ٹاک شوز کے نئے مہمان
ٹاک شوز کا اصل کام سیاست، معاشرت اور معیشت کے حوالے سے عوام میں بیداری پیدا کرنا ہے
ہمارے عوام کی بھاری اکثریت اکیسویں صدی میں بھی انیسویں صدی کے علم اور معلومات سے لیس ہے، زمین کو ہی کل کائنات سمجھتی ہے، آسمان کے بارے میں اس کا علم تصوراتی ہے، اسے اتنا معلوم ہے کہ ستارے آسمان سے جڑے ہوئے ہیں، چاند کے بارے میں اس کا علم بڑھیا کے چرخہ کاتنے اور دو ٹکڑے ہونے تک محدود ہے، سورج کے بارے میں عوام صرف اتنا جانتے ہیں کہ سورج ہمیں روشنی پہنچانے کی ذمے داری ادا کرتا ہے، زلزلے، سمندری طوفان ہمارے گناہوں کی سزا میں نازل ہوتے ہیں، غربت ہمارے مقدر کا نتیجہ ہے۔
اس قسم کی معلومات صدیوں سے چلی آ رہی ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم جدید علوم سے نہ صرف ناواقف ہیں بلکہ ان علوم کو دین و ایمان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اس طرز فکر کی وجہ سے ہم جدید معاشروں سے صدیوں پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس لاعلمی اور جہل کا ذمے دار ہمارا حکمران طبقہ ہے۔ وہ پوری سمجھ بوجھ کے ساتھ عوام کو سائنسی علوم سے بے خبر رکھتا ہے، رہی سہی کسر علم اور معلومات سے بے بہرہ دینی اکابرین پوری کرتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
الیکٹرانک میڈیا کی خوبی یہ ہے کہ ملک کے چپے چپے تک اس کی رسائی ہے۔ اگر الیکٹرانک میڈیا عوام میں آگہی اور سائنسی طرز فکر پیدا کرنے کی پلاننگ کرے تو ہماری قوم دنیا اور اس کی حقیقت سمیت چاند سورج زمین آسمان اور کائنات کے اسرار سے واقف ہو سکتی ہے اور ناخواندہ عوام بھی بڑی حد تک سائنسی علوم سے واقف ہو کر دقیانوسی طرز فکر سے نجات پا سکتے ہیں۔
یہ کام حکومتوں کا ہے کہ وہ نئی نسلوں کو سائنسی علوم سے واقف کرانے کے لیے روایتی فرسودہ علوم کو بچوں کے نصاب سے نکال کر جدید سائنسی علوم کو نصاب کا حصہ بنائے لیکن چونکہ عوام کی ناخواندگی اور فکری پسماندگی ان طبقات کے مفاد میں ہے، لہٰذا وہ کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ عوام باشعور ہوں اور غربت اور امارت کے اسرار سے واقف ہوں۔ قسمت کے چکر سے باہر آئیں۔
ٹاک شوز ہمارے الیکٹرانک میڈیا کا ایک اہم حصہ ہے لیکن ٹاک شوز کو سیاستدانوں کی غلاظتوں کا اکھاڑہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور اشرافیہ کا محافظ بنا کر رکھ دیا گیا ہے، ہمارے ملک میں 70 سال سے زمینی اور صنعتی اشرافیہ سیاست اور اقتدار پر قابض ہے اور گنتی کے چند خاندان سیاست اور اقتدار پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ ٹاک شوز اشرافیہ کے محور پر گھومتے رہتے ہیں، چند اشرافیائی خاندانوں کے بادشاہوں، شہزادوں، شہزادیوں اور ملکاؤں کی پبلسٹی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، ان خاندانوں کے اقتداری تضادات ہمارے ٹاک شوز کا مرکزی موضوع بن گئے ہیں۔
یہ صورتحال 70 سال سے جاری ہے لیکن پاناما لیکس کے انکشافات کے بعد تو صورتحال ایکدم بدل گئی ہے، حکمران طبقے کی بدعنوانیاں اب ٹاک شوز کا مرکزی موضوع بن گئی ہیں۔ پاناما لیکس میں حکمران خاندان کے ملوث ہونے کے انکشافات کے بعد صورتحال یہ رہی کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کے خلاف الزامات اور جوابی الزامات کی ایسی مہم چلا رہے تھے کہ اللہ کی پناہ۔ اب جب کہ سابقہ وزیراعظم نااہل ہوکر کرسی صدارت سے اتر بھی چکے ہیں لیکن الزامات در الزامات اور کردار کشی کے یہ مکروہ کھیل ٹاک شوز میں اب تک جاری ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا سیاستدانوں کے گندے پوتڑے دھونے کا گھاٹ بنا ہوا ہے اور بے چارے عوام حیرت سے اس شرمناک دنگل کو دیکھ رہے ہیں۔
