سترویں سالگرہ

یاد رکھنا چاہیے کہ قائداعظم جیسے بڑے اور عظیم لیڈر روز روز پیدا نہیں ہوتے۔

Amjadislam@gmail.com

چند برس قبل وطن عزیز کی ایک سالگرہ پر جو نظم لکھی گئی تھی ایک معمولی سی تبدیلی کے ساتھ کچھ اس طرح ہے

انہتر سال پہلے ایک دن ایسا بھی آیا تھا

جب اک سورج نکلنے پر

چمکتی دھوپ پھیلی تھی تو منظر جگمگایا تھا

اگرچہ میں نے وہ منظر بچشم خود نہیں دیکھا

مگر جب یاد کرتا ہوں تو سانسیں گنگناتی ہیں

کئی صدیوں سے صحرا میں بکھرتی ریت کی صورت

کروڑوں لوگ تھے جن کا

نہ کوئی نام لیتا تھا نہ کچھ پہچان تھی باقی

کھلا سر پر جو اس اعلان کا خوشبو بھرا سایا

ہلالی سبز پرچم کا وہ ٹھنڈا دلربا سایا

تو ان کی جاں میں جاں آئی

لہو میں روشنی جاگی

دہن میں پھر زباں آئی

انہتر سال پہلے کا وہ اک احسان مت بھولو

خدا کی خاص رحمت ہے یہ پاکستان، مت بھولو

آج اہل وطن سے اس نظم کو دوبارہ شیئر کرنے کی وجہ اس کی آخری دو لائنیں ہیں کہ وطن عزیز کی اس سترویں سالگرہ کے موقع پر سب سے زیادہ یاد رکھنے والی بات یہی ہے اور یہ احسان رب کریم نے صرف اسلامیان ہند پر ہی نہیں فرمایا بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس سے فیض حاصل کیا۔ آج دنیا کے نقشے پر پچاس سے زیادہ جو مسلمان اکثریت والے آزاد ممالک ہیں ان میں سے ایک بھی پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر آزادی کی نعمت سے بہرہ ور نہیں تھا بلکہ ان میں سے بیشتر تو اپنی موجودہ شکل میں ظہور پذیر ہی نہیں ہوئے تھے۔


آبادی کے اعتبار سے پاکستان، انڈونیشیا، ملائشیا، ترکی، ایران، بنگلہ دیش اور بھارت میں آباد مسلمانوں کی تعداد چین، بھارت امریکا اور روس کی کل آبادی کے بعد غالباً دنیا کے تمام ملکوں سے زیادہ ہے۔ قدرتی وسائل کے اعتبار سے بھی یہ ممالک بے حد ثروت مند ہیں لیکن ترقی کی دوڑ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو مغرب کے کئی بہت کم آبادی والے چھوٹے ملک بھی ہم سے کہیں آگے ہیں۔ بلاشبہ اس صورت حال کی بیشتر وجوہات کا تعلق اس تاریخی عمل سے ہے جس کے باعث یہ معاشرے قوت عمل سے محروم ہوتے چلے گئے لیکن دیکھنے اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ آزاد اور خود مختار ہونے کے بعد ہم نے کیا کیا ہے؟

جیسا کہ میں نے گزشتہ کالم میں بھی ذکر کیا تھا کہ یوم آزادی کے موقع پر میں ہمیشہ چیزوں کے روشن رخ کی بات کرتا ہوں کہ تنقید اور رونے دھونے کا کام تو ہم سارا سال کرتے ہی رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج کل عدالت عظمیٰ کے تاریخی فیصلے کے بعد ہم ایک بار پھر ایک بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں جو اس بات کی آئینہ دار ہے کہ ہم رویوں کے اعتبار سے سیاست کی حد تک ابھی بالغ نہیں ہوئے مگر اس سے ذرا ہٹ کر دیکھا جائے تو اجتماعی سطح پر نہ سہی مگر انفرادی حوالے سے ہماری کامیابیوں کا سفر روشن بھی ہے اور مسلسل بھی۔

ہمارے نوجوان تمام تر مشکلات کے باوجود زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں اور اس میدان میں ہماری بچیاں نہ صرف ان کی ہم قدم ہیں بلکہ کئی حوالوں سے پہلی صف میں شامل ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے اہل اقتدار اور صاحبان فکر و نظر مل کر ان کے لیے تربیت اور ترقی کے راستے ہموار کریں۔

معاشرے کے ہر فرد کے لیے یکساں طور پر تعلیم، صحت، سوشل سیکیورٹی اور روٹی کپڑا مکان جیسی بنیادی سہولیات کا اہتمام کریں۔ قومی اداروں کو تصادم کے بجائے باہمی تعاون کی فضا میں آگے بڑھائیں اور سب سے زیادہ زور ابتدائی تعلیم و تربیت پر دیں کہ بنیاد سیدھی اور مضبوط ہو گی تو عمارت خود بخود بہتر ہوتی چلی جائے گی۔

یاد رکھنا چاہیے کہ قائداعظم جیسے بڑے اور عظیم لیڈر روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ اب ضرورت ہے کہ ان کی صفات کو تھوڑا تھوڑا ہی سہی قوم کے ہر فرد میں پیدا کیا جائے تا کہ ہم عالمی برادری میں سر اٹھا کر اور اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کر کے زندہ رہنا سیکھ سکیں۔ اگر ہم ایسا کر سکے (اور یقینا کریں گے) تو وہ چاند جو ہمارے لیے آزادی اور اخوت کا پیغام لے کر آیا تھا کبھی غروب نہیں ہو گا۔ سو آئیے اس سترویں سال گرہ کے موقع پر اسے مل سلامی دیتے ہیں۔

کوئی چاند چہرہ کشا ہوا

وہ جو دھند تھی وہ سمٹ گئی

وہ جو حبس تھا وہ ہوا ہوا

کوئی چاند کشا ہوا تو سمٹ گئی

وہ جو تیرگی تھی چہار سُو

وہ جو صرف ٹھہری تھی روبرو

وہ جو بے دلی تھی صدف صدف

وہ جو خاک اڑتی تھی ہر طرف

کسی خوش نظر کے حصار میں

کسی خوش قدم کے جوار میں

کوئی چاند چہرا کشا ہوا

مرا سارا باغ ہرا ہوا
Load Next Story