ڈاکٹر رُوتھ کیتھرینا ما رتھا فاؤ پاکستان اپنے ایک بہت بڑے خزانے سے محروم ہوگیا
9ستمبر1929کو لیپزگ میں روشن ہونے والا چراغ 10اگست2017کو کراچی میں غروب ہوگیا
اس کی پیدائش ہی ایک معجزہ تھی، وہ جو پیدائش سے پہلے ہی تہمتوں کی زد میں تھا۔ ایک ایسی پارسا ماں کا بیٹا جس کا نام مریم اور کردار مسلمہ تھا۔ وہ ایک ایسے وقت میں ظہور پذیر ہوا جب انسانوں پر جابروں نے عرصۂ حیات تنگ کیا ہوا تھا۔
آزاد انسان غلام بنا لیے گئے تھے اور جنہیں زندگی کی ہر سانس کا خراج ادا کرنا پڑتا تھا۔ وہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے آیا اور نجات دہندہ کہلایا۔ ایک ایسا انسان جو مسیحا کہلایا۔ اور وہ اسے آخر مسیحا کیوں نہ کہتے جو انہیں زندگی کا اصل درس دینے کے لیے آیا تھا۔ وہ مسیحا جو اندھوں کو بینائی دیتا تھا۔ وہ جب مُردوں کو جی اٹھنے کا حکم دیتا تو وہ جی اٹھتے تھے۔
وہ جو اپنوں کے دھتکارے ہوئے لوگوں میں پیار بانٹتا تھا۔ اس کا در ہر ایک کے لیے ہمیشہ کھلا رہا۔ وہ مسیحا جب بستی سے نکلا تو اس نے دیکھا کہ وہ اپنوں کے دھتکارے ہوئے بے کس و بے بس کوڑھیوں کے درمیان ہے، کوڑھیوں کا نجات دہندہ ان کے درمیان تھا۔ اور پھر سب نے دیکھا جب اس نے کوڑھیوں میں شفا بانٹی اور وہ معاشرے کا پہلے کی طرح حصہ بن گئے۔ وہ عظیم انسان جس کا نام عیسٰی تھا اور وہ جو رب کائنات کا منتخب کردہ پیغمبر تھا، ایک ایسا پیغمبر جس کی زندگی کا مقصد انسانیت کو ہر طرح کی غلامی سے نجات دینا تھا۔ اس کا کردار ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کی جلائی ہوئی شمعیں ہمیشہ روشن رہیں گی۔
اسی عظیم پیغمبر کے بے لوث پیروکاروں میں ڈاکٹر روتھ بھی تھیں۔ وہ روتھ فاؤ جو جناب عیسیٰ کی سچی اور بے لوث پیروکار تھیں۔ وہ روتھ فاؤ جنہوں نے اپنی زندگی انسانیت کے وقف کردی۔ انہوں نے ایک مشنری تنظیم '' دختران قلب مریم '' سے منسلک ہوکر انسانیت میں شفا بانٹنی شروع کی۔ کوڑھ کا مرض ہر دور میں عذاب الہی سمجھا جاتا اور اس مرض کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا، اس کے مریضوں کو دھتکار دیا جاتا اور انہیں بستیوں سے دور پہاڑوں، بیابانوں اور جنگلوں میں پھینک دیا جاتا جہاں وہ سسکتے سسکتے دم توڑ دیتے تھے۔ کوڑھ کے مریض کا جسم گلنا شروع ہوجاتا ہے، جسم میں پیپ پڑ جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی مریض کا گوشت جھڑنا شروع ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے مریض سے انتہائی شدید بو آتی ہے۔ مریض اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے اپنی ٹانگوں، ہاتھوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں۔
