پاکستان اور بھارت کی نمائندگی کرنے والے کرکٹرز کا احوال
امیر الٰہی، عبدالحفیظ کاردار اور گل محمد نے دونوں ملکوں کی طرف سے ٹیسٹ میچز کھیلے
QUETTA:
پاکستان اور بھارت میں کرکٹ جنون کی حد تک پسند کیا جاتا ہے، دونوں ممالک کی ٹیمیں جب بھی میدان میں ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتی ہیں تو ماحول پرجوش ہو جاتا ہے، قوم پرستی سرچڑھ کر بولتی ہے۔
میچ میں فتح و شکست گویا دو ممالک کے درمیان جیت اور ہار کی صورت اختیار کرلیتی ہے، اگر ہم غور کریں کہ آج سے70 سال پہلے برصغیر میں کرکٹ کیسی رہی ہوگی؟ اس وقت پاکستان نہیں بنا تھا، جو علاقے آج پاکستان میں ہیں وہ بھارت کا حصہ تھے اور اس وقت صرف ایک کرکٹ ٹیم ہوتی تھی، بھارت نے1932میں ہی ٹیسٹ کرکٹ کا درجہ حاصل کر لیا تھا، 30 کی دہائی میں بھارتی کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ سے ان کے میدان پر اور گھریلو میدانوں پر کئی ٹیسٹ سیریز کھیلی تھیں لیکن بھارت کو کسی میچ میں کامیابی نہ مل سکی تھی، حالات میں تبدیلی اس وقت آئی جب ملک کا بٹوارہ ہوگیا، جو ٹیم کبھی ایک ہوا کرتی تھی، وہ دو حصوں میں بٹ گئی۔
بھارتی ٹیم کے کئی کھلاڑی پاکستان چلے گئے، جو کھلاڑی کبھی ایک ساتھ کھیلتے تھے وہ ایک دوسرے کے حریف بن گئے، ایسے ہی ایک کھلاڑی امیر الٰہی تھے، وہ بڑودہ کی ٹیم کی طرف سے کھیلتے تھے، اس دور میں بڑودہ کی ٹیم ہی کم و بیش بھارتی کرکٹ ٹیم تھی۔ تقسیم ہند کے بعد امیر الٰہی پاکستان چلے گئے جب ملک کا بٹوارہ ہوگیا تو امیر الٰہی نے پاکستان جانے کا فیصلہ کرلیا، تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان نے اپنی علیحدہ ٹیمیں بنائیں۔
امیر الٰہی کے پوتے منان احمد جو آج کل امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ انھوں نے اس حوالے سے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے دادا امیر الٰہی بہت بڑے کرکٹر نہیں تھے، نہ ہی انھوں نے کھیل کے میدان میں بڑے کارنامے انجام دیے، وہ اوسط درجے کے کھلاڑی تھے جو تھوڑی بہت بولنگ اور موقع ملنے پر بیٹنگ بھی کرلیتے تھے لیکن منان کے مطابق امیر الٰہی پاکستان کے بڑے حامی تھے، اسی لیے جب ملک تقسیم ہوا تو وہ اپنی ٹیم کو چھوڑ کر پاکستان چلے گئے، بعد میں وہ پاکستان کی ٹیم میں منتخب ہوئے، 1952-53 میں پاکستان کی ٹیم پہلی بار بھارت کے دورے پر آئی تھی، امیر الٰہی بھی اس دورے پر ٹیم کے ہمراہ تھے، بھارت میں انھیں ان کی ٹیم کے پرانے ساتھی ملے، پرانی یادیں تازہ ہوگئیں مگر پاکستان کی ٹیم کے اس پہلے بھارتی دورے میں بھی اپنے اپنے ملک کیلیے جیت کا جذبہ شدید تھا۔
منان احمد بتاتے ہیں کہ امیر الٰہی بھی چاہتے تھے کہ پہلے دورے میں پاکستان کی ٹیم بھارتی ٹیم کو شکست دے لیکن ایسا ہو نہ سکا، وہ دورہ بھارت کے نام رہا، خود امیر الٰہی کی کارکردگی بھی بہت اچھی نہیں رہی، امیر الٰہی نے اپنے کریئر میں کل 6 میچ کھیلے جن میں سے ایک میچ مشترکہ بھارت کی جانب سے تھا، انھوں نے پاکستان کی جانب سے5 میچوں میں65 رنز بنائے اور7 وکٹیں حاصل کیں، ان کی بعد میں بھی یہی کوشش رہی کہ وہ کرکٹ کے حوالے سے اپنے ملک کیلیے کچھ کرسکیں۔