ٹاک شوز کا اصل کام سیاست، معاشرت اور معیشت کے حوالے سے عوام میں بیداری پیدا کرنا ہے، لیکن بدقسمتی سے ٹاک شوز الزامات اور جوابی الزامات کا گڑھ بن گئے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ سیاست کے اس کھیل میں الزام تراشی اور جوابی الزام کے دوران سیاسی گماشتے ٹاک شوز میں اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرتے دکھائی دیتے ہیں، نہ صرف حریف کی کردار کشی بلکہ ملکی آئین اور عدلیہ تک کی توہین کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔
ہم نے اپنے کالم کا آغاز سائنسی جدید علوم کی ترویج کے حوالے سے کیا تھا کہ ہمارے عوام ماضی کے دھندلکوں سے باہر نکلیں اور اکیسویں صدی کی سائنسی ترقی سے واقف ہوں تاکہ وہ فکری حوالوں سے جدید دنیا کے ہم قدم ہوکر ملک و قوم کو ترقی یافتہ دنیا کے ہم پلہ بنا سکیں۔ ہمارے حکمران طبقات پورے شعور کے ساتھ عوام کو ذہنی پسماندگی میں ہی مبتلا رکھنا چاہتے ہیں تا کہ انتخابات میں وہ عوام کا نام نہاد مینڈیٹ لے کر عوام کے سروں پر پانچ سال تک سوار رہنے کا حق حاصل کر لیں اور اربوں روپوں کی لوٹ مار کرتے رہیں۔
زمین کیا ہے، چاند کیا ہے، سورج کیا ہے، آسمان کیا ہے، کائنات کیا ہے؟ ان سوالوں کے جوابات حاصل کیے بغیر کوئی قوم ترقی یافتہ نہیں بن سکتی اور اس کے لیے ٹاک شوز میں سیاسی مرغوں کو مدعو کرنے کے بجائے سائنسدانوں، ترقی پسند ماہرین معاشیات، ماہرین ارضیات، ماہرین فلکیات، دانشوروں، مفکروں، اہل علم، ادیبوں، شاعروں، فنکاروں کو ٹاک شوز میں بلایا جانا چاہیے تاکہ علم و شعور سے محروم عوام باشعور بن جائیں اور ٹاک شوز کی گندگیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہو سکیں۔
اس قسم کی معلومات صدیوں سے چلی آ رہی ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم جدید علوم سے نہ صرف ناواقف ہیں بلکہ ان علوم کو دین و ایمان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اس طرز فکر کی وجہ سے ہم جدید معاشروں سے صدیوں پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس لاعلمی اور جہل کا ذمے دار ہمارا حکمران طبقہ ہے۔ وہ پوری سمجھ بوجھ کے ساتھ عوام کو سائنسی علوم سے بے خبر رکھتا ہے، رہی سہی کسر علم اور معلومات سے بے بہرہ دینی اکابرین پوری کرتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
الیکٹرانک میڈیا کی خوبی یہ ہے کہ ملک کے چپے چپے تک اس کی رسائی ہے۔ اگر الیکٹرانک میڈیا عوام میں آگہی اور سائنسی طرز فکر پیدا کرنے کی پلاننگ کرے تو ہماری قوم دنیا اور اس کی حقیقت سمیت چاند سورج زمین آسمان اور کائنات کے اسرار سے واقف ہو سکتی ہے اور ناخواندہ عوام بھی بڑی حد تک سائنسی علوم سے واقف ہو کر دقیانوسی طرز فکر سے نجات پا سکتے ہیں۔
یہ کام حکومتوں کا ہے کہ وہ نئی نسلوں کو سائنسی علوم سے واقف کرانے کے لیے روایتی فرسودہ علوم کو بچوں کے نصاب سے نکال کر جدید سائنسی علوم کو نصاب کا حصہ بنائے لیکن چونکہ عوام کی ناخواندگی اور فکری پسماندگی ان طبقات کے مفاد میں ہے، لہٰذا وہ کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ عوام باشعور ہوں اور غربت اور امارت کے اسرار سے واقف ہوں۔ قسمت کے چکر سے باہر آئیں۔
