کون سا پاکستان
پاکستان کا سابق وزیر اعظم نوازشریف پاکستان کے شہیدوں کے خون کا سودا کر کے اسے بھارت کو دینا چاہتے تھے۔
14 اگست 1947ء کو رب العالمین کی مرضی اور برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد سے ایک نظریاتی ملک کا قیام عمل میں آیا جس کا نام الحمد اللہ پاکستان ہے۔ برصغیر کے لوگوں میں پروردگار نے وہ صاحب بصیرت رہنما پیدا فرمائے جنھوں نے اس تحریک کو عمل کا راستہ دیا اورصرف راستا نہیں دیا عمل کی صورت اسے کامیاب کیا۔ وہ نام اب پرانے ہو چکے اور اب کے سیاستدان ان کے مقبرے پر پھول تو چڑھانے چلے جاتے ہیں مگر اس فلاسفی کا ساتھ دینے کو تیار نہیں جو دراصل پاکستان ہے، جسے نظریہ پاکستان کہتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ ہم تاریخ میں اور سفرکریں موجودہ صورتحال میں پاکستان کے وہ لوگ جو ''لیڈر'' کہلاتے ہیں، وہ قائد اعظم کا پاکستان نہیں چاہتے وہ یا تو حروف تہجی کا پاکستان چاہتے ہیں جن کے اعتبار سے جماعتیں قائم ہیں۔ ''پرانے پاکستان'' میں پیدا ہونے والے ''نیا پاکستان'' بنانا چاہتے ہیں۔ دراصل یہ لوگ سب کچھ ''اپنا'' چاہتے ہیں پاکستان کا نہیں چاہتے۔ عوام کا پاکستان یا قائد اعظم کا بنایا ہوا پاکستان انھیں وارا نہیں کھا رہا۔
پاکستان کا پہلا وزیر اعظم ایک ریاست کا نواب شہید لیاقت علی خان تھا جس کی شہادت کے بعد معلوم ہوا کہ شیروانی کے نیچے قمیص پھٹی ہوئی تھی۔ پاکستان کا وزیر اعظم ہے کہ متحدہ پاکستان کا وزیر اعظم ایک نئی قمیص خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا حالانکہ پاکستان کا مالک تھا، جس نے پانی کے مسئلے پر مشہور زمانہ مکا بھارت کو دکھایا تھا اور بھارت کی گھگی بندھ گئی تھی۔
آج پاکستان کے سابق وزیر اعظم نوازشریف کو بھارت مکے مارتا رہا، سیاسی طور پر اور پاکستان کا سابق وزیر اعظم مکے کھاتے رہا اور مسکراتا رہا، کیونکہ اس کے اور اس کے خاندان کے مفادات پاکستان کے ساتھ نہیں اوروں کے ساتھ تھے۔
شاید پہلی بار سابق وزیر اعظم پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوجوں کی فائرنگ سے پاکستان کی جیپ دریا میں گرنے کی وجہ سے چار جوانوں کے دریا میں گرنے اور شہید ہونے پر صرف افسوس کا اظہار کیا تھا، پاکستان کا کوئی وزیر خارجہ نہیں تھا۔ پاکستان کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہے۔ کیونکہ وزیر اعظم کے مفادات کا وزیر اعظم ہی خیال رکھ سکتا ہے لہٰذا خود ہی وزیر خارجہ بھی رہے، اس بنیاد پر بھارت، اور برصغیر کے دوسرے ممالک جو پاکستان دشمنی میں صف اول میں ہیں پاکستان کا وزیر اعظم ان کو سہولتیں فراہم کر سکے۔
کلبھوشن یادیو پاکستان میں جاسوسی کرتے پکڑا گیا اور پوری کوشش ہے کہ اسے بھارت کو ریمنڈ ڈیوس کی طرح دے دیا جائے کیونکہ بھارت کے وزیر اعظم نے جاتی امرا آ کر ان پر احسان کیا تھا۔ یہ کچھ بھی کر سکتے ہیں وزارت داخلہ چوہدری نثار کو دینا مجبوری تھی، ورنہ یہ سیاستدانوں کی مشکیں کس کر انھیں بازاروں میں گھماتے۔
اگست کا مہینہ ہے اور دل خون کے آنسو رو رہا ہے 1947ء سے 2017ء تک ان نام نہاد سیاستدانوں نے آمروں کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بھی اور خود بھی جب موقع ملا پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
''کچھ حیا ہوتی ہے، کچھ شرم ہوتی ہے'' والے بھی کس ڈھٹائی سے چوروں کے حق میں بیان دے رہے ہیں ''اب حیا نہیں ہوتی، اب شرم نہیں ہوتی''
سیاست کا پورا حمام گندا ہے جس میں فضل الرحمٰن بھی اس حمام میں ہیں اور چوروں کی وکالت کر رہے ہیں کیونکہ ''پرمٹ سیاست'' تو ان کا پرانا کام ہے اب شاید کچھ اور بھی کاروبار ہوں۔
بانی پاکستان کی قیام گاہ کے باہر گند کا ڈھیر، مقبروں کی حالت زار، مگر پرائم منسٹر ہاؤس اور وہاں موجود خاتون کے ٹھاٹ باٹ لوہے کے بجائے ''اسٹیل'' کے لگتے ہیں۔ جاتی امرا اور لاہور پاکستان ہے۔
پاکستان کا وزیر اعظم پاکستان سے زیادہ ان ملکوں میں رہتا ہے اور دورے کرتا رہا جہاں اس کے مفادات تھے۔ پانامہ کھل گیا، جے آئی ٹی میں اور کچھ بھی کھل گیا ہے اور باقی میاں صاحب گھر بھیج دیے گئے۔ فضل صاحب بھی اس لیے ساتھ کھڑے ہیں کہ حساب ہوا تو ان کا بھی ہو گا کشمیر کے نام پر کیا کچھ ہڑپ کیا گیا، اور بھارت کو کشمیر ہڑپنے کے مواقع دیے جاتے رہے ''کشمیر کمیٹی'' وہی کمیٹی ہے جو گھروں میں ڈالی جاتی ہے اور یہ کمیٹی ہمیشہ ایک آدمی کی ہی کھلتی ہے اب میڈیا کا دور ہے شاید اوروں کی بھی کھلتی ہو۔
27 رمضان تھا 14 اگست تھی لوگوں نے اسے پندرہ کرنے کی کوشش کی، بھارت کو نہیں کہا کہ تم 16 کو آزاد ہوئے ہو، یہاں ڈکلیئر کر دیا گیا تھا کہ 14 اگست یوم آزادی ہے، اگر ریڈیو سے رات بارہ بجے یہ اعلان کیا گیا تو کیا فرق پڑتا ہے، مگر بعد میں پاکستان آنے والے بھارت سے وفاداری کا مظاہرہ کرنے کے لیے 14 اگست کو بھی تو متنازع بنانے کی کوشش کریں گے۔
پاکستان کرکٹ پر خدا رحم کرے ROS الیکشن کروانے اور موجودہ حکومت کو پنجاب میں سرکاری مشینری کی مدد سے کامیاب کروانے میں ان کا ہاتھ بتایا جاتا ہے جو انعامات وزارت اعلیٰ اور کرکٹ بورڈ کے صدور کے اعتبار سے مل چکے ہیں اس سے ضمیر کی قیمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، یہ ایک چینل پر صرف پاکستان کے خلاف کام کرتے ہیں۔ چینل کے مالک بھی پاکستان کا کھاتے، بھارت کا گاتے ہیں۔ سوداگران کا خاندان ہے لہٰذا وزیر اعظم کو جو انڈیا کو پسند ہے پورا کر رہے ہیں۔
کشمیرکی جنگ فاٹا کے غیور جوانوں نے جیتی تھی، پاکستان کا سر فخر سے کشمیر کے معاملے میں بلند رہا تو وہاں جوانوں کی وجہ سے۔ موجودہ حکومت جو تحریر کے وقت ہے اسے کشمیریوں سے کوئی دلچسپی نہیں، اقوام متحدہ اور دوسرے ہر فورم پر پاکستان کا سابق وزیر اعظم سر بہ لب رہا، کلبھوشن کا نام نہیں لیا۔
جندال نے جو ایڈوائس مودی کی پہنچائی ہے اس پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ ایک جاسوس کے اعترافی بیان اور اب سزائے موت کی توثیق کے باوجود۔ پاکستان کا سابق وزیر اعظم نوازشریف پاکستان کے شہیدوں کے خون کا سودا کر کے اسے بھارت کو دینا چاہتے تھے۔ تا کہ بھارت کا سر بلند ہو جائے اور یہی کلبھوشن بھارت جا کر پاکستانی فوج کو جھوٹا قرار دے گا اور وہاں ہیرو بن جائے گا۔
ذمے داروں کو جو پاکستان سے محبت کرتے ہیں سوچنا چاہیے غور کرنا چاہیے اور جلدازجلد کلبھوشن کو سزائے موت دے کر ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔کلبھوشن پر بھارت کی حکومت ٹکی ہوئی ہے۔ پاکستان سے غداری، اسلام سے غداری اور رب العزت سے غداری کے مترادف ہے۔ یہ قائد اعظم کا پاکستان ہے، کیا ہوا جو پاکستان دشمنوں کے ہاتھ میں ہے تحریر کے وقت تک، خدا ہمیں سرخرو کرے گا ہمیشہ کی طرح انشا اللہ۔
اس سے پہلے کہ ہم تاریخ میں اور سفرکریں موجودہ صورتحال میں پاکستان کے وہ لوگ جو ''لیڈر'' کہلاتے ہیں، وہ قائد اعظم کا پاکستان نہیں چاہتے وہ یا تو حروف تہجی کا پاکستان چاہتے ہیں جن کے اعتبار سے جماعتیں قائم ہیں۔ ''پرانے پاکستان'' میں پیدا ہونے والے ''نیا پاکستان'' بنانا چاہتے ہیں۔ دراصل یہ لوگ سب کچھ ''اپنا'' چاہتے ہیں پاکستان کا نہیں چاہتے۔ عوام کا پاکستان یا قائد اعظم کا بنایا ہوا پاکستان انھیں وارا نہیں کھا رہا۔
پاکستان کا پہلا وزیر اعظم ایک ریاست کا نواب شہید لیاقت علی خان تھا جس کی شہادت کے بعد معلوم ہوا کہ شیروانی کے نیچے قمیص پھٹی ہوئی تھی۔ پاکستان کا وزیر اعظم ہے کہ متحدہ پاکستان کا وزیر اعظم ایک نئی قمیص خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا حالانکہ پاکستان کا مالک تھا، جس نے پانی کے مسئلے پر مشہور زمانہ مکا بھارت کو دکھایا تھا اور بھارت کی گھگی بندھ گئی تھی۔
آج پاکستان کے سابق وزیر اعظم نوازشریف کو بھارت مکے مارتا رہا، سیاسی طور پر اور پاکستان کا سابق وزیر اعظم مکے کھاتے رہا اور مسکراتا رہا، کیونکہ اس کے اور اس کے خاندان کے مفادات پاکستان کے ساتھ نہیں اوروں کے ساتھ تھے۔
شاید پہلی بار سابق وزیر اعظم پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوجوں کی فائرنگ سے پاکستان کی جیپ دریا میں گرنے کی وجہ سے چار جوانوں کے دریا میں گرنے اور شہید ہونے پر صرف افسوس کا اظہار کیا تھا، پاکستان کا کوئی وزیر خارجہ نہیں تھا۔ پاکستان کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہے۔ کیونکہ وزیر اعظم کے مفادات کا وزیر اعظم ہی خیال رکھ سکتا ہے لہٰذا خود ہی وزیر خارجہ بھی رہے، اس بنیاد پر بھارت، اور برصغیر کے دوسرے ممالک جو پاکستان دشمنی میں صف اول میں ہیں پاکستان کا وزیر اعظم ان کو سہولتیں فراہم کر سکے۔
کلبھوشن یادیو پاکستان میں جاسوسی کرتے پکڑا گیا اور پوری کوشش ہے کہ اسے بھارت کو ریمنڈ ڈیوس کی طرح دے دیا جائے کیونکہ بھارت کے وزیر اعظم نے جاتی امرا آ کر ان پر احسان کیا تھا۔ یہ کچھ بھی کر سکتے ہیں وزارت داخلہ چوہدری نثار کو دینا مجبوری تھی، ورنہ یہ سیاستدانوں کی مشکیں کس کر انھیں بازاروں میں گھماتے۔
اگست کا مہینہ ہے اور دل خون کے آنسو رو رہا ہے 1947ء سے 2017ء تک ان نام نہاد سیاستدانوں نے آمروں کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بھی اور خود بھی جب موقع ملا پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
''کچھ حیا ہوتی ہے، کچھ شرم ہوتی ہے'' والے بھی کس ڈھٹائی سے چوروں کے حق میں بیان دے رہے ہیں ''اب حیا نہیں ہوتی، اب شرم نہیں ہوتی''
سیاست کا پورا حمام گندا ہے جس میں فضل الرحمٰن بھی اس حمام میں ہیں اور چوروں کی وکالت کر رہے ہیں کیونکہ ''پرمٹ سیاست'' تو ان کا پرانا کام ہے اب شاید کچھ اور بھی کاروبار ہوں۔
