو پانا تھا۔ پنجاب اور کراچی میں کچھ مذہبی انتہا پسند گروپ بھی تباہی پھیلا رہے تھے اس وقت کراچی میں ایک لسانی پارٹی کے عسکری ونگ نے بھی کراچی کے عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا تھا۔ یہاں روزانہ بیس سے پچیس افراد ان کی گولیوں کا نشانہ بن رہے تھے۔
نواز حکومت نے فوج کے ساتھ مل کر آپریشن ضرب عضب اور پھر آپریشن ردالفساد کے ذریعے بڑی حد تک ملک کو دہشت گردوں سے پاک کردیا ہے ان کی حکومت سے پہلے معیشت جو دیوالیہ پن کے قریب پہنچ چکی تھی اسے بتدریج بہتری کی جانب گامزن کردیا ہے کاش کہ عمران خان صبر سے کام لیتے تو ملک کے حالات مزید بہتر ہوسکتے تھے مگر وہ الیکشن کیا ہارے کہ ملک میں قیامت کا سماں برپا ہوگیا۔
پہلے حکومت پر دھاندلی کے الزامات لگائے گئے جو تمام غلط ثابت ہوئے مگر انھوں نے نواز شریف کا پیچھا نہ چھوڑا اور ان کی حکومت کو گرانا اپنا نصب العین بنالیا جمہوری ممالک میں بہت ہی کم ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ وہاں کی حکومتیں اپنی مدت پوری نہ کریں مگر ہمارے ہاں 70 سال سے یہ کھیل ہوتا چلا آرہا ہے کہ آج تک کسی جمہوری حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اسی لیے ہماری جمہوریت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ابھی نوخیز ہے اور اسے مکمل درخت بننے میں بہت وقت لگے گا کیونکہ جمہوریت کے دشمن خود پاکستانی سیاست داں ہیں۔ جب اچانک پوری دنیا میں پانامہ پیپرز کا نزول ہوا اور پاکستان کے چار سو کے قریب لوگوں کے نام اس میں شامل تھے۔ ان سب کی باہر قائم کی گئیں آف شور کمپنیوں کا راز اس میں فاش کیا گیا تھا۔
وزیر اعظم نواز شریف کا نام اس میں شامل نہیں تھا مگر ان کے خاندان کے کئی افراد کے نام پر آف شور کمپنیاں موجود تھیں۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اپنی آف شور کمپنیوں کے ہوتے ہوئے بھی میاں صاحب کے خاندان کی آف شور کمپنیوں میں قومی خزانے سے پیسہ لوٹ مار کرکے سرمایہ کاری کرنے کا الزام لگا کر عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹادیا۔ اب اسی مقدمے کے ذریعے عدالت عالیہ نے میاں صاحب کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا ہے۔ اب جب کہ عام انتخابات میں ایک سال سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے، ان کی تنخواہ کی غلطی کو درگزر کیا جا سکتا تھا۔
جہاں تک میاں صاحب کی طرز حکمرانی کا تعلق ہے کچھ غلطیاں ان سے بھی سرزد ہوئی ہیں۔ بقول چوہدری نثار میاں صاحب کے کچھ وزیر اور مشیر بھی انھیں بدنام کرنے کے درپے رہے ہیں ۔ جہاں تک عمران خان اور شیخ رشید کا تعلق ہے وہ پاناما کیس میں بالکل دشمنوں کی طرح میاں صاحب سے پیش آتے رہے ہیں ان کی اسی دشمنی کی وجہ سے شاید میاں صاحب اور ان کے رفقا کو نااہلی کے فیصلے پر تحفظات پیدا ہوئے ہیں۔