جمہوریت اور ذرایع ابلاغ

سول سوسائٹی اور میڈیا کی مانیٹرنگ اوردباؤ بھی انتخابی اور جمہوری عمل کومستحکم بنانے میں اہم کرداراداکرتا ہے۔

muqtidakhan@hotmail.com

KARACHI:
پاکستان میں جمہوری عمل کے تسلسل میں ہمیشہ سے بیشماردیدہ اور نادیدہ قوتیںحائل چلی آرہی ہیں۔اب جب کہ موجودہ منتخب حکومت اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد اگلے انتخابات کی طرف جانے والی ہے، یہ رکاوٹیں ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہیں۔یہ طے ہے کہ حالیہ دنوں میںانتخابی عمل کی شفافیت کے حوالے سے اٹھنے والے بعض سوالات اور دلائل وبراہین گوکہ اپنے اندر وزن رکھتے ہیں، مگر ان کے پسِ پشت عزائم بہرحال نیک نہیں ہیں۔سول سوسائٹی بالخصوص ذرایع ابلاغ چونکہ جمہوریت کے استحکام کے لیے انتخابی عمل کے تسلسل کو ضروری سمجھتے ہیں،اس لیے ان رکاوٹوں کے خلاف سینہ سپر ہوکر سامنے آئے ہیں۔ویسے بھی آزادیِ اظہارکو یقینی بنانے کے لیے جمہوریت کا فروغ اور استحکام کلیدی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔لہٰذا جمہوریت کے لیے ذرایع ابلاغ کا متوشش ہونا ایک فطری عمل ہے۔یہی سبب ہے کہ ذرایع ابلاغ نے ان پس پردہ سازشوں کا پردہ چاک کرنے میںکسی پس وپیش سے کام نہیں لیا اورعوام کو ان سازشوں سے بروقت آگاہ کیا۔

اس سلسلے میں کونسل آف پاکستان نیوز ایڈیٹرز(CPNE)نے ذرایع ابلاغ اور سیاسی جماعتوں کے درمیان اس اہم قومی ایشو پرمکالمہ شروع کرنے کی خاطر گزشتہ جمعے کو کراچی میںایک کانفرنس کا اہتمام کیا۔جس کا موضوع ''جمہوری حکومت کی منتقلی :آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعے'' تھا۔ کانفرنس میں سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور زعماء کو مدعوکیا گیا تھا تاکہ وہ اپنی جماعتوں کا موقف پیش کرسکیں ۔ کانفرنس میں مدیرانِ اخبارات کے علاوہ سینئر صحافیوںاورتجزیہ نگاروںکی بڑی تعداد نے شرکت کی،تاکہ ملک کے مختلف شراکت داروں کے ساتھ ڈائیلاگ کاسلسلہ جاری ہوسکے۔ میاں نواز شریف کے نوشہرو فیروز میں جلسہ کے سبب مسلم لیگ(ن) کانفرنس میں شریک نہیں ہوسکی،کیونکہ اس کے مرکزی اور صوبائی رہنماء وہاںمصروف تھے۔اس لیے اس جماعت کا نقطہ نظر سامنے نہیں آسکا۔اس کے علاوہ سندھ کی قوم پرست جماعتوں کی عدم شرکت کو بھی شدت سے محسوس کیا گیا۔یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ انھیں مدعو نہیں کیا گیا یا انھوں نے شریک ہونا مناسب نہیں سمجھا۔البتہ کراچی میں موجود سیاسی جماعتوں کی اکثریت نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔پیپلزپارٹی کی نمایندگی صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کی، جب کہ وفاقی سطح کا کوئی راہنماء کانفرنس میں موجود نہیں تھا۔حالانکہ دعوت نامہ میں مولابخش چانڈیوکا نام دیاگیاتھا۔اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے رکن صوبائی اسمبلی امیر نواب شریک ہوئے۔جماعت اسلامی کی نمایندگی جماعت اسلامی سندھ کے امیر ڈاکٹرمعراج الہدیٰ نے کی۔مسلم لیگ(ق) نے علیم عادل شیخ کو بھیجا تھا۔ تحریک انصاف کی نمایندگی صوبائی صدر نادر اکمل لغاری کر رہے تھے۔جمعیت علمائے اسلام کی طرف سے حافظ حسین احمد موجود تھے۔البتہ متحدہ قومی موومنٹ نے بھر پورشرکت کی اور رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینئر ڈاکٹرفاروق ستار اور صوبائی وزیر خواجہ اظہارالحسن کانفرنس میں موجود تھے۔

