جمہوریت ہی کیوں
معاشی اور صنعتی ترقی تو بے شمار ہوئی لیکن اس کے اثرات نچلی سطح تک نہ پہنچ سکے۔
TEHRAN:
ملک جمہوریت یعنی عوام کے لیے بنتا ہے لیکن اگر ڈکٹیٹر اس پر قبضہ کر لے تو وہ اس کو کسی اور ہی پٹری پر لگا دیتا ہے۔ ۔ پاکستان کی ستر سالہ عمر عزیز میں زیادہ تر حکمرانی کا مزہ فوج نے لوٹا اور اس ملک پر حقیقی معنوں میں حکمرانی کی جس کے گواہ ہم سب ہیں۔
ایوب خان کے دور میں پاکستان میں جس خوشحالی کا آغاز ہوا اس کے بھی گواہ ہیں اور یحییٰ خان کا دور بھی دیکھا ہوا ہے جب فوجی حکمران کچھ اور چاہ رہا تھا اور سیاسی حکمران کو اپنی حکومت کی فکر تھی کہ چاہے آدھے حصہ پر ہو مگر حکومت اس کی بن جائے اور اسی چاہ میں ملک ٹوٹ گیا۔ مرد مومن مرد حق ضیاء الحق کی حکمرانی کو بھی بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا اور ابھی تک فوجی حکمرانی کا آخری دور ہم نے پرویز مشرف کے حال میں بھی دیکھا۔
یحیٰ خان کے دورحکمرانی کے میں ملک دو لخت ہو گیا اور ہم جس کرب سے گزرے اس کا اندازہ ہم سے زیادہ ان بنگالیوں کو ہے جو ابھی تک پاکستان کی محبت میں بنگلہ دیش میں کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور بہت سارے لیڈر حضرات جن میں سے بیشتر کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا ان کو پاکستان سے محبت کے گناہ میں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا اور یہ کوئی پرانی بات نہیں بلکہ ابھی پچھلے سال ہی بنگلہ دیش کی حکومت نے ان رہنماؤں کو سزا دی ہے۔
اس بحث میں پڑے بغیر کہ پاکستان کو دولخت کرنے میں فوج کا قصور تھا یا بھٹو کی سول حکومت قصوروار تھی ہر دو صورت میں پاکستان کے دو ٹکرے ہو گئے اور ہم سب سویلین اور فوج اس کو دیکھتے رہ گئے۔ ایوب خان کے مارشل لاء کے دوران ملک ترقی کی راہ پر چل پڑا تھا اور ملک میں صنعتیں اور کارخانے بھی لگنے شروع ہو گئے تھے لیکن وہ اس ترقی کی کوئی سمت متعین نہ کر سکے گو کہ ترقی ہوتی تو دکھائی دی لیکن بے ہنگم ترقی جس کے دور رس نتائج نہ نکل سکے اور صنعتی اور زرعی اصلاحات کے باوجود اس کے خاطر خواہ نتائج نہ نکل سکے بلکہ جو پیداوار پہلے ہو رہی تھی وہ بھی بد انتظامی کی وجہ سے ختم ہو گئی اور ترقی کا سفر ترقی کے شور و غوغا میں دب گیا۔
معاشی اور صنعتی ترقی تو بے شمار ہوئی لیکن اس کے اثرات نچلی سطح تک نہ پہنچ سکے۔ امارت اور غربت کا فاصلہ بڑھتا چلا گیا قومی دولت چند خاندانوں میں مرتکز ہو گئی۔ ان کے بعد آنے والی سو یلین حکومت کو صنعتکاروں اور زمیندار وں کے پاس جمع دولت ہضم نہیں ہو پا رہی تھی انھوں نے یہ دولت نکلوانے کے لیے طریقہ نکالا کہ ان کی صنعتوں کو قومیا لیا گیا اور مزید زرعی اصلاحات کے ذریعے زمینداروں سے زمینیں چھین کر حکومتی تحویل میں لے کر بعد میں اپنے منظور نظر افراد کو الاٹ کر دی گئیں اور جو کارخانے حکومت نے اپنی تحویل میں لیے تھے ان کو سنبھالا نہ جا سکا ان کی کارکردگی بہتر ہونے کے بجائے ابتر ہو گئی اور حکومت کے گلے پڑ گئی۔
