خون اور آنسو
1971ء میں ہمارے سیاست دانوں نے جرنیلوں نے، حکمرانوں نے مجرمانہ حماقتیں کیں جن سے لاکھوں بے گناہ مارے گئے۔
اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی ملک بھر میں جشن آزادی کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں، بچے رنگ برنگے کپڑوں اور کھلونوں کی بجائے سبز اور سفید رنگ سے سجے خوبصورت قومی پرچم کی مناسبت سے خریداری شروع کردیتے ہیں، بچوں کے ساتھ ساتھ بڑے بھی جوش وخروش سے اس جشن میں حصہ لینے کے لیے ساتھ ساتھ رہتے ہیں، خاص کر بچوں کا تویہی خیال ہوتا ہے کہ اس مہینے ایک سماں ہی الگ ہوتا ہے سب ایک سے بڑھ کر ایک سبز ہلالی جھنڈیوں سے گھر سجانے کے مقابلے کرتے ہیں۔ اونچے سے اونچا جھنڈا لہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسی مہینے کی مناسبت سے ٹی وی چینلز بھی اپنے پروگرامز ترتیب دیتے ہیں۔ حقیقتاً یہ ایک عہد کا سا ماحول ہوتا ہے اس خوبصورت حسین ماحول کے پیچھے کتنی درد ناک کہانیاں ہیں، کس قدر تلخ حقیقتیں ہیں ان معصوم سے پیارے بچوں کو کیا پتہ۔ نئی نسل کے نوجوانوں کو کیا خبر یہاں تک کہ بڑے بوڑھے بھی شاید اخبارات میں چھپی ان خونی خبروں کو بھول چکے ہیں کہ ان خبروں میں کتنی تکلیف، کتنی اذیت، کتنا خون پنہاں تھا، خدا ان سب کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔
یقینا چودہ اگست کے حوالے سے آزادی کا جشن منایا جاتا ہے ایک بار ہم آزاد ہوکر پاکستان کی سرزمین پر آکھڑے ہوئے تھے پھر دوسری بار پاکستان کے ایک بازو کو اس کے وجود سے الگ کرکے اس حصے کو ایک نئی آزادی کا دن دے دیا گیا تھا۔ ایک نئی تاریخ، ایک نیا ماضی، ایک نئی حقیقت جس میں دشمن یا غاصب سامراج نہیں بلکہ ہم پاکستانی تھے۔ یہ درد ناک حقیقت بہت تلخ ہے کہ 1971ء میں ایسا ہوچکا ہے اور آج تک اس سلگتے آگ کے ڈھیر سے چنگاریاں پھوٹتی رہتی ہیں چاہے کسی سچے پاکستانی بنگلہ دیشی کی پھانسی کی صورت میں یا نئی نسل کے بنگلہ دیشی بچوں کی نفرت کی صورت میں۔
آزادی کا حرف کس قدر خوبصورت اور پر سکون ہے اس کی خوبصورتی اور سکون کو وہ ہی محسوس کرسکتا ہے جو خون اور آگ کے دریا سے گزر کر آیا ہو جشن آزادی کے اس موقعے پر ہمیں دوسری بار ہجرت کے سفر کرنے والوں کو بھی سیلوٹ پیش کرنا چاہیے اور ان تمام پاکستانیوں کو جو اس درد کے سفر میں اپنی جانوں سے گئے ان کی مغفرت اور جنت الفردوس میں اونچے درجوں کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے۔
ابھی کچھ دن پہلے ایک کتاب پڑھنے کا موقع ملا جسے شہناز بانو نے بڑی محنت سے تحریر کیا تھا، اس کتاب جس کا عنوان تھا ''بلڈ اینڈ ٹیئرز'' انگریزی میں لکھی اس کتاب میں اس خون اور آنسوؤں کا ذکر تھا جو ایک سو ستر افراد کے دکھ کی سچی کہانی تھے۔ ان کے لٹے پٹے خاندان جس اذیت اور درد میں مبتلا تھے اور جس طرح انھوں نے اپنی جان بچائی بیشک کہ مارنے والے سے بڑا بچانے والا ہے۔
