ڈاکٹر روُتھ کیتھرینا فاؤ
سچ یہی ہے کہ وہ کہیں نہیں گئیں، انھوں نے دنیا کو نہیں چھوڑا، ان کا انتقال نہیں ہوا ہے۔
میں نہیں لکھوں گا کہ وہ چلی گئیں، دنیا چھوڑ گئیں، ان کا انتقال ہوگیا۔ سچ یہی ہے کہ وہ کہیں نہیں گئیں، انھوں نے دنیا کو نہیں چھوڑا، ان کا انتقال نہیں ہوا ہے۔ اپنے لازوال کردار کی صورت ڈاکٹر روتھ فاؤ ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ عبدالستار ایدھی کے بعد یہ عظیم خاتون ہیں جنھوں نے وہ کام کر دکھایا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
حضرت عیسیٰ کے زمانے میں بھی کوڑھ (جذام) کا مرض موجود تھا، تب اس موذی مرض میں مبتلا لوگ آبادی چھوڑ کر پہاڑوں کے غاروں میں چھپ کر زندگی کے دن پورے کرتے تھے۔ حضرت عیسیٰ نے ان کوڑھیوں کے کوڑھ زدہ جسم پر اپنا ہاتھ پھیرا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ مرض جاتا رہا۔ اس موذی مرض میں مبتلا لوگ عام انسانوں کی طرح غاروں سے نکل کر آباد بستیوں میں واپس آگئے۔
یہ 8 مارچ 1960ء کا دن تھا، جب 29 سال کی خوبصورت بلوری آنکھوں والی لڑکی روتھ فاؤ نے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا۔ یہ کراچی شہر تھا، وہ لڑکی اپنی زندگی کا اہم فیصلہ کرچکی تھی، اسے انسانوں کی خدمت کرنا تھی، وہ اپنے فیصلے سے اپنے والدین کو آگاہ کرچکی تھی۔ کراچی آکر رتھ فاؤ کی ملاقات میکسیکو سے تعلق رکھنے والی سسٹر بیرنس سے ہوئی۔ یہ سسٹر بیرنس ہی تھی کہ جس نے کراچی میں کوڑھیوں کی بستی میں ''میری ایڈیلیڈ ڈسپنسری'' قائم کر رکھی تھی۔ کوڑھیوں کی یہ بستی سٹی اسٹیشن سے ذرا پہلے ریلوے کالونی سے متصل آباد تھی۔ بستی کیا تھی گندگی کا ڈھیر تھی۔ سیوریج کے گندے پانی میں ڈوبی اس بستی میں سانس کی ڈوری سے بندھے دنیا والوں کی نظروں سے چھپ کر زندگی گزارتے اللہ کے بندے رہتے تھے۔
اناج سے بھری ریلوے کی بوگیوں سے بڑے بڑے چوہے نکل کر رات میں اس بستی میں آگھستے اور کوڑھیوں کے بے حس جسموں کو کتر کتر کر کھاتے رہتے۔یہ عظیم انسان سسٹر بیرنس تھیں، جنھوں نے 1955ء میں آرچ بشپ آف کراچی کے کہنے پر کوڑھیوں کی اس بستی کا دورہ کیا اور پھر خود کو کوڑھیوں کے علاج معالجے کے لیے وقف کردیا۔ جب روتھ فاؤ سے سسٹر بیرنس کی ملاقات ہوئی تو سسٹر نے نوجوان خوبصورت لڑکی روتھ فاؤ کو دعوت دی کہ وہ بھی ان بے کس و مجبور انسانوں کی خدمت کے لیے خود کو وقف کردے۔ روتھ فاؤ نے سسٹر بیرنس کی دعوت قبول کرلی اور خود کو کوڑھیوں کے دکھ درد کا حصہ بنالیا۔
یہ 2011ء تھا جب میری عظیم ڈاکٹر رتھ فاؤ سے پہلی ملاقات ہوئی۔ بڑے انسان وقت کے بہت پابند ہوتے ہیں۔ ان کا ایک ایک لمحہ بہت زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ میں مقررہ وقت پر صدر ریگل میں واقع ''میری ایڈیلیڈ سینٹر'' پہنچا۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے خود بھی سورج کے ساتھ طلوع ہونے کی تیاریوں میں لگ جاتیں، صبح کی عبادت کے بعد آٹھ بجے وہ اپنے دفتر میں آجاتیں۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ میرے سامنے بیٹھی تھیں۔ ان کی عمر 80 سال کے لگ بھگ ہوچکی تھی۔ ایک مسکراہٹ اور چاہت بھری نظروں سے انھوں نے میرا استقبال کیا۔ میرے بارے میں ان کے دفتر کے ڈائریکٹر اور منیجر عوامی امور نے انھیں آگاہ کردیا تھا۔ سو ڈاکٹر صاحبہ کی مسکراہٹ اور چاہت بھری نظریں دراصل حبیب جالبؔ کے لیے خراج عقیدت تھا۔ میں نے ان کی خدمت میں وہ خط پیش کیا، جس میں لکھا تھا کہ ''سال 2011ء کا حبیب جالبؔ امن ایوارڈ'' ان کی لازوال خدمت انسانی کے اعتراف کی صورت انھیں پیش کیا جائے گا۔ ڈاکٹر صاحبہ کے دفتر کے لوگوں نے انھیں آگاہ کردیا تھا کہ بین الاقوامی اعزازات کے ہوتے ہوئے ''حبیب جالبؔ امن ایوارڈ'' بھی آپ کے لیے بڑا اعزاز ہوگا۔
30 اپریل 2011ء کی شام آرٹس کونسل کراچی کے سبزہ زار میں ڈاکٹر روتھ فاؤ تشریف لائیں اور جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کے ہاتھوں یہ ایوارڈ وصول کیا۔ ایوارڈ دیتے ہوئے اسٹیج پر میر حاصل بزنجو، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، پروفیسر سحر انصاری، مزدور رہنما حبیب الدین جنیدی، اختر حسین ایڈووکیٹ، مسلم شمیم ایڈووکیٹ، سیکریٹری آرٹس کونسل احمد شاہ اور راقم الحروف بھی موجود تھے۔ حبیب جالبؔ 18 ویں یادگاری جلسے میں سیکڑوں حاضرین بھی موجود تھے۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ سے بعد کو بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ایک شام مجھے یاد آرہی ہے۔ یہ ''شام ڈاکٹر روتھ فاؤ کے نام'' تھی، آرٹس کونسل کراچی میں منعقدہ شام ڈاکٹر صاحبہ کی شخصیت کی طرح بہت خوبصورت تھی۔ ڈاکٹر صاحبہ کے چاہنے والے بڑی تعداد میں جمع تھے۔ اس شام میں نے ڈاکٹر صاحبہ کے ان ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور ان ہاتھوں کو چوما کہ جو ہاتھ زندگی بھر کوڑھیوں کے زخموں پر مرہم رکھتے رہے۔ یہ حضرت عیسیٰ کے ہاتھ تھے، جنھیں میں نے عقیدت مندانہ چوما تھا۔
ڈاکٹر روتھ کیتھرینا مارتو فاؤ 9 ستمبر 1929ء کے دن جرمنی کے شہر لیپزگ میں پیدا ہوئیں۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ دنیا میں بے مثال کام کرنے کے لیے آئیں اور بے مثال کام کرگئیں۔ انھوں نے پاکستان میں پہلی بار پاکستانیوں کو یہ آگاہی دی کہ کوڑھ کا مرض چھوت کا مرض نہیں ہے لہٰذا ان مریضوں سے دور نہ رہا جائے۔ ان مریضوں سے پیار کیا جائے۔ انھیں محبت سے دیکھا جائے۔ میں نے دیکھا زندگی بھر جو کوڑھ زدہ ہاتھ پیار اور محبت کے ساتھ ڈاکٹر روتھ فاؤ اپنے ہاتھوں میں لے کر ان پر مرہم لگاتی رہیں، مرہم پٹی کرتی رہیں، وہ ہاتھ وہ خوبصورت ہاتھ، ہاتھوں کی انگلیاں سب کچھ ٹھیک رہا۔
پاکستان کی آزادی کے 70 سالہ جشن سے عین چار روز پہلے 10 اگست 2017ء کی رات ساڑھے بارہ بجے خاموش ہوگئیں۔ سنا ہے کراچی کے تاریخی گورا قبرستان میں ان کا نیا ٹھکانہ ہوگا۔ جہاں عقیدت کے پھول لیے ڈاکٹر صاحبہ کے چاہنے والے حاضری دیا کریں گے۔ عظیم صوفی شاعر بلھے شاہ کا نذرانہ ڈاکٹر روتھ فاؤ کے لیے:
بلھے شاہ اوسدا ای جیوندے
جناں کیتیاں نیک کمایاں نیں
یعنی بلھے شاہ وہ لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں جنھوں نے نیک کام کیے ہوتے ہیں اور بلھے شاہ کا ایک مصرعہ ''بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں' گور پیا کوئی ہور'' یعنی بلھے شاہ ہم نے مرنا نہیں، قبر میں کوئی اور پڑا ہے۔
اور حضرت جوشؔ ملیح آبادی کی رباعی
جب زیست پہ ہوتے ہیں ترانے ممنوع
تب کارِ سرور موت کرتی ہے شروع
ہر شاہ و گدا قبر میں ہوتا ہے غروب
''شاعر'' افقِ لحد سے ہوتا ہے طلوع
اب شاعر کی جگہ ''انساں'' لکھ دیا جائے، دراصل یہی جوشؔ صاحب کا بیان ہے جو بھی انسان ہوگا وہ دراصل افقِ لحد سے طلوع ہوگا۔ ناصرؔ کاظمی کا مصرعہ اور اجازت:
سدا رہے اس کا نام پیارا
سنا ہے کل رات مر گیا وہ
حضرت عیسیٰ کے زمانے میں بھی کوڑھ (جذام) کا مرض موجود تھا، تب اس موذی مرض میں مبتلا لوگ آبادی چھوڑ کر پہاڑوں کے غاروں میں چھپ کر زندگی کے دن پورے کرتے تھے۔ حضرت عیسیٰ نے ان کوڑھیوں کے کوڑھ زدہ جسم پر اپنا ہاتھ پھیرا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ مرض جاتا رہا۔ اس موذی مرض میں مبتلا لوگ عام انسانوں کی طرح غاروں سے نکل کر آباد بستیوں میں واپس آگئے۔
یہ 8 مارچ 1960ء کا دن تھا، جب 29 سال کی خوبصورت بلوری آنکھوں والی لڑکی روتھ فاؤ نے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا۔ یہ کراچی شہر تھا، وہ لڑکی اپنی زندگی کا اہم فیصلہ کرچکی تھی، اسے انسانوں کی خدمت کرنا تھی، وہ اپنے فیصلے سے اپنے والدین کو آگاہ کرچکی تھی۔ کراچی آکر رتھ فاؤ کی ملاقات میکسیکو سے تعلق رکھنے والی سسٹر بیرنس سے ہوئی۔ یہ سسٹر بیرنس ہی تھی کہ جس نے کراچی میں کوڑھیوں کی بستی میں ''میری ایڈیلیڈ ڈسپنسری'' قائم کر رکھی تھی۔ کوڑھیوں کی یہ بستی سٹی اسٹیشن سے ذرا پہلے ریلوے کالونی سے متصل آباد تھی۔ بستی کیا تھی گندگی کا ڈھیر تھی۔ سیوریج کے گندے پانی میں ڈوبی اس بستی میں سانس کی ڈوری سے بندھے دنیا والوں کی نظروں سے چھپ کر زندگی گزارتے اللہ کے بندے رہتے تھے۔
اناج سے بھری ریلوے کی بوگیوں سے بڑے بڑے چوہے نکل کر رات میں اس بستی میں آگھستے اور کوڑھیوں کے بے حس جسموں کو کتر کتر کر کھاتے رہتے۔یہ عظیم انسان سسٹر بیرنس تھیں، جنھوں نے 1955ء میں آرچ بشپ آف کراچی کے کہنے پر کوڑھیوں کی اس بستی کا دورہ کیا اور پھر خود کو کوڑھیوں کے علاج معالجے کے لیے وقف کردیا۔ جب روتھ فاؤ سے سسٹر بیرنس کی ملاقات ہوئی تو سسٹر نے نوجوان خوبصورت لڑکی روتھ فاؤ کو دعوت دی کہ وہ بھی ان بے کس و مجبور انسانوں کی خدمت کے لیے خود کو وقف کردے۔ روتھ فاؤ نے سسٹر بیرنس کی دعوت قبول کرلی اور خود کو کوڑھیوں کے دکھ درد کا حصہ بنالیا۔
یہ 2011ء تھا جب میری عظیم ڈاکٹر رتھ فاؤ سے پہلی ملاقات ہوئی۔ بڑے انسان وقت کے بہت پابند ہوتے ہیں۔ ان کا ایک ایک لمحہ بہت زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ میں مقررہ وقت پر صدر ریگل میں واقع ''میری ایڈیلیڈ سینٹر'' پہنچا۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے خود بھی سورج کے ساتھ طلوع ہونے کی تیاریوں میں لگ جاتیں، صبح کی عبادت کے بعد آٹھ بجے وہ اپنے دفتر میں آجاتیں۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ میرے سامنے بیٹھی تھیں۔ ان کی عمر 80 سال کے لگ بھگ ہوچکی تھی۔ ایک مسکراہٹ اور چاہت بھری نظروں سے انھوں نے میرا استقبال کیا۔ میرے بارے میں ان کے دفتر کے ڈائریکٹر اور منیجر عوامی امور نے انھیں آگاہ کردیا تھا۔ سو ڈاکٹر صاحبہ کی مسکراہٹ اور چاہت بھری نظریں دراصل حبیب جالبؔ کے لیے خراج عقیدت تھا۔ میں نے ان کی خدمت میں وہ خط پیش کیا، جس میں لکھا تھا کہ ''سال 2011ء کا حبیب جالبؔ امن ایوارڈ'' ان کی لازوال خدمت انسانی کے اعتراف کی صورت انھیں پیش کیا جائے گا۔ ڈاکٹر صاحبہ کے دفتر کے لوگوں نے انھیں آگاہ کردیا تھا کہ بین الاقوامی اعزازات کے ہوتے ہوئے ''حبیب جالبؔ امن ایوارڈ'' بھی آپ کے لیے بڑا اعزاز ہوگا۔
30 اپریل 2011ء کی شام آرٹس کونسل کراچی کے سبزہ زار میں ڈاکٹر روتھ فاؤ تشریف لائیں اور جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کے ہاتھوں یہ ایوارڈ وصول کیا۔ ایوارڈ دیتے ہوئے اسٹیج پر میر حاصل بزنجو، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، پروفیسر سحر انصاری، مزدور رہنما حبیب الدین جنیدی، اختر حسین ایڈووکیٹ، مسلم شمیم ایڈووکیٹ، سیکریٹری آرٹس کونسل احمد شاہ اور راقم الحروف بھی موجود تھے۔ حبیب جالبؔ 18 ویں یادگاری جلسے میں سیکڑوں حاضرین بھی موجود تھے۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ سے بعد کو بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ایک شام مجھے یاد آرہی ہے۔ یہ ''شام ڈاکٹر روتھ فاؤ کے نام'' تھی، آرٹس کونسل کراچی میں منعقدہ شام ڈاکٹر صاحبہ کی شخصیت کی طرح بہت خوبصورت تھی۔ ڈاکٹر صاحبہ کے چاہنے والے بڑی تعداد میں جمع تھے۔ اس شام میں نے ڈاکٹر صاحبہ کے ان ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور ان ہاتھوں کو چوما کہ جو ہاتھ زندگی بھر کوڑھیوں کے زخموں پر مرہم رکھتے رہے۔ یہ حضرت عیسیٰ کے ہاتھ تھے، جنھیں میں نے عقیدت مندانہ چوما تھا۔
ڈاکٹر روتھ کیتھرینا مارتو فاؤ 9 ستمبر 1929ء کے دن جرمنی کے شہر لیپزگ میں پیدا ہوئیں۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ دنیا میں بے مثال کام کرنے کے لیے آئیں اور بے مثال کام کرگئیں۔ انھوں نے پاکستان میں پہلی بار پاکستانیوں کو یہ آگاہی دی کہ کوڑھ کا مرض چھوت کا مرض نہیں ہے لہٰذا ان مریضوں سے دور نہ رہا جائے۔ ان مریضوں سے پیار کیا جائے۔ انھیں محبت سے دیکھا جائے۔ میں نے دیکھا زندگی بھر جو کوڑھ زدہ ہاتھ پیار اور محبت کے ساتھ ڈاکٹر روتھ فاؤ اپنے ہاتھوں میں لے کر ان پر مرہم لگاتی رہیں، مرہم پٹی کرتی رہیں، وہ ہاتھ وہ خوبصورت ہاتھ، ہاتھوں کی انگلیاں سب کچھ ٹھیک رہا۔
پاکستان کی آزادی کے 70 سالہ جشن سے عین چار روز پہلے 10 اگست 2017ء کی رات ساڑھے بارہ بجے خاموش ہوگئیں۔ سنا ہے کراچی کے تاریخی گورا قبرستان میں ان کا نیا ٹھکانہ ہوگا۔ جہاں عقیدت کے پھول لیے ڈاکٹر صاحبہ کے چاہنے والے حاضری دیا کریں گے۔ عظیم صوفی شاعر بلھے شاہ کا نذرانہ ڈاکٹر روتھ فاؤ کے لیے:
بلھے شاہ اوسدا ای جیوندے
جناں کیتیاں نیک کمایاں نیں
یعنی بلھے شاہ وہ لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں جنھوں نے نیک کام کیے ہوتے ہیں اور بلھے شاہ کا ایک مصرعہ ''بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں' گور پیا کوئی ہور'' یعنی بلھے شاہ ہم نے مرنا نہیں، قبر میں کوئی اور پڑا ہے۔
اور حضرت جوشؔ ملیح آبادی کی رباعی
جب زیست پہ ہوتے ہیں ترانے ممنوع
تب کارِ سرور موت کرتی ہے شروع
ہر شاہ و گدا قبر میں ہوتا ہے غروب
''شاعر'' افقِ لحد سے ہوتا ہے طلوع
اب شاعر کی جگہ ''انساں'' لکھ دیا جائے، دراصل یہی جوشؔ صاحب کا بیان ہے جو بھی انسان ہوگا وہ دراصل افقِ لحد سے طلوع ہوگا۔ ناصرؔ کاظمی کا مصرعہ اور اجازت:
سدا رہے اس کا نام پیارا
سنا ہے کل رات مر گیا وہ