جناح کا پاکستان
جناح کی گیارہ اگست کی تقریر کو ریکارڈ سے غائب کردیا گیا، حتیٰ کہ اس کی بات کرنا بھی ایک گناہ ثابت کردیا گیا۔
FAISALABAD:
آج جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں گیارہ اگست ہے، ہماری تاریخ میں اس دن کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ 11 اگست 1947 قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی پہلی وفاقی آئین ساز اسمبلی میں پہلی تقریر کی، بحیثیت ایک صدر اس آئین ساز اسمبلی کے۔ یہ اس آئین ساز اسمبلی کا پہلا دن تھا اور پاکستان کے بننے میں ابھی تین دن باقی تھے کہ کیسا ہوگا پاکستان؟ قائداعظم محمد علی جناح پاکستان تحریک کے پائلٹ تھے، ایک ایسی کشتی کے کپتان تھے جو ایک گہرے سمندر میں تیز طوفانوں کی زد میں تھی۔
قائداعظم کا وجود اگر نہ ہوتا تو شاید پاکستان بھی نہ بنتا۔ جناح کو سمجھے بغیر، جناح کے پاکستان کو بھی نہ سمجھ سکیں گے۔ ایک ایسا لیڈر جو ہندو اور مسلمان دوستی کا امین تھا۔ جناح کو لکھنو پیکٹ کا اگر کہا جائے تو پسِ پردہ بانی۔ کانگریس میں آکر سیاست کا آغاز کیا۔ مسلم لیگ کے اوائلی دنوں میں، مسلم لیگ کے اسٹرکچر اور اس کی کارکردگی کے بھی نقاد تھے۔ وہ اس حد تک اپنے نظریے اور سوچ میں واضح تھے کہ علیگڑھ یونیورسٹی اور سر سید کے فلسفے پر بھی اختلاف رکھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو گھل مل جانا چاہیے اور اپنی علیحدہ شناخت پر زیادہ زور نہیں دینا چاہیے۔ وہ اپنے نظریے کے تحت مسلمانوں کے متحدہ ہندوستان میں رہنے اور میرٹ پر آگے بڑھنے کے وکیل تھے۔ جب گاندھی نے خلافت تحریک کی حمایت کی تو جناح نے اس کی بھی مخالفت کی۔
گاندھی مذہب کو سیاست میں لے کر آئے اور بظاہر خود سیکولر ازم کے پرچارک تھے۔ جب سائمن کمیشن بنا اور راؤنڈ ٹیبل کانفرنسز لندن میں ہوئیں اور لکھنو پیکٹ میں بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا کہ مسلمانوں کے اقلیتی حقوق کے تحفظ کے لیے Separate Electorate ہونا چاہیے۔ اس کمیشن سے پہلے، جناح 1920 میں کانگریس چھوڑچکے تھے۔ ان کے کانگریس چھوڑنے کی وجہ گاندھی کا انداز سیاست تھا۔ کانگریس چھوڑنے کے بعد وہ مسلم لیگ کے صدر بن گئے۔ پھر بھی انھوں نے ہندو مسلم یونٹی کی حمایت کی۔ وہ متحدہ ہندوستان کی سیاست پر یقین رکھتے تھے۔
بالآخر سائمن کمیشن اور لندن میں تین راؤنڈ ٹیبل کانفرنسز کے نتیجے میں GI Act 1935 (Govt of India Act 1935) برطانیہ کی گورنمنٹ نے پاس کیا۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ ہندوستان کے وفاقی تشخص کو مانا گیا جس کا سہرا قائداعظم محمد علی جناح کو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے علیحدہ ووٹ کی حقیقت کو بھی تسلیم کیا گیا، مگر ان دونوں باتوں کی کانگریس نے بڑی مخالفت کی۔
1935 کے ایکٹ کے بعد سندھ کو پہلی مرتبہ ہندوستان کی وفاقی اکائی مانا گیا۔ GI Act کے تحت 1937 میں ہندوستان کے پہلے انتخابات منعقدکرائے گئے جو کہ یوں تو بالغ رائے دہی (Adult Franchise) کی بنیاد پر نہ تھے مگر ہندوستان کی سیاسی ارتقاء کا بہت بڑا جمپ تھا۔ انتخابات میں مسلم لیگ کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا، سوائے بنگال کے کسی بھی ریاست میں حکومت نہ بنا سکی، اور اتر پردیش میں جو کانگریس نے وعدہ کیا تھا کہ مسلم لیگ اور کانگریس مل کر حکومت بنائیں گے اس وعدے سے کانگریس انکاری ہوگئی۔
