روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں

کیا ذاتی مفادات کی کشمکش سے آلودہ 70 برس گزارنے کے بعد درست راستہ چن لیا گیا؟

سیاست کے میدان میں قائداعظمؒ کے کردار کی تقلید ہی ہمیں مثالی اسلامی ریاست کی منزل تک پہنچا سکتی ہے۔ فوٹو: فائل

''میں فلاں بن فلاں، صدق دل سے اقرار کرتا ہوں کہ میں پوری دیانت داری کے ساتھ پاکستان کے آئین کا وفادار رہوں گا۔''

یہ وہ حلف ہے جو ہر اس غیر ملکی کو اس وقت اٹھانا پڑتا ہے جب وہ پاکستان کی شہریت حاصل کرتا ہے۔ اس حلف میں استعمال کیے گئے الفاظ میں پاکستان اور آئین، دو الفاظ وہ ہیں جو ستر سال قبل تک مسلمانان برصغیر کے تصور اور خیالات میں ایک حسین خواب کی مانند جلوہ افروز تھے اور اسی حسین خواب کو تعبیر بنانے کے لیے مسلمانوں نے طویل عرصے تک دیوانہ وار جدوجہد کی۔ کیا آج ہم کبھی یہ سوچتے بھی ہیں کہ ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ ہم پیدائشی پاکستانی ہیں اور ہمیں یہ نعمت بیٹھے بٹھائے ہی مل گئی کہ جس کے حصول کی تمنا دل میں لیے نہ جانے کتنے مسلمان خاک و خون میں لوٹ گئے اور نہ جانے کتنی عفت مآب خواتین نے اپنی آبرو اس پاک وطن پر نچھاور کردی۔

بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ ''پاکستان اسی وقت معرض وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا'' یعنی دو قومی نظریہ جو تحریک پاکستان کی اساس تھا، اسی وقت تخلیق پاگیا تھا۔

ہر سال ہم قومی تہواروں اورخاص طور پر 14 اگست کے موقع پر تحریک و تشکیل پاکستان کے موضوع پر بہت کچھ پڑھتے ہیں۔ مگر کیا ہم اس کی گہرائی میں جاکر اس کی روح کو بھی محسوس کرتے ہیں کہ آزادی کی وہ کیا تڑپ اور لگن تھی جو مسلمانان برصغیر کے اندر پیدا ہوئی اور اس کی امنگ کا شعور پیدا کرنے میں ہمارے عمائدین اور زعماء کی وہ کیا پر خلوص کاوشیں تھیں جنہوں نے مہمیز کا کام کیا اور آزادی جیسی نعمت کے حصول کا ذریعہ بن گئیں؟ اس جدوجہد کا نمونہ ہمیں آج کشمیر اور فلسطین جیسی آزادی کی تحریکوں میں نظر آتا ہے۔ جس سے ہم تحریک پاکستان کے دور کا اندازہ لگاتے ہوئے یہ ادراک کرسکتے ہیں کہ آزادی کی منزل حاصل کرنے کے لیے کتنے کٹھن اور مشکل کارزار طے کرنا پڑتے ہیں۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آزادی جیسے مقصد عظیم کے حصول کے لیے مخلص قیادت کا ہونا ازحد ضروری ہے۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھا ؎

نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پر سوز

یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

مسلمانان برصغیر پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص احسان ہوا کہ اس نے ان کی قیادت کے لیے قائداعظم محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں کی صورت میں پرخلوص شخصیات عطا کیں جن کی فہم و فراست، بلند کردار اور اعلیٰ بصیرت نے آزادی کی منزل کے حصول کو ممکن بنا دیا اور یہ بات صحیح ہے کہ قائدین کے کردارکا پرتو قوم میں بھی نظر آنے لگتا ہے۔

مسلمانان برصغیر کا اپنی قیادت کے خلوص پر اعتماد کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بار قائداعظم ایک جلسے سے خطاب کررہے تھے۔ ان کی اردو چونکہ کمزور تھی اسی لیے وہ انگریزی میں تقریر کیا کرتے۔ کسی صحافی نے جلسے میں موجود ایک بوڑھے دیہاتی سے سوال کیا کہ ''بابا جی، کیا آپ کو سمجھ آرہی ہے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں، اس پر بوڑھے دیہاتی نے جواب دیا ''مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ جو کچھ کہہ رہے ہیں بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔'' یہ تھا قیادت کا وہ کردار اور خلوص جس نے پاکستان کا بننا ممکن بنایا۔

پاکستان کے قیام کے وقت مسلمان مہاجرین کا قتل عام کیا گیا کیونکہ ہندوؤں نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھا اور ان کے نزدیک ہندوستان کی تقسیم ''گاؤ ماتا'' کو تقسیم کرنے کے مترادف تھی۔ اس قتل عام کے لیے ہندوؤں نے سکھوں کو استعمال کیا۔ جن کے لیڈر ماسٹر تارا سنگھ نے قائداعظم کی دعوت کے باوجود ہندوؤں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا اور آج سکھ اسی غلط فیصلے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اسی قتل عام کے سلسلے میں ایک واقعہ جناب ممتاز حسن مرحوم، جو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سربراہ تھے، نے لکھا ہے جو قائد کے اپنے اصولوں پر ایمان کی حد تک یقین کے بارے میں ہے۔ ''قائد جو دیانت اور روحانی پاکیزگی اپنے ساتھ لائے تھے وہ صدیوں میں پیدا نہیں ہوتی۔ تقسیم سے پہلے مختلف فرقوں اور گروہوں کی شرپسندی اور فساد کی خبریں آنے لگیں تو کچھ لوگوں نے جاکر عرض کی کہ مسلمانوںکو بھی ان کے مخالفین کی طرح ہتھیاروں اور گولہ بارود سے مسلح رہنا چاہیے اور اس سلسلے میں قائداعظم کو اقدام کرنا چاہیے۔ لہٰذا مسلمان اسلحے کے لیے چندہ جمع کریں۔

قائد یہ سن کر برہم ہوئے اور کہنے لگے ''کیا تم لوگ مجھے منافق سمجھتے ہو کہ ایک طرف تو صلح کی اپیل پر دستخط کروں، مخالفوں کو مجبور کروں کہ لڑائی فساد سے باز رہیں اور دوسری طرف تمہارے لیے ہتھیاروں کا بندوست کروں تاکہ جنگ وجدل کی جا سکے۔ میں ہرگز ہرگز کسی ایسی تحریک کی حمایت نہیں کرسکتا۔ خواہ وہ مسلمانوں کی طرف سے ہو یا غیر مسلموں کی طرف سے۔'' یہ ایک لیڈر کی راست بازی کی تابندہ مثال ہے۔

مسلمانوں کے آزاد وطن کے قیام کا جذبہ صرف قائداعظم ہی نہیں بلکہ ان کے دیگر ساتھیوں کے دل میں بھی بدرجہ اتم موجزن تھا۔ لیاقت علی خان کی اہلیہ محترمہ رعنا لیاقت علی خان کہتی ہیں کہ شادی کے بعد ہنی مون منانے کے لیے ہم نے 1933ء میں یورپ کا سفر کیا۔ لیاقت کو یقین تھا کہ مسٹر جناح اب بھی مسلم لیگ اور مسلمانوں کو بچاسکتے ہیں، مگر وہ سات سمندر پار انگلستان میں بیٹھے تھے اور ہندوستان میں لوگوں کا خیال تھا کہ جناح جو ہندو مسلم اتحاد کے سفیر سمجھے جاتے تھے لیکن ہندوؤں کے منافقانہ طرز عمل سے دلبرداشتہ ہوکر مایوس ہوچکے تھے، اب کبھی واپس نہ آئیں گے۔ لندن آکر لیاقت کی ملاقات مسٹر جناح سے ہوئی۔ لیاقت نے ملتے ہی مسٹر جناح سے اصرار شروع کیا کہ وہ وطن لوٹ چلیں۔'' رعنا لیاقت علی خان کہتی ہیں کہ ''مجھے وہ الفاظ بھی یاد ہیں جو لیاقت نے اس موقع پر استعمال کیے:

''قوم کو کسی ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو کسی قیمت پر خریدا نہ جا سکے۔''

لیاقت علی خان اور حکیم الامت علامہ اقبال جیسے زعماء کے پیہم اصرار پر بالآخر قائداعظم ہندوستان واپس تشریف لانے پر آمادہ ہوگئے تاکہ آزادی کی منزل کی طرف اپنی قوم کی رہنمائی کرسکیں اور انہیں انگریزوں کے استبداد اور ہندو اکثریت کے پنجے سے نجات دلاسکیں۔ اس موقع پر علامہ اقبال جیسے عظیم قومی شاعر نے قائداعظم کی قیادت میں آزادی کے ایک سپاہی کی حیثیت سے جدوجہد کرنے کو اپنے لیے ایک سعادت سے تعبیر کیا۔ یہ رویہ ان کے خلوص کو ظاہر کرتا ہے جو ان کے دل میں اپنی قوم کے لیے موجود تھا۔ ان کا مطمع نظر مسلمانوں کی آزادی تھا نہ کہ مناصب کا حصول۔

مگر آج آزادی کے ستر برس بعد ہم دیکھتے ہیں کہ

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا

کے مصداق تحریک پاکستان کے قائدین کا ملک و قوم کے لیے درد اور ان کی فلاح و بہبود کی فکر بعد میں آنے والے حکمرانوں کے ادوار میں بتدریج اقتدار و اختیار، ذاتی مفادات اور خاندانی منعفت جیسے مقاصد کے حصول کا ذریعہ بن گئی۔


پاکستان بننے کے ابتدائی برسوں میں ہی قائداعظم کی رحلت اور پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت جیسے سانحات رونما ہوگئے۔ گو اس کے بعد کے چند سالوں میں قائداعظم کے ساتھیوںکوملک و قوم کی رہنمائی کا موقع ملتا رہا مگر یہ دور سول ملٹری بیورو کریسی کی ریشہ دوانیوں کے باعث نہایت پر آشوب تھا اور قلیل مدت کے لیے آنے والے وزرائے اعظم کی تبدیلی اتنی سرعت کے ساتھ رونما ہوئی کہ ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کو یہ کہنے کی جسارت ہوئی کہ ''میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزیراعظم تبدیل ہو جاتے ہیں۔''

اس کے پس پردہ حقائق یہی تھے کہ قائداعظم کے ساتھیوں میں اقتدار کی ہوس نہیں تھی اور نہ ہی وہ اقتدار کو اپنی ذاتی جاگیر بناکر رکھنے کے خواہش مند تھے۔ ان کے نزدیک سیاست و اقتدار عوام کی فلاح و بہبود کے کام سرانجام دینے کا ذریعہ تھا۔ جب ان کے خلاف سازشیں ہونے لگیں تو ان سادہ اطوار اور مخلص لوگوں نے سازشوں کا حصہ بننے کی بجائے اپنی عزت بچاکر سیاست سے دست کش ہونے میں ہی عافیت سمجھی۔ حالانکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے تحریک پاکستان میں قائداعظم کے ساتھ مل کر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور وہ قائداعظم کے اس وژن سے مکمل آگاہ تھے جو ان کے ذہن میں قیام پاکستان کے حوالے سے پنہاں تھا۔ لیکن افسوس ان پر خلوص قائدین کو پاکستان بنانے کے اصل مقصد کی منزل کے حصول کی طرف گامزن نہ رہنے دیا گیا اور ان کی راہ میں روڑے اٹکا کر انہیں مجبور کردیا گیا کہ وہ قوم کی قیادت کے منصب سے محرومی برداشت کریں۔

ان تمام تر نامساعد حالات کے باوجود انہیں جہاں جہاں اور جتنا بھی موقع ملا انہوں نے اپنی دیانت ثابت کی کہ وہ واقعی ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہیں۔

پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان جو قائداعظم کے سب سے قریبی رفیق تھے، نے نوزائیدہ مملکت میں سائنس و ٹیکنالوجی اور تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل اور معاشی پالیسیوں کی شروعات کے لیے پہلے پنج سالہ منصوبے کی ابتداء کی۔ اسی طرح پاکستان کے چوتھے وزیراعظم چودھری محمد علی نے وطن عزیز کو پہلا آئین دیا جو 1956ء کا آئین کہلاتا ہے اور جس کے ذریعے برابری کی بنیاد پر مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان ایک پائیدار بندھن اور تعلق برقرار رہنے کا انتظام کردیا۔ پانچویں وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن قائم کیا اور یہ وہ اساسی اقدام تھا جو بالآخر 1998ء میں پاکستان کی دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بننے پر منتج ہوا۔ پاکستان کے ساتویں وزیراعظم فیروز خان نون نے گوادر کی بندرگاہ کو اومان سے لے کر پاکستان کا حصہ بنایا اور آج یہی بندرگاہ سی پیک منصوبے کے تحت پاکستان کی معاشی حالت کو اوج ثریا کی طرف لے جانے میں قلیدی اہمیت کی حامل ہے۔

غرض قائداعظم کے ساتھی ان عظیم قائدین کو قوم کی خدمت کرنے کے لیے جو محدود وقت ملا اس میں انہوں نے ثابت کیا کہ وہ پاکستان اور اس کی عوام کے ساتھ کتنے مخلص تھے اور قیام پاکستان کے مقاصد سے کماحقۂ آگاہی اور اپنے خلوص نیت کے سبب ان مقاصد کے حصول کی مکمل اہلیت بھی رکھتے تھے۔ مگر شو مئی قسمت کہ 1958ء میں جنرل ایوب خان نے عین اس وقت سیاسی ماحول کی بساط لپیٹ دی جب محض چار ماہ بعد عام انتخابات ہورہے تھے اور پاکستان کی اس وقت کی دونوں بڑی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ خان عبدالقیوم خان کی قیادت میں اور پاکستان عوامی لیگ حسین شہید سہروردی کی سربراہی میں پشاور سے سلہٹ تک انتخابات کے لیے سرگرم عمل تھیں۔ 1956ء کا متفقہ آئین منسوخ ہوا، جو ملک کے دونوں حصوں کوجوڑے رکھنے میں خصوصی اہمیت کا حامل تھا اور ''ایبڈد'' جیسے کالے قانون کے ذریعے سیاستدانوں کی وہ کھیپ سیاست میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دے دی گئی جس نے گیارہ برس قبل ہی قائداعظم کی قیادت میں ایک انہونی کو دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک کی صورت میں ہونی کردکھایا تھا۔

جنرل ایوب خان نے اکتوبر 1958ء کے مارشل لاء کے نفاذ کے فوراً بعد آنے والے قائداعظم کے یوم پیدائش پر قوم کے نام اپنے پیغام میں قائداعظم کے اصولوں پر چلنے کے عزم کا اظہار کیا حالانکہ وہ آئین منسوخ کرچکا تھا جبکہ قائداعظم وہ شخصیت ہیں کہ جن کی آئین و قانون کی پاسداری ضرب مثل تھی اور حکومتی اداروں کے متعلق ان کی جو سوچ تھی وہ ریٹائرڈ ایئرمارشل اصغرخان کے بیان کردہ اس واقعہ سے بخوبی عیاں ہوجاتی ہے۔ اصغر خان کہتے ہیں کہ ''14 اگست 1947ء کو قائداعظم نے ماؤنٹ بیٹن کو استقبالیہ دیا۔ مسلح افواج کے افسروں کا ایک گروپ بھی مدعو تھا۔ میں اور جنرل اکبر خان اس میں شامل تھے۔ اکبر خان کہنے لگے ''چلیں قائد کے ساتھ بات کرتے ہیں'' چنانچہ ہم ان کے پاس گئے۔ اکبر خان نے کہا ''سر، ہم آزادی اور ظہور پاکستان پر بہت خوش ہیں۔ لیکن نئے نظام کے متعلق ہماری امیدیں پوری نہیں ہوئیں۔ ہمارے ہاں ابھی تک وہی نو آبادیاتی ڈھانچہ ہے (انہوں نے خاص طور پر انگریز افسروں کا حوالہ دیا)۔

ہمیں ان کی جگہ اپنے جینئس لوگ لاکر تبدیلی لانی چاہیے۔'' وہ اسی انداز میں بولتے چلے گئے۔ قائد نے اکبر خان پر غصہ کی نگاہ ڈالی اور اپنے مخصوص انداز میں انگلی اٹھاتے ہوئے انہیں ڈانٹا: ''دیکھیں! آپ ایک سپاہی ہیں، آپ کا کام حکومت پر تنقید کرنا نہیں، آپ کو اپنے پیشے کی طرف توجہ دینی چاہیے'' ۔

جنرل ایوب خان کے دور میں معاشی لحاظ سے ترقی ہوئی۔ ڈیم بنے اور ترقیاتی کاموں کے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچے۔ یہاں تک کہ دھوم دھام سے عشرۂ ترقی کا جشن منایا گیا مگر سیاسی عدم استحکام اور مشرقی پاکستان کو شراکت اقتدار میں ناانصافی کی شکایات نے غیر محسوس طریقے سے اس کی مغربی پاکستان سے علیحدگی کا عمل شروع کردیا جو آخر کار جنرل یحییٰ کے دور میں ایک تلخ حقیقت بن کر سامنے آکھڑا ہوا۔

اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملی یکجہتی کا انحصار صرف ترقیاتی کاموں سے مشروط نہیں۔ آج کل بھی زور و شور سے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ عوام کو اس بات سے غرض نہیں کہ کون حکومت میں ہے اور کیا کررہا ہے۔ انہیں تو بس اپنے مسئلے مسائل کا حل درکار ہوتا ہے اور سڑکیں اور پل بنا دینے سے سب مسائل حل ہوجاتے ہیں حالانکہ تاریخ کے مطالعے سے یہ بات مشاہدے میں آتی ہے کہ انگریزوں سے بڑھ کر ترقیاتی کام شاید ہی کسی دور میں ہوئے ہوں۔ جنہوں نے اس وقت کے جدید ترین ذرائع مواصلات ریل، سڑکیں، پل اور ٹیلی گراف وغیرہ کے ذریعے پورے برصغیر کو جوڑ دیا تھا لیکن وہ سیاسی و معاشرتی آزادیوں کی تحاریک کو نہ پیدا ہونے سے روک سکے اور نہ ہی انہیں دباسکے اور انہیں برصغیر اور دنیا بھر میں اپنی دیگر کالونیوں سے بوریا بستر گول کرنا ہی پڑا۔ یہ حقیقت ہمارے حکمرانوں کے لیے چشم کشا ہونی چاہیے۔

طرفہ تماشہ یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا۔ 1971ء میں ملک چند طالع آزماؤں اور اقتدار کے حریص سیاست دانوں کی عاقبت نااندیشی کی بھینٹ چڑھ گیا اور نتیجتاً سقوط غرناطہ کے بعد عام اسلام کی تاریخ کا دوسرا بڑا سانحہ سقوط ڈھاکہ کے روپ میں ظہور پذیر ہوا جس میں دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑی تعداد میں فوجیوں نے ہتھیار ڈالے۔ یہ صرف اور صرف ہمارے قائدین کے جذب و اخلاص میں اس ترقی معکوس کی بدولت ہوا جو قیام پاکستان کے ابتدائی دور کے بعد سے مسلسل جاری تھی۔

پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد آنے والے حکمرانوں نے بیورو کریسی کے اثرو رسوخ کو ختم کرنے کے لیے انہیں حاصل آئینی و قانونی تحفظ سے محروم کردیا جس کے نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بیورو کریسی جس کا کام ریاستی ملازم ہونے کے ناطے عوام کی خدمت تھی، اپنی نوکریاں بچانے کے لیے حکمرانوں کے ذاتی ملازم کی شکل اختیار کرگئی۔ بھٹو نے کیونکہ ایوب خان کے دور سے لے کر بعد تک بیورو کریسی کے محلاتی سازشوں میں ملوث ہونے کے تمام تر عمل کا بچشم خود مشاہدہ کیا تھا اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ اپنے اقتدار کے دوام کے لیے نوکر شاہی کو لگام دیں۔ اس اقدام نے اس بگاڑ کو جنم دیا کہ جس کی طرف قائداعظم نے بہت پہلے اشارہ کردیا تھا۔

25 مارچ 1948ء کو چٹاگانگ اور 14 اپریل 1948ء کو پشاور میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے سرکاری افسروں کو تلقین کی کہ ''آپ کو عوام کے خادم کے طور پر اپنا فرض بجالانا چاہیے۔ آپ کو کسی سیاسی جماعت سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔ آپ ریاست کے ملازم ہیں آپ کا کام حکومت کے آئینی اور قانونی احکامات پر عملدرآمد کرنا ہے۔ اپنا فرض پوری دیانت داری، لگن اور بے خوفی سے پورا کیجئے۔''

مگر افسوس کہ نہ صرف سیاسی رہنماؤں بلکہ سرکاری افسروں نے بھی قائد کے اس فرمان کو پس پشت ڈال دیا اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے بھی کوئی سبق حاصل نہ کیا گیا اور اس عظیم سانحے کے بعد بھی ہم نے مارشل لاء کے دو مزید ادوار دیکھے۔

نوے کی دہائی میں جب جمہوریت کسی حد تک بحال ہوئی تو بھی اس کے حقیقی اثرات عوام تک پہنچانے کی بجائے جمہوریت کا وہ رخ ہمارے سامنے آیا جس نے عوام کا جمہوریت پر اعتقاد متزلزل کردیا اور ایک عام شریف آدمی کے لیے سیاست ایک شجر ممنوعہ بن کر رہ گئی۔ اس جمہوری دور میں کرپشن کا وہ بازار گرم ہوا کہ الامان و الاحفیظ۔ عوامی نمائندوں کی خرید و فروخت ہونے لگی اور انہیں لوٹوں کا خطاب ملا۔اس صورتحال کے باعث عوام کا ایک بڑا طبقہ جمہوریت سے ہی متنفر ہوگیا۔ سیاست کاروباری ہوگئی۔ حریف سیاسی جماعتوں میں حکمرانی کا حصول عوامی خدمت کی بجائے زیادہ سے زیادہ مال بنانے کامعتبر ذریعہ ٹھہرا اور حکمران ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کمیشن اور کک بیکس کے ذریعے دولت بٹورنے اور اسے منی لانڈرنگ کرکے بیرون ملک منتقل کرنے میں ایسے مصروف ہوئے کہ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی اور آبادی کا بڑا حصہ جو پہلے ہی صحت، تعلیم اور روزگار جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم تھا، غربت کی لکیر سے نیچے چلا گیا۔

یہ اس ملک کے حکمرانوں کا حال ہے جس کے بنانے والے قومی خزانے سے ایک پائی بھی اپنی ذات پر خرچ کرنے کے روادار نہیں تھے۔ قائداعظم بحیثیت وکیل ایک پر آسائش زندگی گزارتے تھے لیکن اپنی وصیت میں اپنا سب کچھ ملک و قوم کی نذر کرگئے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان ایک نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے مگر شہادت کے وقت ان کے پاس اپنا گھر تک نہ تھا اور بینک اکاؤنٹ میں چند سو روپے پڑے تھے۔

آج آزادی کے ستر برس بعد ایک امید کی کرن جاگی ہے جب پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے حکمرانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرکے ان کا بے لاگ احتساب کیا اور پاکستان کے دل گرفتہ عوام کو یہ پیغام دیا کہ قانون بڑے اور چھوٹے سب کے لیے برابر ہے اور اس سے کوئی بالاتر نہیں۔

ستائیس رمضان المبارک کو وطن عزیز پاکستان عطا کرکے اللہ تعالیٰ نے مسلمانان برصغیر کو یہ نوید دی تھی کہ یہ ملک اس کا خاص انعام ہے جس نے انشاء اللہ تا قیامت قائم رہنا ہے اور موجودہ حالات سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ ریاست مدینہ کے بعد اسلام کے نام پر بننے والی اس دوسری ریاست کے عروج کے دور کا آغاز ہوا ہی چاہتا ہے۔
Load Next Story