آمدنی دگنی ہوسکتی ہے
پاکستانی سیاست کا یہ منظرنامہ آج ہم سب دیکھ رہے ہیں یہ سب کچھ جمہوریت کی آڑ میں ہو رہا ہے
KARACHI:
یہ ایک کڑوا سچ ہے جس سے ہر کوئی واقف ہے کہ بدعنوانی کے ذریعے اس ملک کی دولت کو عرصے سے لوٹا جاتا رہا ہے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ ایک سیدھی سادی بات ہے جسے کم وبیش ہر سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص جانتا ہے اب لوگ یہ بھی سمجھنے لگے ہیں کہ لوٹی جانے والی دولت ہم سب کی ہے۔ ایک سرسری اندازے کے مطابق جو دولت بدعنوانی کے ذریعے لوٹی گئی ہے اگر اسے واپس لے آیا جائے تو ہم سب کی آمدنی دگنی ہوسکتی ہے مگر جو دولت لوٹنے والے ہیں وہ اس نظام کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
ہم سب کو بے بس کر کے لوٹ مار جاری رکھنے کے لیے اب بھی کوششیں جاری ہیں لیکن اب یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا پہلے ہوتا تھا۔ عوام کو بے وقوف سمجھنے والے چاہیں کتنے جتن کر لیں اب ان کے چہرے بے نقاب ہورہے ہیں اب جب کہ ایک طاقتور شخص کو گرفت میں لانے کی کو شش کی گئی تو وہ لوٹ کھوسٹ کے اس نظام کو مزید مضبوط بنانے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کررہا ہے شور و غوغا کررہا ہے تاکہ گرفت سے بچا جاسکے ۔
پاکستانی سیاست کا یہ منظرنامہ آج ہم سب دیکھ رہے ہیں یہ سب کچھ جمہوریت کی آڑ میں ہو رہا ہے اور جمہوریت کے نام پر ہورہا ہے ہم نے مغربی جمہوریت کی طرز پر موجودہ نظام بنایا ہے۔ یہ نظام اس وقت بہتری کا تقاضہ کررہا ہے کیونکہ موجودہ نظام میں شخصی آمریت کا راستہ ہموار ہے اور ہر ادارے کو ایک شخص کا طابع اور فرمانبردار بنانے کی گنجائش موجود ہے جو مغربی جمہوریت میں نہیں ہے۔
مغربی جمہوریت کو بھی ایک مکمل آئیڈیل نظام نہیں کہاجا سکتا ہے لیکن وہ شفافیت ، اداروں کی خود مختاری ، آزادی اور عدل و انصاف کے بل بوتے پر عوام کو بہتر حکمرانی دیتا ہے اور فیصلہ سازی میں عوام کے حقوق اور خواہشات کو مد نظر رکھا جاتا ہے وہاں ادارے مضبوط اور شخصی آمریت کے تمام راستے بند ہیں اور ملکی دولت کو لوٹنے کے بھی تمام راستے مکمل طور پر بند ہیں پاکستان کی موجودہ سیاست میں جب سے اعلیٰ عدلیہ نے میاں نوازشریف کو نااہل قرار دے کر ان کے مقدمات نیب کی عدالتوں کو بھیج دیے ہیں۔
اس وقت سے وہ اور ان کے ساتھی سراپا احتجاج ہیں وہ اس کے لیے مسلم لیگی کارکنوں اور ریاستی مشنری کو استعمال کررہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ایسے قوانین بنانا چاہتے ہیں تاکہ کسی طرح اعلیٰ عدلیہ اور ملک کے دفاعی اداروں کو اپنے تابع کر لیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جو اقدامات کیے جارہے ہیں اور جو ٹکراؤ پیدا کیا جا رہا ہے اس آگ میں ملک دشمن قوتیں مزید ایندھن ڈالیں گی تاکہ انتشار اور افراتفری کے ذریعے ملک کو کمزور کرکے مزید غربت کی طرف دھکیل دیا جائے۔
اعلیٰ عدلیہ سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد مسلم لیگی قیادت حکمران مسلم لیگ ، پارلیمنٹ اور حکومت کو اپنے خاندان کو بچانے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اس کھیل میں حکومت کے تمام وسائل اور حکومتی مشنری کو استعمال کیا جا رہا ہے ۔ رفتہ رفتہ مسلم لیگ ن کے کارکنوں اوررہنماؤں کو بھی جلد احساس ہوگا کہ کس طرح شخصی حکومت کو بچانے کا کھیل جاری ہے۔
ایک ایسا کھیل جو ملک میں لاقانونیت ، افراتفری اور انتشار کو جنم دے رہاہے ایسی تمام کوششیں جلد یا بدتر اپنے نتیجے کی طرف چلی جائیں گی کیونکہ رفتہ رفتہ عوام کے سامنے حقائق آتے جارہے ہیں اور انھیں علم ہورہاہے کہ کس کس طرح ملک سے دولت لوٹی جارہی ہے اور لوٹی گئی ہے ساتھ ہی ان کو یہ بھی احساس ہورہاہے کہ اگر یہ دولت لوٹی نہ جاتی تو وہ بہت خوشحال ہوتے آج ان کی آمدنی موجودہ آمدنی سے دگنی ہوتی ملک کا یہ حال نہ ہوتا صاف ستھرے شہر اور دیہات ہوتے صحت کی بہتر سہو لیات ہوتیں اچھا کھانا اور صاف پانی پینے کو میسر ہوتا بچوں کے لیے بہترین تعلیم ہوتی ٹرانسپورٹ کابہت اچھا نظام ہوتاحقائق منظر عام پر آنے کے بعد عوام میں یہ شعور بھی اجاگر ہورہاہے کہ لوٹی ہوئی دولت واپس آنی چاہیے جس کے نتیجے میں ان کی آمدنی دگنی ہوسکتی ہے لہذا وہ عناصر جو لوٹ مار کا نظام برقرار رکھ کر خود کو طاقتور اور دولت مند بناناچاہتے ہیں اور عوام کو مزید غریب اور کمزور کرنا چاہتے ہیں بالآخر سجھ جائیں گے کہ لوٹ مار کے نظام میں کامیابی نہیں۔
یہ ایک کڑوا سچ ہے جس سے ہر کوئی واقف ہے کہ بدعنوانی کے ذریعے اس ملک کی دولت کو عرصے سے لوٹا جاتا رہا ہے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ ایک سیدھی سادی بات ہے جسے کم وبیش ہر سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص جانتا ہے اب لوگ یہ بھی سمجھنے لگے ہیں کہ لوٹی جانے والی دولت ہم سب کی ہے۔ ایک سرسری اندازے کے مطابق جو دولت بدعنوانی کے ذریعے لوٹی گئی ہے اگر اسے واپس لے آیا جائے تو ہم سب کی آمدنی دگنی ہوسکتی ہے مگر جو دولت لوٹنے والے ہیں وہ اس نظام کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
ہم سب کو بے بس کر کے لوٹ مار جاری رکھنے کے لیے اب بھی کوششیں جاری ہیں لیکن اب یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا پہلے ہوتا تھا۔ عوام کو بے وقوف سمجھنے والے چاہیں کتنے جتن کر لیں اب ان کے چہرے بے نقاب ہورہے ہیں اب جب کہ ایک طاقتور شخص کو گرفت میں لانے کی کو شش کی گئی تو وہ لوٹ کھوسٹ کے اس نظام کو مزید مضبوط بنانے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کررہا ہے شور و غوغا کررہا ہے تاکہ گرفت سے بچا جاسکے ۔