وہ نوجوانی میں پاکستان آئیں اور پھر خدا کے برگزیدہ پیغمبر عیسیؑ کی سنت پر عمل پیرا ہوگئیں۔ انہوں نے بھی عیسیٰؑ کی طرح دھتکار دیے جانے والے کوڑھیوں کو گلے لگایا۔ وہ کوڑھی جنہیں دیکھ کر لوگ دور سے ہی بھاگ جاتے تھے، وہ کوڑھی جنہیں دور سے پھینک کر روٹی دی جاتی تھی، ڈاکٹر روتھ فاؤ ان کے درمیان رہنے لگیں، ان کے زخموں پر مرہم رکھا، انہیں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا، نہلایا دھلایا اور اپنے پیار سے ان میں زندگی کی جوت جگائی۔
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد غیروں کے کام آنا
لیکن ڈاکٹر روتھ فاؤ کے لیے کوئی بھی غیر نہیں تھا، سب اپنے ہی تھے۔ مخلوق کو خدا کا کنبہ کہا گیا ہے اور خدائی کنبے کے ہر فرد کو یک ساں حقوق کا حق دار بنایا گیا ہے۔ روٹی، کپڑا، تعلیم، علاج معالجہ اور مکان ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ دنیا کے وسائل پر سارے انسانوں کا بلا تفریق مذہب و ملت حق مسلمہ اور تسلیم شدہ ہے، لیکن یہ تسلیم شدہ حق بھی صرف کتابوں میں ہی درج ہے، ان پر عمل شاذ و نادر ہی کیا جاتا ہے۔ خدا نے تو انسانوں کو یک ساں حقوق سے نوازا تھا لیکن پھر چند زمینی خداؤں نے ان وسائل پر بہ زور جبر قبضہ کرلیا اور اس طرح محرومین کا طبقہ وجود میں آیا۔
ان چند زمینی خداؤں نے صرف ان وسائل پر ہی قبضہ نہیں کیا بل کہ ان محروم لوگوں کی زندگی کو اپنی پیسا بنانے والی بھٹیوں کا ایندھن بنا لیا اور ایسے وہ اپنی دولت کے انبار میں اضافہ کرتے چلے گئے اور محرومین اپنی ہڈیوں کو ان کی سفاک بٹھیوں کا ایندھن بناتے بناتے تہہ خاک جاتے رہے۔ لیکن ان مایوس کن حالات میں ایک طبقہ وہ بھی وجود میں آیا جن کے دل ہم دردی اور انسانیت دوستی سے لبریز تھے۔ ان سرپھرے، نادر و کم یاب لوگوں کی لغت میں اقرابا پروری، تعصب، مذہب، رنگ و نسل جیسے الفاظ ناپید تھے، وہ تو بس انسانیت کو خدا کا کنبہ سمجھتے تھے اور ان کے حقوق کے لیے سرگرمِ عمل تھے۔ ایسے نادر و نایاب لوگ ہر شعبۂ زندگی میں تھے، ہیں اور رہیں گے۔ ان لوگوں کی زندگی کا مقصد بس خلق خدا کی آسودگی کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے وقف تھی اور یہی لوگ ان چند مکار و عیار جنہوں نے وسائل انسانی پر قبضہ کرلیا تھا کی آنکھوں میں کھٹکتے بھی تھے۔
دور جدید بھی ان نادر و نایاب لوگوں سے خالی نہیں ہے۔ ایسے درد مند اور انسان دوست لوگوں کی فہرست قلیل ضرور ہے لیکن انتہائی حوصلہ افزا بھی ہے۔ ایسے ہی دردمند لوگوں کی قافلے کی ایک فرد ڈاکٹر روتھ فاؤ بھی تھیں۔
سنا ہے ڈاکٹر روتھ فاؤ دنیا سے کوچ کرگئیں، ہر ایک ہی کو جانا ہے کہ یہاں انسان آیا ہی جانے کے لیے ہے۔
معاف کیجیے گا مجھے آپ سب سے بہ صد احترام اختلاف ہے۔ داکٹر روتھ فاؤ جیسے لوگ نہیں مرتے، کبھی نہیں، وہ مر ہی نہیں سکتے۔ اس لیے کہ وہ اگر مرجائیں تو انسانیت ہی دم توڑ دے، اپنا اعتبار ہی کھو دے، نہیں ڈاکٹر روتھ فاؤ کبھی نہیں مریں گی۔ وہ ہمیشہ زندہ رہیں گی اور ان کی جلائی ہوئی شمعمیں ہمیشہ روشن رہیں گی۔
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
