پاکستان کے 70 سنہری حقائق بارہویں قسط
پاکستان کے حوالے سے ایسی مثبت باتیں جن کے بارے میں شاید آپ پہلے نہیں جانتے ہوں۔
ایکسپریس اردو بلاگز کی جانب سے اپنے قارئین کے لیے یوم آزادی کے موقع پر خصوصی سلسلہ شروع کیا جارہا ہے جس میں 14 اگست تک روزانہ کی بنیاد پر پاکستان اور پاکستانیوں کے سنہری حقائق / اعزازات پیش کیے جائیں گے۔
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (پہلی قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (دوسری قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (تیسری قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (چوتھی قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (پانچویں قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (چھٹی قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (ساتویں قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (آٹھویں قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (نویں قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (دسویں قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (گیارہویں قسط)
جیالوجیکل سروے آف پاکستان نے 1992 میں سندھ کے صحرائے تھر میں کوئلے کے ذخائر دریافت کیے جو ایک وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں جبکہ مجموعی طور پر یہ 175 ارب ٹن جتنے ہیں۔ اگر ان میں صوبہ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کوئلے کے دیگر ذخائر بھی شامل کرلیے جائیں تو معلوم ہوگا کہ پاکستان میں کوئلے کے ذخائر 185 ارب ٹن پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان ذخائر کا بڑا حصہ لگنائٹ قسم کے کوئلے پر مشتمل ہے جو اپنے معیار کے اعتبار سے اینتھراسائٹ کے بعد دنیا کا دوسرا بہترین کوئلہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکا میں کم تر معیار والے ''سب بٹومینس'' اور لگنائٹ کوئلے کے مجموعی ذخائر 135 ارب ٹن سے کچھ زیادہ ہیں جبکہ تھر میں کوئلے کا ذخیرہ اس سے بھی 50 ارب ٹن زیادہ ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان اپنے کوئلے کے یہ ذخائر استعمال کرتے ہوئے آئندہ 100 سال تک اپنی بجلی کی تمام ضروریات پوری کرسکے گا۔
عالمی پروپیگنڈے کے برعکس، پاکستانی کوئلے میں سلفر اور راکھ کی مقدار خاصی کم ہے جبکہ فیصل آباد میں واقع تحقیقی ادارے ''نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار بایوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ'' (NIBGE) کے ماہرین 2005 ہی میں ایسے صنعتی طریقے وضع کرچکے تھے جنہیں استعمال کرتے ہوئے اس کوئلے میں شامل راکھ اور سلفر کی مقدار بہت کم کی جاسکتی تھی۔ افسوس کہ حکومتِ پاکستان نے اس جانب توجہ نہیں دی جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیمتی کوئلہ اب تک عالمی ماحولیاتی اعتراضات کی وجہ سے ملکی معیشت کو خاطرخواہ فائدہ نہیں پہنچا رہا۔
یہ 2007 کا واقعہ ہے جب اقوامِ متحدہ نے سابق امریکی نائب صدر البرٹ گور اور ''بین الحکومتی پینل برائے تغیر آب و ہوا'' (آئی پی سی سی) کو ماحولیاتی تحفظ کے میدان میں گراں قدر خدمات پر امن کے نوبل انعام کا مشترکہ حقدار ٹھہرایا۔ بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ آئی پی سی سی کو جن تحقیقی رپورٹوں کی بنیاد پر امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا، ان میں سے ایک رپورٹ کے مرکزی مصنف ڈاکٹر عادل نجم تھے، جو پاکستانی ہیں۔ اس طرح ڈاکٹر عادل نجم اس ٹیم کا حصہ تھے جسے نوبل انعام برائے امن 2007 میں شریک ٹھہرایا گیا۔ 1980 کے عشرے میں مقامی اخبارات کےلیے کالم نگاری سے آغاز کرنے والے ڈاکٹر عادل نجم راولپنڈی میں پیدا ہوئے اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور سے سول انجینئرنگ میں سند حاصل کی۔ نوجوانی کے زمانے میں وہ پاکستان ٹیلی ویژن سے کئی معلوماتی اور مذاکراتی پروگراموں کے میزبان بھی رہے جبکہ بعد ازاں انہوں نے ایم آئی ٹی، امریکا سے پی ایچ ڈی کیا۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے 2009 میں انہیں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا جبکہ دیگر علاقائی و بین الاقوامی اعزازات اس کے علاوہ ہیں۔ وہ بوسٹن یونیورسٹی میں ''پارڈی اسکول آف گلوبل اسٹڈیز'' کے بانی چیئرمین بھی مقرر ہوئے اور تاحال اسی عہدے پر کام کررہے ہیں۔
پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اردو زبان کی ترویج اور ادب کو فروغ دینے والے اہل قلم حضرات اسی سرزمین پر بستے ہیں۔ اردو ادب میں ایک بڑا حصہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے شاعروں، ادیبوں، نقادوں، نثر نگاروں کا بھی ہے۔ اگر پاکستانی مزاح نگاروں کی بات کریں تو ان کی مثال دنیا کے کسی دوسرے خطے میں نہیں ملتی۔
اگر اردو مزاح نگاری میں چراغ حسن حسرت، شوکت تھانوی، مجید لاہوری، ابراہیم جلیس، شفیق احمد، مشتاق احمد یوسفی، ابن انشا اور پطرس بخاری سے لے کر ڈاکٹر یونس بٹ اور عطا الحق قاسمی جیسے کالم نگار، نثر نگاری کو عروج تک پہنچا چکے تو اردو مزاحیہ شاعری میں ضمیر جعفری، ظریف جبل پوری، دلاور فگار، مسٹر دہلوی، انور مسعود اور اطہر شاہ خان (جیدی) جیسے نام بھی اردو ادب میں مزاح کے بامِ فلک پر جگمگا رہے ہیں۔
یہ اور اِن کے علاوہ سینکڑوں دوسرے پاکستانی مزاح نگاروں نے اپنے انداز سخن سے اردو ادب کو چار چاند لگائے؛ اور اپنے منفرد طرز اسلوب میں عالمی، قومی، معاشرتی اور انسانی فطری پہلوؤں کا احاطہ بخوبی کیا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی اردو مزاح کے ایسے قلم کار ہیں جو قاری کو اپنی گرفت میں جکڑ لیتے ہیں اور ان کے طرزِ نگارش میں ایسی بے ساختگی ہے کہ پڑھنے والا قہقہہ لگانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ زر گزشت، چراغ تلے، خاکم بدہن اور آبِ گم مشتاق احمد یوسفی کی سدا بہار تصنیفات ہیں۔ شوکت تھانوی کی شہرۂ آفاق تخلیق ''چچا چھکن'' ہے جس کی بیوقوفیوں اور بد حواسیوں نے ایک دنیا کو اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا جب کہ شفیق احمد کی حماقتیں میں ''روفی'' کا کردار کسی طور بُھلائے جانے کے لائق نہیں۔
ضمیر جعفری کی '' کراچی کی بس میں سفر ہورہا ہے'' اور ''پرانا کوٹ'' جیسی شہرہ آفاق نظمیں سادہ زبانی اور مزاح میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔
آج کمپیوٹر ہیکنگ اور وائرس کا استعمال بہت عام ہے، اگرچہ آج کے دور میں وائرس کا استعمال غلط طریقے سے استعمال ہوتا ہے لیکن دنیا کا پہلا کمپیوٹر وائرس پاکستانی نوجوانوں نے 1986 میں کمپیوٹر پروگرامز کی غیرقانونی نقل سازی (کاپی) روکنے کےلیے کیا تھا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے باسط فاروق علوی اور امجد فاروق علوی ان دنوں کمپیوٹر سے متعلق ساز و سامان (بشمول سافٹ ویئر) کی خرید و فروخت کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ اس وقت کمپیوٹر اتنا جدید اور تیز رفتار نہیں تھا جتنا آج ہے۔ اسی کام کے دوران انہوں نے محسوس کیا کہ کمپیوٹر کا استعمال کرنے والے غیر قانونی سافٹ ویئر استعمال کرتے ہیں۔ انہیں ایسے لوگوں کو سبق سکھانے کا انوکھا طریقہ سجھائی دیا۔ اسی سوچ نے ''برین'' کو تخلیق کیا، جو دنیا کا پہلا کمپیوٹر وائرس تھا۔ اس کا بنیادی مقصد صرف اتنا تھا کہ اگر کسی کمپیوٹر سے سافٹ ویئر کی غیرقانونی کاپی بنانے کی کوشش کی جائے تو یہ وائرس اسی کے ساتھ منتقل ہوجائے اور اس پروگرام کو چلنے ہی نہ دے۔ اس ایجاد کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی اور سافٹ ویئر کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کو غیرقانونی نقل سے بچانے کےلیے ایسے ہی اقدامات کیے۔ البتہ جیسے جیسے کمپیوٹر نے ترقی کی اور اس کا استعمال بڑھا، ویسے ویسے جرائم پیشہ لوگوں نے بھی وائرس تیار کرنا شروع کردیئے اور صرف چند سال میں وائرس تیار کرنا جرائم پیشہ کارروائی ہی بن کر رہ گیا۔
دنیا کے قطبین یعنی قطب شمالی اور قطب جنوبی میں پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ برف کی شکل میں موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر یہ برف پگھل جائے تو سمندر کی سطح کئی میٹر تک بلند ہوسکتی ہے جس سے دنیا کے بیشتر ساحلی شہر ڈوب سکتے ہیں۔ یہ تو رہی ایک بات لیکن سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ قطبین کے بعد پاکستان کے شمالی علاقوں میں سب سے زیادہ گلیشیئر ہیں، جو پاکستان کےلیے اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن بدقمستی سے ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، جن کی وجہ سے دوہرے خطرات کا خوف ہے۔ پہلا یہ کہ پاکستان کو پانی کی کمی کا سامنا ہوسکتا ہے اور دوسرا یہ کہ اگر گلیشیئرز تیزی سے پگھلنا شروع ہوجائیں تو ملک میں سیلاب کے خطرات بھی بڑھ سکتے ہیں۔
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (پہلی قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (دوسری قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (تیسری قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (چوتھی قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (پانچویں قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (چھٹی قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (ساتویں قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (آٹھویں قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (نویں قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (دسویں قسط)
پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (گیارہویں قسط)
کوئلے کے وسیع ذخائر
جیالوجیکل سروے آف پاکستان نے 1992 میں سندھ کے صحرائے تھر میں کوئلے کے ذخائر دریافت کیے جو ایک وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں جبکہ مجموعی طور پر یہ 175 ارب ٹن جتنے ہیں۔ اگر ان میں صوبہ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کوئلے کے دیگر ذخائر بھی شامل کرلیے جائیں تو معلوم ہوگا کہ پاکستان میں کوئلے کے ذخائر 185 ارب ٹن پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان ذخائر کا بڑا حصہ لگنائٹ قسم کے کوئلے پر مشتمل ہے جو اپنے معیار کے اعتبار سے اینتھراسائٹ کے بعد دنیا کا دوسرا بہترین کوئلہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکا میں کم تر معیار والے ''سب بٹومینس'' اور لگنائٹ کوئلے کے مجموعی ذخائر 135 ارب ٹن سے کچھ زیادہ ہیں جبکہ تھر میں کوئلے کا ذخیرہ اس سے بھی 50 ارب ٹن زیادہ ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان اپنے کوئلے کے یہ ذخائر استعمال کرتے ہوئے آئندہ 100 سال تک اپنی بجلی کی تمام ضروریات پوری کرسکے گا۔