یہ وہ لمحہ فکریہ تھا جہاں جناح کی سوچ میں تبدیلی آئی۔ انھیں مسلمانوں کا مستقبل متحد ہندوستان میں تاریک نظر آیا۔ وہ مسلمان ہونے کی حیثیت کے وکیل نہ تھے بلکہ بحیثیت ایک اقلیت ہونے کی وکالت کرتے تھے۔ انھیں یہ خوف لاحق تھا کہ اس اقلیت کو، اکثریت کھا جائے گی۔ نہرو، ولبھ بھائی پٹیل اور کانگریس کی قیادت میں جو گھمنڈ تھا اس نے جناح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ وہ تمام خطوط جو بحیثیت کانگریس لیڈر، نہرو نے جناح کو لکھے وہ طنز کے بھرپور شاہکار تھے، یہ وہ وقت تھا جب مسلمانوں کو مسلمان ہونے کے ناتے، ایک الگ قوم ہونے کے ناتے، بالآخر جناح کو دو قومی نظریہ دینا پڑا۔
جناح کو مسلمانان ہند کے لیے ایک علیحدہ وطن کی بات آخر کرنا پڑی۔ انھیں اینٹ کا جواب پتھر سے دینا پڑا۔ دو قومی نظریہ کیا تھا؟ دو قومی نظریہ مسلمانوں کے لیے آزادی کا پروانہ تھا۔ آخرکار 1946 میں ریاستی انتخابات ہوئے، دو قومی نظریے نے ایک Narrative بنایا، مسلمانان ہند کو پہلی مرتبہ ایک پلیٹ فارم ملا۔ تاریخ ملی اور تشخص ملا۔ ہیروز ملے، رہبر ملے۔ 1946 کے انتخابات کے نتائج، 1937 کے انتخابات سے بالکل مختلف سامنے آئے، جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہاں وہاں کانگریس کو شکست کا سامنا ہوا۔ کانگریس حواس باختہ ہوگئی۔ جناح اس وقت تک بھی علیحدہ وطن کے اصولی طور پر حمایتی نہ تھے۔
عائشہ جلال لکھتی ہیں کہ قرارداد پاکستان حقیقتاً پاکستان کی تحریک کا آغاز نہ تھا، بلکہ ایک ہتھیار تھا جس سے ہندوستان کے مسلمان اور ان کی قیادت برابری کے اصول پر مذاکرات کے لیے ٹیبل پر بیٹھنا چاہتے تھے۔ جناح کے پاس ہندوستان کا confideration والا concept تھا۔
ان کے پاس ہندوستان کی قیادت برابری کی بنیاد پر تھی۔ وہ نہرو کے وزیرِاعظم بننے میں بہت بڑی رکاوٹ تھے۔ وہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی میں Parity کے وکیل تھے۔ ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں کہ ''پاکستان جناح نے نہیں بنایا، پاکستان نہرو اور پٹیل کی ہٹ دھرمی نے بنایا''۔ اور یوں پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے تین دن پہلے قائداعظم 11 اگست 1947 کوپالیسی واضح کرتے ہیں۔
کیونکہ ان کو پتا تھا کہ فقط مذہب کی بنیاد پر قومیں نہیں بنا کرتیں۔ 11 اگست 1947 کی تقریر جناح کی پاکستان کے وجود میں آنے کی بنیاد ہے۔ مگر قائداعظم پاکستان کے وجود میں آنے کے ساتھ ساتھ بہت ضیعف ہوتے گئے۔ طوفان کے منجدھار سے وہ اپنی کشتی کو ساحل سمندر تک تو لے آئے مگر وہ اپنے سانسوں کی جنگ ہار گئے۔ وہ نہرو کی طرح پاکستان کو آئین تو نہ دے سکے مگر گیارہ اگست کی تقریر اور قرارداد پاکستان 23 مارچ 1940، ''کیسا ہونا چاہیے پاکستان اور اس کا آئین'' اس کا تعین کرتی ہے۔
جناح کے بعد جناح کا پاکستان یرغمال ہوگیا۔ جناح کی گیارہ اگست کی تقریر کو ریکارڈ سے غائب کردیا گیا، حتیٰ کہ اس کی بات کرنا بھی ایک گناہ ثابت کردیا گیا۔ جناح نے پاکستان میں مذہب اور ریاست کو الگ الگ دیکھا اور یہی ہے گیارہ اگست 1947 کی ان کی تقریر کا لب لباب۔