بلاشبہ انہوں ناصرف اپنے حصے کی شمعیں جائیں بل کہ انہیں اپنے خلوص سے دوام بخشا۔ ڈاکٹر اقبال نے کیا سچی بات کی ہے:
جوہرِ ہستی عدم سے آشنا ہوتا نہیں
آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں
آزاد انسان غلام بنا لیے گئے تھے اور جنہیں زندگی کی ہر سانس کا خراج ادا کرنا پڑتا تھا۔ وہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے آیا اور نجات دہندہ کہلایا۔ ایک ایسا انسان جو مسیحا کہلایا۔ اور وہ اسے آخر مسیحا کیوں نہ کہتے جو انہیں زندگی کا اصل درس دینے کے لیے آیا تھا۔ وہ مسیحا جو اندھوں کو بینائی دیتا تھا۔ وہ جب مُردوں کو جی اٹھنے کا حکم دیتا تو وہ جی اٹھتے تھے۔
وہ جو اپنوں کے دھتکارے ہوئے لوگوں میں پیار بانٹتا تھا۔ اس کا در ہر ایک کے لیے ہمیشہ کھلا رہا۔ وہ مسیحا جب بستی سے نکلا تو اس نے دیکھا کہ وہ اپنوں کے دھتکارے ہوئے بے کس و بے بس کوڑھیوں کے درمیان ہے، کوڑھیوں کا نجات دہندہ ان کے درمیان تھا۔ اور پھر سب نے دیکھا جب اس نے کوڑھیوں میں شفا بانٹی اور وہ معاشرے کا پہلے کی طرح حصہ بن گئے۔ وہ عظیم انسان جس کا نام عیسٰی تھا اور وہ جو رب کائنات کا منتخب کردہ پیغمبر تھا، ایک ایسا پیغمبر جس کی زندگی کا مقصد انسانیت کو ہر طرح کی غلامی سے نجات دینا تھا۔ اس کا کردار ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کی جلائی ہوئی شمعیں ہمیشہ روشن رہیں گی۔
اسی عظیم پیغمبر کے بے لوث پیروکاروں میں ڈاکٹر روتھ بھی تھیں۔ وہ روتھ فاؤ جو جناب عیسیٰ کی سچی اور بے لوث پیروکار تھیں۔ وہ روتھ فاؤ جنہوں نے اپنی زندگی انسانیت کے وقف کردی۔ انہوں نے ایک مشنری تنظیم '' دختران قلب مریم '' سے منسلک ہوکر انسانیت میں شفا بانٹنی شروع کی۔ کوڑھ کا مرض ہر دور میں عذاب الہی سمجھا جاتا اور اس مرض کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا، اس کے مریضوں کو دھتکار دیا جاتا اور انہیں بستیوں سے دور پہاڑوں، بیابانوں اور جنگلوں میں پھینک دیا جاتا جہاں وہ سسکتے سسکتے دم توڑ دیتے تھے۔ کوڑھ کے مریض کا جسم گلنا شروع ہوجاتا ہے، جسم میں پیپ پڑ جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی مریض کا گوشت جھڑنا شروع ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے مریض سے انتہائی شدید بو آتی ہے۔ مریض اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے اپنی ٹانگوں، ہاتھوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں۔
وہ نوجوانی میں پاکستان آئیں اور پھر خدا کے برگزیدہ پیغمبر عیسیؑ کی سنت پر عمل پیرا ہوگئیں۔ انہوں نے بھی عیسیٰؑ کی طرح دھتکار دیے جانے والے کوڑھیوں کو گلے لگایا۔ وہ کوڑھی جنہیں دیکھ کر لوگ دور سے ہی بھاگ جاتے تھے، وہ کوڑھی جنہیں دور سے پھینک کر روٹی دی جاتی تھی، ڈاکٹر روتھ فاؤ ان کے درمیان رہنے لگیں، ان کے زخموں پر مرہم رکھا، انہیں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا، نہلایا دھلایا اور اپنے پیار سے ان میں زندگی کی جوت جگائی۔
