پاکستان کے مامے چاچے
پاکستانی اچھے خاصے بالغ نظر ہو گئے ہیں جس طرح میڈیا کا منہ کھلا ہے، اسی طرح عوام کے ذہن بھی کھل گئے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین بمع سپریم کورٹ کی تشریحات مسلّم پاکستان کے شہریوں کی زندگی کا یہی اصل حاکم اور لائحہ عمل ہے، اس آئین کی تابعداری ہر پاکستانی پر لازم ہے لیکن پاکستانیت کے تقوے کے تقاضے آئین کے الفاظ سے بڑھ کر بھی ہو سکتے ہیں اور میرا ذاتی آئین پاکستان کچھ الگ سی ترجیحات بھی رکھتا ہے جو کسی آئینی شق کی خلاف ورزی نہیں بعض نئے تقاضوں کی طلب گار ہیں۔ مثلاً میں جیسے پہلے عرض بھی کر چکا ہوں پاکستان جیسے ایک نظریاتی ملک میں کسی دہری شہریت کا قائل نہیں ہوں۔ ہو سکتا ہے نظر بظاہر ایسے دوغلے اور دہرے پاکستانی کو اس کے باوجود بعض مراعات بھی حاصل ہوں گی جیسے ایسا شخص ووٹر تو ہو سکتا ہے، کسی الیکشن میں امیدوار نہیں بن سکتا لیکن میری پاکستانی سمجھ سے یہ بالاتر ہے کہ اگر ایک پاکستانی شہری پر کسی رعایت کی پابندی ہے تو اسی نوعیت کی کوئی دوسری آزادی کیسی۔
جو امیدوار نہیں بن سکتا وہ پاکستان کا ووٹر کیسے بن سکتا ہے یعنی کھانا تو کھا سکتا ہے مگر اسے چبا نہیں سکتا یا اس کے ساتھ پانی نہیں پی سکتا۔ ٹکٹ تو خرید سکتا ہے مگر گاڑی پر سوار نہیں ہو سکتا۔آخر ایسی دو عملی کی کیا مجبوری ہے۔ کوئی پاکستانی کسی دوسرے ملک کی شہریت کی خاطر پاکستانی شہریت چھوڑ سکتا ہے تو اسے اس کی اجازت ہے اگرچہ اسے سیاسی مرتد بھی کہا جا سکتا ہے لیکن اسے بہر حال ایک پاکستانی کی نظروں سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اب کوئی دوملکی نظرئیے والا شخص پاکستانی کیسے ہو سکتا ہے، آج اگر کوئی کسی غیر مسلم مسیحی ملک کی شہریت بھی لے لیتا ہے اور کوئی پاکستانی بھارتی شہریت بھی لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو کیا ہم اسے عرف عام میں اور پاکستانی آداب کے مطابق پاکستانی کہیں گے، ہر گز نہیں۔
ان دنوں ایسا ہی ایک مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، اس لیے کوئی اس مقدمے پر تو تبصرہ نہیں کر سکتا، اگر بات کی بھی ہے تو ایک اصول کا ذکر کیا ہے، میرے ساتھ ایک پرابلم یہ ہے کہ میں دن بدن کچھ زیادہ پاکستانی ہوتا جا رہا ہوں، شاید اس لیے کہ غیر پاکستانیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور میں اپنے آپ کو ان ٹھیکہ داروں میں سے نہ سہی ان کا ایک کارندہ سمجھنے لگ گیا ہوں جو پاکستان کی ذمے داری اٹھائے ہوئے ہیں یا جنھیں طنزاً پاکستان کا چاچا ماما کہا جاتا ہے، ویسے میرا خیال ہے کہ اب پاکستان کا چاچا ماما ہونا ضروری ہو گیا ہے، اس وقت جس طرح پاکستان پر چاروں طرف سے حملے ہو رہے ہیں اور خود ہمارے کئی پاکستانی بھی جھولی پتھروں سے بھر کر حملہ آور ہیں، ایسے حالات میں کسی کا چاچا ماما ہونا ضروری ہے۔ میرے جیسا پاکستانی جو دنیاوی علائق کا طلب گار تو ہے مگر ضرورت کی حد تک اسے اپنا وقت کچھ اس ملک کے لیے بھی وقف کر دینا چاہیے جو ہماری آخری پناہ گاہ بلکہ ایمان بھی ہے۔ درست کہ ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت نے اس کے ساتھ نامناسب سلوک کیا ہے اور یہ سلوک کمال بے رحمی کے ساتھ مسلسل جاری ہے لیکن ان کے رہنمائوں کے راستے میں کچھ رکاوٹیں ڈال سکیں تا کہ دل کا کچھ غبار تو نکلتا رہے۔
میں یہاں کسی لیڈر اور جماعت کے پاکستانی کے بارے میں رویے کا ذکر نہیں کرنا چاہتا، ہمارے پاکستانی اب اچھے خاصے بالغ نظر ہو گئے ہیں جس طرح میڈیا کا منہ کھلا ہے، اسی طرح عوام کے ذہن بھی کھل گئے ہیں۔ ہمارا ایک عام پاکستانی سب کچھ سمجھتا ہے کہ کون اس کے ملک اور اس کے ساتھ کیا کر رہا ہے لیکن پاکستانی عوام اتنے پس گئے ہیں کہ اب دو تین پتھر بھی ان کی بھوک کو آرام نہیں دے سکتے۔ وہ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرنا چاہتے ہیں لیکن بازار میں ان کی جگہ نہیں، وہ نوکری کے طلب گار ہیں مگر نوکری نہیں اور مزدوری کے لیے صبح گھر سے نکلتے ہیں تو خالی جیب گھر لوٹتے ہیں۔
میں سڑک پر بیٹھے ہوئے ان مزدوروں کو مزدوری کا سامان سامنے رکھ کر بیٹھا دیکھتا ہوں اور پھر کسی دن شام کو ہمت کر کے اس جگہ سے گزرتا ہوں تو وہ جن بے پناہ مایوسیوں کا بوجھ اٹھا کر جن ناتواں قدموں کے ساتھ گھروں کو روانہ ہوتے ہیں وہ منظر دیکھا نہیں جا سکتا لیکن اس شہر کے ایک پر فضا مقام پر ایک نیا محل تعمیر ہوا ہے جس کی بلند دیواروں کی طرف عام پاکستانی کا دیکھنا بھی ممنوع ہے۔ اس نئے شاہی محل کے گرد و پیش کی سیکیورٹی اس قدر سخت ہے کہ اس مقام پر شہر کے ہنگاموں سے دور مکان بنانے والے اب سوچ رہے ہیں کہ کوئی انھیں ایسی جگہ بتائے جہاں اقتدار کا سایہ نہ پڑے، کوئی ایسی جگہ جہاں حکمران کوئی نہ ہو اور مہربان بھی کوئی نہ ہو بلکہ شناسا بھی کوئی نہ ہو۔ ایکڑوں نہیں مربعوں میں پھیلی ہوئی ان رہائش گاہوں کی وسعت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ یہاں کے ایک لان میں دس ہزار افراد بیٹھ کر کسی کی تقریر سن سکتے ہیں۔ کوئی ایک سو بیس کنال پر پھیلا ہوا گھر صرف ایک گھر۔
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی تو ہے ہی مگر بعض اوقات سنگدل بن کر یا تفریح کے موڈ میں بھی۔ ہاں تاریخ کا تازہ موڑ ایک عبرت سے زیادہ تفریحی لگتا ہے۔ اس شہر میں قلعے بھی ہیں، حویلیاں بھی ہیں، باغات بھی ہیں اور بڑی ہی پر رعب رہائشی عمارتیں بھی ہیں۔ مغلوں کو باغوں اور قلعوں کا بہت شوق تھا، وہ کوئی مقبرہ بھی بناتے تھے تو اسے ایک محل بنا دیتے تھے۔ تفریح گاہ تو خیر ہوتی ہی پر آسائش تھیں لیکن سیر گاہیں بھی لگتا ہے کہ ان کی روشیں کسی نمائش کے لیے بنی ہیں۔ لاہور شہر میں جدھر جائیں کسی نہ کسی عالی شان عمارت کے کھنڈر دکھائی دیتے ہیں، عمائدین سلطنت میں سے کسی کے نام کے یا کسی رئیس منصب دار کے۔ کیا ماہرین تعمیر تھے اور کیا کاریگر تھے، ان کے ہاتھوں سے حسن اور آرائش کے شعلے نکلتے تھے۔
ہمارے سرگودھے کے قریب ایک پہاڑی میں باغات تھے، سنا ہے دارا شکوہ بھاگ کر یہاں پناہ گزین ہوا تو اس نے باغ لگوا لیا۔ مغل وسط ایشیا کے سر سبز پہاڑی علاقوں سے آئے تھے اور ہندوستان کے گرم علاقوں کو بھی اپنی پسند میں رنگ کر زندگی کو پر رونق بنانا چاہتے تھے۔ چوڑی دیواروں والے ہوائوں کے رخ پر بنے ہوئے گھر ان کے لیے کسی حد تک آرام دہ تھے۔ بعد میں انگریز آئے تو انھوں نے زیادہ تر عمارتیں سرکاری ضرورت کے لیے بنائیں اور چند ایک اپنی تقریبات کے لیے لیکن ان کے ماہرین تعمیر نے یہ خیال رکھا کہ تعمیر میں اگر مغربی جھلک ہو تو مقامی بھی ، مسلمانوں اور ہندوئوں کے مندروں کی بھی مثلاً لاہور کے ہائی کورٹ میں ان تینوں کی جھلک ملتی ہے۔ آزادی کے بعد عام پاکستانی تو زندہ رہنے کی فکر کرنے لگا لیکن کچھ مغل بھی اس کو ورثے میں ملے جن کے محلات ہم دیکھ رہے ہیں، تصویروں میں لاہور کے نئے محل کا جو سامنے کا حصہ دکھائی دیتا ہے، وہ مغربی طرز تعمیر کا ہے، اس میں پاکستانی روپے کی جھلک تو بہت ہے لیکن اسلامی تعمیر کی جھلک نہیں ہے لیکن یہ ہر مکین اور مالک کی اپنی مرضی ہے۔
تو عرض یہ ہے کہ جہاں صبح سے شام کرنے والے خالی ہاتھ مزدور ہیں یا پیٹ کے لیے چوری چکاری عام ہے وہیں اﷲ کی عنایت ہے کہ اربوں روپوں کے خرچ سے محل بھی بن رہے ہیں اور دہری شہریت والے مقدمے کر رہے ہیں کہ وہ پھر بھی پاکستانی ہیں اور کچھ لوگ یہ سب دیکھ سن کر آنکھیں بھگو رہے ہیں، بزدل کہیں کے مجھ سمیت۔
جو امیدوار نہیں بن سکتا وہ پاکستان کا ووٹر کیسے بن سکتا ہے یعنی کھانا تو کھا سکتا ہے مگر اسے چبا نہیں سکتا یا اس کے ساتھ پانی نہیں پی سکتا۔ ٹکٹ تو خرید سکتا ہے مگر گاڑی پر سوار نہیں ہو سکتا۔آخر ایسی دو عملی کی کیا مجبوری ہے۔ کوئی پاکستانی کسی دوسرے ملک کی شہریت کی خاطر پاکستانی شہریت چھوڑ سکتا ہے تو اسے اس کی اجازت ہے اگرچہ اسے سیاسی مرتد بھی کہا جا سکتا ہے لیکن اسے بہر حال ایک پاکستانی کی نظروں سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اب کوئی دوملکی نظرئیے والا شخص پاکستانی کیسے ہو سکتا ہے، آج اگر کوئی کسی غیر مسلم مسیحی ملک کی شہریت بھی لے لیتا ہے اور کوئی پاکستانی بھارتی شہریت بھی لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو کیا ہم اسے عرف عام میں اور پاکستانی آداب کے مطابق پاکستانی کہیں گے، ہر گز نہیں۔
ان دنوں ایسا ہی ایک مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، اس لیے کوئی اس مقدمے پر تو تبصرہ نہیں کر سکتا، اگر بات کی بھی ہے تو ایک اصول کا ذکر کیا ہے، میرے ساتھ ایک پرابلم یہ ہے کہ میں دن بدن کچھ زیادہ پاکستانی ہوتا جا رہا ہوں، شاید اس لیے کہ غیر پاکستانیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور میں اپنے آپ کو ان ٹھیکہ داروں میں سے نہ سہی ان کا ایک کارندہ سمجھنے لگ گیا ہوں جو پاکستان کی ذمے داری اٹھائے ہوئے ہیں یا جنھیں طنزاً پاکستان کا چاچا ماما کہا جاتا ہے، ویسے میرا خیال ہے کہ اب پاکستان کا چاچا ماما ہونا ضروری ہو گیا ہے، اس وقت جس طرح پاکستان پر چاروں طرف سے حملے ہو رہے ہیں اور خود ہمارے کئی پاکستانی بھی جھولی پتھروں سے بھر کر حملہ آور ہیں، ایسے حالات میں کسی کا چاچا ماما ہونا ضروری ہے۔ میرے جیسا پاکستانی جو دنیاوی علائق کا طلب گار تو ہے مگر ضرورت کی حد تک اسے اپنا وقت کچھ اس ملک کے لیے بھی وقف کر دینا چاہیے جو ہماری آخری پناہ گاہ بلکہ ایمان بھی ہے۔ درست کہ ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت نے اس کے ساتھ نامناسب سلوک کیا ہے اور یہ سلوک کمال بے رحمی کے ساتھ مسلسل جاری ہے لیکن ان کے رہنمائوں کے راستے میں کچھ رکاوٹیں ڈال سکیں تا کہ دل کا کچھ غبار تو نکلتا رہے۔
میں یہاں کسی لیڈر اور جماعت کے پاکستانی کے بارے میں رویے کا ذکر نہیں کرنا چاہتا، ہمارے پاکستانی اب اچھے خاصے بالغ نظر ہو گئے ہیں جس طرح میڈیا کا منہ کھلا ہے، اسی طرح عوام کے ذہن بھی کھل گئے ہیں۔ ہمارا ایک عام پاکستانی سب کچھ سمجھتا ہے کہ کون اس کے ملک اور اس کے ساتھ کیا کر رہا ہے لیکن پاکستانی عوام اتنے پس گئے ہیں کہ اب دو تین پتھر بھی ان کی بھوک کو آرام نہیں دے سکتے۔ وہ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرنا چاہتے ہیں لیکن بازار میں ان کی جگہ نہیں، وہ نوکری کے طلب گار ہیں مگر نوکری نہیں اور مزدوری کے لیے صبح گھر سے نکلتے ہیں تو خالی جیب گھر لوٹتے ہیں۔
میں سڑک پر بیٹھے ہوئے ان مزدوروں کو مزدوری کا سامان سامنے رکھ کر بیٹھا دیکھتا ہوں اور پھر کسی دن شام کو ہمت کر کے اس جگہ سے گزرتا ہوں تو وہ جن بے پناہ مایوسیوں کا بوجھ اٹھا کر جن ناتواں قدموں کے ساتھ گھروں کو روانہ ہوتے ہیں وہ منظر دیکھا نہیں جا سکتا لیکن اس شہر کے ایک پر فضا مقام پر ایک نیا محل تعمیر ہوا ہے جس کی بلند دیواروں کی طرف عام پاکستانی کا دیکھنا بھی ممنوع ہے۔ اس نئے شاہی محل کے گرد و پیش کی سیکیورٹی اس قدر سخت ہے کہ اس مقام پر شہر کے ہنگاموں سے دور مکان بنانے والے اب سوچ رہے ہیں کہ کوئی انھیں ایسی جگہ بتائے جہاں اقتدار کا سایہ نہ پڑے، کوئی ایسی جگہ جہاں حکمران کوئی نہ ہو اور مہربان بھی کوئی نہ ہو بلکہ شناسا بھی کوئی نہ ہو۔ ایکڑوں نہیں مربعوں میں پھیلی ہوئی ان رہائش گاہوں کی وسعت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ یہاں کے ایک لان میں دس ہزار افراد بیٹھ کر کسی کی تقریر سن سکتے ہیں۔ کوئی ایک سو بیس کنال پر پھیلا ہوا گھر صرف ایک گھر۔
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی تو ہے ہی مگر بعض اوقات سنگدل بن کر یا تفریح کے موڈ میں بھی۔ ہاں تاریخ کا تازہ موڑ ایک عبرت سے زیادہ تفریحی لگتا ہے۔ اس شہر میں قلعے بھی ہیں، حویلیاں بھی ہیں، باغات بھی ہیں اور بڑی ہی پر رعب رہائشی عمارتیں بھی ہیں۔ مغلوں کو باغوں اور قلعوں کا بہت شوق تھا، وہ کوئی مقبرہ بھی بناتے تھے تو اسے ایک محل بنا دیتے تھے۔ تفریح گاہ تو خیر ہوتی ہی پر آسائش تھیں لیکن سیر گاہیں بھی لگتا ہے کہ ان کی روشیں کسی نمائش کے لیے بنی ہیں۔ لاہور شہر میں جدھر جائیں کسی نہ کسی عالی شان عمارت کے کھنڈر دکھائی دیتے ہیں، عمائدین سلطنت میں سے کسی کے نام کے یا کسی رئیس منصب دار کے۔ کیا ماہرین تعمیر تھے اور کیا کاریگر تھے، ان کے ہاتھوں سے حسن اور آرائش کے شعلے نکلتے تھے۔
ہمارے سرگودھے کے قریب ایک پہاڑی میں باغات تھے، سنا ہے دارا شکوہ بھاگ کر یہاں پناہ گزین ہوا تو اس نے باغ لگوا لیا۔ مغل وسط ایشیا کے سر سبز پہاڑی علاقوں سے آئے تھے اور ہندوستان کے گرم علاقوں کو بھی اپنی پسند میں رنگ کر زندگی کو پر رونق بنانا چاہتے تھے۔ چوڑی دیواروں والے ہوائوں کے رخ پر بنے ہوئے گھر ان کے لیے کسی حد تک آرام دہ تھے۔ بعد میں انگریز آئے تو انھوں نے زیادہ تر عمارتیں سرکاری ضرورت کے لیے بنائیں اور چند ایک اپنی تقریبات کے لیے لیکن ان کے ماہرین تعمیر نے یہ خیال رکھا کہ تعمیر میں اگر مغربی جھلک ہو تو مقامی بھی ، مسلمانوں اور ہندوئوں کے مندروں کی بھی مثلاً لاہور کے ہائی کورٹ میں ان تینوں کی جھلک ملتی ہے۔ آزادی کے بعد عام پاکستانی تو زندہ رہنے کی فکر کرنے لگا لیکن کچھ مغل بھی اس کو ورثے میں ملے جن کے محلات ہم دیکھ رہے ہیں، تصویروں میں لاہور کے نئے محل کا جو سامنے کا حصہ دکھائی دیتا ہے، وہ مغربی طرز تعمیر کا ہے، اس میں پاکستانی روپے کی جھلک تو بہت ہے لیکن اسلامی تعمیر کی جھلک نہیں ہے لیکن یہ ہر مکین اور مالک کی اپنی مرضی ہے۔
تو عرض یہ ہے کہ جہاں صبح سے شام کرنے والے خالی ہاتھ مزدور ہیں یا پیٹ کے لیے چوری چکاری عام ہے وہیں اﷲ کی عنایت ہے کہ اربوں روپوں کے خرچ سے محل بھی بن رہے ہیں اور دہری شہریت والے مقدمے کر رہے ہیں کہ وہ پھر بھی پاکستانی ہیں اور کچھ لوگ یہ سب دیکھ سن کر آنکھیں بھگو رہے ہیں، بزدل کہیں کے مجھ سمیت۔