بلا وجہ کی دشمنی
ہمارے ایک ساتھی کے منہ سے نکل گیا کہ خالق فورمین کا کیا قصور تھا، یہ سننا تھا کہ فوراً بات کی تہہ تک پہنچ گئے۔
کریم بخش خالد مرحوم، محکمہ اطلاعات، حکومت سندھ میں ڈائریکٹر پبلی کیشنز ہوا کرتے تھے۔ طویل مدتِ ملازمت پوری کرکے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی حسبِ سابق طارق روڈ پر واقع اپنی ایئر ہوسٹس بیٹی کے فلیٹ میں رہتے تھے، مرنے کے بعد ان کا جنازہ بھی وہیں سے اٹھا۔
بہت اچھے مضمون نگار تھے اور ان کی نگارشات اکثر وبیشتر اردو اور سندھی اخبارات و رسائل میں شایع ہوتی رہتی تھیں۔ بلا کے مے نوش تھے اور یہی ان کی پہچان تھی۔ دفتر میں ہوں یا کسی تقریب میں، ہر وقت پئے ہوئے مگر پوری طرح ہوش میں ہوتے۔ اس کے ایسے عادی ہوچکے تھے کہ ان کے پاس پئے بغیر زندگی گزارنے کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ انگریز شاعر جان ڈریڈن کے اس قول کی جیتی جاگتی تصویر تھے کہ ہم پہلے اپنی عادات بناتے ہیں اور پھر ہماری یہ عادات ہمیں بناتی ہیں۔
72ء کا زمانہ تھا، ذوالفقارعلی بھٹو کا اخبار ''ہلال پاکستان'' کراچی سے نیا نیا جاری ہوا تھا جس کے ادارتی عملے میں، میں بھی شامل تھا۔ سراج الحق میمن ہمارے ایڈیٹر تھے جن کا شمار بھٹو کے قریبی آدمیوں میں ہوتا تھا اور جنھیں اس دور کے ایک بڑے اردو اخبار کے مالک و مدیر اعلیٰ، پاکستان کا حسنین ہیکل کہا کرتے تھے جس سے یہ بتانا مقصود تھا کہ جس طرح مصر کے مشہور اخبار الاہرام کے ایڈیٹر حسنین ہیکل، صدر جمال ناصر کے بہت قریب تھے اسی طرح سراج صاحب بھٹو کے قریب ہیں۔
نیا اخبار ہونے کی وجہ سے اسے ہمیشہ مواد کی کمی کا مسئلہ درپیش رہتا تھا حالانکہ سراج صاحب خود بھی بہت لکھتے تھے اور ادارتی عملے کے ہر رکن سے بھی پابندی سے لکھواتے تھے، اس کے باوجود اخبارکا پیٹ تھا کہ بھر کے نہیں دیتا تھا۔ اس صورتحال نے کریم بخش خالد کی گویا لاٹری کھول دی جن کی پوسٹنگ ان دنوں سکھر میں تھی۔ وہ اپنے نئے، پرانے، مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مضامین تھوک کے حساب سے بھجواتے جو سب ایک ایک کرکے ادارتی صفحے پر شایع ہوتے۔ مجھے ایسا کوئی دن یاد نہیں پڑتا جب ان کا کوئی مضمون نہ چھپا ہو۔
پھر اچانک وہ موڑ آیا جہاں سے ان کی میرے ساتھ بلا وجہ کی دشمنی شروع ہوئی۔ ہمارا اخبار، جو اس زمانے میں کراچی سے نکلنے والا واحد سندھی روزنامہ تھا، خبروں کی بھرپور کوریج، جارحانہ ادارتی پالیسی اور سرکاری سرپرستی کے باعث اپنے پیروں پر کھڑا ہوچکا تھا۔ سراج صاحب کی ذاتی کوششوں سے اس دور کے تمام بڑے لکھنے والے بشمول امر جلیل، قمر شہباز اور رشید بھٹی اس کے لیے پابندی سے لکھتے تھے، نتیجتاً مواد کی کمی کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہوگیا۔
