70 برسوں میں درپیش بڑے بحرانوں پر ایک نظر

بدقسمتی یہ کہ ہمارے کچھ بحران اس قدر مستقل حیثیت اختیار کرگئے ہیں کہ اب ’بحران‘ ہی معلوم نہیں ہوتے

بدقسمتی یہ کہ ہمارے کچھ بحران اس قدر مستقل حیثیت اختیار کرگئے ہیں کہ اب ’بحران‘ ہی معلوم نہیں ہوتے۔ فوٹو: نیٹ

اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کو روز اول سے ہی بحرانی کیفیت کا سامنا رہا ہے، تو بے جا نہ ہوگا۔

تعلیم، اور صنعت سے صحت تک وسائل کی ایسی صورت حال تھی کہ یہ کہا جاتا تھا کہ یہ ملک چند ماہ کے اندر ہی ہندوستان میں شمولیت پر مجبور ہو جائے گا، لیکن ایسا نہ ہوا اور یہ ان بحرانوں سے نبرد آزما رہا، یہاں تک کے دولخت ہو گیا۔ پھر بدقسمتی یہ کہ ہمارے کچھ بحران اس قدر مستقل حیثیت اختیار کرگئے ہیں کہ اب 'بحران' ہی معلوم نہیں ہوتے، قیادت کے بحران کو ہی دیکھیے، 70 برسوں میں کم کم ہی یہ بحران حل ہوا ہے۔ آٹے اور چینی جیسے بحران تو ہمارے ہاں کتنی ہی بار پیدا ہوتے رہے ہیں۔

یہی نہیں ہمارے مختلف شعبوں اور اداروں میں اکثر وبیش تر بحران کا سامنا رہتا ہے، جن میں سرفہرست توانائی کا بحران ہے، جوں ہی گرما میں موسم کے تیور سخت ہوئے اور اُدھر بجلی نایاب ہونے لگی، اگر جاڑوں میں موسم زیادہ سخت ہوا، تو سوئی گیس عنقا ہونے لگی۔ ہر دو موسموں میں گھروں سے صنعتوں تک ہمیں ایسے ہی بحرانوں سے جوجھنا پڑتا ہے۔ اداروں کے بحران کو دیکھیے، تو ان دنوں اسٹیل مل اور پی آئی اے قومی اداروں میں سب سے نمایاں ہیں۔ اس سے قبل ریلوے کا شمار بھی بحران زدہ محکمے میں ہوتا تھا، لیکن یہ قدرے سنبھل گیا ہے۔ مندرجہ ذیل میں اس ریاست کے چند کڑے بحرانوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

٭بنیادی وسائل کا بحران

بٹوارے سے قبل بھی دلی ہندوستان راج دہانی تھا، یوں آزاد کے بعد وہاں موجود برطانوی دفاتر میں ہی ہندوستانی دفاتر قائم ہوگئے، جب کہ اس طرف کے دارالحکومت بننے والے کراچی میں بنیادی وسائل بھی نہ تھے، چناں چہ سندھ اسمبلی کی عمارت کو دستورساز اسمبلی بنایا گیا، سندھ ہائی کورٹ وفاقی عدالت قرار پائی اور اس کے اردگرد لکڑی کے عارضی بیرکوں میں سرکاری دفاتر کا ساماں ہوا۔ بندر روڈ پر بینک آف انڈیا کی عمارت میں مرکزی بینک بنا۔ تمام بینک انگریزوں یا ہندوؤں کے تھے۔ مسلمانوں کا صرف حبیب بینک تھا، جس کا مرکزی دفتر بمبئی سے کراچی منتقل کیا گیا۔ نئی ریاست کے حصے میں صرف پشاور، لاہور اور ڈھاکا کے ریڈیو اسٹیشن آئے۔ کراچی میں گارڈن روڈ کے ایک بنگلے میں بجلی کے کھمبے پر انٹینا لگا کر کراچی کا عارضی ریڈیو چلایا گیا۔ یہاں تین نمایاں صنعتیں تھیں، جن میں ڈالمیا سیمنٹ فیکٹری (کراچی)، دہلی کلاتھ مل (فیصل آباد) اور ستلج اوکاڑہ کاٹن مل (اوکاڑہ) میں تھی۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائی میں بھی شدید دشواریاں پیش آئیں، کیوں کہ ہندوستان کی طرف سے واجب الادا اثاثے روک لیے گئے تھے۔

٭آباد کاری کا بحران

محدود وسائل کے ساتھ سب سے بڑا بحران بلوے اور فسادات کے نتیجے میں ہونے والی نقل مکانی کی صورت میں سامنے آیا۔ بنگال، بہار، یوپی، سی پی اور پنجاب وغیرہ سے لاکھوں افراد نے یہاں ہجرت کی، جن کی آباد کاری کے لیے شدید مشکلات پیش آئیں۔ طویل عرصے تک ہجرت کرنے والوں کی آبادکاری اور ان کے لیے بنیادی مسائل حل کیے جاتے رہے۔ کراچی میں کئی سال مہاجرین کے کیمپ قائم رہے۔ موجودہ مزار قائد کے اردگرد ان کا پڑاؤ رہا جو 'قائدآباد' کہلاتا تھا، پھر آنے والے برسوں میں لالو کھیت، ناظم آباد، کورنگی اور دیگر علاقوں کی جھگیوں اور مکانات میں انہیں آباد کیا گیا۔

٭لسانی بحران

پاکستان بننے سے قبل مذہب کے ساتھ زبان کے مسئلہ کو بھی بہت اہمیت حاصل رہی۔ صورت حال ایسی پیدا ہوئی کہ ہندی ہندوؤں کی اور اردو مسلمانوں کی زبان بنادی گئی۔ بٹوارے کے چھے ماہ بعد فروری 1948ء میں ہی پہلی بار اسمبلی میں اردو کے ساتھ بنگلا کو بھی قومی زبان بنانے کے لیے آواز سنی گئی، جس کے بعد مارچ 1948ء میں قائداعظم نے ڈھاکا جا کر اردو کے سوا کسی اور قومی زبان کا رد کیا، تاہم یہ واضح کردیا کہ صوبائی سطح پر صوبے اپنی زبان رکھ سکتے ہیں، لیکن مرکزی سطح پر تو اردو ہی واحد قومی زبان رہے گی۔ یہ بحران وقتی طور پر دب گیا، لیکن کچھ عرصے بعد پھر سر اٹھانے لگا اور 1952ء میں بنگلا زبان کے مسئلے پر ڈھاکا میں چار طالب علم جان سے گئے، جس سے صورت حال گمبھیر ہوگئی اور 1956ء میں ملک کے اولین دستور میں اردو کے ساتھ بنگلا کو بھی قومی زبان کا درجہ دینا پڑا۔ 1962ء کے دستور میں بھی یہی راہ اپنائی گئی۔ اس زمانے کے ڈاک ٹکٹ اور سکوں پر بھی اردو کے ساتھ بنگلا زبان کی تحریر دیکھی جا سکتی ہے۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 1973ء میں جب نیا دستور بنا تو یہاں آئینی طور پر پہلی بار اردو واحد قومی زبان قرار پائی۔

٭1953ء کا پہلا مارشل لا

فروری 1953ء میں لاہور میں مذہبی فسادات پھوٹ پڑے، جس میں بے شمار جانیں تلف ہوئیں۔ حالات پر قابو پانے کے لیے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے چھے مارچ 1953ء کو لفٹیننٹ جنرل اعظم خان کی سرکردگی میں لاہور میں مارشل لا لگا دیا، جس کی مدت تین ماہ تھی۔ خراب حالات کو جواز بناتے ہوئے غلام محمد نے 17 اپریل 1953ء کو وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر دیا اور امریکا میں متعین پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کو نیا وزیر اعظم بنایا گیا۔


٭دستور ساز اسمبلی کی برخاستگی

پاکستان کے پہلے روز سے محلاتی سازشوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا، قائد کی جلد وفات کے بعد لیاقت علی خان کو بھی راستے سے ہٹا دیا گیا، یوں اشرافیہ کے پنجے مضبوط ہوگئے، اور سیاسی بحران بڑھنے لگا، 24 اکتوبر 1954ء ہماری سیاسی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن ہے، جب پہلی دستور ساز اسمبلی برخاست کر دی گئی، جس سے دستورسازی کی کوششوں کو گہری زک پہنچی، خدا خدا کر کے نئی دستور ساز اسمبلی نے 1956ء میں آئین بنایا، لیکن سیاسی عدم استحکام کا سلسلہ جاری رہا، جس کا نتیجہ 1958ء میں آئین کی منسوخی اور مارشل لا کی صورت میں نکلا۔ یوں جمہوری ذریعے سے نمودار ہونے والے ملک پر محض 11 برس بعد ہی فوجی آمریت کے شکنجے کس دیے گئے۔

٭مشرقی پاکستان کی علیحدگی

کہنے کو زبان کے مسئلے سے راہ پانے والا مشرقی پاکستان کا بحران 1970ء میں اقتدار کی عدم منتقلی کی صورت میں پھیلتا ہی چلا گیا۔ مارچ میں نومنتخب اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے سے بحران نے شدت اختیار کرلی، شیخ مجیب نے آزادی کا اعلان کر دیا، سلامی لی اور ہر جگہ بنگلا دیش کے پرچم لہرا دیے گئے۔ جس کے بعد وہاں فوجی آپریشن کیا گیا، صورت حال خراب ہوتی چلی گئی اور اسی دوران ہندوستان نے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا، نتیجتاً پاکستان کے 90 ہزار فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور ملک کا اکثریتی آبادی کا حامل بازو 24 برس بعد ایک علیحدہ ملک بن گیا اور مغربی پاکستان ہی پاکستان کہلائے۔ 2 جولائی 1972ء کو ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی کے مابین طے ہونے والے شملہ معاہدے کے نتیجے میں 90 ہزار فوجیوں کی رہائی عمل میں آئی، ساتھ ہی بھارت کے زیرقبضہ علاقے بھی واپس ملے۔

