توقیرصادق کو14 فروری سے قبل دبئی سے ڈیپورٹ کرانیکا حکم
ایف آئی اے، وزارت داخلہ و خارجہ اور دیگر ادار ے نیب کی معاونت کریں، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے سابق چیئر مین اوگرا توقیر صادق کو ملک میں واپس لانے کیلیے کیے گئے اقدامات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ نیب اور دیگر اداروں نے ان کی واپسی کے لیے درست قانون کا سہارا نہیں لیا۔
عدالت نے کابینہ ڈویژن کی طرف سے چیئرمین نیب کو لکھے گئے خط کو نیب کے امور میں مداخلت قرار دے دیا ہے اور آبزرویشن دی ہے کہ نیب ایک خود مختار ادارہ ہے، وزیراعظم مداخلت نہیں کر سکتے۔ عدالت نے قرار دیا کہ وزیر اعظم نے اس لیے چیئرمین نیب کو انھیں آگاہ کرنے کے لیے لکھا ہے کیونکہ بادی النظر میں وہ خود توقیرصادق کی غیر قانونی تقرری کیلیے ذمے دار ہیں، مذکورہ خط خطر ناک صورتحال کا عکاس ہے ۔ جسٹس جوا دا یس خواجہ کی سربراہی میں ڈویژن بنچ نے نیب ،ایف آئی اے اور وزارت داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ توقیر صادق کو14 فروری سے پہلے ملک لانے کیلیے اقدامات کیے جائیں اور اگر مذکورہ تاریخ تک حوالگی ممکن نہیں تو پھر دبئی میں تو قیر صادق کی حراست میں ایک ماہ کی توسیع کیلیے درخواست دائرکی جائے ۔
سپریم کورٹ نے عبوری حکم میں ایف آئی اے، وزارت داخلہ ، وزارت خارجہ اور دیگر اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ توقیر صادق کو وطن واپس لانے کیلیے نیب کی معاونت کریں۔ حکم میں کہا گیا ہے کہ توقیرصادق کو14فروری تک ڈی پورٹ کرانے کا عمل مکمل نہ ہوا تو دبئی میں حراست کی مدت میں توسیع کے اقدامات کیے جائیں۔ عدالت نے پراسیکوٹر نیب کو ہدایت کی کہ وہ احتساب عدالت میں توقیر صادق کی گرفتاری کیلئے درخواست دیں اور احتساب عدالت سے وارنٹ کے اجرا کے بعد توقیر صادق کو ڈی پورٹ کرنے کا عمل مکمل کیا جائے۔عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ کابینہ ڈویڑن کا خط بادی النظر میں نیب کے کام میں مداخلت ہے، نیب ایک غیر جانبدار تحقیقاتی ادارہ ہے، اس کو خط لکھنا الارمنگ ہے۔ مقدمے کی مزید سماعت اب 18 فروری کو ہوگی۔
عدالت نے حوالگی کے مراحل پر تحفظات کا اظہار کیا اور آبزرویشن دی کہ اس عمل سے معاملہ طول پکڑے گا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ابھی تک توقیر صادق کو وطن واپس لانے کیلیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے تحقیقاتی اداروں سے استفسار کیا کہ توقیر صادق کو انٹر پول کے ذریعے ابھی تک گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب کے کے آغا نے عدالت کو بتایا کہ جب سے ملزم کا پاسپورٹ منسوخ کیا گیا ہے وہ یواے ای میں اجنبی کی حیثیت سے رہائش پذیر ہے۔
نیب وکیل نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ حوالگی اور ڈی پورٹ کیے جانے میں فرق ہے۔ دبئی حکومت کے ساتھ حوالگی کا معاہدہ ہے جس کی وجہ سے ملزم کی واپسی میں وقت بھی لگ سکتا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا حکومت اور ایجنسیوں کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے تھا۔جسٹس جواد کاکہنا تھاکہ پاکستان اور یواے ای قیدیوں کا تبادلہ کرسکتے ہیں تو توقیر صادق کے معاملے پر ہچکچاہٹ کیوں ہے۔ اس موقع پر کے کے آغا نے کہا کہ دبئی حکام توقیر صادق کو حوالے کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
عدالت نے کابینہ ڈویژن کی طرف سے چیئرمین نیب کو لکھے گئے خط کو نیب کے امور میں مداخلت قرار دے دیا ہے اور آبزرویشن دی ہے کہ نیب ایک خود مختار ادارہ ہے، وزیراعظم مداخلت نہیں کر سکتے۔ عدالت نے قرار دیا کہ وزیر اعظم نے اس لیے چیئرمین نیب کو انھیں آگاہ کرنے کے لیے لکھا ہے کیونکہ بادی النظر میں وہ خود توقیرصادق کی غیر قانونی تقرری کیلیے ذمے دار ہیں، مذکورہ خط خطر ناک صورتحال کا عکاس ہے ۔ جسٹس جوا دا یس خواجہ کی سربراہی میں ڈویژن بنچ نے نیب ،ایف آئی اے اور وزارت داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ توقیر صادق کو14 فروری سے پہلے ملک لانے کیلیے اقدامات کیے جائیں اور اگر مذکورہ تاریخ تک حوالگی ممکن نہیں تو پھر دبئی میں تو قیر صادق کی حراست میں ایک ماہ کی توسیع کیلیے درخواست دائرکی جائے ۔
سپریم کورٹ نے عبوری حکم میں ایف آئی اے، وزارت داخلہ ، وزارت خارجہ اور دیگر اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ توقیر صادق کو وطن واپس لانے کیلیے نیب کی معاونت کریں۔ حکم میں کہا گیا ہے کہ توقیرصادق کو14فروری تک ڈی پورٹ کرانے کا عمل مکمل نہ ہوا تو دبئی میں حراست کی مدت میں توسیع کے اقدامات کیے جائیں۔ عدالت نے پراسیکوٹر نیب کو ہدایت کی کہ وہ احتساب عدالت میں توقیر صادق کی گرفتاری کیلئے درخواست دیں اور احتساب عدالت سے وارنٹ کے اجرا کے بعد توقیر صادق کو ڈی پورٹ کرنے کا عمل مکمل کیا جائے۔عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ کابینہ ڈویڑن کا خط بادی النظر میں نیب کے کام میں مداخلت ہے، نیب ایک غیر جانبدار تحقیقاتی ادارہ ہے، اس کو خط لکھنا الارمنگ ہے۔ مقدمے کی مزید سماعت اب 18 فروری کو ہوگی۔
عدالت نے حوالگی کے مراحل پر تحفظات کا اظہار کیا اور آبزرویشن دی کہ اس عمل سے معاملہ طول پکڑے گا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ابھی تک توقیر صادق کو وطن واپس لانے کیلیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے تحقیقاتی اداروں سے استفسار کیا کہ توقیر صادق کو انٹر پول کے ذریعے ابھی تک گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب کے کے آغا نے عدالت کو بتایا کہ جب سے ملزم کا پاسپورٹ منسوخ کیا گیا ہے وہ یواے ای میں اجنبی کی حیثیت سے رہائش پذیر ہے۔
نیب وکیل نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ حوالگی اور ڈی پورٹ کیے جانے میں فرق ہے۔ دبئی حکومت کے ساتھ حوالگی کا معاہدہ ہے جس کی وجہ سے ملزم کی واپسی میں وقت بھی لگ سکتا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا حکومت اور ایجنسیوں کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے تھا۔جسٹس جواد کاکہنا تھاکہ پاکستان اور یواے ای قیدیوں کا تبادلہ کرسکتے ہیں تو توقیر صادق کے معاملے پر ہچکچاہٹ کیوں ہے۔ اس موقع پر کے کے آغا نے کہا کہ دبئی حکام توقیر صادق کو حوالے کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہے ہیں۔