’ طاہر القادری کا امتحان ‘

حدیبیہ کیس کھلتے ہی شہباز شریف بھی ہاٹ واٹر میں ہوں گے۔

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

طاہر القادری ایک ایسے وقت میں سانحہ ماڈل ٹاون پر اپنی احتجاجی تحریک کا اگلا راونڈ شروع کرنے کے لیے پاکستان پہنچ رہے ہیں، جب نوازشریف کی وزارت عظمیٰ ختم ہو چکی ہے اور حکومت میں ہونے کے باوجود ان کی پارٹی سخت دباؤ میں ہے۔اطلاعات یہ ہیں کہ طاہراالقادری احتجاجی تحریک شروع کرنے سے پہلے اپنی اتحادی جماعتوں سے رابطہ کریں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اتحادی قائدین کے علاوہ وہ جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی سے بھی ملاقاتیں کریں۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بلاول بھٹو خود بھی ان سے ملنے کے لیے ماڈل ٹاون آئیں گے۔یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاون کے بعد پچھلے تین سال میں طاہرالقادری کو پہلی بار حکومت پر ایک نفسیاتی برتری حاصل ہو گی ، کیونکہ ان کے 'سیاسی کزن' ( عمران خان ) اپنا ہدف حاصل کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود کہ پانامہ کیس میں طاہرالقادری نے عمران خان کا عملی طور پرکوئی ساتھ نہیں دیا، بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ان کو سرے سے کوئی یقین ہی نہیں تھا کہ عمران خان، نوازشریف کے خلاف عدالتی جنگ جیت سکتے ہیں۔ تاہم عدالتی فیصلہ آنے کے بعد طاہرالقادری نے کھلے دل سے تسلیم کیا کہ جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کے بارے میں ان کے اندازے سراسر غلط ثابت ہوئے ، بلکہ یہ بھی کہا کہ ان کو خوشی ہوئی کہ غلط ثابت ہوئے۔اس پس منظر میں سانحہ ماڈل ٹاون پر ان کی طرف سے احتجاجی تحریک کا اگلا راونڈ شروع کر نے کا مطلب یہ ہو گا کہ اب کی بار وہ پہلے سے زیادہ پرعزم اور پرامید ہیں ۔

پنجاب میں سانحہ ماڈل ٹاون سے پہلے اس طرح کے سانحہ کی صرف دو مثالیں ہیں، سانحہ لیاقت باغ راولپنڈی اور سانحہ پنجاب اسمبلی لاہور۔ سانحہ لیاقت باغ کی کہانی یہ ہے کہ 23 مارچ 1973ء کو بھٹو حکومت کے خلاف متحدہ جمہوری محاذنے لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسہ رکھا۔ پنجاب حکومت ہر قیمت پر اس جلسہ کو روکنا چاہتی تھی۔اس کی سوچ یہ تھی کہ اگر اپوزیشن یہ جلسہ کرنے میں کام یاب ہو گئی تو پنجاب میں بھٹو حکومت کی حکومتی رٹ کمزور پڑ جائے گی۔ جب اپوزیشن کسی طرح بھی جلسہ منسوخ کرنے پر تیار نہ ہوئی تو عین جلسہ کے دوران میں ایف ایس ایف نے متحدہ جمہوری محاذ کے کارکنوں پر فائرنگ کھول دی۔ 8کارکن موقع پر ہی جاں بحق جب کہ درجنوں زخمی اور معذور ہو گئے۔ متحدہ جمہوری محاذ کے لیے یہ بہت بڑا دھچکا تھا۔