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد غیروں کے کام آنا
لیکن ڈاکٹر روتھ فاؤ کے لیے کوئی بھی غیر نہیں تھا، سب اپنے ہی تھے۔ مخلوق کو خدا کا کنبہ کہا گیا ہے اور خدائی کنبے کے ہر فرد کو یک ساں حقوق کا حق دار بنایا گیا ہے۔ روٹی، کپڑا، تعلیم، علاج معالجہ اور مکان ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ دنیا کے وسائل پر سارے انسانوں کا بلا تفریق مذہب و ملت حق مسلمہ اور تسلیم شدہ ہے، لیکن یہ تسلیم شدہ حق بھی صرف کتابوں میں ہی درج ہے، ان پر عمل شاذ و نادر ہی کیا جاتا ہے۔ خدا نے تو انسانوں کو یک ساں حقوق سے نوازا تھا لیکن پھر چند زمینی خداؤں نے ان وسائل پر بہ زور جبر قبضہ کرلیا اور اس طرح محرومین کا طبقہ وجود میں آیا۔
ان چند زمینی خداؤں نے صرف ان وسائل پر ہی قبضہ نہیں کیا بل کہ ان محروم لوگوں کی زندگی کو اپنی پیسا بنانے والی بھٹیوں کا ایندھن بنا لیا اور ایسے وہ اپنی دولت کے انبار میں اضافہ کرتے چلے گئے اور محرومین اپنی ہڈیوں کو ان کی سفاک بٹھیوں کا ایندھن بناتے بناتے تہہ خاک جاتے رہے۔ لیکن ان مایوس کن حالات میں ایک طبقہ وہ بھی وجود میں آیا جن کے دل ہم دردی اور انسانیت دوستی سے لبریز تھے۔ ان سرپھرے، نادر و کم یاب لوگوں کی لغت میں اقرابا پروری، تعصب، مذہب، رنگ و نسل جیسے الفاظ ناپید تھے، وہ تو بس انسانیت کو خدا کا کنبہ سمجھتے تھے اور ان کے حقوق کے لیے سرگرمِ عمل تھے۔ ایسے نادر و نایاب لوگ ہر شعبۂ زندگی میں تھے، ہیں اور رہیں گے۔ ان لوگوں کی زندگی کا مقصد بس خلق خدا کی آسودگی کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے وقف تھی اور یہی لوگ ان چند مکار و عیار جنہوں نے وسائل انسانی پر قبضہ کرلیا تھا کی آنکھوں میں کھٹکتے بھی تھے۔
دور جدید بھی ان نادر و نایاب لوگوں سے خالی نہیں ہے۔ ایسے درد مند اور انسان دوست لوگوں کی فہرست قلیل ضرور ہے لیکن انتہائی حوصلہ افزا بھی ہے۔ ایسے ہی دردمند لوگوں کی قافلے کی ایک فرد ڈاکٹر روتھ فاؤ بھی تھیں۔
سنا ہے ڈاکٹر روتھ فاؤ دنیا سے کوچ کرگئیں، ہر ایک ہی کو جانا ہے کہ یہاں انسان آیا ہی جانے کے لیے ہے۔
معاف کیجیے گا مجھے آپ سب سے بہ صد احترام اختلاف ہے۔ داکٹر روتھ فاؤ جیسے لوگ نہیں مرتے، کبھی نہیں، وہ مر ہی نہیں سکتے۔ اس لیے کہ وہ اگر مرجائیں تو انسانیت ہی دم توڑ دے، اپنا اعتبار ہی کھو دے، نہیں ڈاکٹر روتھ فاؤ کبھی نہیں مریں گی۔ وہ ہمیشہ زندہ رہیں گی اور ان کی جلائی ہوئی شمعمیں ہمیشہ روشن رہیں گی۔
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
بلاشبہ انہوں ناصرف اپنے حصے کی شمعیں جائیں بل کہ انہیں اپنے خلوص سے دوام بخشا۔ ڈاکٹر اقبال نے کیا سچی بات کی ہے:
جوہرِ ہستی عدم سے آشنا ہوتا نہیں
آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں