نیرنگی سیاست دوراں
نیرنگی سیاست دوراں کی بے شمار مثالیں ہیں، وہی لوگ جو آج دوست ہوتے ہیں مطلب نکلتے ہی آنکھیں پھیر لیتے ہیں
جب سے پاناما کیس سامنے آیا ہے اس وقت سے آج تک سیاست کے حوالے سے بے شمار دلچسپ اور مضحکہ خیز خبریں پڑھنے کو مل رہی ہیں، رہی سہی کسر جے آئی ٹی نے پوری کردی، جے آئی ٹی پاناما ہی کی پیداوار ہے لیکن اس جے آئی ٹی نے اچھے اچھوں کی کمر توڑ دی اور اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ آگیا ہے، اس زلزلے میں بہت کچھ بہنا چاہیے تھا لیکن وزیراعظم کی کرسی کے علاوہ سب کچھ جوں کا توں ہے، تھوڑی بہت تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں لیکن وہ سب کی سب ملی بھگت اور بادشاہت کے نتیجے میں منظر عام پر آئیں۔
سابق وزیراعظم اپنی وہ کرسی اپنے دوست خاقان عباسی کے حوالے کرنے پر مجبور ہوگئے اور اپنے چھوٹے بھیا میاں شہباز شریف کو مستقل بنیاد پر وزیراعظم بنانے کی ہدایت کردی۔ یہ لفظ ''مستقل'' سمجھ سے باہر ہے۔ 2018 میں انتخابات ہوں گے، تب بھی ''مستقل'' کی کہانی اپنے انجام کو ہرگز نہیں پہنچے گی، اس دنیا کے آب و گل میں کوئی چیز مستقل نہیں ہے، سب کچھ عارضی اور وقتی، عہدہ، شہرت، دولت کسی کو دوام نہیں۔
ان حالات میں میاں نواز شریف اور ان کے خاندان نے بارہا عدالت سے سوال کیا اور یہ سوال عوام کی طرف بھی جاتا ہے کہ ہمارا قصور کیا ہے؟ پوری دنیا میں ڈھول پٹ گیا لیکن حکمران طبقہ آواز سننے سے قاصر رہا۔ ساتھ میں اس بات کا بھی گلہ بلکہ شدید قسم کا رنج ہے کہ انھیں نااہل بھی کیا تو کس بات پر کیا کہ بیٹے سے تنخواہ نہ وصول کرنے پر، ان کی نظر میں یہ تو بے حد معمولی بات تھی، اگر نااہل کرنا ہی تھا تو سنگین جرائم پر کیا جاتا۔ اب اگر انھیں کچھ لوگ معصوم کہتے ہیں تو کیا غلط کہتے ہیں۔
بقول سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی کہ نواز شریف کو عدالت نے بچا لیا ایک معمولی اور غیر اہم بات پر نااہل کردیا گیا، ورنہ تو منی لانڈرنگ کا کیس جیل کی ہوا بھی کھلا سکتا ہے۔ (ن) لیگ کے رہنماؤں کو ذرا سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے، چونکہ انھوں نے اپنی حکومت میں ایسے کام کیے ہیں جن کے تحت بہت کچھ ہوسکتا ہے، عوام اور ماڈل ٹاؤن لاہور کے وہ غمزدہ خاندان جن کے گھروں سے جنازے اٹھے، مقتولوں کے خون کا بدلہ لینا نہیں بھولے ہیں، وہ قصاص کے منتظر ہیں۔
عمران خان کے دھرنے کے دوران بھی پی ٹی آئی کے کارکنوں پر فائرنگ کی گئی تھی، کئی کارکن جاں بحق ہوئے۔ غربت، افلاس، ٹیکس کی بھرمار، پانی بجلی کے بحران نے بھی بہت سے لوگوں کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا، ان تمام مسائل اور تکالیف کی ذمے دار حکومت ہے یا عوام؟ سابق وزیراعظم نواز شریف کو یہ بھی شکایت ہے کہ وہ دو بار وزیراعظم کے عہدے کی مدت پوری نہ کرسکے اور اب بھی پھر وہی کہانی دہرائی گئی ہے۔
تمام ہی وزرائے اعظموں کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے، تو پھر سوال یہ سامنے آتا ہے کہ آخر وہ کیا غلطی اور خامیاں تھیں جن کی وجہ سے ان مقتدر حضرات کو وزارت عظمیٰ کے عہدوں سے ہٹایا جاتا رہا ہے، سابقہ غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور ماضی کے جھرونکوں سے اپنی حکومت کی کارکردگی پر ضرور غور کرنا چاہیے، تاکہ موجودہ حکومت میں غلطیوں کا ازالہ ہوسکے، لیکن اس کے برعکس انھی کوتاہیوں کو دہرایا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ حصول زر کی طلب بڑھتی جاتی ہے۔ آصف زرداری کی حکومت میں بھی ایسے ہی حالات پیدا ہوئے تھے اور لوٹنے کھسوٹنے کا عمل جاری رہا تھا، فیضیاب ہونے والوں میں ایسے ایسے نام منکشف ہوئے کہ الامان والحفیظ کے سوا کچھ کہنا بے کار ہے۔
نیرنگی سیاست دوراں کی بے شمار مثالیں ہیں، وہی لوگ جو آج دوست ہوتے ہیں مطلب نکلتے ہی آنکھیں پھیر لیتے ہیں اور بے دھڑک ہوکر نفرت اور تعصب کا اظہار کرتے ہیں، ان خامیوں کا بھی ذکر کرتے ہیں جو موصوف میں سرے سے نہیں ہوتیں، کچھ بیانات بے حد مضحکہ خیز اور ناقابل یقین ہوتے ہیں۔ حال ہی میں (ن) لیگ کے رہنما حنیف عباسی کا بیان پڑھنے کو ملا کہ اگر ریحام خان نے کتاب لکھ دی تو عمران خان کا کیا بنے گا اور وہ اپنے بیان میں آگے کہتے ہیں کہ ریحام خان کی کتاب میں ایسے انکشافات ہوں گے جس سے عمران خان کی بچت نہیں ہوگی، اس کتاب سے ڈرنا چاہیے۔
میرا خیال ہے ڈرنا تو ان لوگوں کو چاہیے جن کا ماضی اور حال سب کے سامنے آچکا ہے اور اس سے قبل بھی سیاستدانوں اور وزرا و صدور کی کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی کتاب (Daughter of the East) اور پرویز مشرف کی (اِن دا لائن آف فائر)In the Line of Fire منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوئیں، ان کتابوں میں بھی متنازعہ مسائل اور حالات حاضرہ سے بحث کی گئی تھی، اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں اور ظلم کرنے والوں کے رویے کو اجاگر کیا گیا تھا۔ پھر کیا ہوا؟ کچھ بھی نہیں۔
اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی ہر شخص کو اجازت ہے، اسی قبیل کی ایک اور خبر سامنے آئی ہے، یہ بھی مسلم لیگ (ن) کے میاں جاوید لطیف کی طرف سے ہے۔ انھوں نے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں کہا کہ عمران اگر بدکردار ہو تو سنگسار کردینا چاہیے، لیکن سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو تو سنگسار نہیں کیا گیا جو قرآن پاک کی سورۃ سورہ نور کے مطابق واقعی اس قابل تھے، مختاراں مائی کے مجرم اور راجا پور کی بارہ سال کی بچی جس پر ظلم توڑا گیا، گواہ اور مجرم موجود تھے، ایسے واقعات ہر روز جنم لیتے ہیں، ان کے گواہان موجود ہوتے ہیں، ثبوت مل جاتے ہیں لیکن ہوتا کچھ نہیں ہے، ایسے معاملات کو اپنے گھر سے صحیح کرنے کی ضرورت ہے۔
سابق وزیراعظم اپنی وہ کرسی اپنے دوست خاقان عباسی کے حوالے کرنے پر مجبور ہوگئے اور اپنے چھوٹے بھیا میاں شہباز شریف کو مستقل بنیاد پر وزیراعظم بنانے کی ہدایت کردی۔ یہ لفظ ''مستقل'' سمجھ سے باہر ہے۔ 2018 میں انتخابات ہوں گے، تب بھی ''مستقل'' کی کہانی اپنے انجام کو ہرگز نہیں پہنچے گی، اس دنیا کے آب و گل میں کوئی چیز مستقل نہیں ہے، سب کچھ عارضی اور وقتی، عہدہ، شہرت، دولت کسی کو دوام نہیں۔
ان حالات میں میاں نواز شریف اور ان کے خاندان نے بارہا عدالت سے سوال کیا اور یہ سوال عوام کی طرف بھی جاتا ہے کہ ہمارا قصور کیا ہے؟ پوری دنیا میں ڈھول پٹ گیا لیکن حکمران طبقہ آواز سننے سے قاصر رہا۔ ساتھ میں اس بات کا بھی گلہ بلکہ شدید قسم کا رنج ہے کہ انھیں نااہل بھی کیا تو کس بات پر کیا کہ بیٹے سے تنخواہ نہ وصول کرنے پر، ان کی نظر میں یہ تو بے حد معمولی بات تھی، اگر نااہل کرنا ہی تھا تو سنگین جرائم پر کیا جاتا۔ اب اگر انھیں کچھ لوگ معصوم کہتے ہیں تو کیا غلط کہتے ہیں۔
بقول سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی کہ نواز شریف کو عدالت نے بچا لیا ایک معمولی اور غیر اہم بات پر نااہل کردیا گیا، ورنہ تو منی لانڈرنگ کا کیس جیل کی ہوا بھی کھلا سکتا ہے۔ (ن) لیگ کے رہنماؤں کو ذرا سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے، چونکہ انھوں نے اپنی حکومت میں ایسے کام کیے ہیں جن کے تحت بہت کچھ ہوسکتا ہے، عوام اور ماڈل ٹاؤن لاہور کے وہ غمزدہ خاندان جن کے گھروں سے جنازے اٹھے، مقتولوں کے خون کا بدلہ لینا نہیں بھولے ہیں، وہ قصاص کے منتظر ہیں۔
