پھر وہی سیاست وہی وزیر اعظم
ہمارے نئے منتخب وزیر اعظم اپنے ہر حکومتی معاملے میں اپنے پارٹی سربراہ کے جانب دیکھ رہے ہیں۔
پاکستان کے اخباروں کی بیک زبان سرخی تھی کہ وزیر اعظم تو تبدیل ہو سکتا ہے مگر اس کی پالیسیاں نہیں بدل سکتیں شاید اس کا مطلب یہ ہے کہ پالیسیاں تو ردو بدل کا شکار ہو سکتی ہیں مگر ان کو بنانے والے مستقل رہتے ہیں ۔ پاکستان میں یہ پہلا موقع آیا ہے کہ پالیسیوں کو تو استحکام ملا ہے مگر پالیسیاں کمزور رہی ہیں۔
سیاستدانوںاور انتظامیہ نے جب کبھی ضرورت محسوس کی ہے تو اپنی ہی بنائی ہوئی پالیسیاں بدل دی ہیں تا کہ ضرورت کے مطابق کام چل سکے یا ضرورت کے مطابق چلتا رہے لیکن اس سے زیادہ کسی نے زحمت نہیں کی ۔ ضرورت اپنی جگہ موجود رہی اور اس میں تھوڑا بہت ردو بدل ہو تا بھی رہا ۔ جب آپ ضرورت کو مقدم سمجھیں تو پھر یہی ہوتا ہے اور کام اسی ضرورت کے تحت ہی چلتا ہے جب یہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے یا جوں توں کر کے پوری کر لی جاتی ہے تو پھر قانون سازی اپنے اختیار میں ہے اس کو ضرورت کے مطابق ڈھال لیا جاتا ہے اورنئے قانونی قاعدے اور ضابطے سامنے آجاتے ہیں جو اپنی جگہ پر اَٹل سمجھے جاتے ہیں ۔ پھر کاروبار سرکار اپنے نئے ضابطوں کے تحت چلنا شروع ہو جاتا ہے۔
حکمرانوں کو ان نئے ضابطوں اور قوانین کی یاد تب ہی آتی ہے جب وہ اپنے ہی بنائے ان ضابطوں اور قوانین کی وجہ سے ہی خود سے کسی مشکل میں پھنس جاتے ہیں اور ان ہی کے بنائے گئے ضابطے ان کو جکڑ لیتے ہیں تو یہ اس وقت کو کوستے ہیں کہ انھوں نے یہ کام کیا ہی کیوں تھا جس نے ان کو اس مشکل میں ڈال دیا ہے ۔
ہمارے نئے منتخب وزیر اعظم اپنے ہر حکومتی معاملے میں اپنے پارٹی سربراہ کے جانب دیکھ رہے ہیں۔اسی پس منظر میں انھوں نے یہ بیان دیا ہے کہ وزیر اعظم گو کہ بدل گیا ہے لیکن اس کی پالیسیاں جاری رہیں گی ۔ ایک طرح سے تو یہ ایک مثبت بات ہے کہ حکومت کی جاری پالیسیوں کے تسلسل کو برقرار رکھنا ملکی مفاد میں ہوتا ہے اور ترقی کا عمل جاری رہتا ہے اور اس میں رکاوٹ نہیں آتی منصوبے بروقت مکمل ہوتے ہیں اور عوام کے پیسے کا ضیاع بھی نہیں ہوتا ۔
وزیر اعظم کی نااہلی کے بعد ملکی سیاست میں تبدیلی آئی ہے اور حکمران پارٹی کے سرکردہ چند لیڈر حضرات اس تبدیلی کو بظاہر قبول کرنے کا بار بار اعلان کررہے ہیں لیکن سب کو معلوم ہے کہ پس پردہ حقائق کیا ہیں، پارٹی قیادت اور اس سے منسلک قریبی رفقاء نے اس حقیقت کو قبول نہیں کیا اور اس کاا ظہار ان کے بیانیوں اور عملی طور پر اخبارات اور مختلف شہروں میں لگائے گئے بڑے بڑے اشتہارات کو ٹی وی پر دیکھ کر ہو رہا ہے کہ وہ اس فیصلے کو کلی طور پر ماننے سے انکاری ہیں اور اب بھی پارٹی قیادت سمیت کوئی بھی وقت کی نزاکت کو سمجھ نہیں پا رہا ہے اور ایک بار پھر نواز شریف انھی نادان دوستوں کے مشوروں پر عمل کرنے جا رہے ہیں جن کے مشورے ان کی موجودہ حالت کے ذمے دار ہیں۔
نواز شریف نے بطور وزیر اعظم پارلیمان کو مضبوط نہیں کیا اور اپنے دور اقتدار میں وہ اہمیت نہیں دی جس کی پارلیمان کے ساتھ ان کو بھی ضرورت تھی، وہ اگر پارلیمان کی اہمیت کو سمجھتے تو جس طرح عوام نے ان کو ووٹ کی طاقت کے ساتھ تیسری بار اقتدار تک پہنچایا تھاتو یہی پارلیمان آج ان کے لیے ایک مضبوط طاقت بن کر ان کی پشت پر کھڑی ہوتی لیکن شو مئی قسمت کہ اس طرف توجہ نہیں دی گئی اور دوتہائی اکثریت کو ہی طاقت سمجھ لیا گیا حالانکہ وہ پہلے بھی دوتہائی اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہ چکے تھے لیکن جب حالات نے پلٹا کھایا تو یہ دو تہائی اکثریت بھی ان کے کسی کام نہ آئی اور اب کی بار بھی وہ اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجوداقتدار سے الگ کر دیے گئے۔ عوام کو طاقت کا سر چشمہ کہا جاتا ہے اور یہی عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے کسی لیڈر کو اقتدار تک پہنچاتے ہیںلیکن لیڈر اقتدار حاصل کرنے کے بعد ان کو بھول جاتے ہیں اور ان کی یاد دوبارہ ان لیڈروں کو تب آتی ہے جب اقتدار ان کے پاس نہیں رہتا اور یہ لیڈر دوبارہ سے عوام کو بہلا پھسلا کر اپنی جانب متوجہ کر لیتے ہیں۔
اقتدار سے علیحدگی کے بعد میاں نواز شریف شہر اقتدار اسلام آباد سے اپنے سیاسی گڑھ لاہورواپس آرہے ہیں اور بڑی گھن گرج کے ساتھ ان کی آمد کا اعلان کیا جارہاہے پہلے تو یہ اپنے بنائے گئے موٹر وے سے لاہور آنا چاہتے تھے لیکن بعد میں '' عقلمند '' مشیروں نے ان کو جی ٹی روڈ سے آنے کا مشورہ دیا جس کو قبول بھی کر لیا گیا اور اب اس سفر کے انتظامات کیے جا رہے ہیں ۔
اس سفر کے لیے بتایا جارہا ہے کہ چونکہ جی ٹی روڈ دونوں اطراف سے گنجان آباد علاقوں میں گھرا ہوا ہے اس لیے عوام کی تعداد بھی زیادہ ہو گی اور ایک سابق وزیر اعظم جو خود تو اب مزید اپنی انتخابی سیاست جاری نہیں رکھ سکتا لیکن اس کو اپنی پارٹی کی سیاست کے لیے انھی عوام کی ضرورت ہے اور وہ دوبارہ سے اس سفر کے ذریعے عوام کی طرف رجوع کر رہاہے اور اس کو عوام یاد آرہے ہیں جن کو وہ اقتدار کے دنوں میں فراموش کر بیٹھتے ہیں اور سڑکوں کی سیاست پر تنقید کرتے آئے ہیں، اب اپنی نااہلی کے بعدوہ انھی سڑکوں کے ذریعے اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے جا رہے ہیں تاکہ عوام کی رائے کو اپنے حق میں ہموار کیا جاسکے اور نااہلی کے بعد جو عوامی تاثر بن چکا ہے اس کو بدلا جا سکے ۔
نواز شریف اپنی نااہلی کے بعد بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی وجہ سے خاموش ہیں وہ بہت کچھ جانتے ہیں مگر خاموش ہیں لیکن زیادہ دیر خاموش نہیں رہ سکیں گے۔ انھوں نے محترمہ بینظیر شہید کے ساتھ لندن میں کیے گئے میثاقِ جمہوریت پر عملدرآمد کا ایک بار پھر اعادہ کیا ہے۔ ایک بار پھر چوٹ کھانے کے بعد ان کو ووٹ کی طاقت کا اصل اندازہ اب ہوا ہے اور وہ شاید پیپلز پارٹی کی حمایت سے آئین کی ان شقوں کو ختم کرنا چاہ رہے جن کا وہ اس بار شکار بنے ہیں کیونکہ وہ تو حکومت کو برطرف کرنے کے آئینی صدارتی اختیار ختم ہونے کے بعد مطمئن تھے کہ ان کی منتخب حکومت کو اب کوئی خطرہ نہیں لیکن ابھی بھی آئین میں اس طرح کی بہت ساری شقیں موجود ہیں جن کو استعمال کر کے حکومتوں کو گھر بھیجا جا سکتا ہے ۔ آئین میں متفقہ ترامیم کرنے کے لیے ان کو میثاق جمہوریت کی یاد آئی ہے لیکن شاید اب اس طرح کی ترامیم کا وقت گزر گیا ہے اور اس کے لیے آیندہ نئی اکثریتی منتخب حکومت کا انتظار کرنا پڑے گا۔
