مولانا ابوالکلام آزاد کی ہمالیائی بھول

آج بھی کچھ ناسمجھ لوگ یہ کہنے لگتے ہیں کہ 1940 کی قرارداد لاہور میں ایک وطن پاکستان کا مطالبہ تو شامل ہی نہیں تھا

usmandamohi@yahoo.com

اس میں کوئی کلام نہیں کہ مولانا ابوالکلام آزاد جید عالم دین اور قابل ترین رہنما تھے مگر وہ قیام پاکستان کے جتنے مخالف تھے کانگریس کیا راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS) کا بھی کوئی لیڈر اس ضمن میں ان کا ہم پلا نہیں تھا۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ اکھنڈ بھارت کے شیدائی تھے، البتہ متحدہ ہندوستان میں رام راج کے حق میں نہیں تھے۔ وہ ہندو مسلمانوں کو ایک قوم سمجھتے تھے اورانھیں متحدہ ہندوستان میں ایک ساتھ رکھنے کی کانگریسی جدوجہد میں ہمہ تن مشغول و مصروف تھے۔

قائداعظم بھی ایک عرصے تک کانگریس کے لیڈر رہے۔ ان کی مقبولیت کا یہ حال تھا کہ انھیں ہندو مسلم اتحاد اور امن کے پیمبرکا خطاب دیا گیا تھا مگر انھوں نے کانگریس کو اس وقت خیر باد کہہ دیا تھا جب انھیں کانگریسی ہندو لیڈروں کے مسلمانوں کے بارے میں مستقبل کے گھناؤنے منصوبوں سے واقفیت حاصل ہوئی۔

قائداعظم بجا طور پر برصغیر کے ایک چوٹی کے لیڈر تھے اور مسلم لیگ کو ایک قابل لائق فائق اور جرأت مند مسلم لیڈر کی تلاش تھی جو مسلم لیگ کو برصغیرکے لیول کی مسلمانوں کی نمایندہ پارٹی بنانے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو زبوں حالی سے نکالنے کا ادراک اور حوصلہ رکھتا ہو چنانچہ ان خوبیوں کے حامل محمد علی جناح کو مسلم لیگ کی قیادت سونپ دی گئی۔

قائد اعظم چونکہ پہلے ہی ہندو سامراج کی انگریزوں کے ہندوستان سے جانے کے بعد اپنی اکثریت کی بنیاد پر مسلمانوں کو اپنا غلام بنانے کی سازش کو بھانپ چکے تھے، چنانچہ 23 مارچ 1940 کو لاہور میں منعقدہ برصغیر کے مسلمانوں کے ایک نمایندہ عظیم اجلاس مسلمانوں کے لیے ان کے اکثریتی صوبوں میں ان کی خود مختار حکومتیں قائم کرنے کا مطالبہ پیش کردیا تھا دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ بالکل کنگال ہوچکا تھا، اس میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ برصغیر جیسے اپنے بڑے مقبوضہ علاقے پر اپنا کنٹرول قائم رکھ سکے ۔ چنانچہ وہ برصغیرکو جلد اس کے باسیوں کے حوالے کرنا چاہتا تھا۔

انگریز ہندوستان کو آزاد کرنے کے لیے ضرور تیار تھے مگر برصغیر کو ہندو مسلم دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ لوگ جو یہ نظریہ پیش کرکے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ انگریزوں نے خود پاکستان بنوایا تھا ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ تاریخ ہند کا بغور مطالعہ کریں تو ان کی آنکھیں کھل جائیں گی کہ انگریز ہندوگٹھ جوڑ پہلے ہی فیصلہ کرچکا تھا کہ پورا برصغیر ہندوؤں کے قبضے میں رہنا چاہیے۔

وزیر اعظم برطانیہ مسٹر ایٹلی نے برصغیرکو آزادی دینے اور اس سے متعلق دیگر امور طے کرنے کے لیے ایک وفد جسے کیبنٹ مشن کا نام دیا گیا تھا ہندوستان بھیجا جو 23مارچ 1946 کو دہلی پہنچا ۔اس وقت کانگریس کے صدر مولانا ابوالکلام آزاد تھے چنانچہ مشن کی سب سے پہلی ملاقات ان ہی سے ہوئی۔ میٹنگ میں طے ہوا کہ ہندوستان کا آئین وفاقی ہونا چاہیے۔ صوبوں کو مکمل خود مختاری کی ضمانت دی جائے۔

مرکز اورصوبائی حکومتوں کے درمیان اختیارات اور ذمے داریوں کی تقسیم کا ایک تشفی بخش فارمولا تیارکیا جائے۔کچھ اختیارات اور ذمے داریاں مرکزکے ذمے ہوں اور کچھ صوبوں کے حوالے کردی جائیں کوئی صوبہ اگر چاہے تو اپنے بعض امور مرکزکو تفویض کرسکتا ہے۔ دفاع ، مواصلات اورخارجی امور وفاقی حکومت انجام دے گی۔کرنسی کا معاملہ بعد میں طے کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ اس سے چھ سال قبل 23 مارچ1940 کو مسلم لیگ مسلمانوں کے حق میں ایسا ہی ملتا جلتا فارمولا پیش کرچکی تھی۔

اس وقت تک مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ پیش نہیں کیا گیا تھا کیونکہ اس وقت تک کانگریس کے مسلمانوں کے خلاف اصل عزائم پردے میں ہی تھے جن کا مسلمانوں کو بعد میں علم ہوا۔ اس کے بعد وہ مکمل طور پر تقسیم ہند اور مسلمانوں کے لیے ایک آزاد خودمختار ریاست کے قیام کا مطالبہ پیش کرنے لگے۔


آج بھی کچھ ناسمجھ لوگ یہ کہنے لگتے ہیں کہ 1940 کی قرارداد لاہور میں تو مسلمانوں کے لیے کئی آزاد خودمختار ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا ایک وطن پاکستان کا مطالبہ تو اس میں شامل ہی نہیں تھا تو یہ بات بالکل درست ہے مگر ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ کانگریسیوں کے مسلمانوں کے خلاف جب اصل عزائم ظاہر ہوگئے تو پھر مسلم لیگ نے 9 اپریل 1946 کو منعقدہ ایک نمایندہ اجلاس میں قرارداد لاہور میں ترمیمات کیں اور مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ آزاد خودمختار اسلامی شعائر پر مبنی ریاست پاکستان کے قیام کا مطالبہ پیش کیا اور اس کے ساتھ ہی قرارداد لاہور کو قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا۔

کیبنٹ مشن کو کانگریس نے تو من وعن قبول کرلیا تھا جس میں مولانا آزاد سب سے پیش پیش تھے مگر مسلم لیگ قرارداد لاہور میں کیے گئے مطالبات کو منوانے پر بضد تھے۔ ہندو انگریزگٹھ جوڑ چونکہ پہلے ہی فیصلہ کرچکا تھا کہ پورا برصغیر ہندوؤں کے کنٹرول میں رہے گا۔گوکہ قرارداد لاہور میں ایک مسلم آزاد ملک کے قیام کا ذکر نہیں تھا مگرکیبنٹ مشن قرارداد لاہور کو پھر بھی ماننے سے انکاری تھا ۔ لگتا ہے اسے مستقبل میں اس کے ذریعے برصغیرکی تقسیم کا خدشہ تھا۔

کیبنٹ مشن کی جانب سے مسلم لیگ کے مطالبات کو ماننے سے صاف انکار اورکیبنٹ مشن کی سفارشات پر ہی اکتفا کرنے کی تلقین کے بعد مسلم لیگ کو کیبنٹ مشن کی سفارشات کو ماننے کے سوا چارا نہ تھا۔ چنانچہ مسلم لیگ نے اس سلسلے میں ایک سہ روزہ اجلاس منعقد کیا جس میں کیبنٹ مشن پلان پر بحث و مباحثہ کیا گیا۔ اس میں ارکان اس نتیجے پر پہنچے کہ کیبنٹ مشن کو موجودہ حالات میں قبول کرنے کے سوا چارا نہیں ہے۔