میں ان دنوں ڈے شفٹ انچارج کی حیثیت سے کام کرتا تھا، ایک دن سراج صاحب نے مجھے اپنے کمرے میں بلوا کر کہا کہ میں ان کی طرف سے کریم بخش خالد کو خط لکھوں کہ ادارہ ان کے قلمی تعاون کی قدرکرتا ہے لیکن اب چونکہ ادارے کو چوٹی کے کالم نگاروں اور ادیبوں کی خدمات حاصل ہو چکی ہیں لہذا ہمارے لیے غیر معیاری مضامین کی اشاعت مزید جاری رکھنا ممکن نہیں رہا، آپ سے التماس ہے کہ آیندہ اپنے مضامین بھجوانے کی زحمت نہ فرمائیں۔ میں اس وقت تک کریم بخش خالد کو جانتا تک نہ تھا، سراج صاحب سے ان کا پتہ پوچھا تو معلوم ہوا موصوف بطور ڈائریکٹر انفارمیشن، سکھر میں تعینات ہیں۔ میں نے حسب ہدایت اخبار کے لیٹر پیڈ پر انھیں جو خط لکھا اس پر برائے ایڈیٹر میرے دستخط تھے۔
خالد صاحب نے میرے خط کو اپنی توہین گردانا اور دوسرے ہی دن احتجاج ریکارڈ کرانے دفتر آ پہنچے۔ جس طرح میں انھیں نہیں جانتا تھا، وہ بھی مجھے نہیں جانتے تھے، ہم کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملے تھے۔ اگر وہ اس حوالے سے ذرا سا بھی غور کرتے تو با آسانی سمجھ جاتے کہ میں ایسی گستاخی کیوں کروں گا۔
ہاں، مجھے اعتراف ہے کہ کبھی کلرکی نہ کرنے کی وجہ سے مجھے دفتری خط وکتابت کا کوئی تجربہ نہ تھا اس لیے شاید میں ان کے شایان شان الفاظ کا انتخاب نہیں کرسکا تھا۔ دفتر پہنچا تو انھیں اپنے بزرگ ساتھی عبدالکریم سعدی کے پاس بیٹھا ہوا پایا، میں نے دیکھا سعدی صاحب نے انھیں اشارے سے میرے آنے کا بتایا۔ بس پھر کیا تھا، وہ اٹھ کے میرے پاس آئے، مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے فرمایا کیا میں آپ کے والد کی عمر کا نہیں ہوں، میں نے عرض کیا بالکل ہیں، بولے پھر آپ کو میری توہین کرنے کا حق کس نے دیا، میں نے کہا قبلہ آپ کو ضرورکوئی غلط فہمی ہوئی ہے، میں بھلا آپ کی توہین کیوں کروں گا۔
انھوں نے جیب سے میرا لکھا ہوا خط نکال کر دکھاتے ہوئے پوچھا یہ آپ نے نہیں لکھا، میں نے کہا جی، میں نے ہی لکھا ہے، بولے وہ ناکارہ کریم بخش خالد میں ہی ہوں جس کے اب تک سیکڑوں غیر معیاری مضامین آپ اپنے موقر اخبار میں چھاپ چکے ہیں، اپنے خط کے الفاظ پر غورکیجیے اور بتایے کہ اس سے بڑھ کرکسی کی اور کیسی توہین کی جا سکتی ہے۔
میں نے ان سے دلآزاری کے لیے معذرت چاہی اور تشریف رکھنے کے لیے کہا لیکن وہ آپے سے باہر ہو گئے اور لگے زور زور سے چیخنے اور چلانے۔ وہ تو اچھا ہوا سراج صاحب خلاف معمول جلد دفتر آگئے، شور سن کر اپنے کمرے میں جانے کے بجائے ہمارے پاس نیوز روم میں آگئے، پوچھا کیا ہو رہا ہے، پھر کریم بخش خالد کو اپنے ساتھ آنے کا کہہ کر کمرے میں لے گئے، تھوڑی دیر بعد مجھے بھی وہیں بلوالیا، میں نے دیکھا وہ خط اب سراج صاحب کے ہاتھ میں تھا، ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا تمہارے خط کی زبان واقعی بہت سخت ہے۔
خالد صاحب کو سوری کہو، سراج صاحب نے ابھی جملہ پورا بھی نہ کیا تھا کہ یہ پھر اچھل کر کھڑے ہوگئے اور چیخ کر بولے سوری ووری کچھ نہیں، اس کو ابھی اور اسی وقت نوکری سے نکالیں۔ اتنا سننا تھا کہ سراج صاحب کا بی پی ایک دم شوٹ کرگیا، اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور کریم بخش خالد سے مخاطب ہوکر غصے سے بولے اب تم مجھے ڈکٹیٹ کروگے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے، فوراً میرے دفتر سے نکل جاؤ ورنہ چپڑاسی تمہیں دھکے دیکر نکالے گا۔ لمحے بھر میں کھیل ختم ہوگیا، پتہ ہی نہیں چلا وہ کس وقت چلے گئے۔
77ء میں مارشل لا لگا اور اس کے نتیجے میں اخبارات پر سنسرشپ کی پابندیاں عائد ہوئیں تو انھیں ڈائریکٹر پریس کی ذمے داریاں تفویض ہوئیں۔ ایک دن شاید کچھ زیادہ ہی چڑھا کے آئے تھے، ہمارے دفتر فون کر بیٹھے جو فورمین چاچا عبدالخالق نے اٹھایا، پوچھا کون تو انھوں نے اپنا نام بتایا، لگے مغلظات بکنے اور حکم دیا کہ فوراً میرے دفتر پہنچو۔ وہ بیچارے گھبرا گئے اور کسی کو بتائے بغیر جاکر پیش ہوگئے، دیکھتے ہی پھر شروع ہوگئے اور اپنی میز پر دھری فائلوں کی طرف اشارہ کرکے بولے اٹھاؤ اور سب کام چھوڑکر انھیں جاکرکمپوز کرواؤ، کل ٹھیک اسی وقت مجھے نہیں ملے تو نوکری تو جائے گی ہی، جیل کی ہوا بھی کھاؤگے۔
وہ تو نشے میں تھے لیکن چاچا خالق واقعی ڈرگئے اور فائل اٹھاکر دفتر لے آئے۔ کسی کمپوزر نے نیوز روم میں آکر بتایا کہ فورمین کو پتہ نہیں کیا ہوا ہے، زاروقطار رو رہے ہیں اور کسی کو کچھ نہیں بتا رہے۔ پتہ چلنے پر ڈیسک کے سب ساتھیوں نے باہمی مشورے سے موصوف کا نشہ ہرن کرکے انتقام لینے کا فیصلہ کیا، باری باری انھیں فون کرتے اور ہیلو کی آواز سنتے ہی گالیاں بکنا شروع کردیتے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ بیچارے بار بار روہانسے ہوکر پوچھتے میں نے تمہارا کیا قصور کیا ہے، تم لوگ کون ہو اور مجھے کیوں پریشان کر رہے ہو، ہمارے ایک ساتھی کے منہ سے نکل گیا کہ خالق فورمین کا کیا قصور تھا، یہ سننا تھا کہ فوراً بات کی تہہ تک پہنچ گئے۔
اگلی صبح پھر دفتر پہنچے، مجھ پر نظر پڑتے ہی اسے میری کارستانی سمجھے اور ہاتھ جوڑ کر لگے گڑگڑانے کے خدا کے لیے میرا پیچھا چھوڑ دو ورنہ میں پاگل ہوجاؤں گا، تم لوگوں کی وجہ سے میں پوری رات سو نہیں سکا ہوں، مرکے خدا کوکیا جواب دوگے وغیرہ وغیرہ۔ دلچسپ بات کہ اس واقعے کے بعد جہاں بھی آمنا سامنا ہوتا وہ لگتے بڑبڑانے کہ اس آدمی سے جانے کب جان چھوٹے گی۔
بہت اچھے مضمون نگار تھے اور ان کی نگارشات اکثر وبیشتر اردو اور سندھی اخبارات و رسائل میں شایع ہوتی رہتی تھیں۔ بلا کے مے نوش تھے اور یہی ان کی پہچان تھی۔ دفتر میں ہوں یا کسی تقریب میں، ہر وقت پئے ہوئے مگر پوری طرح ہوش میں ہوتے۔ اس کے ایسے عادی ہوچکے تھے کہ ان کے پاس پئے بغیر زندگی گزارنے کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ انگریز شاعر جان ڈریڈن کے اس قول کی جیتی جاگتی تصویر تھے کہ ہم پہلے اپنی عادات بناتے ہیں اور پھر ہماری یہ عادات ہمیں بناتی ہیں۔
72ء کا زمانہ تھا، ذوالفقارعلی بھٹو کا اخبار ''ہلال پاکستان'' کراچی سے نیا نیا جاری ہوا تھا جس کے ادارتی عملے میں، میں بھی شامل تھا۔ سراج الحق میمن ہمارے ایڈیٹر تھے جن کا شمار بھٹو کے قریبی آدمیوں میں ہوتا تھا اور جنھیں اس دور کے ایک بڑے اردو اخبار کے مالک و مدیر اعلیٰ، پاکستان کا حسنین ہیکل کہا کرتے تھے جس سے یہ بتانا مقصود تھا کہ جس طرح مصر کے مشہور اخبار الاہرام کے ایڈیٹر حسنین ہیکل، صدر جمال ناصر کے بہت قریب تھے اسی طرح سراج صاحب بھٹو کے قریب ہیں۔
نیا اخبار ہونے کی وجہ سے اسے ہمیشہ مواد کی کمی کا مسئلہ درپیش رہتا تھا حالانکہ سراج صاحب خود بھی بہت لکھتے تھے اور ادارتی عملے کے ہر رکن سے بھی پابندی سے لکھواتے تھے، اس کے باوجود اخبارکا پیٹ تھا کہ بھر کے نہیں دیتا تھا۔ اس صورتحال نے کریم بخش خالد کی گویا لاٹری کھول دی جن کی پوسٹنگ ان دنوں سکھر میں تھی۔ وہ اپنے نئے، پرانے، مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مضامین تھوک کے حساب سے بھجواتے جو سب ایک ایک کرکے ادارتی صفحے پر شایع ہوتے۔ مجھے ایسا کوئی دن یاد نہیں پڑتا جب ان کا کوئی مضمون نہ چھپا ہو۔
پھر اچانک وہ موڑ آیا جہاں سے ان کی میرے ساتھ بلا وجہ کی دشمنی شروع ہوئی۔ ہمارا اخبار، جو اس زمانے میں کراچی سے نکلنے والا واحد سندھی روزنامہ تھا، خبروں کی بھرپور کوریج، جارحانہ ادارتی پالیسی اور سرکاری سرپرستی کے باعث اپنے پیروں پر کھڑا ہوچکا تھا۔ سراج صاحب کی ذاتی کوششوں سے اس دور کے تمام بڑے لکھنے والے بشمول امر جلیل، قمر شہباز اور رشید بھٹی اس کے لیے پابندی سے لکھتے تھے، نتیجتاً مواد کی کمی کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہوگیا۔
میں ان دنوں ڈے شفٹ انچارج کی حیثیت سے کام کرتا تھا، ایک دن سراج صاحب نے مجھے اپنے کمرے میں بلوا کر کہا کہ میں ان کی طرف سے کریم بخش خالد کو خط لکھوں کہ ادارہ ان کے قلمی تعاون کی قدرکرتا ہے لیکن اب چونکہ ادارے کو چوٹی کے کالم نگاروں اور ادیبوں کی خدمات حاصل ہو چکی ہیں لہذا ہمارے لیے غیر معیاری مضامین کی اشاعت مزید جاری رکھنا ممکن نہیں رہا، آپ سے التماس ہے کہ آیندہ اپنے مضامین بھجوانے کی زحمت نہ فرمائیں۔ میں اس وقت تک کریم بخش خالد کو جانتا تک نہ تھا، سراج صاحب سے ان کا پتہ پوچھا تو معلوم ہوا موصوف بطور ڈائریکٹر انفارمیشن، سکھر میں تعینات ہیں۔ میں نے حسب ہدایت اخبار کے لیٹر پیڈ پر انھیں جو خط لکھا اس پر برائے ایڈیٹر میرے دستخط تھے۔
خالد صاحب نے میرے خط کو اپنی توہین گردانا اور دوسرے ہی دن احتجاج ریکارڈ کرانے دفتر آ پہنچے۔ جس طرح میں انھیں نہیں جانتا تھا، وہ بھی مجھے نہیں جانتے تھے، ہم کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملے تھے۔ اگر وہ اس حوالے سے ذرا سا بھی غور کرتے تو با آسانی سمجھ جاتے کہ میں ایسی گستاخی کیوں کروں گا۔
ہاں، مجھے اعتراف ہے کہ کبھی کلرکی نہ کرنے کی وجہ سے مجھے دفتری خط وکتابت کا کوئی تجربہ نہ تھا اس لیے شاید میں ان کے شایان شان الفاظ کا انتخاب نہیں کرسکا تھا۔ دفتر پہنچا تو انھیں اپنے بزرگ ساتھی عبدالکریم سعدی کے پاس بیٹھا ہوا پایا، میں نے دیکھا سعدی صاحب نے انھیں اشارے سے میرے آنے کا بتایا۔ بس پھر کیا تھا، وہ اٹھ کے میرے پاس آئے، مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے فرمایا کیا میں آپ کے والد کی عمر کا نہیں ہوں، میں نے عرض کیا بالکل ہیں، بولے پھر آپ کو میری توہین کرنے کا حق کس نے دیا، میں نے کہا قبلہ آپ کو ضرورکوئی غلط فہمی ہوئی ہے، میں بھلا آپ کی توہین کیوں کروں گا۔
انھوں نے جیب سے میرا لکھا ہوا خط نکال کر دکھاتے ہوئے پوچھا یہ آپ نے نہیں لکھا، میں نے کہا جی، میں نے ہی لکھا ہے، بولے وہ ناکارہ کریم بخش خالد میں ہی ہوں جس کے اب تک سیکڑوں غیر معیاری مضامین آپ اپنے موقر اخبار میں چھاپ چکے ہیں، اپنے خط کے الفاظ پر غورکیجیے اور بتایے کہ اس سے بڑھ کرکسی کی اور کیسی توہین کی جا سکتی ہے۔
میں نے ان سے دلآزاری کے لیے معذرت چاہی اور تشریف رکھنے کے لیے کہا لیکن وہ آپے سے باہر ہو گئے اور لگے زور زور سے چیخنے اور چلانے۔ وہ تو اچھا ہوا سراج صاحب خلاف معمول جلد دفتر آگئے، شور سن کر اپنے کمرے میں جانے کے بجائے ہمارے پاس نیوز روم میں آگئے، پوچھا کیا ہو رہا ہے، پھر کریم بخش خالد کو اپنے ساتھ آنے کا کہہ کر کمرے میں لے گئے، تھوڑی دیر بعد مجھے بھی وہیں بلوالیا، میں نے دیکھا وہ خط اب سراج صاحب کے ہاتھ میں تھا، ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا تمہارے خط کی زبان واقعی بہت سخت ہے۔
خالد صاحب کو سوری کہو، سراج صاحب نے ابھی جملہ پورا بھی نہ کیا تھا کہ یہ پھر اچھل کر کھڑے ہوگئے اور چیخ کر بولے سوری ووری کچھ نہیں، اس کو ابھی اور اسی وقت نوکری سے نکالیں۔ اتنا سننا تھا کہ سراج صاحب کا بی پی ایک دم شوٹ کرگیا، اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور کریم بخش خالد سے مخاطب ہوکر غصے سے بولے اب تم مجھے ڈکٹیٹ کروگے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے، فوراً میرے دفتر سے نکل جاؤ ورنہ چپڑاسی تمہیں دھکے دیکر نکالے گا۔ لمحے بھر میں کھیل ختم ہوگیا، پتہ ہی نہیں چلا وہ کس وقت چلے گئے۔
77ء میں مارشل لا لگا اور اس کے نتیجے میں اخبارات پر سنسرشپ کی پابندیاں عائد ہوئیں تو انھیں ڈائریکٹر پریس کی ذمے داریاں تفویض ہوئیں۔ ایک دن شاید کچھ زیادہ ہی چڑھا کے آئے تھے، ہمارے دفتر فون کر بیٹھے جو فورمین چاچا عبدالخالق نے اٹھایا، پوچھا کون تو انھوں نے اپنا نام بتایا، لگے مغلظات بکنے اور حکم دیا کہ فوراً میرے دفتر پہنچو۔ وہ بیچارے گھبرا گئے اور کسی کو بتائے بغیر جاکر پیش ہوگئے، دیکھتے ہی پھر شروع ہوگئے اور اپنی میز پر دھری فائلوں کی طرف اشارہ کرکے بولے اٹھاؤ اور سب کام چھوڑکر انھیں جاکرکمپوز کرواؤ، کل ٹھیک اسی وقت مجھے نہیں ملے تو نوکری تو جائے گی ہی، جیل کی ہوا بھی کھاؤگے۔
وہ تو نشے میں تھے لیکن چاچا خالق واقعی ڈرگئے اور فائل اٹھاکر دفتر لے آئے۔ کسی کمپوزر نے نیوز روم میں آکر بتایا کہ فورمین کو پتہ نہیں کیا ہوا ہے، زاروقطار رو رہے ہیں اور کسی کو کچھ نہیں بتا رہے۔ پتہ چلنے پر ڈیسک کے سب ساتھیوں نے باہمی مشورے سے موصوف کا نشہ ہرن کرکے انتقام لینے کا فیصلہ کیا، باری باری انھیں فون کرتے اور ہیلو کی آواز سنتے ہی گالیاں بکنا شروع کردیتے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ بیچارے بار بار روہانسے ہوکر پوچھتے میں نے تمہارا کیا قصور کیا ہے، تم لوگ کون ہو اور مجھے کیوں پریشان کر رہے ہو، ہمارے ایک ساتھی کے منہ سے نکل گیا کہ خالق فورمین کا کیا قصور تھا، یہ سننا تھا کہ فوراً بات کی تہہ تک پہنچ گئے۔
اگلی صبح پھر دفتر پہنچے، مجھ پر نظر پڑتے ہی اسے میری کارستانی سمجھے اور ہاتھ جوڑ کر لگے گڑگڑانے کے خدا کے لیے میرا پیچھا چھوڑ دو ورنہ میں پاگل ہوجاؤں گا، تم لوگوں کی وجہ سے میں پوری رات سو نہیں سکا ہوں، مرکے خدا کوکیا جواب دوگے وغیرہ وغیرہ۔ دلچسپ بات کہ اس واقعے کے بعد جہاں بھی آمنا سامنا ہوتا وہ لگتے بڑبڑانے کہ اس آدمی سے جانے کب جان چھوٹے گی۔