محترم ضیاء الحق نے عوام کو اسلام پر لگا دیا اور اپنا مشہور و معروف ریفرینڈم کرایا جس کا مقصد کچھ اور نہیں اپنے اقتدار کو طول دینا تھا گو کہ وہ مارشل لائی حکمران تھے لیکن انھوں نے جس ہنر کے ساتھ اپنے وقت کی دو بڑی طاقتوں کو آپس میں لڑا کر اپنے ملک کو ان سے بچایا وہ اپنی مثال آپ ہے کہ ہم اس وقت اس پوزیشن میں نہ تھے ان دو سپر پاورز میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی محاذ آرائی کر سکتے وقت کا تقاضا یہی تھا کہ اپنے کارڈ عقلمندی سے کھیل کر اپنے اوپر مسلط ہونے والی جنگ کو ٹالا جا سکے جس میں وہ کامیاب رہے لیکن اس کے نقصان کا شاید ان کو اس وقت اندازہ نہ تھا کہ ملک میں اسلحے کی بہتات ہو گئی اور ہماری دفاعی لائن شمالی علاقہ جات میں امریکا سوویت یونین جنگ کے بعد جو جنگجو دوسرے ملکوں سے جہاد کے لیے آئے تھے وہ یہیں بس گئے اور ان میں سے زیادہ تعداد ہمارے شمالی علاقوں میں قیام پذیر ہو گئی جس کا نقصان بعد میں ہمیں بھگتنا پڑا اور پڑ رہا ہے جب امریکا اور القاعدہ جنگ میں ہم نے بہ امر مجبوری امریکا کا ساتھ دیا جس کے خمیازہ میں ہمارے شمالی علاقوں میں برسوں سے مقیم یہ جنگجو اور ان کے حمایتی ہمارے اور ہمارے اتحادی امریکا کے خلاف ہو گئے اور ملک میں امن و امان کی حالت ابتری کا شکار ہو گئی۔
ہمارے سابق ڈکٹیٹر حکمران پرویز مشرف فرماتے ہیں کہ سول حکومتوں کے دور میں ملک تباہی کی طرف گیا اور فوجی دور میں جو ترقی ہوتی ہے سویلین حکومت آ کر اسے ختم کر دیتی ہے۔ ویسے تو جمہوریت کے بارے میں اقبال جیسے دانشوروں کو بھی کئی تحفظات تھے۔
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں شرح خواندگی کم ہے وہاں جمہوریت مقبول ترین طرز حکومت ہونے کے باوجود کئی عملی کمزوریوں کا شکار رہتی ہے۔ پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں اوسط سالانہ آمدنی کی شرح فوجی حکومتوں کے دوران بلند ترین سطح پر رہی جب کہ جمہوری حکومتوں میں یہ مقابلتاً بہت نیچی سطح پر چلی گئی۔ ترقی نظر آنے کی حد تک ان کی بات صحیح ہے لیکن فوجی ادوار میں ہونے والی ترقی کھوکھلی ہو تی ہے جس کی بنیادیں مضبوط نہیں ہو تیں۔ معاشی ترقی کے نظر آنے والے مثبت اشارے طویل مدتی شرح نمود کے ضامن نہیں ہوتے۔
ریاستی ادارے جمہوری روایات سے دور ہو جاتے ہیں جس کے نقصانات بعد میں ظاہر ہوتے ہیں۔ جمہوریت کو چلانے کے لیے محض ایک اچھی حکومت ہی نہیں اچھی شہریت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ناخواندہ، غلامانہ ذہنیت کا شکار کرپٹ اشرافیہ سے مرعوب شہری جمہوریت جیسے نازک طرز حکومت کے متحمل نہیںہو سکتے۔ جمہوریت کو رواں دواں رکھنے کے لیے باشعور شہریوں کی مسلسل کاوشیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ بہرحال بد ترین جمہوریت کو بھی بہترین حاکمیت سے بہتر سمجھا جاتا ہے اور بری جمہوریت کو بھی ایک نعمت سمجھا جاتا ہے۔ اسے ہمارے ایک شاعر نے سلطانی جمہور کہا ہے۔
ملک جمہوریت یعنی عوام کے لیے بنتا ہے لیکن اگر ڈکٹیٹر اس پر قبضہ کر لے تو وہ اس کو کسی اور ہی پٹری پر لگا دیتا ہے۔ ۔ پاکستان کی ستر سالہ عمر عزیز میں زیادہ تر حکمرانی کا مزہ فوج نے لوٹا اور اس ملک پر حقیقی معنوں میں حکمرانی کی جس کے گواہ ہم سب ہیں۔
ایوب خان کے دور میں پاکستان میں جس خوشحالی کا آغاز ہوا اس کے بھی گواہ ہیں اور یحییٰ خان کا دور بھی دیکھا ہوا ہے جب فوجی حکمران کچھ اور چاہ رہا تھا اور سیاسی حکمران کو اپنی حکومت کی فکر تھی کہ چاہے آدھے حصہ پر ہو مگر حکومت اس کی بن جائے اور اسی چاہ میں ملک ٹوٹ گیا۔ مرد مومن مرد حق ضیاء الحق کی حکمرانی کو بھی بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا اور ابھی تک فوجی حکمرانی کا آخری دور ہم نے پرویز مشرف کے حال میں بھی دیکھا۔
یحیٰ خان کے دورحکمرانی کے میں ملک دو لخت ہو گیا اور ہم جس کرب سے گزرے اس کا اندازہ ہم سے زیادہ ان بنگالیوں کو ہے جو ابھی تک پاکستان کی محبت میں بنگلہ دیش میں کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور بہت سارے لیڈر حضرات جن میں سے بیشتر کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا ان کو پاکستان سے محبت کے گناہ میں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا اور یہ کوئی پرانی بات نہیں بلکہ ابھی پچھلے سال ہی بنگلہ دیش کی حکومت نے ان رہنماؤں کو سزا دی ہے۔
اس بحث میں پڑے بغیر کہ پاکستان کو دولخت کرنے میں فوج کا قصور تھا یا بھٹو کی سول حکومت قصوروار تھی ہر دو صورت میں پاکستان کے دو ٹکرے ہو گئے اور ہم سب سویلین اور فوج اس کو دیکھتے رہ گئے۔ ایوب خان کے مارشل لاء کے دوران ملک ترقی کی راہ پر چل پڑا تھا اور ملک میں صنعتیں اور کارخانے بھی لگنے شروع ہو گئے تھے لیکن وہ اس ترقی کی کوئی سمت متعین نہ کر سکے گو کہ ترقی ہوتی تو دکھائی دی لیکن بے ہنگم ترقی جس کے دور رس نتائج نہ نکل سکے اور صنعتی اور زرعی اصلاحات کے باوجود اس کے خاطر خواہ نتائج نہ نکل سکے بلکہ جو پیداوار پہلے ہو رہی تھی وہ بھی بد انتظامی کی وجہ سے ختم ہو گئی اور ترقی کا سفر ترقی کے شور و غوغا میں دب گیا۔
معاشی اور صنعتی ترقی تو بے شمار ہوئی لیکن اس کے اثرات نچلی سطح تک نہ پہنچ سکے۔ امارت اور غربت کا فاصلہ بڑھتا چلا گیا قومی دولت چند خاندانوں میں مرتکز ہو گئی۔ ان کے بعد آنے والی سو یلین حکومت کو صنعتکاروں اور زمیندار وں کے پاس جمع دولت ہضم نہیں ہو پا رہی تھی انھوں نے یہ دولت نکلوانے کے لیے طریقہ نکالا کہ ان کی صنعتوں کو قومیا لیا گیا اور مزید زرعی اصلاحات کے ذریعے زمینداروں سے زمینیں چھین کر حکومتی تحویل میں لے کر بعد میں اپنے منظور نظر افراد کو الاٹ کر دی گئیں اور جو کارخانے حکومت نے اپنی تحویل میں لیے تھے ان کو سنبھالا نہ جا سکا ان کی کارکردگی بہتر ہونے کے بجائے ابتر ہو گئی اور حکومت کے گلے پڑ گئی۔
محترم ضیاء الحق نے عوام کو اسلام پر لگا دیا اور اپنا مشہور و معروف ریفرینڈم کرایا جس کا مقصد کچھ اور نہیں اپنے اقتدار کو طول دینا تھا گو کہ وہ مارشل لائی حکمران تھے لیکن انھوں نے جس ہنر کے ساتھ اپنے وقت کی دو بڑی طاقتوں کو آپس میں لڑا کر اپنے ملک کو ان سے بچایا وہ اپنی مثال آپ ہے کہ ہم اس وقت اس پوزیشن میں نہ تھے ان دو سپر پاورز میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی محاذ آرائی کر سکتے وقت کا تقاضا یہی تھا کہ اپنے کارڈ عقلمندی سے کھیل کر اپنے اوپر مسلط ہونے والی جنگ کو ٹالا جا سکے جس میں وہ کامیاب رہے لیکن اس کے نقصان کا شاید ان کو اس وقت اندازہ نہ تھا کہ ملک میں اسلحے کی بہتات ہو گئی اور ہماری دفاعی لائن شمالی علاقہ جات میں امریکا سوویت یونین جنگ کے بعد جو جنگجو دوسرے ملکوں سے جہاد کے لیے آئے تھے وہ یہیں بس گئے اور ان میں سے زیادہ تعداد ہمارے شمالی علاقوں میں قیام پذیر ہو گئی جس کا نقصان بعد میں ہمیں بھگتنا پڑا اور پڑ رہا ہے جب امریکا اور القاعدہ جنگ میں ہم نے بہ امر مجبوری امریکا کا ساتھ دیا جس کے خمیازہ میں ہمارے شمالی علاقوں میں برسوں سے مقیم یہ جنگجو اور ان کے حمایتی ہمارے اور ہمارے اتحادی امریکا کے خلاف ہو گئے اور ملک میں امن و امان کی حالت ابتری کا شکار ہو گئی۔
ہمارے سابق ڈکٹیٹر حکمران پرویز مشرف فرماتے ہیں کہ سول حکومتوں کے دور میں ملک تباہی کی طرف گیا اور فوجی دور میں جو ترقی ہوتی ہے سویلین حکومت آ کر اسے ختم کر دیتی ہے۔ ویسے تو جمہوریت کے بارے میں اقبال جیسے دانشوروں کو بھی کئی تحفظات تھے۔
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں شرح خواندگی کم ہے وہاں جمہوریت مقبول ترین طرز حکومت ہونے کے باوجود کئی عملی کمزوریوں کا شکار رہتی ہے۔ پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں اوسط سالانہ آمدنی کی شرح فوجی حکومتوں کے دوران بلند ترین سطح پر رہی جب کہ جمہوری حکومتوں میں یہ مقابلتاً بہت نیچی سطح پر چلی گئی۔ ترقی نظر آنے کی حد تک ان کی بات صحیح ہے لیکن فوجی ادوار میں ہونے والی ترقی کھوکھلی ہو تی ہے جس کی بنیادیں مضبوط نہیں ہو تیں۔ معاشی ترقی کے نظر آنے والے مثبت اشارے طویل مدتی شرح نمود کے ضامن نہیں ہوتے۔
ریاستی ادارے جمہوری روایات سے دور ہو جاتے ہیں جس کے نقصانات بعد میں ظاہر ہوتے ہیں۔ جمہوریت کو چلانے کے لیے محض ایک اچھی حکومت ہی نہیں اچھی شہریت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ناخواندہ، غلامانہ ذہنیت کا شکار کرپٹ اشرافیہ سے مرعوب شہری جمہوریت جیسے نازک طرز حکومت کے متحمل نہیںہو سکتے۔ جمہوریت کو رواں دواں رکھنے کے لیے باشعور شہریوں کی مسلسل کاوشیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ بہرحال بد ترین جمہوریت کو بھی بہترین حاکمیت سے بہتر سمجھا جاتا ہے اور بری جمہوریت کو بھی ایک نعمت سمجھا جاتا ہے۔ اسے ہمارے ایک شاعر نے سلطانی جمہور کہا ہے۔