بانی پاکستان کی قیام گاہ کے باہر گند کا ڈھیر، مقبروں کی حالت زار، مگر پرائم منسٹر ہاؤس اور وہاں موجود خاتون کے ٹھاٹ باٹ لوہے کے بجائے ''اسٹیل'' کے لگتے ہیں۔ جاتی امرا اور لاہور پاکستان ہے۔
پاکستان کا وزیر اعظم پاکستان سے زیادہ ان ملکوں میں رہتا ہے اور دورے کرتا رہا جہاں اس کے مفادات تھے۔ پانامہ کھل گیا، جے آئی ٹی میں اور کچھ بھی کھل گیا ہے اور باقی میاں صاحب گھر بھیج دیے گئے۔ فضل صاحب بھی اس لیے ساتھ کھڑے ہیں کہ حساب ہوا تو ان کا بھی ہو گا کشمیر کے نام پر کیا کچھ ہڑپ کیا گیا، اور بھارت کو کشمیر ہڑپنے کے مواقع دیے جاتے رہے ''کشمیر کمیٹی'' وہی کمیٹی ہے جو گھروں میں ڈالی جاتی ہے اور یہ کمیٹی ہمیشہ ایک آدمی کی ہی کھلتی ہے اب میڈیا کا دور ہے شاید اوروں کی بھی کھلتی ہو۔
27 رمضان تھا 14 اگست تھی لوگوں نے اسے پندرہ کرنے کی کوشش کی، بھارت کو نہیں کہا کہ تم 16 کو آزاد ہوئے ہو، یہاں ڈکلیئر کر دیا گیا تھا کہ 14 اگست یوم آزادی ہے، اگر ریڈیو سے رات بارہ بجے یہ اعلان کیا گیا تو کیا فرق پڑتا ہے، مگر بعد میں پاکستان آنے والے بھارت سے وفاداری کا مظاہرہ کرنے کے لیے 14 اگست کو بھی تو متنازع بنانے کی کوشش کریں گے۔
پاکستان کرکٹ پر خدا رحم کرے ROS الیکشن کروانے اور موجودہ حکومت کو پنجاب میں سرکاری مشینری کی مدد سے کامیاب کروانے میں ان کا ہاتھ بتایا جاتا ہے جو انعامات وزارت اعلیٰ اور کرکٹ بورڈ کے صدور کے اعتبار سے مل چکے ہیں اس سے ضمیر کی قیمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، یہ ایک چینل پر صرف پاکستان کے خلاف کام کرتے ہیں۔ چینل کے مالک بھی پاکستان کا کھاتے، بھارت کا گاتے ہیں۔ سوداگران کا خاندان ہے لہٰذا وزیر اعظم کو جو انڈیا کو پسند ہے پورا کر رہے ہیں۔
کشمیرکی جنگ فاٹا کے غیور جوانوں نے جیتی تھی، پاکستان کا سر فخر سے کشمیر کے معاملے میں بلند رہا تو وہاں جوانوں کی وجہ سے۔ موجودہ حکومت جو تحریر کے وقت ہے اسے کشمیریوں سے کوئی دلچسپی نہیں، اقوام متحدہ اور دوسرے ہر فورم پر پاکستان کا سابق وزیر اعظم سر بہ لب رہا، کلبھوشن کا نام نہیں لیا۔
جندال نے جو ایڈوائس مودی کی پہنچائی ہے اس پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ ایک جاسوس کے اعترافی بیان اور اب سزائے موت کی توثیق کے باوجود۔ پاکستان کا سابق وزیر اعظم نوازشریف پاکستان کے شہیدوں کے خون کا سودا کر کے اسے بھارت کو دینا چاہتے تھے۔ تا کہ بھارت کا سر بلند ہو جائے اور یہی کلبھوشن بھارت جا کر پاکستانی فوج کو جھوٹا قرار دے گا اور وہاں ہیرو بن جائے گا۔
ذمے داروں کو جو پاکستان سے محبت کرتے ہیں سوچنا چاہیے غور کرنا چاہیے اور جلدازجلد کلبھوشن کو سزائے موت دے کر ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔کلبھوشن پر بھارت کی حکومت ٹکی ہوئی ہے۔ پاکستان سے غداری، اسلام سے غداری اور رب العزت سے غداری کے مترادف ہے۔ یہ قائد اعظم کا پاکستان ہے، کیا ہوا جو پاکستان دشمنوں کے ہاتھ میں ہے تحریر کے وقت تک، خدا ہمیں سرخرو کرے گا ہمیشہ کی طرح انشا اللہ۔