٭1977ء کا مارشل لا

مارچ 1977ء میں ہونے والے قبل ازوقت انتخابات کے نتائج کے خلاف حزب اختلاف کے احتجاج نے ملک میں شدید بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی۔ متحدہ حزب اختلاف نے وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کے استعفے کے لیے زبردست احتجاج کیا۔ سیاسی بحران کے حل کے لیے حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مذاکرات جاری تھے اور قریب تھا کہ کسی باضابطہ سمجھوتے کا اعلان کردیا جاتا، پانچ جولائی 1977ء کو آرمی چیف جنرل ضیاالحق نے آئین معطل کرکے مارشل لا لگا دیا، 90 روز میں عام انتخابات کے وعدے پر ان کا اقتدار 11 برس تک جاری رہا۔17 اگست1988ء میں جنرل ضیا الحق فضائی حادثے کا شکار ہوئے، جس کے بعد ملک میں عام انتخابات کرائے گئے۔

٭8 اکتوبر کا قیامت خیز زلزلہ

پاکستان میں سیاسی اور انتظامی مسائل کے ساتھ قدرتی آفات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ جس میں 8 اکتوبر 2005ء کو آنے والا خوف ناک زلزلہ قابل ذکر ہے، جس میں خیبرپختونخوا، کشمیر اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں تقریباً ایک لاکھ کے قریب لوگ ہلاک ہوئے، جب کہ 70ہزار افراد زخمی ہوئے، جب کہ بے گھر ہونے والوں کی تعداد 28 لاکھ ہے۔ متاثرین زلزلہ کی بحالی کے لیے بڑے پیمانے پر سرکاری ونجی اداروں نے کام کیا، یہی نہیں مختلف بین الاقوامی تنظیموں نے بھی امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا۔ بے گھر ہونے والوں کے سر چھپانے کے لیے خیمہ بستیاں قائم کی گئیں۔ جن میں سے بہت سوں کو سرکاری اور نجی سطح پر رہائش کے لیے مدد فراہم کی گئی، جب کہ بہت سوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے منہدم گھروں کو بحال کیا۔

٭1997 اور 2007ء کے عدالتی بحران

سیاسی عدم استحکام کے ساتھ عدالتی طور پر بھی بحرانی کیفیت رہی، جس میں 1997ء اور 2007ء کے بحران قابل ذکر ہیں۔ 27 نومبر 1997ء کو وزیرِ اعظم نواز شریف کی عدالت عظمیٰ میں پیشی کے موقع پر نواز لیگی کارکنوں کی جانب سے شدید ہنگامے کی بنا پر سماعت مکمل نہ ہو سکی، چیف جسٹس نے تیرہویں آئینی ترمیم معطل کر کے صدر کا اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار بحال کر ڈالا، مگر بازو کے کمرے میں عدالت عظمیٰ کے دس رکنی بینچ نے جسٹس سعید الزماں صدیقی کی سربراہی میں اس تین رکنی بینچ کے حکم کو معطل کر دیا۔ یوں ایک بڑا عدالتی بحران پیدا ہو گیا، جس کا نتیجہ جسٹس سجاد علی شاہ کی معزولی کی صورت میں برآمد ہوا اور جسٹس اجمل میاں نئے چیف جسٹس بنے۔ اس کے دس برس بعد 9 مارچ 2007ء کو صدر جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس بھیجا اور انہیں معطل کردیا، جس سے عدالتی بحران پیدا ہوا، افتخار چوہدری کے حق میں وکلا اور سیاسی جماعتیں میدان میں آگئیں، ریفرنس کا فیصلہ افتخار چوہدری کے حق میں آیا، تاہم نومبر 2007ء میں ہنگامی حالت نافذ کر کے انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو نیا چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔ انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی، پرویز مشرف کو مواخذے کی تحریک کا سامنا ہوا تو وہ مستعفی ہوگئے۔ 2009ء کو حزب اختلاف کے شدید احتجاج کے بعد افتخار چوہدری کو عہدے پر بحال کرنے کا اعلان کیا گیا۔ یوں ملک کی سب سے بڑی عدالت لگ بھگ دو سال بحرانی کیفیت سے دوچار رہی۔

 
Load Next Story