عالمی پروپیگنڈے کے برعکس، پاکستانی کوئلے میں سلفر اور راکھ کی مقدار خاصی کم ہے جبکہ فیصل آباد میں واقع تحقیقی ادارے ''نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار بایوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ'' (NIBGE) کے ماہرین 2005 ہی میں ایسے صنعتی طریقے وضع کرچکے تھے جنہیں استعمال کرتے ہوئے اس کوئلے میں شامل راکھ اور سلفر کی مقدار بہت کم کی جاسکتی تھی۔ افسوس کہ حکومتِ پاکستان نے اس جانب توجہ نہیں دی جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیمتی کوئلہ اب تک عالمی ماحولیاتی اعتراضات کی وجہ سے ملکی معیشت کو خاطرخواہ فائدہ نہیں پہنچا رہا۔
ڈاکٹر عادل نجم کا اعزاز؛ جسے اعزاز نہیں سمجھا گیا
یہ 2007 کا واقعہ ہے جب اقوامِ متحدہ نے سابق امریکی نائب صدر البرٹ گور اور ''بین الحکومتی پینل برائے تغیر آب و ہوا'' (آئی پی سی سی) کو ماحولیاتی تحفظ کے میدان میں گراں قدر خدمات پر امن کے نوبل انعام کا مشترکہ حقدار ٹھہرایا۔ بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ آئی پی سی سی کو جن تحقیقی رپورٹوں کی بنیاد پر امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا، ان میں سے ایک رپورٹ کے مرکزی مصنف ڈاکٹر عادل نجم تھے، جو پاکستانی ہیں۔ اس طرح ڈاکٹر عادل نجم اس ٹیم کا حصہ تھے جسے نوبل انعام برائے امن 2007 میں شریک ٹھہرایا گیا۔ 1980 کے عشرے میں مقامی اخبارات کےلیے کالم نگاری سے آغاز کرنے والے ڈاکٹر عادل نجم راولپنڈی میں پیدا ہوئے اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور سے سول انجینئرنگ میں سند حاصل کی۔ نوجوانی کے زمانے میں وہ پاکستان ٹیلی ویژن سے کئی معلوماتی اور مذاکراتی پروگراموں کے میزبان بھی رہے جبکہ بعد ازاں انہوں نے ایم آئی ٹی، امریکا سے پی ایچ ڈی کیا۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے 2009 میں انہیں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا جبکہ دیگر علاقائی و بین الاقوامی اعزازات اس کے علاوہ ہیں۔ وہ بوسٹن یونیورسٹی میں ''پارڈی اسکول آف گلوبل اسٹڈیز'' کے بانی چیئرمین بھی مقرر ہوئے اور تاحال اسی عہدے پر کام کررہے ہیں۔
اردو ادب کے مزاح نگاروں کا سب سے بڑا مرکز
پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اردو زبان کی ترویج اور ادب کو فروغ دینے والے اہل قلم حضرات اسی سرزمین پر بستے ہیں۔ اردو ادب میں ایک بڑا حصہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے شاعروں، ادیبوں، نقادوں، نثر نگاروں کا بھی ہے۔ اگر پاکستانی مزاح نگاروں کی بات کریں تو ان کی مثال دنیا کے کسی دوسرے خطے میں نہیں ملتی۔
اگر اردو مزاح نگاری میں چراغ حسن حسرت، شوکت تھانوی، مجید لاہوری، ابراہیم جلیس، شفیق احمد، مشتاق احمد یوسفی، ابن انشا اور پطرس بخاری سے لے کر ڈاکٹر یونس بٹ اور عطا الحق قاسمی جیسے کالم نگار، نثر نگاری کو عروج تک پہنچا چکے تو اردو مزاحیہ شاعری میں ضمیر جعفری، ظریف جبل پوری، دلاور فگار، مسٹر دہلوی، انور مسعود اور اطہر شاہ خان (جیدی) جیسے نام بھی اردو ادب میں مزاح کے بامِ فلک پر جگمگا رہے ہیں۔