مولانا آزاد کے مطابق ہندوستان کی تحریک آزادی کی تاریخ میں کانگریس اور مسلم لیگ کی طرف سے کیبنٹ مشن پلان کو قبول کرنا ایک شاندار واقعہ تھا۔ مسلم لیگ کو کیبنٹ مشن کے قبول کرانے میں مولانا آزاد کا اہم حصہ تھا۔ 26 اپریل 1946 کو کانگریس کے نئے صدر کا انتخاب عمل میں آیا جس میں مولانا کی جگہ جواہر لال نہروکو صدر منتخب کرلیا گیا مگر اکثرکانگریسی ممبران مولانا آزاد کو ہی صدارت پر رکھنا چاہتے تھے تاہم مولانا نے بخوشی اپنی جگہ نہروکو صدر منتخب کرادیا۔

10 جولائی 1946 کو نہرو نے بمبئی میں ایک پریس کانفرنس بلائی جس میں انھوں نے مولانا کے بقول ایک حیران کن بیان دیا۔ جب بعض اخباری نمایندوں نے ان سے سوال کیا کہ کیا کانگریس ہائی کمان کی منظوری کے بعد کیبنٹ مشن پلان کو بشمول انٹرا حکومت کی تشکیل کے ساتھ جوں کا توں قبول کرلیا جائے گا۔ نہرو نے جواب دیا کہ دستورساز اسمبلی میں کانگریس یوں داخل ہوگی کہ تمام سمجھوتوں سے اکثر آزاد ہوگی اور وہ تمام حالات جو رونما ہوسکتے ہیں، ان کا سامنا اپنی مرضی کے مطابق کرے گی۔

اخباری نمائندوں نے مزید دریافت کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ کیبنٹ مشن پلان میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔ نہرو نے پرزور الفاظ میں جواب دیا کہ کانگریس صرف اس پر رضامند ہوئی تھی کہ دستور ساز اسمبلی میں شرکت کرے گی اور وہ اپنے آپ کو اس کے لیے آزاد سمجھتی ہے کہ اس کے نزدیک جو مناسب ترین صورت ہوگی۔ اسی کے مطابق کیبنٹ مشن پلان کو قبول کرے یا اس میں ترمیم کرے۔ نہروکے اس جواب سے کانگریس کی مسلم دشمنی واضح ہوچکی تھی۔ مولانا آزاد نے مسلم لیگ کو راضی کرنے کے لیے جو بات شاید چھپائی تھی اسے نہرو نے بالکل کھول کر بیان کردیا تھا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ مولانا آزاد ہندو لیڈروں کے قریب رہ کر بھی ان کے عزائم سے بے خبر رہے یا تو وہ کانگریسی ذہنیت کو سمجھ ہی نہیں سکے یا پھر وہ بہرصورت ہندوستان کو متحد رکھنا چاہتے تھے۔ مسلم لیگ نے کیبنٹ مشن کی آڑ میں مسلمانوں کو غلام بنانے کی سازش کے فاش ہوجانے کے بعد 27 جولائی 1946 کو ایک اجلاس منعقد کرکے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد وطن پاکستان کا مطالبہ زور و شور سے پیش کردیا۔

مولانا آزاد نہرو کے ذریعے کانگریس کی مسلم دشمنی کے افشا پر سخت ترین پریشان تھے۔ انھوں نے اپنی خود نوشت ''آزادیٔ ہند'' میں لکھا ''میں نے حتی الوسیع اپنی فہم و فراست کیمطابق قدم اٹھایا تھا مگر نہروکی وجہ سے معاملات نے جو شکل اختیار کی اس کی بنیاد پر میں سمجھنے لگا ہوں کہ یہ میری سیاسی زندگی کی شاید سب سے بڑی بھول تھی۔ میں اپنے کسی فعل پر کبھی اتنا پشیمان نہیں ہوا جتنا کہ اس نازک مرحلے پر کانگریس کی صدارت سے اپنا نام واپس لینے کے فیصلے پر ہوا۔ یہ میری ایک ایسی غلطی تھی جسے ہمالیائی جہات کی غلطی کا نام دیے جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔''
Load Next Story