ٹاک شوز ہمارے الیکٹرانک میڈیا کا ایک اہم حصہ ہے لیکن ٹاک شوز کو سیاستدانوں کی غلاظتوں کا اکھاڑہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور اشرافیہ کا محافظ بنا کر رکھ دیا گیا ہے، ہمارے ملک میں 70 سال سے زمینی اور صنعتی اشرافیہ سیاست اور اقتدار پر قابض ہے اور گنتی کے چند خاندان سیاست اور اقتدار پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ ٹاک شوز اشرافیہ کے محور پر گھومتے رہتے ہیں، چند اشرافیائی خاندانوں کے بادشاہوں، شہزادوں، شہزادیوں اور ملکاؤں کی پبلسٹی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، ان خاندانوں کے اقتداری تضادات ہمارے ٹاک شوز کا مرکزی موضوع بن گئے ہیں۔
یہ صورتحال 70 سال سے جاری ہے لیکن پاناما لیکس کے انکشافات کے بعد تو صورتحال ایکدم بدل گئی ہے، حکمران طبقے کی بدعنوانیاں اب ٹاک شوز کا مرکزی موضوع بن گئی ہیں۔ پاناما لیکس میں حکمران خاندان کے ملوث ہونے کے انکشافات کے بعد صورتحال یہ رہی کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کے خلاف الزامات اور جوابی الزامات کی ایسی مہم چلا رہے تھے کہ اللہ کی پناہ۔ اب جب کہ سابقہ وزیراعظم نااہل ہوکر کرسی صدارت سے اتر بھی چکے ہیں لیکن الزامات در الزامات اور کردار کشی کے یہ مکروہ کھیل ٹاک شوز میں اب تک جاری ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا سیاستدانوں کے گندے پوتڑے دھونے کا گھاٹ بنا ہوا ہے اور بے چارے عوام حیرت سے اس شرمناک دنگل کو دیکھ رہے ہیں۔
ٹاک شوز کا اصل کام سیاست، معاشرت اور معیشت کے حوالے سے عوام میں بیداری پیدا کرنا ہے، لیکن بدقسمتی سے ٹاک شوز الزامات اور جوابی الزامات کا گڑھ بن گئے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ سیاست کے اس کھیل میں الزام تراشی اور جوابی الزام کے دوران سیاسی گماشتے ٹاک شوز میں اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرتے دکھائی دیتے ہیں، نہ صرف حریف کی کردار کشی بلکہ ملکی آئین اور عدلیہ تک کی توہین کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔
ہم نے اپنے کالم کا آغاز سائنسی جدید علوم کی ترویج کے حوالے سے کیا تھا کہ ہمارے عوام ماضی کے دھندلکوں سے باہر نکلیں اور اکیسویں صدی کی سائنسی ترقی سے واقف ہوں تاکہ وہ فکری حوالوں سے جدید دنیا کے ہم قدم ہوکر ملک و قوم کو ترقی یافتہ دنیا کے ہم پلہ بنا سکیں۔ ہمارے حکمران طبقات پورے شعور کے ساتھ عوام کو ذہنی پسماندگی میں ہی مبتلا رکھنا چاہتے ہیں تا کہ انتخابات میں وہ عوام کا نام نہاد مینڈیٹ لے کر عوام کے سروں پر پانچ سال تک سوار رہنے کا حق حاصل کر لیں اور اربوں روپوں کی لوٹ مار کرتے رہیں۔
زمین کیا ہے، چاند کیا ہے، سورج کیا ہے، آسمان کیا ہے، کائنات کیا ہے؟ ان سوالوں کے جوابات حاصل کیے بغیر کوئی قوم ترقی یافتہ نہیں بن سکتی اور اس کے لیے ٹاک شوز میں سیاسی مرغوں کو مدعو کرنے کے بجائے سائنسدانوں، ترقی پسند ماہرین معاشیات، ماہرین ارضیات، ماہرین فلکیات، دانشوروں، مفکروں، اہل علم، ادیبوں، شاعروں، فنکاروں کو ٹاک شوز میں بلایا جانا چاہیے تاکہ علم و شعور سے محروم عوام باشعور بن جائیں اور ٹاک شوز کی گندگیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہو سکیں۔