منان احمد اپنے بچپن کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب انھوں نے کرکٹ کھیلنی شروع کی تو ان کی دادی نے دادا کی کٹ انھیں دی تھی لیکن انھوں نے اس کا استعمال نہیں کیا۔ البتہ انھوں نے اپنے دادا کا سوئیٹر ضرور استعمال کیا تھا، سوئیٹر پہن کر انھیں یوں لگا کہ ٹیم کے بہترین کھلاڑی وہی ہیں، امیر الٰہی کے علاوہ عبدالحفیظ کاردار اور گل محمد ایسے کھلاڑی ہیں جو دونوں ملکوں کی طرف سے ٹیسٹ کھیلے، امیر الٰہی نے کرکٹ کا سامان بہت احتیاط سے رکھا تھا۔
منان احمد بتاتے ہیں کہ ایک بار ایک آدمی ان کے پاس آیا۔ اس نے بتایا کہ وہ لاہور میں کرکٹ کا میوزیم کھولنے والا ہے، یہ بات سن کر امیر الٰہی نے بھی اپنا بہت سارا سامان اسے دے دیا، وہ شخص سارا سامان لے کر لاپتہ ہوگیا، نہ میوزیم بنا اور نہ ہی وہ شخص پھر کبھی نظر آیا۔
منان احمد نے بتایا کہ شاید وہ چیزیں بلیک مارکیٹ میں فروخت کی گئی ہوں گی، بھارت اور پاکستان میں تقسیم کے بعد کرکٹ نے طویل سفر طے کر لیا ہے، دونوں ہی ممالک نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا، آپسی مقابلے میں کبھی ایک ٹیم بھاری پڑی تو کبھی دوسری مگر یہ سوچنا آج دلچسپی سے خالی نہیں کہ دشمن کہے جانے والے کھلاڑیوں میں بعض ایسے بھی تھے جو کبھی ایک ہی ٹیم کیلیے کھیلتے تھے۔
پاکستان اور بھارت میں کرکٹ جنون کی حد تک پسند کیا جاتا ہے، دونوں ممالک کی ٹیمیں جب بھی میدان میں ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتی ہیں تو ماحول پرجوش ہو جاتا ہے، قوم پرستی سرچڑھ کر بولتی ہے۔
میچ میں فتح و شکست گویا دو ممالک کے درمیان جیت اور ہار کی صورت اختیار کرلیتی ہے، اگر ہم غور کریں کہ آج سے70 سال پہلے برصغیر میں کرکٹ کیسی رہی ہوگی؟ اس وقت پاکستان نہیں بنا تھا، جو علاقے آج پاکستان میں ہیں وہ بھارت کا حصہ تھے اور اس وقت صرف ایک کرکٹ ٹیم ہوتی تھی، بھارت نے1932میں ہی ٹیسٹ کرکٹ کا درجہ حاصل کر لیا تھا، 30 کی دہائی میں بھارتی کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ سے ان کے میدان پر اور گھریلو میدانوں پر کئی ٹیسٹ سیریز کھیلی تھیں لیکن بھارت کو کسی میچ میں کامیابی نہ مل سکی تھی، حالات میں تبدیلی اس وقت آئی جب ملک کا بٹوارہ ہوگیا، جو ٹیم کبھی ایک ہوا کرتی تھی، وہ دو حصوں میں بٹ گئی۔
بھارتی ٹیم کے کئی کھلاڑی پاکستان چلے گئے، جو کھلاڑی کبھی ایک ساتھ کھیلتے تھے وہ ایک دوسرے کے حریف بن گئے، ایسے ہی ایک کھلاڑی امیر الٰہی تھے، وہ بڑودہ کی ٹیم کی طرف سے کھیلتے تھے، اس دور میں بڑودہ کی ٹیم ہی کم و بیش بھارتی کرکٹ ٹیم تھی۔ تقسیم ہند کے بعد امیر الٰہی پاکستان چلے گئے جب ملک کا بٹوارہ ہوگیا تو امیر الٰہی نے پاکستان جانے کا فیصلہ کرلیا، تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان نے اپنی علیحدہ ٹیمیں بنائیں۔