''Blood & Tears'' کی خوبی یہ ہے کہ شہناز نے اپنے خیالات سے زیادہ ان تمام حقیقتوں کو بڑے سلیقے سے تحریر کیا ہے جو شہادتوں نے بتایا اور جو ملکی اور غیر ملکی اخبارات، رسائل و جرائد میں اس حوالے سے چھپے، چاہے وہ مضامین کے حوالے سے ہوں یا بیانات کی صورت میں تاکہ حقیقت پر خود لکھنے والے سے زیادہ قارئین پر ان تمام سچائیوں کو پڑھنے کا موقع ملے۔ اس حوالے سے بہت سی کہانیاں تو ہم نے اور آپ نے لوگوں سی کسی نہ کسی حوالے سے سنی ہوںگی لیکن اسے پڑھتے پڑھتے کئی بار آنسو اس شدت سے آتے ہیں کہ انھیں روکنا محال ہوتا ہے اور آزادی کے حسن کا پتہ چلتا ہے اور شکر ادا کرتے ہیں کہ رب العزت نے ہمیں ایک آزاد ریاست میں پیدا کیا۔
سولہ دسمبر1971ء کو جب پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈالے تو اس کے بعد جوکچھ محب وطن بنگالیوں اور غیر بنگالیوں کے ساتھ عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے تربیت یافتہ غنڈوں نے سلوک کیا وہ ایک لرزہ خیز داستان ہے۔ شہناز بانو نے تیس سالہ زیب النسا حق کی سچی داستان بیان کی جن کے شوہر اظہار الحق جو ڈیلی ''وطن'' ڈھاکا میں کالم لکھتے تھے، اس سے پہلے وہ ''ڈیلی پاکستان'' میں کام کرتے تھے۔ معروف اردو مصنف اور صحافی تھے۔ 25 مارچ 1971ء میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے حملہ کرکے ان کے گھرکو لوٹ لیا۔ اتفاقاً اس وقت ان کے شوہر گھر پر نہیں تھے ورنہ وہ لوگ انھیں اغوا کرلیتے۔ انڈین آرمی اور مکتی باہنی نے جب ڈھاکا پر قبضہ کیا تو صورتحال ابتر ہوگئی۔
خاص کر خیرپور اور محمد پور متاثر ہوئے، موت کا رقص شروع ہوچکا تھا، رات ہوتی تو محلے کے بہاری لڑکے اور ان کے شوہر گھر کے باہر پٹرول چھڑک کر آگ لگادیتے تاکہ حملہ آور خوف زدہ ہوکر حملہ نہ کرسکیں، انیس دسمبر کی رات ایک گینگ نے ان کے گھر پر حملہ کیا اور ان کے سامنے ہی ان کے شوہر کے سینے کو گولیوں سے چھلنی کردیا۔
اظہار الحق کی موت پر پورا محلہ نوحہ کناں تھا کیونکہ وہ ایک بہادر اور سب کے کام آنے والے شخص تھے۔ اکیس دسمبر کو مکتی باہنی والوں نے ان سے گھر خالی کرانے کا حکم دیا کہ کوئی بہاری بنگلہ دیش میں اپنا گھر نہیں رکھ سکتا یوں وہ سب کھلے میدان میں اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آگئے دو دن تک بھوکے پیاسے رہے پھر ریڈ کراس کے ریلیف کیمپ میں ان سب کو لے جایا گیا اور جنوری 1974ء میں انھوں نے ہجرت کی۔
1973ء سے 1974ء کے موسم بہار تک تقریباً پانچ ہزار لٹے پٹے خاندانوں نے ہجرت کی، گو وہ سب مسلمان تھے، لوٹنے والے بھی اور لٹنے والے بھی لیکن مکتی باہنی والے جو بھارت کے فوجی تھے مساجد کے علما حضرات پر زور ڈالتے کہ وہ مساجد سے اعلان کریں کہ بہاریوں کا خون کرنا جائز ہے۔ سنڈے ٹائمز کے دو مئی 1971ء کے اخبار میں انتھونی مسکار ہنز لکھتے ہیں کہ بھارتی ریاست تری پورہ کے بارڈر سے پرے برہمن باریہ سے انھوں نے بیاسی بچوں کی لاشیں دیکھیں جنھیں لائن سے کھڑا کرکے شوٹ کیا گیا تھا اور اندازاً تین سو غیر بنگالیوں کی لاشیں بھی جیل کے ارد گرد پڑی دیکھیں جنھیں باغیوں نے قتل کردیا تھا۔
