پرانی کاروں کی غیر قانونی درآمد کی تحقیقات کا مطالبہ
اوورسیز پاکستانیوں کو دی گئی سہولت کاغلط استعمال، خزانے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
آٹو صنعت کے متعلقین نے پالیسی سازوں سے مطالبہ کیا ہے کہ استعمال شدہ کاروں کی غیر قانونی درآمد کے کاروبار کی تحقیقات کریں جس سے کاروں کی بندرگاہوں پرکلیئرنس کے سلسلے میں سنگین نااہلی اور مشکوک حرکات کی وجہ سے قومی خزانے کو زرمبادلہ اور ریونیو کی مد میں کئی ملین ڈالر کا نقصان پہنچ رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کے اگلے اجلاس میں آٹو صنعت سے متعلق مسائل پر تبادلہ خیال کیا جائے گا جبکہ صنعت نے سرکاری اہل کاروں اور اس کے ساتھ آٹو ڈیلروں کی کرپشن کے خاتمے کے اقدام کے طور پر سمندر پار پاکستانیوں کو گاڑیوں کی منتقلی کے سلسلے میں دی جانی والے سہولت کے غلط استعمال کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلیے پرسنل بیگیج اسکیم، رہائش کی منتقلی اور گفٹ اسکیم کا ایک بڑی سطح پر غلط استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ تاجران جعلی دستاویزات پر استعمال شدہ کاروں کو درآمد کرتے ہوئے لاکھوں کروڑوں روپے ہڑپ کر رہے ہیں، امید ہے کہ ایف بی آر بھی ان تحقیقات کا آغاز کرنے والا ہے کہ کس طرح یہ کاریں ایک بہت بڑی تعداد میں کلیئر کی جارہی ہیں جبکہ موقع پر کوئی اصل مالک یا وہ فرد موجود نہیں ہوتا جس کے نام وہ گاڑی منتقل کی جارہی ہو۔
حکومت کو چاہیے کہ بیرون ملک سے آنے والی استعمال شدہ کاروں کی بھرمار پر قابوپائے چاہے وہ 3 سال تک استعمال ہوئی ہیں یا 5 سال تک اور اس مقصد کیلیے ملک میں دی گئی گفٹ پالیسی کے غلط استعمال کو مانیٹر کرے، ورنہ اس کاروبار میں شامل محکمے اپنے آپ کو کرپشن سے پاک نہیں رکھ پائیں گے، آٹوسیکٹر نے گزشتہ دو برسوں میں اربوں کا نقصان برداشت کیا ہے اور اسے اب مستقبل میں سرمایہ کاروں اور کاروباری افراد کا اعتماد بحال کرنے کیلیے طویل المدت محتاط حکومتی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔
ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کے اگلے اجلاس میں آٹو صنعت سے متعلق مسائل پر تبادلہ خیال کیا جائے گا جبکہ صنعت نے سرکاری اہل کاروں اور اس کے ساتھ آٹو ڈیلروں کی کرپشن کے خاتمے کے اقدام کے طور پر سمندر پار پاکستانیوں کو گاڑیوں کی منتقلی کے سلسلے میں دی جانی والے سہولت کے غلط استعمال کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلیے پرسنل بیگیج اسکیم، رہائش کی منتقلی اور گفٹ اسکیم کا ایک بڑی سطح پر غلط استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ تاجران جعلی دستاویزات پر استعمال شدہ کاروں کو درآمد کرتے ہوئے لاکھوں کروڑوں روپے ہڑپ کر رہے ہیں، امید ہے کہ ایف بی آر بھی ان تحقیقات کا آغاز کرنے والا ہے کہ کس طرح یہ کاریں ایک بہت بڑی تعداد میں کلیئر کی جارہی ہیں جبکہ موقع پر کوئی اصل مالک یا وہ فرد موجود نہیں ہوتا جس کے نام وہ گاڑی منتقل کی جارہی ہو۔
حکومت کو چاہیے کہ بیرون ملک سے آنے والی استعمال شدہ کاروں کی بھرمار پر قابوپائے چاہے وہ 3 سال تک استعمال ہوئی ہیں یا 5 سال تک اور اس مقصد کیلیے ملک میں دی گئی گفٹ پالیسی کے غلط استعمال کو مانیٹر کرے، ورنہ اس کاروبار میں شامل محکمے اپنے آپ کو کرپشن سے پاک نہیں رکھ پائیں گے، آٹوسیکٹر نے گزشتہ دو برسوں میں اربوں کا نقصان برداشت کیا ہے اور اسے اب مستقبل میں سرمایہ کاروں اور کاروباری افراد کا اعتماد بحال کرنے کیلیے طویل المدت محتاط حکومتی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