ہزاروں فلمیں ڈرامے تخلیق کرنے والا تاریخی باری اسٹوڈیو بھی اُجڑ گیا
1962 میں فلمساز باری ملک نے 100کنال رقبہ 1لاکھ 97ہزار میں خرید کر اسٹوڈیوقائم کیا ،بحران نے اسے بھی نگل لیا
UK:
پاکستان کی مقبول ترین فلموں میں سے ایک ''یکے والی '' کی آمدن سے 1962ء میں وجود میں آنے والا تاریخی 'باری اسٹوڈیو' شدید بحران کے باعث فروخت کے لیے پیش کردیا گیا۔
100کنال سے زائد رقبے پرقائم اسٹوڈیوکی زمین کومعروف فلمساز باری ملک نے 1لاکھ 97ہزارمیں خریدا اورپھر اس کی تعمیر شروع کروائی۔ اس اسٹوڈیو کو قیام کے بعد دو دہائیوں تک ایشیاء کے سب سے بڑے اسٹوڈیو ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ اس اسٹوڈیومیں جہاں فلم کی شوٹنگ کے لیے دیوقامت 10فلورتعمیر کیے گئے، وہیں 2 فلور ایسے بھی تھے، جہاں فلم کی ڈبنگ، آڈیوریکارڈنگ سمیت دیگرتکنیکی کام کیا جاتا تھا۔
باری اسٹوڈیو میں اس وقت کی جدید ترین لیبارٹری قائم کی گئی ، جس کی نگرانی کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اسٹوڈیومیں جہاں معروف فلم میکرز، ڈائریکٹراورفنکاروں کے دفاتر قائم تھے، وہیں فلم کی شوٹنگ کے لیے حویلی، آبشاء اور گاؤں سمیت دیگرلوکیشنز کوبھی بڑی مہارت کے ساتھ تیار کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کے شاندارماضی میں بننے والی فلموںکی بات کی جائے تواردو، پنجابی اورپشتوسمیت دیگرزبانوں میں بننے والی ہزاروں فلموں کی شوٹنگز باری اسٹوڈیو میں ہی ہوئی۔
فلم انڈسٹری پربرسوں راج کرنے والے معروف فنکاروں، گلوکاروں، موسیقاروں، ہدایتکاروں، رائٹروں سمیت دیگرکی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ملک اوربیرون ممالک سے آنے والوں کی بڑی تعداد اکثرباری اسٹوڈیو کے باہرجمع ہوتی۔ مگر ان پڑھ فلم میکرز کی فلم کے شعبے میں انٹری نے اسے آہستہ آہستہ بحران کے اتنے قریب لاکھڑا کیا کہ پھراس کا سب زیادہ نقصان نگارخانوں کو ہی اٹھانا پڑا۔ جہاں دن رات 'اسٹارٹ ساؤنڈ ، کیمرہ ، ایکشن ' کی آوازیں گونجتی تھیں، وہاں ویرانیوں نے ڈیرے ڈال لیے۔
باری اسٹوڈیو سے ہزاروں لوگوں کا چولہا جلتا تھا لیکن شدید مالی بحران کے باعث ہزاروں لوگ بے روزگار ہوئے تاہم اس سلسلے میں باری اسٹوڈیو کے مالک خرم باری نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ شدید بحران سے لڑتے لڑتے آخرکار ہم تنگ آچکے ہیں۔ حکومت کی عدم توجہی کے باعث فلم انڈسٹری تباہی کے دہانے پرپہنچی اوراس کی وجہ سے نگارخانے بھی برباد ہوئے۔ بہت زیادہ مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تینوں بھائیوں نے باہمی رضامندی کے ساتھ اس کوفروخت کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
پاکستان کی مقبول ترین فلموں میں سے ایک ''یکے والی '' کی آمدن سے 1962ء میں وجود میں آنے والا تاریخی 'باری اسٹوڈیو' شدید بحران کے باعث فروخت کے لیے پیش کردیا گیا۔
100کنال سے زائد رقبے پرقائم اسٹوڈیوکی زمین کومعروف فلمساز باری ملک نے 1لاکھ 97ہزارمیں خریدا اورپھر اس کی تعمیر شروع کروائی۔ اس اسٹوڈیو کو قیام کے بعد دو دہائیوں تک ایشیاء کے سب سے بڑے اسٹوڈیو ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ اس اسٹوڈیومیں جہاں فلم کی شوٹنگ کے لیے دیوقامت 10فلورتعمیر کیے گئے، وہیں 2 فلور ایسے بھی تھے، جہاں فلم کی ڈبنگ، آڈیوریکارڈنگ سمیت دیگرتکنیکی کام کیا جاتا تھا۔
باری اسٹوڈیو میں اس وقت کی جدید ترین لیبارٹری قائم کی گئی ، جس کی نگرانی کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اسٹوڈیومیں جہاں معروف فلم میکرز، ڈائریکٹراورفنکاروں کے دفاتر قائم تھے، وہیں فلم کی شوٹنگ کے لیے حویلی، آبشاء اور گاؤں سمیت دیگرلوکیشنز کوبھی بڑی مہارت کے ساتھ تیار کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کے شاندارماضی میں بننے والی فلموںکی بات کی جائے تواردو، پنجابی اورپشتوسمیت دیگرزبانوں میں بننے والی ہزاروں فلموں کی شوٹنگز باری اسٹوڈیو میں ہی ہوئی۔
فلم انڈسٹری پربرسوں راج کرنے والے معروف فنکاروں، گلوکاروں، موسیقاروں، ہدایتکاروں، رائٹروں سمیت دیگرکی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ملک اوربیرون ممالک سے آنے والوں کی بڑی تعداد اکثرباری اسٹوڈیو کے باہرجمع ہوتی۔ مگر ان پڑھ فلم میکرز کی فلم کے شعبے میں انٹری نے اسے آہستہ آہستہ بحران کے اتنے قریب لاکھڑا کیا کہ پھراس کا سب زیادہ نقصان نگارخانوں کو ہی اٹھانا پڑا۔ جہاں دن رات 'اسٹارٹ ساؤنڈ ، کیمرہ ، ایکشن ' کی آوازیں گونجتی تھیں، وہاں ویرانیوں نے ڈیرے ڈال لیے۔
باری اسٹوڈیو سے ہزاروں لوگوں کا چولہا جلتا تھا لیکن شدید مالی بحران کے باعث ہزاروں لوگ بے روزگار ہوئے تاہم اس سلسلے میں باری اسٹوڈیو کے مالک خرم باری نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ شدید بحران سے لڑتے لڑتے آخرکار ہم تنگ آچکے ہیں۔ حکومت کی عدم توجہی کے باعث فلم انڈسٹری تباہی کے دہانے پرپہنچی اوراس کی وجہ سے نگارخانے بھی برباد ہوئے۔ بہت زیادہ مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تینوں بھائیوں نے باہمی رضامندی کے ساتھ اس کوفروخت کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