1971ء میں ہمارے سیاست دانوں نے جرنیلوں نے، حکمرانوں نے مجرمانہ حماقتیں کیں جن سے لاکھوں بے گناہ مارے گئے۔ 1947ء کی چودہ اگست کو ہم نے پاکستانی ہونے کے حوالے سے آنکھ کھولی تھی اس وقت ہمیں غیروں نے مارا تھا۔ 16 دسمبر 1971ء سے پہلے ہم نے خود اپنے آپ کو مارا تھا۔ دعا ہے کہ ہم بار بار غلطی کرنے کے عمل سے بچیں اور رب العزت اس ملک کے طول و عرض کی حفاظت فرمائے کہ اس کی سرزمین کو خون سے سینچا گیا ہے۔ (آمین)
اسی مہینے کی مناسبت سے ٹی وی چینلز بھی اپنے پروگرامز ترتیب دیتے ہیں۔ حقیقتاً یہ ایک عہد کا سا ماحول ہوتا ہے اس خوبصورت حسین ماحول کے پیچھے کتنی درد ناک کہانیاں ہیں، کس قدر تلخ حقیقتیں ہیں ان معصوم سے پیارے بچوں کو کیا پتہ۔ نئی نسل کے نوجوانوں کو کیا خبر یہاں تک کہ بڑے بوڑھے بھی شاید اخبارات میں چھپی ان خونی خبروں کو بھول چکے ہیں کہ ان خبروں میں کتنی تکلیف، کتنی اذیت، کتنا خون پنہاں تھا، خدا ان سب کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔
یقینا چودہ اگست کے حوالے سے آزادی کا جشن منایا جاتا ہے ایک بار ہم آزاد ہوکر پاکستان کی سرزمین پر آکھڑے ہوئے تھے پھر دوسری بار پاکستان کے ایک بازو کو اس کے وجود سے الگ کرکے اس حصے کو ایک نئی آزادی کا دن دے دیا گیا تھا۔ ایک نئی تاریخ، ایک نیا ماضی، ایک نئی حقیقت جس میں دشمن یا غاصب سامراج نہیں بلکہ ہم پاکستانی تھے۔ یہ درد ناک حقیقت بہت تلخ ہے کہ 1971ء میں ایسا ہوچکا ہے اور آج تک اس سلگتے آگ کے ڈھیر سے چنگاریاں پھوٹتی رہتی ہیں چاہے کسی سچے پاکستانی بنگلہ دیشی کی پھانسی کی صورت میں یا نئی نسل کے بنگلہ دیشی بچوں کی نفرت کی صورت میں۔
آزادی کا حرف کس قدر خوبصورت اور پر سکون ہے اس کی خوبصورتی اور سکون کو وہ ہی محسوس کرسکتا ہے جو خون اور آگ کے دریا سے گزر کر آیا ہو جشن آزادی کے اس موقعے پر ہمیں دوسری بار ہجرت کے سفر کرنے والوں کو بھی سیلوٹ پیش کرنا چاہیے اور ان تمام پاکستانیوں کو جو اس درد کے سفر میں اپنی جانوں سے گئے ان کی مغفرت اور جنت الفردوس میں اونچے درجوں کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے۔
ابھی کچھ دن پہلے ایک کتاب پڑھنے کا موقع ملا جسے شہناز بانو نے بڑی محنت سے تحریر کیا تھا، اس کتاب جس کا عنوان تھا ''بلڈ اینڈ ٹیئرز'' انگریزی میں لکھی اس کتاب میں اس خون اور آنسوؤں کا ذکر تھا جو ایک سو ستر افراد کے دکھ کی سچی کہانی تھے۔ ان کے لٹے پٹے خاندان جس اذیت اور درد میں مبتلا تھے اور جس طرح انھوں نے اپنی جان بچائی بیشک کہ مارنے والے سے بڑا بچانے والا ہے۔
''Blood & Tears'' کی خوبی یہ ہے کہ شہناز نے اپنے خیالات سے زیادہ ان تمام حقیقتوں کو بڑے سلیقے سے تحریر کیا ہے جو شہادتوں نے بتایا اور جو ملکی اور غیر ملکی اخبارات، رسائل و جرائد میں اس حوالے سے چھپے، چاہے وہ مضامین کے حوالے سے ہوں یا بیانات کی صورت میں تاکہ حقیقت پر خود لکھنے والے سے زیادہ قارئین پر ان تمام سچائیوں کو پڑھنے کا موقع ملے۔ اس حوالے سے بہت سی کہانیاں تو ہم نے اور آپ نے لوگوں سی کسی نہ کسی حوالے سے سنی ہوںگی لیکن اسے پڑھتے پڑھتے کئی بار آنسو اس شدت سے آتے ہیں کہ انھیں روکنا محال ہوتا ہے اور آزادی کے حسن کا پتہ چلتا ہے اور شکر ادا کرتے ہیں کہ رب العزت نے ہمیں ایک آزاد ریاست میں پیدا کیا۔
سولہ دسمبر1971ء کو جب پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈالے تو اس کے بعد جوکچھ محب وطن بنگالیوں اور غیر بنگالیوں کے ساتھ عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے تربیت یافتہ غنڈوں نے سلوک کیا وہ ایک لرزہ خیز داستان ہے۔ شہناز بانو نے تیس سالہ زیب النسا حق کی سچی داستان بیان کی جن کے شوہر اظہار الحق جو ڈیلی ''وطن'' ڈھاکا میں کالم لکھتے تھے، اس سے پہلے وہ ''ڈیلی پاکستان'' میں کام کرتے تھے۔ معروف اردو مصنف اور صحافی تھے۔ 25 مارچ 1971ء میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے حملہ کرکے ان کے گھرکو لوٹ لیا۔ اتفاقاً اس وقت ان کے شوہر گھر پر نہیں تھے ورنہ وہ لوگ انھیں اغوا کرلیتے۔ انڈین آرمی اور مکتی باہنی نے جب ڈھاکا پر قبضہ کیا تو صورتحال ابتر ہوگئی۔
خاص کر خیرپور اور محمد پور متاثر ہوئے، موت کا رقص شروع ہوچکا تھا، رات ہوتی تو محلے کے بہاری لڑکے اور ان کے شوہر گھر کے باہر پٹرول چھڑک کر آگ لگادیتے تاکہ حملہ آور خوف زدہ ہوکر حملہ نہ کرسکیں، انیس دسمبر کی رات ایک گینگ نے ان کے گھر پر حملہ کیا اور ان کے سامنے ہی ان کے شوہر کے سینے کو گولیوں سے چھلنی کردیا۔
اظہار الحق کی موت پر پورا محلہ نوحہ کناں تھا کیونکہ وہ ایک بہادر اور سب کے کام آنے والے شخص تھے۔ اکیس دسمبر کو مکتی باہنی والوں نے ان سے گھر خالی کرانے کا حکم دیا کہ کوئی بہاری بنگلہ دیش میں اپنا گھر نہیں رکھ سکتا یوں وہ سب کھلے میدان میں اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آگئے دو دن تک بھوکے پیاسے رہے پھر ریڈ کراس کے ریلیف کیمپ میں ان سب کو لے جایا گیا اور جنوری 1974ء میں انھوں نے ہجرت کی۔
1973ء سے 1974ء کے موسم بہار تک تقریباً پانچ ہزار لٹے پٹے خاندانوں نے ہجرت کی، گو وہ سب مسلمان تھے، لوٹنے والے بھی اور لٹنے والے بھی لیکن مکتی باہنی والے جو بھارت کے فوجی تھے مساجد کے علما حضرات پر زور ڈالتے کہ وہ مساجد سے اعلان کریں کہ بہاریوں کا خون کرنا جائز ہے۔ سنڈے ٹائمز کے دو مئی 1971ء کے اخبار میں انتھونی مسکار ہنز لکھتے ہیں کہ بھارتی ریاست تری پورہ کے بارڈر سے پرے برہمن باریہ سے انھوں نے بیاسی بچوں کی لاشیں دیکھیں جنھیں لائن سے کھڑا کرکے شوٹ کیا گیا تھا اور اندازاً تین سو غیر بنگالیوں کی لاشیں بھی جیل کے ارد گرد پڑی دیکھیں جنھیں باغیوں نے قتل کردیا تھا۔
1971ء میں ہمارے سیاست دانوں نے جرنیلوں نے، حکمرانوں نے مجرمانہ حماقتیں کیں جن سے لاکھوں بے گناہ مارے گئے۔ 1947ء کی چودہ اگست کو ہم نے پاکستانی ہونے کے حوالے سے آنکھ کھولی تھی اس وقت ہمیں غیروں نے مارا تھا۔ 16 دسمبر 1971ء سے پہلے ہم نے خود اپنے آپ کو مارا تھا۔ دعا ہے کہ ہم بار بار غلطی کرنے کے عمل سے بچیں اور رب العزت اس ملک کے طول و عرض کی حفاظت فرمائے کہ اس کی سرزمین کو خون سے سینچا گیا ہے۔ (آمین)