پاکستانی سیاست کا یہ منظرنامہ آج ہم سب دیکھ رہے ہیں یہ سب کچھ جمہوریت کی آڑ میں ہو رہا ہے اور جمہوریت کے نام پر ہورہا ہے ہم نے مغربی جمہوریت کی طرز پر موجودہ نظام بنایا ہے۔ یہ نظام اس وقت بہتری کا تقاضہ کررہا ہے کیونکہ موجودہ نظام میں شخصی آمریت کا راستہ ہموار ہے اور ہر ادارے کو ایک شخص کا طابع اور فرمانبردار بنانے کی گنجائش موجود ہے جو مغربی جمہوریت میں نہیں ہے۔
مغربی جمہوریت کو بھی ایک مکمل آئیڈیل نظام نہیں کہاجا سکتا ہے لیکن وہ شفافیت ، اداروں کی خود مختاری ، آزادی اور عدل و انصاف کے بل بوتے پر عوام کو بہتر حکمرانی دیتا ہے اور فیصلہ سازی میں عوام کے حقوق اور خواہشات کو مد نظر رکھا جاتا ہے وہاں ادارے مضبوط اور شخصی آمریت کے تمام راستے بند ہیں اور ملکی دولت کو لوٹنے کے بھی تمام راستے مکمل طور پر بند ہیں پاکستان کی موجودہ سیاست میں جب سے اعلیٰ عدلیہ نے میاں نوازشریف کو نااہل قرار دے کر ان کے مقدمات نیب کی عدالتوں کو بھیج دیے ہیں۔
اس وقت سے وہ اور ان کے ساتھی سراپا احتجاج ہیں وہ اس کے لیے مسلم لیگی کارکنوں اور ریاستی مشنری کو استعمال کررہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ایسے قوانین بنانا چاہتے ہیں تاکہ کسی طرح اعلیٰ عدلیہ اور ملک کے دفاعی اداروں کو اپنے تابع کر لیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جو اقدامات کیے جارہے ہیں اور جو ٹکراؤ پیدا کیا جا رہا ہے اس آگ میں ملک دشمن قوتیں مزید ایندھن ڈالیں گی تاکہ انتشار اور افراتفری کے ذریعے ملک کو کمزور کرکے مزید غربت کی طرف دھکیل دیا جائے۔
اعلیٰ عدلیہ سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد مسلم لیگی قیادت حکمران مسلم لیگ ، پارلیمنٹ اور حکومت کو اپنے خاندان کو بچانے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اس کھیل میں حکومت کے تمام وسائل اور حکومتی مشنری کو استعمال کیا جا رہا ہے ۔ رفتہ رفتہ مسلم لیگ ن کے کارکنوں اوررہنماؤں کو بھی جلد احساس ہوگا کہ کس طرح شخصی حکومت کو بچانے کا کھیل جاری ہے۔
ایک ایسا کھیل جو ملک میں لاقانونیت ، افراتفری اور انتشار کو جنم دے رہاہے ایسی تمام کوششیں جلد یا بدتر اپنے نتیجے کی طرف چلی جائیں گی کیونکہ رفتہ رفتہ عوام کے سامنے حقائق آتے جارہے ہیں اور انھیں علم ہورہاہے کہ کس کس طرح ملک سے دولت لوٹی جارہی ہے اور لوٹی گئی ہے ساتھ ہی ان کو یہ بھی احساس ہورہاہے کہ اگر یہ دولت لوٹی نہ جاتی تو وہ بہت خوشحال ہوتے آج ان کی آمدنی موجودہ آمدنی سے دگنی ہوتی ملک کا یہ حال نہ ہوتا صاف ستھرے شہر اور دیہات ہوتے صحت کی بہتر سہو لیات ہوتیں اچھا کھانا اور صاف پانی پینے کو میسر ہوتا بچوں کے لیے بہترین تعلیم ہوتی ٹرانسپورٹ کابہت اچھا نظام ہوتاحقائق منظر عام پر آنے کے بعد عوام میں یہ شعور بھی اجاگر ہورہاہے کہ لوٹی ہوئی دولت واپس آنی چاہیے جس کے نتیجے میں ان کی آمدنی دگنی ہوسکتی ہے لہذا وہ عناصر جو لوٹ مار کا نظام برقرار رکھ کر خود کو طاقتور اور دولت مند بناناچاہتے ہیں اور عوام کو مزید غریب اور کمزور کرنا چاہتے ہیں بالآخر سجھ جائیں گے کہ لوٹ مار کے نظام میں کامیابی نہیں۔