’’مضامین و مباحث‘‘ ایک اہم کتاب
یقینی بات ہے جب قرآنی آیات کی تکذیب کی جائے تو ایک مسلمان مصلحت کے تقاضوں کو مدنظر ہرگز نہیں رکھتا ہے
حال ہی میں موصول ہونے والی کتاب ''مضامین و مباحث'' بتیس ابواب پر مشتمل ہے، آخری 29 صفحات بحث و نظر کے عنوان سے ہیں، جب کہ کتاب 232 اوراق کا احاطہ کرتی ہے۔ بڑے اہم لکھاریوں پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ پہلا باب اردو ادب اور الیکٹرانک میڈیا، دوسرا ڈاکٹر لدمیلا اور ان کی دو نئی کتابیں، تیسرا باب ''مت سہل ہمیں جانو'' مطالعہ میر کا ایک انداز اور دوسرے اسباق بھی کتاب کی اہمیت میں اضافے کا باعث ہیں۔ کتاب کے مصنف جرمنی میں بسنے والے حیدر قریشی ہیں۔
مذکورہ کتاب پر لکھنے کی وجہ مصنف کی وہ سچائی اور جرأت ہے جو ان کی تحریروں میں پنہاں ہے، ورنہ فی زمانہ کچھ ایسا ہے کہ لوگ حق کی بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کہیں انھیں کوئی مسئلہ نہ پیش آجائے، جس کے بارے میں وہ لکھ رہے ہیں وہ برا نہ مان جائے، بات آگے نہ بڑھ جائے، لیکن یہاں تو معاملہ الٹ ہے کہ بات کو آگے بڑھانے اور سچائی کے رخ زیبا سے جھوٹ کا پردہ چاک کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ معاشرتی اور اسلامی حوالے سے بھی بلاخوف و خطر حق سے آگاہ کیا گیا ہے۔
یقینی بات ہے جب قرآنی آیات کی تکذیب کی جائے تو ایک مسلمان مصلحت کے تقاضوں کو مدنظر ہرگز نہیں رکھتا ہے بلکہ اسے تو تسکین دل اور اللہ کی رضا چاہیے اور بس، باقی اللہ ہی مجاہد کا حامی و ناصر ہوتا ہے۔ کتاب کا پہلا مضمون ایک سیمینار کے حوالے سے ہے جو گلبرگہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو و فارسی کی جانب سے منعقد ہوا تھا۔
مصنف ابتدائی سطور میں لکھتے ہیں کہ ''ہماری داستانوں میں اڑتے ہوئے دیو، جن، پریاں، اڑن قالین اور اڑن طشتریاں آج تیز رفتار طیاروں اور خلائی تسخیر میں مصروف راکٹس اور سیاروں کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں، ایران کے بادشاہ جمشید کا جام جہاں نما ہمارے لیے ایک افسانہ ہی تھا لیکن آج کا اسمارٹ فون جام جمشید سے کہیں آگے پہنچ چکا ہے، علی بابا کی کہانی میں کھل جا سم سم، کا اسم بولنے سے دروازہ کھلتا تھا لیکن آج کی سپر مارکیٹوں کے خودکار دروازے ہمارے پہنچتے ہی کسی اسم کے بغیر کھل جاتے ہیں۔
پرانی داستانوں میں سلیمانی ٹوپی کے ساتھ اس سے ملتی جلتی حاضر و موجود ہوتے ہوئے نظروں سے اوجھل رہنے والی کہانیاں ملتی ہیں۔ وہ آگے بتاتے ہیں کہ اب ایک کیمیائی مادہ تیار کرلیا گیا ہے جسے Metameterials کا نام دیا گیا ہے، یہ کیمیائی مادہ جس شے پر لگا دیا جائے وہ دکھائی نہیں دے گی، یہ مادہ انسان سے لے کر ڈرون طیاروں تک اگر اس مادہ سے پینٹ کردیا جائے تو وہ دکھائی نہ دیں گے۔ ایسے ہی حیرت انگیز دلچسپ اور مدلل واقعات اور حقائق سے اس مضمون کی تکمیل ہوئی ہے۔