عمران خان کے دھرنے کے دوران بھی پی ٹی آئی کے کارکنوں پر فائرنگ کی گئی تھی، کئی کارکن جاں بحق ہوئے۔ غربت، افلاس، ٹیکس کی بھرمار، پانی بجلی کے بحران نے بھی بہت سے لوگوں کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا، ان تمام مسائل اور تکالیف کی ذمے دار حکومت ہے یا عوام؟ سابق وزیراعظم نواز شریف کو یہ بھی شکایت ہے کہ وہ دو بار وزیراعظم کے عہدے کی مدت پوری نہ کرسکے اور اب بھی پھر وہی کہانی دہرائی گئی ہے۔
تمام ہی وزرائے اعظموں کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے، تو پھر سوال یہ سامنے آتا ہے کہ آخر وہ کیا غلطی اور خامیاں تھیں جن کی وجہ سے ان مقتدر حضرات کو وزارت عظمیٰ کے عہدوں سے ہٹایا جاتا رہا ہے، سابقہ غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور ماضی کے جھرونکوں سے اپنی حکومت کی کارکردگی پر ضرور غور کرنا چاہیے، تاکہ موجودہ حکومت میں غلطیوں کا ازالہ ہوسکے، لیکن اس کے برعکس انھی کوتاہیوں کو دہرایا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ حصول زر کی طلب بڑھتی جاتی ہے۔ آصف زرداری کی حکومت میں بھی ایسے ہی حالات پیدا ہوئے تھے اور لوٹنے کھسوٹنے کا عمل جاری رہا تھا، فیضیاب ہونے والوں میں ایسے ایسے نام منکشف ہوئے کہ الامان والحفیظ کے سوا کچھ کہنا بے کار ہے۔
نیرنگی سیاست دوراں کی بے شمار مثالیں ہیں، وہی لوگ جو آج دوست ہوتے ہیں مطلب نکلتے ہی آنکھیں پھیر لیتے ہیں اور بے دھڑک ہوکر نفرت اور تعصب کا اظہار کرتے ہیں، ان خامیوں کا بھی ذکر کرتے ہیں جو موصوف میں سرے سے نہیں ہوتیں، کچھ بیانات بے حد مضحکہ خیز اور ناقابل یقین ہوتے ہیں۔ حال ہی میں (ن) لیگ کے رہنما حنیف عباسی کا بیان پڑھنے کو ملا کہ اگر ریحام خان نے کتاب لکھ دی تو عمران خان کا کیا بنے گا اور وہ اپنے بیان میں آگے کہتے ہیں کہ ریحام خان کی کتاب میں ایسے انکشافات ہوں گے جس سے عمران خان کی بچت نہیں ہوگی، اس کتاب سے ڈرنا چاہیے۔
میرا خیال ہے ڈرنا تو ان لوگوں کو چاہیے جن کا ماضی اور حال سب کے سامنے آچکا ہے اور اس سے قبل بھی سیاستدانوں اور وزرا و صدور کی کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی کتاب (Daughter of the East) اور پرویز مشرف کی (اِن دا لائن آف فائر)In the Line of Fire منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوئیں، ان کتابوں میں بھی متنازعہ مسائل اور حالات حاضرہ سے بحث کی گئی تھی، اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں اور ظلم کرنے والوں کے رویے کو اجاگر کیا گیا تھا۔ پھر کیا ہوا؟ کچھ بھی نہیں۔
اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی ہر شخص کو اجازت ہے، اسی قبیل کی ایک اور خبر سامنے آئی ہے، یہ بھی مسلم لیگ (ن) کے میاں جاوید لطیف کی طرف سے ہے۔ انھوں نے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں کہا کہ عمران اگر بدکردار ہو تو سنگسار کردینا چاہیے، لیکن سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو تو سنگسار نہیں کیا گیا جو قرآن پاک کی سورۃ سورہ نور کے مطابق واقعی اس قابل تھے، مختاراں مائی کے مجرم اور راجا پور کی بارہ سال کی بچی جس پر ظلم توڑا گیا، گواہ اور مجرم موجود تھے، ایسے واقعات ہر روز جنم لیتے ہیں، ان کے گواہان موجود ہوتے ہیں، ثبوت مل جاتے ہیں لیکن ہوتا کچھ نہیں ہے، ایسے معاملات کو اپنے گھر سے صحیح کرنے کی ضرورت ہے۔