سیاستدانوںاور انتظامیہ نے جب کبھی ضرورت محسوس کی ہے تو اپنی ہی بنائی ہوئی پالیسیاں بدل دی ہیں تا کہ ضرورت کے مطابق کام چل سکے یا ضرورت کے مطابق چلتا رہے لیکن اس سے زیادہ کسی نے زحمت نہیں کی ۔ ضرورت اپنی جگہ موجود رہی اور اس میں تھوڑا بہت ردو بدل ہو تا بھی رہا ۔ جب آپ ضرورت کو مقدم سمجھیں تو پھر یہی ہوتا ہے اور کام اسی ضرورت کے تحت ہی چلتا ہے جب یہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے یا جوں توں کر کے پوری کر لی جاتی ہے تو پھر قانون سازی اپنے اختیار میں ہے اس کو ضرورت کے مطابق ڈھال لیا جاتا ہے اورنئے قانونی قاعدے اور ضابطے سامنے آجاتے ہیں جو اپنی جگہ پر اَٹل سمجھے جاتے ہیں ۔ پھر کاروبار سرکار اپنے نئے ضابطوں کے تحت چلنا شروع ہو جاتا ہے۔
حکمرانوں کو ان نئے ضابطوں اور قوانین کی یاد تب ہی آتی ہے جب وہ اپنے ہی بنائے ان ضابطوں اور قوانین کی وجہ سے ہی خود سے کسی مشکل میں پھنس جاتے ہیں اور ان ہی کے بنائے گئے ضابطے ان کو جکڑ لیتے ہیں تو یہ اس وقت کو کوستے ہیں کہ انھوں نے یہ کام کیا ہی کیوں تھا جس نے ان کو اس مشکل میں ڈال دیا ہے ۔
ہمارے نئے منتخب وزیر اعظم اپنے ہر حکومتی معاملے میں اپنے پارٹی سربراہ کے جانب دیکھ رہے ہیں۔اسی پس منظر میں انھوں نے یہ بیان دیا ہے کہ وزیر اعظم گو کہ بدل گیا ہے لیکن اس کی پالیسیاں جاری رہیں گی ۔ ایک طرح سے تو یہ ایک مثبت بات ہے کہ حکومت کی جاری پالیسیوں کے تسلسل کو برقرار رکھنا ملکی مفاد میں ہوتا ہے اور ترقی کا عمل جاری رہتا ہے اور اس میں رکاوٹ نہیں آتی منصوبے بروقت مکمل ہوتے ہیں اور عوام کے پیسے کا ضیاع بھی نہیں ہوتا ۔
وزیر اعظم کی نااہلی کے بعد ملکی سیاست میں تبدیلی آئی ہے اور حکمران پارٹی کے سرکردہ چند لیڈر حضرات اس تبدیلی کو بظاہر قبول کرنے کا بار بار اعلان کررہے ہیں لیکن سب کو معلوم ہے کہ پس پردہ حقائق کیا ہیں، پارٹی قیادت اور اس سے منسلک قریبی رفقاء نے اس حقیقت کو قبول نہیں کیا اور اس کاا ظہار ان کے بیانیوں اور عملی طور پر اخبارات اور مختلف شہروں میں لگائے گئے بڑے بڑے اشتہارات کو ٹی وی پر دیکھ کر ہو رہا ہے کہ وہ اس فیصلے کو کلی طور پر ماننے سے انکاری ہیں اور اب بھی پارٹی قیادت سمیت کوئی بھی وقت کی نزاکت کو سمجھ نہیں پا رہا ہے اور ایک بار پھر نواز شریف انھی نادان دوستوں کے مشوروں پر عمل کرنے جا رہے ہیں جن کے مشورے ان کی موجودہ حالت کے ذمے دار ہیں۔
نواز شریف نے بطور وزیر اعظم پارلیمان کو مضبوط نہیں کیا اور اپنے دور اقتدار میں وہ اہمیت نہیں دی جس کی پارلیمان کے ساتھ ان کو بھی ضرورت تھی، وہ اگر پارلیمان کی اہمیت کو سمجھتے تو جس طرح عوام نے ان کو ووٹ کی طاقت کے ساتھ تیسری بار اقتدار تک پہنچایا تھاتو یہی پارلیمان آج ان کے لیے ایک مضبوط طاقت بن کر ان کی پشت پر کھڑی ہوتی لیکن شو مئی قسمت کہ اس طرف توجہ نہیں دی گئی اور دوتہائی اکثریت کو ہی طاقت سمجھ لیا گیا حالانکہ وہ پہلے بھی دوتہائی اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہ چکے تھے لیکن جب حالات نے پلٹا کھایا تو یہ دو تہائی اکثریت بھی ان کے کسی کام نہ آئی اور اب کی بار بھی وہ اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجوداقتدار سے الگ کر دیے گئے۔ عوام کو طاقت کا سر چشمہ کہا جاتا ہے اور یہی عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے کسی لیڈر کو اقتدار تک پہنچاتے ہیںلیکن لیڈر اقتدار حاصل کرنے کے بعد ان کو بھول جاتے ہیں اور ان کی یاد دوبارہ ان لیڈروں کو تب آتی ہے جب اقتدار ان کے پاس نہیں رہتا اور یہ لیڈر دوبارہ سے عوام کو بہلا پھسلا کر اپنی جانب متوجہ کر لیتے ہیں۔
اقتدار سے علیحدگی کے بعد میاں نواز شریف شہر اقتدار اسلام آباد سے اپنے سیاسی گڑھ لاہورواپس آرہے ہیں اور بڑی گھن گرج کے ساتھ ان کی آمد کا اعلان کیا جارہاہے پہلے تو یہ اپنے بنائے گئے موٹر وے سے لاہور آنا چاہتے تھے لیکن بعد میں '' عقلمند '' مشیروں نے ان کو جی ٹی روڈ سے آنے کا مشورہ دیا جس کو قبول بھی کر لیا گیا اور اب اس سفر کے انتظامات کیے جا رہے ہیں ۔
اس سفر کے لیے بتایا جارہا ہے کہ چونکہ جی ٹی روڈ دونوں اطراف سے گنجان آباد علاقوں میں گھرا ہوا ہے اس لیے عوام کی تعداد بھی زیادہ ہو گی اور ایک سابق وزیر اعظم جو خود تو اب مزید اپنی انتخابی سیاست جاری نہیں رکھ سکتا لیکن اس کو اپنی پارٹی کی سیاست کے لیے انھی عوام کی ضرورت ہے اور وہ دوبارہ سے اس سفر کے ذریعے عوام کی طرف رجوع کر رہاہے اور اس کو عوام یاد آرہے ہیں جن کو وہ اقتدار کے دنوں میں فراموش کر بیٹھتے ہیں اور سڑکوں کی سیاست پر تنقید کرتے آئے ہیں، اب اپنی نااہلی کے بعدوہ انھی سڑکوں کے ذریعے اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے جا رہے ہیں تاکہ عوام کی رائے کو اپنے حق میں ہموار کیا جاسکے اور نااہلی کے بعد جو عوامی تاثر بن چکا ہے اس کو بدلا جا سکے ۔
نواز شریف اپنی نااہلی کے بعد بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی وجہ سے خاموش ہیں وہ بہت کچھ جانتے ہیں مگر خاموش ہیں لیکن زیادہ دیر خاموش نہیں رہ سکیں گے۔ انھوں نے محترمہ بینظیر شہید کے ساتھ لندن میں کیے گئے میثاقِ جمہوریت پر عملدرآمد کا ایک بار پھر اعادہ کیا ہے۔ ایک بار پھر چوٹ کھانے کے بعد ان کو ووٹ کی طاقت کا اصل اندازہ اب ہوا ہے اور وہ شاید پیپلز پارٹی کی حمایت سے آئین کی ان شقوں کو ختم کرنا چاہ رہے جن کا وہ اس بار شکار بنے ہیں کیونکہ وہ تو حکومت کو برطرف کرنے کے آئینی صدارتی اختیار ختم ہونے کے بعد مطمئن تھے کہ ان کی منتخب حکومت کو اب کوئی خطرہ نہیں لیکن ابھی بھی آئین میں اس طرح کی بہت ساری شقیں موجود ہیں جن کو استعمال کر کے حکومتوں کو گھر بھیجا جا سکتا ہے ۔ آئین میں متفقہ ترامیم کرنے کے لیے ان کو میثاق جمہوریت کی یاد آئی ہے لیکن شاید اب اس طرح کی ترامیم کا وقت گزر گیا ہے اور اس کے لیے آیندہ نئی اکثریتی منتخب حکومت کا انتظار کرنا پڑے گا۔