یہ الگ بات ہے کہ سانحہ لیاقت باغ کے بعد اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان پیدا ہونے والی قربت کے نتیجہ میں پھر پاکستان قومی اتحاد وجود میں آیا، جو بھٹو حکومت کے لیے اس سے کہیں بڑا دھچکا ثابت ہوا۔ سانحہ پنجاب اسمبلی کی روداد یہ ہے کہ 9اپریل 1977 ء کو پنجاب اسمبلی میں نو منتخب ارکان کی حلف برداری کی تقریب تھی۔ پاکستان قومی اتحاد نے اس روز پنجاب اسمبلی کا گھیراؤ کرنے کی دھمکی دے رکھی تھی۔ 8اپریل کو گورنر ہاوس میں وزیراعظم بھٹو کی زیرصدارت پنجاب کابینہ کا الوداعی اجلاس منعقد ہوا، جس میں حکومت کا ''سیکیورٹی پلان'' پیش کیا گیا۔

پلان یہ تھا کہ حلف برداری کے روز اسمبلی کے اردگرد جو ''سیکیورٹی سرکل'' بنایا جائے گا، اس کے اندر صرف ارکان اسمبلی ہی داخل ہو سکیں گے۔ ان کے علاوہ جو کوئی اس کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرے گا، اس پرگولی چلا دی جائے گی۔گزشتہ روز یہی ہوا۔ پنجاب اسمبلی کے باہر قومی اتحاد کے کارکنوں، جن میں وکلا بھی شامل تھے ، پر گولی چلا دی گئی۔ اس سانحے نے مگر اپوزیشن کو بھٹو حکومت کے خلاف مزید متحد کر دیا اور اس کی طاقت پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی۔ اس کے بعد جو ہوا ، وہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے۔

ظاہراً سانحہ ماڈل ٹاون کے پیچھے بھی کچھ اسی قسم کی سوچ کارفرما نظر آتی ہے۔ مئی2014 ء کے آخر میں لندن میں چوہدری برادران اور طاہرالقادری کے درمیان حکومت کے خلاف مشترکہ طور پرجدوجہد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس اثنا میں عمران خان نے بھی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کی کال دے دی۔طاہرالقادری23 جون کو پاکستان واپس آرہے تھے۔ حکومت،جو زرداری حکومت کے خلاف طاہر القادری کا دھرنا دیکھ چکی تھی، ان کی آمد سے بری طرح خوف زدہ ہو گئی۔


یہ خوف بھی اس کو تھا کہ عمران خان بھی اگر طاہرالقادری اور چوہدری برادران کے ساتھ مل گئے تواس کے لیے بڑا مسئلہ ہو جائے گا۔حکومت، طاہرالقادری عمران خان اور چوہدری برادران کی ٹرائیکا سے کچھ زیادہ ہی گبھرا گئی اور بوکھلاہٹ میں سترہ جون کو طاہرالقادری کو خوف زدہ کرنے کے لیے ان کے گھر واقع ماڈل ٹاون پر تجاوزات ہٹانے پہنچ گئی۔ یہ حکمت عملی مگر اس کو الٹی پڑ گئی۔

فائرنگ کی اطلاع ملتے ہی چوہدری پرویزالٰہی بغیر کسی سیکیورٹی کے، طاہرالقادری کے گھر پہنچ گئے۔ معلوم ہوا کہ14 کارکن جن میں ایک حاملہ خاتون بھی ہیں، جاں بحق ہو چکے ہیں۔ طاہر القادری اول اول سانحہ ماڈل ٹاون کی ایف آئی آر درج کرانے سے گریزاں تھے۔ چوہدری برادران کا موقف مگر یہ تھا کہ اتنے بڑے سانحہ کی ایف آئی آر درج کرانا ضروری ہے ، ورنہ کل کو حکومت کی طرف سے کہا جائے گا کہ اس طرح کا کوئی سانحہ ہوا ہی نہیں۔ چنانچہ لاہور کے تین نامی گرامی وکلا نے ایف آئی آر تیار کی، جو گزشتہ روز تھانہ ماڈل ٹاون میں جمع کر ا دی گئی۔