کانفرنس کی اہم خوبی یہ تھی کہ منتظمین بالخصوص برادرم عامر محمود نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ ہونے والی گفتگو کانفرنس کے اغراض ومقاصد سے ہم آہنگ رہے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے اس کانفرنس میں ہونے والی تقاریر اس طرح ترتیب دیں کہ تعارفی تقریر اور صدارت ذرایع ابلاغ کے سینئرصحافیوں سے کرائی جائے۔ جب کہ درمیان میں بھی سینئر صحافی اور تجزیہ نگاربھی وقتاًفوقتاً اپنی رائے کا اظہار کرتے رہیں،تاکہ موضوع کی افادیت برقرار رہے۔یوں تعارفی تقریر سینئر صحافی غازی صلاح الدین نے کی،جب کہ صداتی خطبہ سیفما کے سیکریٹری جنرل امتیازعالم نے پیش کیا۔سیاسی قائدین کی تقاریرکے دوران ایکسپریس ٹریبیون کے چیف ایڈیٹر محمد ضیاء الدین اور عوامی آواز کے چیف ایڈیٹرڈاکٹرجبار خٹک نے جمہوریت اور انتخابی عمل کے بارے میں ذرایع ابلاغ کے نقطہ نظر کو کھل کر پیش کیا۔


اس کانفرنس کے دوران ان گنت معاملات و مسائل کے علاوہ انتخابات کے شفاف انعقاد پر تحفظات بھی سامنے آئے۔پیش کیے جانے والے بیشترمسائل قومی نوعیت کے تھے،جب کہ کچھ مقامی نوعیت کے مسائل بھی اجاگرکیے گئے۔انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے جو تحفظات سامنے آئے۔ان میں کراچی میں ووٹر لسٹ کی تصدیق پر بعض جماعتوں کے تحفظات اور سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق حلقہ بندیوںمیں ردوبدل نہ ہونا۔بلوچستان اورکراچی سمیت پورے ملک میں امن وامان کی مخدوش صورتحال ۔بعض نادیدہ قوتوں کے انتخابی عمل پر اثرانداز ہونے کے خدشات وغیرہ شامل تھے جب کہ انتخابات کی شفافیت کے لیے جو تجاویزدی گئیں، وہ خاصی اہم اور غور طلب تھیں۔یہ تجویزدی گئی کہ ووٹرلسٹیں نادرا کے ذریعے بنوائی جائیں اور اس مقصد کے لیے اس کے دائرہ کار کو مزید وسیع کیا جائے۔جمہوریت کو شراکتی بنانے کے لیے منتخب ہونے والی حکومت100دن کے اندر مقامی حکومتی نظام کے قیام کی ضمانت فراہم کرے،کیونکہ مقامی حکومتوں کے بغیر جمہوریت ادھوری ہے۔ سیاسی جماعتیں خود ان امیدواروں کو ٹکٹ دیں،جوآئین کی شقوں 62 اور 63 پر پورے اترتے ہوں ۔ تعلیم،صحت اور سماجی ترقی جیسے اہم قومی امور کے لیے سیاسی جماعتیں مشترکہ ایجنڈا بنائیں اور ایک حکومت کے اقدامات کو دوسری آنے والی حکومت جاری رکھنے کی اخلاقی طور پر پابند ہو۔نمایندگی کو ٹیکس کی ادائیگی سے مشروط کیا جائے ۔ ٹیکس نادہندگان کے لیے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی کا مکینزم بنانے کے لیے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے تعاون کریں۔

اب اگر جمہوریت کے مستقبل اور جمہوری عمل کو لاحق خطرات کا مطالعہ کیا جائے تو اس وقت دنیا بھر میںجمہوری نظم حکمرانی کو مختلف نوعیت کے خطرات کا سامنا ہے،جس کا اظہار سابق امریکی نائب صدرالگور نے اپنی سوانح میں کیا ہے۔ان کاکہنا ہے کہ جمہوریت کو کارپوریٹ سیکٹر نے ہائی جیک کرلیا ہے، جسے ایک بار پھر عوامی بنانے کے لیے متوسط طبقے کو فعالیت کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔حالانکہ مغربی ممالک میں جمہوریت کی جڑیں خاصی گہری ہیں اور سیاسی عمل تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔اس لیے وہاں جن خطرات کی بات کی جا رہی ہے، وہ سیاسی ارتقائی عمل کا حصہ ہے،جس پر قابو پانا ان معاشروں کے لیے مشکل نہیں ہے۔ویسے بھی سیاسی نظام پیداواری ذرایع میں تبدیلی سے مشروط ہوتا ہے۔بیسویں صدی کی آخری دہائیوں سے جو خاموش اندرونی تبدیلی صنعتی نظام میں پیدا ہوئی ہے،اس کے نتیجے میںنظم حکمرانی میں بھی تبدیلیاں آ رہی ہیں اور جمہوری نظام بھی آگے کی جانب بڑھ رہا ہے۔اس لیے وہاں جمہوریت کودرپیش چیلنج اسے مزید بہتر بنانے کے لیے ہیں۔