یہ اور اِن کے علاوہ سینکڑوں دوسرے پاکستانی مزاح نگاروں نے اپنے انداز سخن سے اردو ادب کو چار چاند لگائے؛ اور اپنے منفرد طرز اسلوب میں عالمی، قومی، معاشرتی اور انسانی فطری پہلوؤں کا احاطہ بخوبی کیا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی اردو مزاح کے ایسے قلم کار ہیں جو قاری کو اپنی گرفت میں جکڑ لیتے ہیں اور ان کے طرزِ نگارش میں ایسی بے ساختگی ہے کہ پڑھنے والا قہقہہ لگانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ زر گزشت، چراغ تلے، خاکم بدہن اور آبِ گم مشتاق احمد یوسفی کی سدا بہار تصنیفات ہیں۔ شوکت تھانوی کی شہرۂ آفاق تخلیق ''چچا چھکن'' ہے جس کی بیوقوفیوں اور بد حواسیوں نے ایک دنیا کو اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا جب کہ شفیق احمد کی حماقتیں میں ''روفی'' کا کردار کسی طور بُھلائے جانے کے لائق نہیں۔
ضمیر جعفری کی '' کراچی کی بس میں سفر ہورہا ہے'' اور ''پرانا کوٹ'' جیسی شہرہ آفاق نظمیں سادہ زبانی اور مزاح میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔
دنیا کا پہلا کمپیوٹر وائرس
آج کمپیوٹر ہیکنگ اور وائرس کا استعمال بہت عام ہے، اگرچہ آج کے دور میں وائرس کا استعمال غلط طریقے سے استعمال ہوتا ہے لیکن دنیا کا پہلا کمپیوٹر وائرس پاکستانی نوجوانوں نے 1986 میں کمپیوٹر پروگرامز کی غیرقانونی نقل سازی (کاپی) روکنے کےلیے کیا تھا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے باسط فاروق علوی اور امجد فاروق علوی ان دنوں کمپیوٹر سے متعلق ساز و سامان (بشمول سافٹ ویئر) کی خرید و فروخت کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ اس وقت کمپیوٹر اتنا جدید اور تیز رفتار نہیں تھا جتنا آج ہے۔ اسی کام کے دوران انہوں نے محسوس کیا کہ کمپیوٹر کا استعمال کرنے والے غیر قانونی سافٹ ویئر استعمال کرتے ہیں۔ انہیں ایسے لوگوں کو سبق سکھانے کا انوکھا طریقہ سجھائی دیا۔ اسی سوچ نے ''برین'' کو تخلیق کیا، جو دنیا کا پہلا کمپیوٹر وائرس تھا۔ اس کا بنیادی مقصد صرف اتنا تھا کہ اگر کسی کمپیوٹر سے سافٹ ویئر کی غیرقانونی کاپی بنانے کی کوشش کی جائے تو یہ وائرس اسی کے ساتھ منتقل ہوجائے اور اس پروگرام کو چلنے ہی نہ دے۔ اس ایجاد کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی اور سافٹ ویئر کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کو غیرقانونی نقل سے بچانے کےلیے ایسے ہی اقدامات کیے۔ البتہ جیسے جیسے کمپیوٹر نے ترقی کی اور اس کا استعمال بڑھا، ویسے ویسے جرائم پیشہ لوگوں نے بھی وائرس تیار کرنا شروع کردیئے اور صرف چند سال میں وائرس تیار کرنا جرائم پیشہ کارروائی ہی بن کر رہ گیا۔
قطبین کے بعد سب سے زیادہ گلیشیئرز والی سرزمین
دنیا کے قطبین یعنی قطب شمالی اور قطب جنوبی میں پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ برف کی شکل میں موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر یہ برف پگھل جائے تو سمندر کی سطح کئی میٹر تک بلند ہوسکتی ہے جس سے دنیا کے بیشتر ساحلی شہر ڈوب سکتے ہیں۔ یہ تو رہی ایک بات لیکن سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ قطبین کے بعد پاکستان کے شمالی علاقوں میں سب سے زیادہ گلیشیئر ہیں، جو پاکستان کےلیے اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن بدقمستی سے ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، جن کی وجہ سے دوہرے خطرات کا خوف ہے۔ پہلا یہ کہ پاکستان کو پانی کی کمی کا سامنا ہوسکتا ہے اور دوسرا یہ کہ اگر گلیشیئرز تیزی سے پگھلنا شروع ہوجائیں تو ملک میں سیلاب کے خطرات بھی بڑھ سکتے ہیں۔