پاکستان کے 70 سنہری حقائق نویں قسط
پاکستان کے حوالے سے ایسی مثبت باتیں جن کے بارے میں شاید آپ پہلے نہیں جانتے ہوں۔
ایکسپریس اردو بلاگز کی جانب سے اپنے قارئین کے لیے یوم آزادی کے موقع پر خصوصی سلسلہ شروع کیا جارہا ہے جس میں 14 اگست تک روزانہ کی بنیاد پر پاکستان اور پاکستانیوں کے سنہری حقائق / اعزازات پیش کیے جائیں گے۔
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (پہلی قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (دوسری قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (تیسری قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (چوتھی قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (پانچویں قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (چھٹی قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (ساتویں قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (آٹھویں قسط)
28 مئی 1998ء کی تاریخ اِس لحاظ سے یادگار ہے کہ اُس روز پاکستان نے ایٹم بم کے اوّلین تجرباتی دھماکے کیے تھے اور یوں وہ ایٹمی طاقت کا حامل، عالمِ اسلام کا پہلا ملک بن گیا۔ علاوہ ازیں، دنیا بھر میں پاکستان وہ ساتواں ملک ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان نے تقریباً دو ہفتے قبل بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں یہ ایٹمی تجربات کیے تھے۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں پر دنیا کے نام نہاد امن پسند حلقوں کی جانب سے شدید اعتراضات کیے گئے لیکن دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان ایٹمی دھماکے نہ کرتا تو برصغیر کے علاوہ پورے ایشیاء میں طاقت کا توازن بھیانک طور پر بگڑ جاتا جس کا نتیجہ ایک ایسی تباہی کی شکل میں نکل سکتا تھا جس کا شاید کسی نے تصور بھی نہ کیا ہو۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے نہ صرف برصغیر میں طاقت کا توازن بحال ہوا اور ایک بار پھر پائیدار امن کی اُمید روشن ہوئی تو دوسری جانب ایشیاء میں ایک منفرد منظر نامہ بھی سامنے آیا۔ پاکستان، چین اور بھارت ایسے تین ممالک ہیں جن کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں اور تینوں کے تینوں ہی ایٹمی طاقت ہیں۔ یہ معاملہ پوری دنیا میں کہیں پر بھی نہیں۔
یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ مارخور پاکستان کا قومی جانور ہے، لیکن شاید یہ نہیں جانتے ہیں پاکستان کا یہ قومی جانور دنیا میں جانوروں کی نایاب ترین نوع ہے۔ مارخور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ اُن 72 جانوروں میں شامل ہے جن کی تصاویر عالمی تنظیم برائے جنگلی حیات کے 1976ء میں جاری کردہ خصوصی سکہ جات کے مجموعے میں شامل ہے۔ جنگلی بکرے کی خصوصیات کا حامل یہ خوبصورت جانور گلگت بلتستان کی ٹھنڈی فضاؤں کے علاوہ کشمیر، چترال اور کیلاش کی سرسبز وادیوں میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان کے علاوہ یہ قیمتی اور کم یاب نوع بھارت، افغانستان، ازبکستان اور تاجکستان کے کچھ علاقوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں بالغ مارخور کی تعداد 25 سو (ڈھائی ہزار) سے بھی کم ہے۔
مارخور پہاڑی علاقوں میں رہنا پسند کرتا ہے اور 600 سے 3600 میٹر کی بلندی تک پایا جاسکتا ہے۔ اِس کے قد و قامت میں نمایاں اِس کے مضبوط اور مڑے ہوئے سینگ ہیں جن کی لمبائی 143 سینٹی میٹر تک ہوسکتی ہے۔ جبکہ اِس کا وزن 104 کلو گرام تک ہوتا ہے اور اونچائی 102 سینٹی میٹر تک ہوتی ہے۔ مارخور کی تین اقسام مشہور ہیں جن میں استور مارخور، بخارائی مارخور اور کابلی مارخور شامل ہیں۔
مارخور پاکستان کی انٹیلی جینس ایجنسی آئی ایس آئی کا نشان بھی ہے۔ مارخور فارسی کے الفاظ کا مجموعہ ہے، جس میں 'مار' کے معنی سانپ اور 'خور' کے معنی ہیں کھانے والا۔ مارخور کے متعلق بہت سی لوک کہانیاں بھی مشہور ہیں۔ اِن مقامی لوک کہانیوں کے مطابق مارخور سانپ کو مار کر اُس کو چبا جاتا ہے، اور اُس جگالی کے نتیجے میں اِس کے منہ سے جھاگ نکلتا ہے جو نیچے گر کر خشک اور سخت ہوجاتا ہے اور جسے پھر سانپ کے کاٹنے پر تریاق کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
وادی کیلاش اپنی منفرد تہذیب، رنگا رنگ تہواروں اور حسین و دلکش مناظر کی بدولت دنیا بھر میں جُداگانہ مقام رکھتی ہے۔ کیلاش صوبہ خیبر پختونخوا، ضلع چترال میں کوہ ہندو کش کے دامن میں آباد ایک قبیلہ ہے، جس کا طرزِ رہائش اور رسومات، لباس اور رواج منفرد تسلیم کی جاتی ہے۔ دنیا بھر سے سیاح وادی کیلاش گھومنے اور کیلاش قبیلہ کی بودو باش دیکھنے پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔
وادی کیلاش کے تہوار اور رسمیں دلچسپ اور عجیب ہیں۔ بہار کی آمد کا استقبال وادی میں چِلم جوش کے تہوار سے کیا جاتا ہے۔ ہر سال 14 سے 16 مئی تک منعقد ہونے والے چِلم جوش کی تقریبات دیکھنے ہزاروں سیاح کیلاش کے برفیلے پہاڑوں تک پہنچتے ہیں۔ تہوار کے پہلے روز سب افراد کو بکری کا دودھ تقسیم کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے نومولود بچوں کو دودھ پلایا جاتا ہے، پھر دوسرے بچوں کی باری آتی ہے، اِس کے بعد نوجوانوں، جوانوں اور بڑوں کو تھوڑا تھوڑا دودھ پینے کے لئے دیا جاتا ہے۔ تمام افراد کو دودھ پہنچا کر اِس تقریب کا باقاعدہ افتتاح ہوتا ہے۔ بعد ازاں قبیلے کے بزرگ کُھلے آسمان تلے روٹی پکاتے ہیں جسے تمام افراد میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اِس روٹی میں میوہ جات بھی ڈالے جاتے ہیں، جو یہاں کی ایک سوغات بھی ہے۔ روٹی کھانے کے بعد تمام مرد و خواتین مذہبی مقام 'جسٹک خان' کے سامنے سے گزر کر ایک مخصوص میدان میں آتے ہیں جہاں خواتین ڈھول کی تاپ پر ناچتی اور گاتی ہیں۔ کیلاش کی خواتین کا رنگ برنگا روایتی لباس بھی انہیں دوسروں سے مختلف بناتا ہے۔
اِس کے علاوہ وادی کیلاش میں جب کسی کی موت واقع ہوجاتی ہے تو سوگ کے بجائے جشن منایا جاتا ہے۔ میت کے سرہانے موسیقی بجانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ قبیلے کے تمام لوگ رقص کرتے ہیں اور اِس موقع پر روایتی پکوان پکا کر کھائے جاتے ہیں۔
پاکستانیوں نے یوں تو دنیا کے سامنے مختلف شعبہ جات میں اپنا لوہا منوایا ہے، جن میں ایک قوالی کا فن بھی ہے۔ پاکستان میں عزیز میاں قوال، نصرت فتح علی خان اور صابری خاندان قوالی کی دنیا میں اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں اور دنیا بھر میں بارہا اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔
17 اپریل 1942ء کو جنم لینے والے عزیز میاں قوال پاکستان کے ایسے قوال ہیں جنہوں ںے جنوبی ایشاء سمیت دنیا بھر میں فنِ قوالی کے ذریعے پاکستان کا مثبت رخ پیش کیا۔ عزیز میاں کا منفرد لب و لہجہ اور انداز تو صدیوں تک یاد رکھا جائے تاہم قوالی کی تاریخ میں ''طویل ترین قوالی'' ریکارڈ کرانے کا سہرا بھی عزیز میاں کے سر ہی جاتا ہے۔
عزیز میاں کی قوالی ''حشر میں پوچھوں گا'' اب تک دنیا کی طویل ترین ریکارڈ کی جانے والی قوالی ہے۔ 155 منٹ دورانیے کی اِس قوالی کا ریکارڈ اب تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ عزیز میاں غزلوں کو بھی قوالی کے انداز میں گایا کرتے تھے۔ عزیز میاں کا ایک اور کمال یہ کہ وہ اپنی قوالیاں خود لکھا کرتے تھے۔ حکومتِ پاکستان نے انہیں 1989ء میں تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔ عزیز میاں کا انتقال 6 دسمبر 2000ء میں ایران کے دارلحکومت تہران میں ہوا، لیکن اُن کا جسد خاکی ملتان میں دفنایا گیا۔
اجرک پاکستان کی روایتی سوغات ہے جو صدیوں پرانی تہذیب کا حصہ ہے۔ دریائے سندھ کنارے آباد وادی مہران کی خاص پہچان ایک مخصوص چادر اجرک بھی ہے۔ سرخ اور سیاہ رنگ میں چھپی ہوئی رنگین چادر سندھ میں عزت اور وقار کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ لوگ اِسے کاندھے پر اور گردن میں ڈالتے ہیں۔ خاص طور پر سندھ میں یہ خاص رواج ہے کہ گھر میں آئے مہمانوں کو عزت اور احترام سے نوازنے کے لیے اجرک پیش کی جاتی ہے۔
اجرک انتہائی قدیم ثقافت کا جزو ہے۔ موئن جو دڑو سے ملنے والے نوادرات میں کنگ پریسٹ کا مجسمہ بھی شامل ہے۔ جس کے ایک کاندھے پر ایک کپڑا اجرک سے مشابہہ ہے۔ فی زمانہ اجرک مختلف رنگوں میں دستیاب ہے لیکن سرخ رنگ اجرک کو علیحدہ ہی حُسن عطا کرتا ہے۔ اجرک کی چھپائی کیلئے پہلے مختلف جیومیٹریکل ڈیزائنوں کو لکڑی کے بلاکس پر منقش کیا جاتا ہے جسے بعد میں کپڑے پر چھاپ کر اجرک تیار کی جاتی ہے۔ اجرک کی تیاری کیلئے سندھ کے شہر مٹیاری، ہالا، بِھٹ شاہ، مورو، سکھر، کنڈیارو اور حیدر آباد مشہور ہیں۔
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (پہلی قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (دوسری قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (تیسری قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (چوتھی قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (پانچویں قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (چھٹی قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (ساتویں قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (آٹھویں قسط)
ایٹمی طاقت کا حامل، دنیا کا پہلا اور واحد مسلم ملک
28 مئی 1998ء کی تاریخ اِس لحاظ سے یادگار ہے کہ اُس روز پاکستان نے ایٹم بم کے اوّلین تجرباتی دھماکے کیے تھے اور یوں وہ ایٹمی طاقت کا حامل، عالمِ اسلام کا پہلا ملک بن گیا۔ علاوہ ازیں، دنیا بھر میں پاکستان وہ ساتواں ملک ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان نے تقریباً دو ہفتے قبل بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں یہ ایٹمی تجربات کیے تھے۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں پر دنیا کے نام نہاد امن پسند حلقوں کی جانب سے شدید اعتراضات کیے گئے لیکن دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان ایٹمی دھماکے نہ کرتا تو برصغیر کے علاوہ پورے ایشیاء میں طاقت کا توازن بھیانک طور پر بگڑ جاتا جس کا نتیجہ ایک ایسی تباہی کی شکل میں نکل سکتا تھا جس کا شاید کسی نے تصور بھی نہ کیا ہو۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے نہ صرف برصغیر میں طاقت کا توازن بحال ہوا اور ایک بار پھر پائیدار امن کی اُمید روشن ہوئی تو دوسری جانب ایشیاء میں ایک منفرد منظر نامہ بھی سامنے آیا۔ پاکستان، چین اور بھارت ایسے تین ممالک ہیں جن کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں اور تینوں کے تینوں ہی ایٹمی طاقت ہیں۔ یہ معاملہ پوری دنیا میں کہیں پر بھی نہیں۔
مار خور دنیا کا نایاب جانور
یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ مارخور پاکستان کا قومی جانور ہے، لیکن شاید یہ نہیں جانتے ہیں پاکستان کا یہ قومی جانور دنیا میں جانوروں کی نایاب ترین نوع ہے۔ مارخور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ اُن 72 جانوروں میں شامل ہے جن کی تصاویر عالمی تنظیم برائے جنگلی حیات کے 1976ء میں جاری کردہ خصوصی سکہ جات کے مجموعے میں شامل ہے۔ جنگلی بکرے کی خصوصیات کا حامل یہ خوبصورت جانور گلگت بلتستان کی ٹھنڈی فضاؤں کے علاوہ کشمیر، چترال اور کیلاش کی سرسبز وادیوں میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان کے علاوہ یہ قیمتی اور کم یاب نوع بھارت، افغانستان، ازبکستان اور تاجکستان کے کچھ علاقوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں بالغ مارخور کی تعداد 25 سو (ڈھائی ہزار) سے بھی کم ہے۔
مارخور پہاڑی علاقوں میں رہنا پسند کرتا ہے اور 600 سے 3600 میٹر کی بلندی تک پایا جاسکتا ہے۔ اِس کے قد و قامت میں نمایاں اِس کے مضبوط اور مڑے ہوئے سینگ ہیں جن کی لمبائی 143 سینٹی میٹر تک ہوسکتی ہے۔ جبکہ اِس کا وزن 104 کلو گرام تک ہوتا ہے اور اونچائی 102 سینٹی میٹر تک ہوتی ہے۔ مارخور کی تین اقسام مشہور ہیں جن میں استور مارخور، بخارائی مارخور اور کابلی مارخور شامل ہیں۔
مارخور پاکستان کی انٹیلی جینس ایجنسی آئی ایس آئی کا نشان بھی ہے۔ مارخور فارسی کے الفاظ کا مجموعہ ہے، جس میں 'مار' کے معنی سانپ اور 'خور' کے معنی ہیں کھانے والا۔ مارخور کے متعلق بہت سی لوک کہانیاں بھی مشہور ہیں۔ اِن مقامی لوک کہانیوں کے مطابق مارخور سانپ کو مار کر اُس کو چبا جاتا ہے، اور اُس جگالی کے نتیجے میں اِس کے منہ سے جھاگ نکلتا ہے جو نیچے گر کر خشک اور سخت ہوجاتا ہے اور جسے پھر سانپ کے کاٹنے پر تریاق کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
وادی کیلاش کا انوکھا قبیلہ
وادی کیلاش اپنی منفرد تہذیب، رنگا رنگ تہواروں اور حسین و دلکش مناظر کی بدولت دنیا بھر میں جُداگانہ مقام رکھتی ہے۔ کیلاش صوبہ خیبر پختونخوا، ضلع چترال میں کوہ ہندو کش کے دامن میں آباد ایک قبیلہ ہے، جس کا طرزِ رہائش اور رسومات، لباس اور رواج منفرد تسلیم کی جاتی ہے۔ دنیا بھر سے سیاح وادی کیلاش گھومنے اور کیلاش قبیلہ کی بودو باش دیکھنے پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔
وادی کیلاش کے تہوار اور رسمیں دلچسپ اور عجیب ہیں۔ بہار کی آمد کا استقبال وادی میں چِلم جوش کے تہوار سے کیا جاتا ہے۔ ہر سال 14 سے 16 مئی تک منعقد ہونے والے چِلم جوش کی تقریبات دیکھنے ہزاروں سیاح کیلاش کے برفیلے پہاڑوں تک پہنچتے ہیں۔ تہوار کے پہلے روز سب افراد کو بکری کا دودھ تقسیم کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے نومولود بچوں کو دودھ پلایا جاتا ہے، پھر دوسرے بچوں کی باری آتی ہے، اِس کے بعد نوجوانوں، جوانوں اور بڑوں کو تھوڑا تھوڑا دودھ پینے کے لئے دیا جاتا ہے۔ تمام افراد کو دودھ پہنچا کر اِس تقریب کا باقاعدہ افتتاح ہوتا ہے۔ بعد ازاں قبیلے کے بزرگ کُھلے آسمان تلے روٹی پکاتے ہیں جسے تمام افراد میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اِس روٹی میں میوہ جات بھی ڈالے جاتے ہیں، جو یہاں کی ایک سوغات بھی ہے۔ روٹی کھانے کے بعد تمام مرد و خواتین مذہبی مقام 'جسٹک خان' کے سامنے سے گزر کر ایک مخصوص میدان میں آتے ہیں جہاں خواتین ڈھول کی تاپ پر ناچتی اور گاتی ہیں۔ کیلاش کی خواتین کا رنگ برنگا روایتی لباس بھی انہیں دوسروں سے مختلف بناتا ہے۔
اِس کے علاوہ وادی کیلاش میں جب کسی کی موت واقع ہوجاتی ہے تو سوگ کے بجائے جشن منایا جاتا ہے۔ میت کے سرہانے موسیقی بجانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ قبیلے کے تمام لوگ رقص کرتے ہیں اور اِس موقع پر روایتی پکوان پکا کر کھائے جاتے ہیں۔
طویل ترین قوالی کا اعزاز
پاکستانیوں نے یوں تو دنیا کے سامنے مختلف شعبہ جات میں اپنا لوہا منوایا ہے، جن میں ایک قوالی کا فن بھی ہے۔ پاکستان میں عزیز میاں قوال، نصرت فتح علی خان اور صابری خاندان قوالی کی دنیا میں اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں اور دنیا بھر میں بارہا اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔
17 اپریل 1942ء کو جنم لینے والے عزیز میاں قوال پاکستان کے ایسے قوال ہیں جنہوں ںے جنوبی ایشاء سمیت دنیا بھر میں فنِ قوالی کے ذریعے پاکستان کا مثبت رخ پیش کیا۔ عزیز میاں کا منفرد لب و لہجہ اور انداز تو صدیوں تک یاد رکھا جائے تاہم قوالی کی تاریخ میں ''طویل ترین قوالی'' ریکارڈ کرانے کا سہرا بھی عزیز میاں کے سر ہی جاتا ہے۔
عزیز میاں کی قوالی ''حشر میں پوچھوں گا'' اب تک دنیا کی طویل ترین ریکارڈ کی جانے والی قوالی ہے۔ 155 منٹ دورانیے کی اِس قوالی کا ریکارڈ اب تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ عزیز میاں غزلوں کو بھی قوالی کے انداز میں گایا کرتے تھے۔ عزیز میاں کا ایک اور کمال یہ کہ وہ اپنی قوالیاں خود لکھا کرتے تھے۔ حکومتِ پاکستان نے انہیں 1989ء میں تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔ عزیز میاں کا انتقال 6 دسمبر 2000ء میں ایران کے دارلحکومت تہران میں ہوا، لیکن اُن کا جسد خاکی ملتان میں دفنایا گیا۔
اجرک پاکستان کی خوبصورت ثقافت
اجرک پاکستان کی روایتی سوغات ہے جو صدیوں پرانی تہذیب کا حصہ ہے۔ دریائے سندھ کنارے آباد وادی مہران کی خاص پہچان ایک مخصوص چادر اجرک بھی ہے۔ سرخ اور سیاہ رنگ میں چھپی ہوئی رنگین چادر سندھ میں عزت اور وقار کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ لوگ اِسے کاندھے پر اور گردن میں ڈالتے ہیں۔ خاص طور پر سندھ میں یہ خاص رواج ہے کہ گھر میں آئے مہمانوں کو عزت اور احترام سے نوازنے کے لیے اجرک پیش کی جاتی ہے۔
اجرک انتہائی قدیم ثقافت کا جزو ہے۔ موئن جو دڑو سے ملنے والے نوادرات میں کنگ پریسٹ کا مجسمہ بھی شامل ہے۔ جس کے ایک کاندھے پر ایک کپڑا اجرک سے مشابہہ ہے۔ فی زمانہ اجرک مختلف رنگوں میں دستیاب ہے لیکن سرخ رنگ اجرک کو علیحدہ ہی حُسن عطا کرتا ہے۔ اجرک کی چھپائی کیلئے پہلے مختلف جیومیٹریکل ڈیزائنوں کو لکڑی کے بلاکس پر منقش کیا جاتا ہے جسے بعد میں کپڑے پر چھاپ کر اجرک تیار کی جاتی ہے۔ اجرک کی تیاری کیلئے سندھ کے شہر مٹیاری، ہالا، بِھٹ شاہ، مورو، سکھر، کنڈیارو اور حیدر آباد مشہور ہیں۔