اس کے برعکس پاکستان کا معاملہ قطعی مختلف ہے۔اول، پاکستان جس خطے پر قائم ہے، وہاں صدیوں سے قبائلی، برادری اور جاگیردارانہ کلچرکی جڑیں خاصی مضبوط ہیں،جس کے اثرات سیاست اور سیاسی نظام پر واضح ہیں۔دوئم،32برس تک چار فوجی آمریتیں وقفہ وقفہ سے مسلط رہیں۔اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ ایسے افراد اور خاندان سیاسی عمل پر حاوی آتے چلے گئے،جوفوجی آمریتوں کے تسلسل میں معاون ثابت ہوئے۔ یوں سیاست مخصوص گھرانوں کی میراث بن کر رہ گئی اور موروثی سیاست،جس کی جڑیں پہلے ہی سے مضبوط تھیں، مزید مضبوط ہوگئیں۔اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی متوسط طبقہ کا مسئلہ ہے جوکل آبادی کاصرف 30فیصد ہے اور شہروں میں آباد ہے۔اس طبقے کی نمایندگی تعلیم یافتہ مڈل کلاس کی قیادت کیا کرتی تھی،جوکالجوں اور یونیورسٹیوں سے طلبا سیاست کے ذریعے عملی سیاست میں آیاکرتی تھی۔جنرل ضیاء کے دور سے طلبا سیاست کا خاتمہ کرکے دراصل مڈل کلاس سیاست کا راستہ بندکرنے کی سازش تھی۔یوں گزشتہ 30برس سے نئی مڈل کلاس قیادت اربن مراکز سے نہیں آرہی ۔جب کہ دوسری طرف70فیصد دیہی آبادی کے لیے طرز حکمرانی سے بڑا مسئلہ ان کے اپنے علاقائی مسائل ہوتے ہیں،جن کا وہ فوری حل چاہتی ہے۔اس لیے آمریت ہو یا جمہوریت وہی افراد اور خاندان دیہی معاشرے میں قبولیت حاصل کرتے ہیں، جو ان کے مسائل کے حل میں معاون ثابت ہوتے ہیں،خواہ وہ جمہوری اقدار کے حوالے سے نمایندگی کے معیار پر پورے اترتے ہوں یا نہ اترتے ہوں۔

لیکن اس سیاسی کلچرمیںتبدیلی ممکن ہے،بشرطیکہ انتخابی عمل تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے اور اس کے راستے میں روڑے نہیں اٹکائے جاتے۔جمہوری معاشروں میں آزاد عدلیہ،غیر جانبدار الیکشن کمیشن، فعال سول سوسائٹی اور متحرک ذرایع ابلاغ کا وجود جمہوری عمل کے استحکام میں کلیدی کردار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سول سوسائٹی اور میڈیا کی مانیٹرنگ اوردبائو بھی انتخابی عمل کو شفاف بناکر جمہوری عمل کومستحکم بنانے میں اہم کرداراداکرتا ہے۔ جمہوریت کے فروغ اور استحکام کے لیے آمریت کا راستہ روکنے کے ساتھ ساتھ سیاسی ڈھانچے میں اصلاحات بھی ضروری ہوتی ہیں۔اس لیے پاکستان کی سول سوسائٹی اور میڈیاکی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی، زرعی اصلاحات، ٹیکس نیٹ کے پھیلائو اور باکردار امیدواروںکی نامزدگی کے لیے سیاسی جماعتوں پرمسلسل دبائو ڈالتے رہیں۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ CPNEکی کراچی میں منعقد ہونے والی کانفرنس نے سیاسی جماعتوں کو باورکرایاہے کہ میڈیاجمہوریت کے فروغ میںسنجیدہ ہے اور اسی لیے ان کی کارکردگی پر Vigilantاندازمیںنظر رکھے ہوئے ہے،تاکہ کسی بھی مرحلے پر جمہوریت اورجمہوری عمل پٹری سے اترنے نہ پائے۔
Load Next Story