امیر الٰہی کے پوتے منان احمد جو آج کل امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ انھوں نے اس حوالے سے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے دادا امیر الٰہی بہت بڑے کرکٹر نہیں تھے، نہ ہی انھوں نے کھیل کے میدان میں بڑے کارنامے انجام دیے، وہ اوسط درجے کے کھلاڑی تھے جو تھوڑی بہت بولنگ اور موقع ملنے پر بیٹنگ بھی کرلیتے تھے لیکن منان کے مطابق امیر الٰہی پاکستان کے بڑے حامی تھے، اسی لیے جب ملک تقسیم ہوا تو وہ اپنی ٹیم کو چھوڑ کر پاکستان چلے گئے، بعد میں وہ پاکستان کی ٹیم میں منتخب ہوئے، 1952-53 میں پاکستان کی ٹیم پہلی بار بھارت کے دورے پر آئی تھی، امیر الٰہی بھی اس دورے پر ٹیم کے ہمراہ تھے، بھارت میں انھیں ان کی ٹیم کے پرانے ساتھی ملے، پرانی یادیں تازہ ہوگئیں مگر پاکستان کی ٹیم کے اس پہلے بھارتی دورے میں بھی اپنے اپنے ملک کیلیے جیت کا جذبہ شدید تھا۔
منان احمد بتاتے ہیں کہ امیر الٰہی بھی چاہتے تھے کہ پہلے دورے میں پاکستان کی ٹیم بھارتی ٹیم کو شکست دے لیکن ایسا ہو نہ سکا، وہ دورہ بھارت کے نام رہا، خود امیر الٰہی کی کارکردگی بھی بہت اچھی نہیں رہی، امیر الٰہی نے اپنے کریئر میں کل 6 میچ کھیلے جن میں سے ایک میچ مشترکہ بھارت کی جانب سے تھا، انھوں نے پاکستان کی جانب سے5 میچوں میں65 رنز بنائے اور7 وکٹیں حاصل کیں، ان کی بعد میں بھی یہی کوشش رہی کہ وہ کرکٹ کے حوالے سے اپنے ملک کیلیے کچھ کرسکیں۔
منان احمد اپنے بچپن کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب انھوں نے کرکٹ کھیلنی شروع کی تو ان کی دادی نے دادا کی کٹ انھیں دی تھی لیکن انھوں نے اس کا استعمال نہیں کیا۔ البتہ انھوں نے اپنے دادا کا سوئیٹر ضرور استعمال کیا تھا، سوئیٹر پہن کر انھیں یوں لگا کہ ٹیم کے بہترین کھلاڑی وہی ہیں، امیر الٰہی کے علاوہ عبدالحفیظ کاردار اور گل محمد ایسے کھلاڑی ہیں جو دونوں ملکوں کی طرف سے ٹیسٹ کھیلے، امیر الٰہی نے کرکٹ کا سامان بہت احتیاط سے رکھا تھا۔
منان احمد بتاتے ہیں کہ ایک بار ایک آدمی ان کے پاس آیا۔ اس نے بتایا کہ وہ لاہور میں کرکٹ کا میوزیم کھولنے والا ہے، یہ بات سن کر امیر الٰہی نے بھی اپنا بہت سارا سامان اسے دے دیا، وہ شخص سارا سامان لے کر لاپتہ ہوگیا، نہ میوزیم بنا اور نہ ہی وہ شخص پھر کبھی نظر آیا۔
منان احمد نے بتایا کہ شاید وہ چیزیں بلیک مارکیٹ میں فروخت کی گئی ہوں گی، بھارت اور پاکستان میں تقسیم کے بعد کرکٹ نے طویل سفر طے کر لیا ہے، دونوں ہی ممالک نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا، آپسی مقابلے میں کبھی ایک ٹیم بھاری پڑی تو کبھی دوسری مگر یہ سوچنا آج دلچسپی سے خالی نہیں کہ دشمن کہے جانے والے کھلاڑیوں میں بعض ایسے بھی تھے جو کبھی ایک ہی ٹیم کیلیے کھیلتے تھے۔