پولیس ابتدائی طور پر ایف آئی آر درج کرنے سے تیار نہ تھی۔ مگر بعد میں سیشن کورٹ کے حکم پریہ ایف آئی آر اس کو درج کرنا پڑی۔سانحہ ماڈل ٹاون پر احتجاج کے لیے14 اگست کو طاہر القادری اسلام آباد پہنچ گئے اور شاہراہ دستورپر مسلسل کئی ہفتوں تک کنٹینر کے اندر شب و روز کیے، یہ اب ایک تاریخی واقعہ بن چکا ہے ۔ مروجہ آئینی اور جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوئے وہ جہاں تک جا سکتے تھے، گئے ۔ان کا یہ دھرنا حکومت تو نہ گرا سکا مگر اس حد تک ضرور کام یاب رہا کہ آرمی چیف کی مداخلت سے سانحہ ماڈل ٹاون پر ان کی ایف آئی آر من و عن درج کر لی گئی، جس میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سمیت وفاقی اور صوبائی وزرا کے نام بھی شامل تھے۔

سانحہ ماڈل ٹاون کی تحقیقات کے لیے پنجاب حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس باقر علی نجفی کو مامور کیا۔ مگراس یک رکنی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ نے حکومت کی مشکلات بجائے کم کرنے کے، مزید بڑھا دیں۔ اس کے جو حصے اب تک منظر عام پرآئے ہیں، ان کے مطابق پنجاب حکومت کو اس سانحہ سے بری الذمہ قرار نہیں دیا گیا۔ اس پرپنجاب حکومت نے جسٹس ریٹائرڈ خلیل الرحمان خان کی سربراہی میں نئی کمیٹی قائم کی، جس نے نئی جے آئی ٹی تشکیل دی، جس میں ایم آئی اور آئی ایس آئی کے اہلکار شامل نہیں تھے ۔ نئی جے آئی ٹی نے اور وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور دیگر وزرا کو کلین چٹ دیدی۔ یوں وہ ایف آئی آر جو اسلام آباد دھرنا کے دوران درج ہو ئی تھی، عملی طور پرغیر موثر ہو گئی۔ طاہر القادری مگر نئی جے آئی ٹی رپورٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر چکے ہیں اور وہ جسٹس نجفی رپورٹ کو پبلک کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

اگست 2014ء میں، جب طاہر القادری نے سانحہ ماڈل ٹاون پراحتجاجی دھرنا دیا، اس وقت حالات ان کے حق میں نہیں تھے، مگرآج حالات یکسر مختلف ہیں۔پانامہ کرپشن کیس میں نوازشریف وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ ان کے اور ان کے خلاف کرپشن کے پانچ ریفرنس نیب کو ریفر کر دیے گئے ہیں۔حدیبیہ کیس کھلتے ہی شہباز شریف بھی ہاٹ واٹر میں ہوں گے۔ایسے میں سانحہ ماڈل ٹاون پر اگر طاہر القادری بھی ان کے خلاف باہر نکل آتے ہیں تو ان کی مشکلات کئی گنا بڑھ جائیں گی۔ لیکن اگر طاہرالقادری اب کی بار بھی ایک دوپریس کانفرنسیں اوراحتجاجی جلسے کر واپس کینیڈا تشریف لے جاتے ہیں تو اس سے سانحہ ماڈل ٹاون پر ان کے موقف کو سخت نقصان پہنچے گا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ عوامی تحریک کے اندر بھی اب ان پرکافی دباو ہے کہ قائدتحریک بھلے کینیڈاکی شہریت نہ چھوڑیں، مگر اس بار سانحہ ماڈل ٹاون پراحتجاجی تحریک کو کسی نہ کسی نتیجہ پر پہنچا کر ہی واپس جائیں۔ لہٰذا موجودہ حالات میںطاہر القادری کی واپسی خود طاہرالقادری کے لیے بھی کسی امتحان سے کم نہیں۔ شاعر نے کہا تھا ،

ساماں کی محبت میں مضمر ہے تن آسانی

مقصد ہے اگر منزل ، غارت گر ساماں ہو
Load Next Story