ڈاکٹر لدمیلا وسیلیوا کی اہمیت اردو ادب میں مسلم ہے، ان کا تعلق روس سے ہے لیکن انھوں نے اردو ادب کی خدمت میں اپنی علیحدہ شناخت بنالی ہے۔ علم شرقیات کے روس کے مرکزی تحقیقی ادارہ Institute of Oriental Studies of the Russian Academy of Science in Moscow کے ادبیاتی شعبے کی محقق ہیں، ڈاکٹر لدمیلا وسیلیوا کے ادبی کاموں پر حیدر قریشی نے بھرپور طریقے سے روشنی ڈالی ہے، ان کا مضمون سے لوگوں کے لیے یقیناً معلومات کے در وا ہوں گے، جو ڈاکٹر لدمیلا کے ادبی کارناموں سے ناواقف ہیں۔
ڈاکٹر لدمیلا کا کام بے حد وقیع ہے، وہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں، انھوں نے 1987 میں مولانا الطاف حسین حالی پر اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ مکمل کیا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اس بات کا بھی علم کم کم لوگوں کو ہے کہ ڈاکٹر لدمیلا نے فیض احمد فیض پر بڑا اہم کام کیا ہے، فیض احمد فیض جب بھی روس جاتے ڈاکٹر لدمیلا ان کے مترجم کے فرائض انجام دیتیں، 1967 سے 1984 تک وہ یہ کام کرتی رہیں، اس دوران میں ڈاکٹر لدمیلا کو فیض صاحب کو قریب سے دیکھنے اور ان کی شاعری کو سمجھنے میں کافی مدد ملی، چنانچہ انھوں نے فیض صاحب پر متعدد مضامین اور ایک کتاب ''پرورش لوح و قلم'' لکھی۔ انھوں نے فیض کے شعر و سخن سے کسب فیض حاصل نہیں کیا بلکہ انھوں نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور اب ان کے مرکز نگاہ ڈاکٹر علامہ اقبال تھے، ڈاکٹر علامہ اقبال پر بھی انھوں نے اردو اور روسی زبانوں میں ایسا کام کیا جو باغ ادب میں ہمیشہ تر و تازہ رہے گا۔
انھیں اسد اللہ خان غالب بھی بے حد متاثر کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے غالب کا روسی زبان میں ترجمہ کیا۔ ان کی اس ادبی خدمات کے اعتراف میں انڈو پاک اور بیرون برصغیر سے کئی ادبی ایوارڈ مل چکے ہیں ۔ 2006 میں صدر پاکستان کی جانب سے ستارہ امتیاز کی حق دار ٹھہریں۔ مصنف نے ڈاکٹر لدمیلا کی دو کتابوں کا تعارف بھی کرایا ہے۔
پہلی کتاب اردو غزل کے ابتدائی دور سے متعلق ہے۔ اردو غزل بحیثیت صنف کا آغاز اور تشکیل اس کے 382 صفحات ہیں، پانچ باقاعدہ ابواب اور ایک تعارف اور ایک اختتامیہ شامل ہیں۔ پانچوں ابواب میں غزل کی خصوصیات، وقت کی رو اور اردو زبان، اردو غزل کا ابتدائی دور، اردو غزل کا بچپن، عبوری اور اردو غزل کا شباب جب کہ ڈاکٹر لدمیلا کی ایک اور کتاب جو ادب، شاعری اور افسانوی ادب کے حوالے سے ہے وہ ابھی زیر تحریر ہے۔ حیدر قریشی اور ڈاکٹر لدمیلا کے درمیان شعر و سخن کے حوالے سے خطوط کا تبادلہ بھی رہا ہے جوکہ اس کتاب میں شامل ہے۔
کتاب میں شامل ''گلزار قلم سے ادب تک''کے عنوان سے ایک بہت اچھی تحریر پڑھنے کو ملتی ہے، برصغیر کے ممتاز گیت کار پر۔ مصنف لکھتے ہیں کہ ''گلزار کی شاعری اور شخصیت دونوں میں ایک انوکھی سی کشش ہے، ہندوستانی فلم انڈسٹری کے ایک ممتاز گیت کار جن کے گیتوں کی اپنی لفظیات اور اپنا ذائقہ ہے۔
''ہم نے دیکھی ہے ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو'' سے لے کر ''سریلی انکھیوں والے'' تک گلزار کے گیت خود بول اٹھتے ہیں کہ ہم گلزار کی تخلیق ہیں، ویسے تو گلزار کا شمار ان چند اہم گیت کاروں میں ہوتا ہے جن کے گیتوں میں ایک ادبی شان ہمیشہ سے موجود رہی ہے، تاہم گلزار اپنے نئے بلکہ جدید لب و لہجے کے باعث اپنے گیتوں کی الگ پہنچان بھی قائم کرتے ہیں۔'' گیت نگاری سے ہٹ کر فلم میکنگ کے مختلف شعبوں میں گلزار کی کارکردگی میں بھی ایک تخلیقی وفور دکھائی دیتا ہے۔ ''آندھی'' اور ''موسم'' کو تو بحیثیت فلم ڈائریکٹر گلزار کی پہچان قرار دیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر رضیہ اسماعیل شاعرہ اور ادیبہ ہیں، تنقیدی و تعارفی مضامین بھی لکھتی ہیں، خاکے بھی لکھتی ہیں، مصنف نے ان کے افسانوی مجموعے ''آدھی چادر'' پر تبصرہ کیا ہے کہ مجموعہ میں 11 کہانیاں ہیں، ان کہانیوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ قاری کو اپنی طرف متوجہ رکھنے میں کامیاب ہیں، افسانہ نگار جس ماحول کی بات کر رہی ہوتی ہیں وہی ماحول اور پوری لفظیات کہانی میں سرائیت کرجاتی ہیں۔ رضیہ اسماعیل کی فنی مہارت کا یہی ثبوت ہے۔ بہرحال کتاب ''مضامین و مباحث'' ایک ایسی کتاب جس کا مطالعہ اہم شخصیات اور ان کی فنکاری کے تعلق سے ادب کی اصناف سے متعارف کرانا ہے۔
مذکورہ کتاب پر لکھنے کی وجہ مصنف کی وہ سچائی اور جرأت ہے جو ان کی تحریروں میں پنہاں ہے، ورنہ فی زمانہ کچھ ایسا ہے کہ لوگ حق کی بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کہیں انھیں کوئی مسئلہ نہ پیش آجائے، جس کے بارے میں وہ لکھ رہے ہیں وہ برا نہ مان جائے، بات آگے نہ بڑھ جائے، لیکن یہاں تو معاملہ الٹ ہے کہ بات کو آگے بڑھانے اور سچائی کے رخ زیبا سے جھوٹ کا پردہ چاک کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ معاشرتی اور اسلامی حوالے سے بھی بلاخوف و خطر حق سے آگاہ کیا گیا ہے۔
یقینی بات ہے جب قرآنی آیات کی تکذیب کی جائے تو ایک مسلمان مصلحت کے تقاضوں کو مدنظر ہرگز نہیں رکھتا ہے بلکہ اسے تو تسکین دل اور اللہ کی رضا چاہیے اور بس، باقی اللہ ہی مجاہد کا حامی و ناصر ہوتا ہے۔ کتاب کا پہلا مضمون ایک سیمینار کے حوالے سے ہے جو گلبرگہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو و فارسی کی جانب سے منعقد ہوا تھا۔
مصنف ابتدائی سطور میں لکھتے ہیں کہ ''ہماری داستانوں میں اڑتے ہوئے دیو، جن، پریاں، اڑن قالین اور اڑن طشتریاں آج تیز رفتار طیاروں اور خلائی تسخیر میں مصروف راکٹس اور سیاروں کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں، ایران کے بادشاہ جمشید کا جام جہاں نما ہمارے لیے ایک افسانہ ہی تھا لیکن آج کا اسمارٹ فون جام جمشید سے کہیں آگے پہنچ چکا ہے، علی بابا کی کہانی میں کھل جا سم سم، کا اسم بولنے سے دروازہ کھلتا تھا لیکن آج کی سپر مارکیٹوں کے خودکار دروازے ہمارے پہنچتے ہی کسی اسم کے بغیر کھل جاتے ہیں۔
پرانی داستانوں میں سلیمانی ٹوپی کے ساتھ اس سے ملتی جلتی حاضر و موجود ہوتے ہوئے نظروں سے اوجھل رہنے والی کہانیاں ملتی ہیں۔ وہ آگے بتاتے ہیں کہ اب ایک کیمیائی مادہ تیار کرلیا گیا ہے جسے Metameterials کا نام دیا گیا ہے، یہ کیمیائی مادہ جس شے پر لگا دیا جائے وہ دکھائی نہیں دے گی، یہ مادہ انسان سے لے کر ڈرون طیاروں تک اگر اس مادہ سے پینٹ کردیا جائے تو وہ دکھائی نہ دیں گے۔ ایسے ہی حیرت انگیز دلچسپ اور مدلل واقعات اور حقائق سے اس مضمون کی تکمیل ہوئی ہے۔
ڈاکٹر لدمیلا وسیلیوا کی اہمیت اردو ادب میں مسلم ہے، ان کا تعلق روس سے ہے لیکن انھوں نے اردو ادب کی خدمت میں اپنی علیحدہ شناخت بنالی ہے۔ علم شرقیات کے روس کے مرکزی تحقیقی ادارہ Institute of Oriental Studies of the Russian Academy of Science in Moscow کے ادبیاتی شعبے کی محقق ہیں، ڈاکٹر لدمیلا وسیلیوا کے ادبی کاموں پر حیدر قریشی نے بھرپور طریقے سے روشنی ڈالی ہے، ان کا مضمون سے لوگوں کے لیے یقیناً معلومات کے در وا ہوں گے، جو ڈاکٹر لدمیلا کے ادبی کارناموں سے ناواقف ہیں۔
ڈاکٹر لدمیلا کا کام بے حد وقیع ہے، وہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں، انھوں نے 1987 میں مولانا الطاف حسین حالی پر اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ مکمل کیا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اس بات کا بھی علم کم کم لوگوں کو ہے کہ ڈاکٹر لدمیلا نے فیض احمد فیض پر بڑا اہم کام کیا ہے، فیض احمد فیض جب بھی روس جاتے ڈاکٹر لدمیلا ان کے مترجم کے فرائض انجام دیتیں، 1967 سے 1984 تک وہ یہ کام کرتی رہیں، اس دوران میں ڈاکٹر لدمیلا کو فیض صاحب کو قریب سے دیکھنے اور ان کی شاعری کو سمجھنے میں کافی مدد ملی، چنانچہ انھوں نے فیض صاحب پر متعدد مضامین اور ایک کتاب ''پرورش لوح و قلم'' لکھی۔ انھوں نے فیض کے شعر و سخن سے کسب فیض حاصل نہیں کیا بلکہ انھوں نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور اب ان کے مرکز نگاہ ڈاکٹر علامہ اقبال تھے، ڈاکٹر علامہ اقبال پر بھی انھوں نے اردو اور روسی زبانوں میں ایسا کام کیا جو باغ ادب میں ہمیشہ تر و تازہ رہے گا۔
انھیں اسد اللہ خان غالب بھی بے حد متاثر کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے غالب کا روسی زبان میں ترجمہ کیا۔ ان کی اس ادبی خدمات کے اعتراف میں انڈو پاک اور بیرون برصغیر سے کئی ادبی ایوارڈ مل چکے ہیں ۔ 2006 میں صدر پاکستان کی جانب سے ستارہ امتیاز کی حق دار ٹھہریں۔ مصنف نے ڈاکٹر لدمیلا کی دو کتابوں کا تعارف بھی کرایا ہے۔
پہلی کتاب اردو غزل کے ابتدائی دور سے متعلق ہے۔ اردو غزل بحیثیت صنف کا آغاز اور تشکیل اس کے 382 صفحات ہیں، پانچ باقاعدہ ابواب اور ایک تعارف اور ایک اختتامیہ شامل ہیں۔ پانچوں ابواب میں غزل کی خصوصیات، وقت کی رو اور اردو زبان، اردو غزل کا ابتدائی دور، اردو غزل کا بچپن، عبوری اور اردو غزل کا شباب جب کہ ڈاکٹر لدمیلا کی ایک اور کتاب جو ادب، شاعری اور افسانوی ادب کے حوالے سے ہے وہ ابھی زیر تحریر ہے۔ حیدر قریشی اور ڈاکٹر لدمیلا کے درمیان شعر و سخن کے حوالے سے خطوط کا تبادلہ بھی رہا ہے جوکہ اس کتاب میں شامل ہے۔
کتاب میں شامل ''گلزار قلم سے ادب تک''کے عنوان سے ایک بہت اچھی تحریر پڑھنے کو ملتی ہے، برصغیر کے ممتاز گیت کار پر۔ مصنف لکھتے ہیں کہ ''گلزار کی شاعری اور شخصیت دونوں میں ایک انوکھی سی کشش ہے، ہندوستانی فلم انڈسٹری کے ایک ممتاز گیت کار جن کے گیتوں کی اپنی لفظیات اور اپنا ذائقہ ہے۔
''ہم نے دیکھی ہے ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو'' سے لے کر ''سریلی انکھیوں والے'' تک گلزار کے گیت خود بول اٹھتے ہیں کہ ہم گلزار کی تخلیق ہیں، ویسے تو گلزار کا شمار ان چند اہم گیت کاروں میں ہوتا ہے جن کے گیتوں میں ایک ادبی شان ہمیشہ سے موجود رہی ہے، تاہم گلزار اپنے نئے بلکہ جدید لب و لہجے کے باعث اپنے گیتوں کی الگ پہنچان بھی قائم کرتے ہیں۔'' گیت نگاری سے ہٹ کر فلم میکنگ کے مختلف شعبوں میں گلزار کی کارکردگی میں بھی ایک تخلیقی وفور دکھائی دیتا ہے۔ ''آندھی'' اور ''موسم'' کو تو بحیثیت فلم ڈائریکٹر گلزار کی پہچان قرار دیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر رضیہ اسماعیل شاعرہ اور ادیبہ ہیں، تنقیدی و تعارفی مضامین بھی لکھتی ہیں، خاکے بھی لکھتی ہیں، مصنف نے ان کے افسانوی مجموعے ''آدھی چادر'' پر تبصرہ کیا ہے کہ مجموعہ میں 11 کہانیاں ہیں، ان کہانیوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ قاری کو اپنی طرف متوجہ رکھنے میں کامیاب ہیں، افسانہ نگار جس ماحول کی بات کر رہی ہوتی ہیں وہی ماحول اور پوری لفظیات کہانی میں سرائیت کرجاتی ہیں۔ رضیہ اسماعیل کی فنی مہارت کا یہی ثبوت ہے۔ بہرحال کتاب ''مضامین و مباحث'' ایک ایسی کتاب جس کا مطالعہ اہم شخصیات اور ان کی فنکاری کے تعلق سے ادب کی اصناف سے متعارف کرانا ہے۔