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں ، جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
آج جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں گیارہ اگست ہے، ہماری تاریخ میں اس دن کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ 11 اگست 1947 قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی پہلی وفاقی آئین ساز اسمبلی میں پہلی تقریر کی، بحیثیت ایک صدر اس آئین ساز اسمبلی کے۔ یہ اس آئین ساز اسمبلی کا پہلا دن تھا اور پاکستان کے بننے میں ابھی تین دن باقی تھے کہ کیسا ہوگا پاکستان؟ قائداعظم محمد علی جناح پاکستان تحریک کے پائلٹ تھے، ایک ایسی کشتی کے کپتان تھے جو ایک گہرے سمندر میں تیز طوفانوں کی زد میں تھی۔
قائداعظم کا وجود اگر نہ ہوتا تو شاید پاکستان بھی نہ بنتا۔ جناح کو سمجھے بغیر، جناح کے پاکستان کو بھی نہ سمجھ سکیں گے۔ ایک ایسا لیڈر جو ہندو اور مسلمان دوستی کا امین تھا۔ جناح کو لکھنو پیکٹ کا اگر کہا جائے تو پسِ پردہ بانی۔ کانگریس میں آکر سیاست کا آغاز کیا۔ مسلم لیگ کے اوائلی دنوں میں، مسلم لیگ کے اسٹرکچر اور اس کی کارکردگی کے بھی نقاد تھے۔ وہ اس حد تک اپنے نظریے اور سوچ میں واضح تھے کہ علیگڑھ یونیورسٹی اور سر سید کے فلسفے پر بھی اختلاف رکھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو گھل مل جانا چاہیے اور اپنی علیحدہ شناخت پر زیادہ زور نہیں دینا چاہیے۔ وہ اپنے نظریے کے تحت مسلمانوں کے متحدہ ہندوستان میں رہنے اور میرٹ پر آگے بڑھنے کے وکیل تھے۔ جب گاندھی نے خلافت تحریک کی حمایت کی تو جناح نے اس کی بھی مخالفت کی۔
گاندھی مذہب کو سیاست میں لے کر آئے اور بظاہر خود سیکولر ازم کے پرچارک تھے۔ جب سائمن کمیشن بنا اور راؤنڈ ٹیبل کانفرنسز لندن میں ہوئیں اور لکھنو پیکٹ میں بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا کہ مسلمانوں کے اقلیتی حقوق کے تحفظ کے لیے Separate Electorate ہونا چاہیے۔ اس کمیشن سے پہلے، جناح 1920 میں کانگریس چھوڑچکے تھے۔ ان کے کانگریس چھوڑنے کی وجہ گاندھی کا انداز سیاست تھا۔ کانگریس چھوڑنے کے بعد وہ مسلم لیگ کے صدر بن گئے۔ پھر بھی انھوں نے ہندو مسلم یونٹی کی حمایت کی۔ وہ متحدہ ہندوستان کی سیاست پر یقین رکھتے تھے۔
بالآخر سائمن کمیشن اور لندن میں تین راؤنڈ ٹیبل کانفرنسز کے نتیجے میں GI Act 1935 (Govt of India Act 1935) برطانیہ کی گورنمنٹ نے پاس کیا۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ ہندوستان کے وفاقی تشخص کو مانا گیا جس کا سہرا قائداعظم محمد علی جناح کو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے علیحدہ ووٹ کی حقیقت کو بھی تسلیم کیا گیا، مگر ان دونوں باتوں کی کانگریس نے بڑی مخالفت کی۔
1935 کے ایکٹ کے بعد سندھ کو پہلی مرتبہ ہندوستان کی وفاقی اکائی مانا گیا۔ GI Act کے تحت 1937 میں ہندوستان کے پہلے انتخابات منعقدکرائے گئے جو کہ یوں تو بالغ رائے دہی (Adult Franchise) کی بنیاد پر نہ تھے مگر ہندوستان کی سیاسی ارتقاء کا بہت بڑا جمپ تھا۔ انتخابات میں مسلم لیگ کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا، سوائے بنگال کے کسی بھی ریاست میں حکومت نہ بنا سکی، اور اتر پردیش میں جو کانگریس نے وعدہ کیا تھا کہ مسلم لیگ اور کانگریس مل کر حکومت بنائیں گے اس وعدے سے کانگریس انکاری ہوگئی۔
یہ وہ لمحہ فکریہ تھا جہاں جناح کی سوچ میں تبدیلی آئی۔ انھیں مسلمانوں کا مستقبل متحد ہندوستان میں تاریک نظر آیا۔ وہ مسلمان ہونے کی حیثیت کے وکیل نہ تھے بلکہ بحیثیت ایک اقلیت ہونے کی وکالت کرتے تھے۔ انھیں یہ خوف لاحق تھا کہ اس اقلیت کو، اکثریت کھا جائے گی۔ نہرو، ولبھ بھائی پٹیل اور کانگریس کی قیادت میں جو گھمنڈ تھا اس نے جناح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ وہ تمام خطوط جو بحیثیت کانگریس لیڈر، نہرو نے جناح کو لکھے وہ طنز کے بھرپور شاہکار تھے، یہ وہ وقت تھا جب مسلمانوں کو مسلمان ہونے کے ناتے، ایک الگ قوم ہونے کے ناتے، بالآخر جناح کو دو قومی نظریہ دینا پڑا۔
جناح کو مسلمانان ہند کے لیے ایک علیحدہ وطن کی بات آخر کرنا پڑی۔ انھیں اینٹ کا جواب پتھر سے دینا پڑا۔ دو قومی نظریہ کیا تھا؟ دو قومی نظریہ مسلمانوں کے لیے آزادی کا پروانہ تھا۔ آخرکار 1946 میں ریاستی انتخابات ہوئے، دو قومی نظریے نے ایک Narrative بنایا، مسلمانان ہند کو پہلی مرتبہ ایک پلیٹ فارم ملا۔ تاریخ ملی اور تشخص ملا۔ ہیروز ملے، رہبر ملے۔ 1946 کے انتخابات کے نتائج، 1937 کے انتخابات سے بالکل مختلف سامنے آئے، جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہاں وہاں کانگریس کو شکست کا سامنا ہوا۔ کانگریس حواس باختہ ہوگئی۔ جناح اس وقت تک بھی علیحدہ وطن کے اصولی طور پر حمایتی نہ تھے۔
عائشہ جلال لکھتی ہیں کہ قرارداد پاکستان حقیقتاً پاکستان کی تحریک کا آغاز نہ تھا، بلکہ ایک ہتھیار تھا جس سے ہندوستان کے مسلمان اور ان کی قیادت برابری کے اصول پر مذاکرات کے لیے ٹیبل پر بیٹھنا چاہتے تھے۔ جناح کے پاس ہندوستان کا confideration والا concept تھا۔
ان کے پاس ہندوستان کی قیادت برابری کی بنیاد پر تھی۔ وہ نہرو کے وزیرِاعظم بننے میں بہت بڑی رکاوٹ تھے۔ وہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی میں Parity کے وکیل تھے۔ ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں کہ ''پاکستان جناح نے نہیں بنایا، پاکستان نہرو اور پٹیل کی ہٹ دھرمی نے بنایا''۔ اور یوں پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے تین دن پہلے قائداعظم 11 اگست 1947 کوپالیسی واضح کرتے ہیں۔
کیونکہ ان کو پتا تھا کہ فقط مذہب کی بنیاد پر قومیں نہیں بنا کرتیں۔ 11 اگست 1947 کی تقریر جناح کی پاکستان کے وجود میں آنے کی بنیاد ہے۔ مگر قائداعظم پاکستان کے وجود میں آنے کے ساتھ ساتھ بہت ضیعف ہوتے گئے۔ طوفان کے منجدھار سے وہ اپنی کشتی کو ساحل سمندر تک تو لے آئے مگر وہ اپنے سانسوں کی جنگ ہار گئے۔ وہ نہرو کی طرح پاکستان کو آئین تو نہ دے سکے مگر گیارہ اگست کی تقریر اور قرارداد پاکستان 23 مارچ 1940، ''کیسا ہونا چاہیے پاکستان اور اس کا آئین'' اس کا تعین کرتی ہے۔
جناح کے بعد جناح کا پاکستان یرغمال ہوگیا۔ جناح کی گیارہ اگست کی تقریر کو ریکارڈ سے غائب کردیا گیا، حتیٰ کہ اس کی بات کرنا بھی ایک گناہ ثابت کردیا گیا۔ جناح نے پاکستان میں مذہب اور ریاست کو الگ الگ دیکھا اور یہی ہے گیارہ اگست 1947 کی ان کی تقریر کا لب لباب۔
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں ، جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل