ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمید
تلخ حقائق کے باوجود اگر ہم اب بھی بھارت سے کسی خیر اور اچھائی کی آس لگائے بیٹھے ہیں تو پھر یہ ہمارا ہی قصور ہے۔
کچھ عرصے سے ہمارے یہاں بھارت سے دوستی اور محبت کے نام پر ایک بھر پور مہم چلائی جا رہی ہے اور اِس ملک کے سادہ لوح معصوم لوگوں کو بہلا پھسلا کے بھارت کی ہر شے سے عشق و محبت کے نئے بندھن اور رشتے ناتے جوڑنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ ہمارے لوگ بھارت کی فلموں اور موسیقی سے تو پہلے ہی متاثر اور اُس کے دلدادہ تھے لیکن اب وہاں کی ہر چیز سے ہمارے لوگوں کو جبراً و قہراً محبت کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ پڑوس سے کوئی معمولی ثقافتی وفد یا فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے چند افراد کا چھوٹا سا گروہ بھی اگر پاکستان آ جائے تو ہم سارے کے سارے بے محابا اپنا کام کاج چھوڑ کر اُن کی راہوں میں نگاہیں بچھانے کے لیے بے چین و بے قرار ہو جاتے ہیں۔ الفت و محبت اور امن کی تمنا کے ترانے گنگنانا شروع کر دیتے ہیں۔
جیسے اِن کے آ جانے سے ہر سمت اور ہر جا ماحول یکسر بدل جائے گا، محبتوں کی نئی برکھا برسنے لگے گی، خوش رنگ خوابوں کے نئے نقوش تراشے جائیں گے، بہار آفریں موسموں کے نئے منظر سجائے جائیں گے اور سرحدوں کے آس پاس دونوں جانب برسوں سے پرورش پانے والی دلوں کی کدورتیں، نفرتیں اور رنجشیں یک دم ختم ہو جائیں گی۔ ہندو ذہنیت اور پاکستان دشمن خیالات اچانک تبدیل ہو کر پیار و محبت کے نئے جذبوں اور نئے ولولوں میں بدل جائیں گے۔ کشمیر کا تنازعہ بڑی خوش اسلوبی سے حل ہو جائے گا اور دونوں ملکوں کے درمیان نفاق اور نفرت کی کوئی دیوار بھی ہمیں باہم شیر و شکر ہونے سے روک نہیں سکے گی۔ تجارت کے نام پر بھارت کی ہر شے پاکستان کے بازاروں ، مارکیٹوں اور دکانوں میں پہنچ جائے گی اور ہماری حکومت اپنے اِس نئے خیر خواہ اور ہر دلعزیز کو فیوریٹ قرار دیکر اِس امن کی خواہش کے مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اپنا کلیدی کردار بخوبی نبھائے گی۔ ہر طرف خوشحالی اور امن کا دور دورہ ہو گا۔
اِدھر کے لوگ باآسانی ادھر جا سکیں گے اور ادھر کے لوگ بلاخوف و خطر یہاں آ پائیں گے۔ کوئی ویزا کی پابندی نہیں ہو گی۔ بس سامان باندھا اور ٹکٹ لے کر بھارت یاترا کے سفر پر نکل گئے۔ کتنی سہل اور آسان ہو جائے گی ہماری زندگی۔ جو بچے آج ہندو زبان کے فقرے اپنی روزمرہ کی گفتگو میں استعمال کر نے میں کچھ ہچکچاہٹ اور خوف کا شکار ہیں اُنہیں پھر کوئی دشواری نہیں رہے گی ۔ وہ بے اختیار اپنے باپ کو پتا جی اور ماں کو ماتا جی کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کریں گے۔ بیویاں اپنے شوہروں کو پتی اور مجازی خدا اپنی بیگمات کو پتنی اور لکشمی پکارتے دکھائی دیں گے۔ اسکولوں اور کالجوں میں نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے پر رنگ پھینکنے کی رسم بلا کسی تذبذب اور ہچکچاہٹ کے با قاعدگی کے ساتھ ہولی کے تہوار کے طور پر مناتے ہوئے نظر آئیں گے۔ سرحدوں اور فاصلوں کا امتیاز اور احساس باقی نہیں رہے گا ۔ ثقافت اور مذہب کا فرق بھی مٹ جائے گا اور دونوں ملکوں کے لوگ سیکولرزم کے اُصولوں کے تحت اور ہندو رسم و رواج کے عین مطابق ایک دوسرے کو راکھی باندھ رہے ہوں گے۔
ہندوستانی چاہے ہماری عید کا تہوار نہ منائے لیکن ہم دیوالی ضرور منا رہے ہوں گے۔ کیونکہ ہم اُس کی محبت میں دیوانہ وار پاگل ہوئے جا رہے ہیں۔ ذرا سی کوئی اچھی خبر وہاں سے کیا آ جاتی ہے ہم امن کی امید کا سبق دہرانا شروع کر دیتے ہیں۔ اِس کے برعکس بھارتی شہریوں کے رویوں پر اگر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہو گا کہ انڈین پریمیر لیگ میں سلیکشن کے وقت کسی پاکستانی کھلاڑی کو اِس قابل بھی نہ سمجھا گیا کہ وہ دنیا کے دیگر کھلاڑیوں کی صف میں کھڑے ہو کر اِس ٹورنامنٹ کا حصہ بنے۔ ممبئی میں شیو شینا کے کارکن اتنے با اثر اور طاقتور ہیں کہ ہمارا کوئی کھلاڑی وہاں اپنا کھیل اور اپنی پرفارمنس شو نہیں کر سکتا۔ وہاں کی و فاقی حکومت اِن دہشت گردوں کے آگے اتنی بے بس اور لاچار ہے کہ اپنے غیر ملکی مہمانوں کو اپنے ہی پالے ہوئے دہشتگردوں کے شر سے بچا نہ سکی۔
پاکستان کے اِن کھلاڑیوں کی بجائے اگر دنیا کی کسی دوسری ٹیم کے ساتھ یہ توہین آمیز سلوک ممبئی کے بال ٹھاکرے اور اُس کے حواریوں کا ہوتا تو بھی کیا بھارتی حکومت اتنی مجبور اور کمزور ہوتی کہ اُس ٹیم کے لیے دوسرے شہروں میں میچ کھیلنے کا انتظام کرتی پھرتی۔ حال ہی میں ہماری ویمن کرکٹ ٹیم کے ساتھ وہاں جو ہتک آمیز رویہ اور سلوک روا رکھا گیا۔ اُس کے بعد تو ہمیں کم از کم اپنے ذہنوں پر سوار اِس خوش فہمی کو جھٹک کر پھینک دینا چاہیے کہ بھارت کبھی ہمارا دوست اور خیر خواہ ہو سکتا ہے۔ سمجھوتہ ٹرین کو آگ لگانے کے واقعے کی بازگشت آج بھی ہمارے کانوں میں گونج رہی ہے لیکن ہم اِس ہندو ذہنیت سے اب بھی کسی بہتری اور خیر کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ بھارت میں دہشت گردی کا کوئی بھی معمولی سا واقعہ ہو جائے تو سرکاری طور پر پہلا الزام پاکستان کی ایجنسیوں پر لگا دیا جاتا ہے۔ جب کہ ہم گزشتہ دس سال سے پرائی دہشت گردی کی آگ میں تباہ برباد ہوئے جا رہے ہیں لیکن ہم نے ایک مرتبہ بھی اِس دہشت گردی کا الزام بھارتی خفیہ ایجنسی را پر نہیں لگایا۔
صوبہ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے واضح اشارے ملے ہیں لیکن ہم کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر اِس الزام تراشی سے گریزاں ہیں۔ مشرقی پاکستان کو ہم سے جُدا کرنے میں بھارتی حکومت کے براہِ راست ملوث ہونے اور دو قومی نظریہ پر کاری ضرب لگانے کے اندرا گاندھی دعوے کو قصہ پارینہ سمجھ کر نظرانداز کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہندوستان کا ہندو بنیا آج بھی تقسیم ہند کی تلخیوں کو بھلا نہیں پایا ہے اور وہ اب بھی اکھنڈ بھارت کے مشن کو آگے بڑھانے کی جستجو میں تن من دھن سے لگا ہوا ہے۔ اِس کے لیے وہ کسی سنہری موقعے کے تلاش میں ہے۔ مسلمانوں سے اور خاص کر پاکستانیوں سے دلی پرخاش اور شدید نفرت رکھنے والوں سے امن کی آس اور اُمید لگانے والے شاید کسی غلط فہمی اور خود فریبی کا شکار ہیں۔ بھارت سے دوستی اور یاری کا سبق تو ہمیں روزانہ صبح و شام پڑھایا جا رہا ہے لیکن بھارت میں کتنے لوگ امن کی خواہش سے واقف اور آشنا ہیں۔ یہ کس پرندے کا نام ہے اُنہیں ہر گز نہیں پتہ۔ اُنہیں تو بس یہ معلوم ہے کہ دنیا میں اگر کوئی اُن کا دشمن ہے تو وہ صرف پاکستان ہے۔
ہمارا پانی روک کر ہمارے بہتے دریاؤں کو خشک اور ہماری لہلہا تی زمینوں کو بنجر کیا جا رہا اور ہم اُن کی محبت میں دیوانہ وار ہو کر اُن کی فلموں کو اپنے سنیماؤں کی زینت بنا رہے ہیں۔ بھارت کے کسی شہر میں کوئی بھی پاکستانی ٹی وی چینل نہیں دیکھا جا سکتا اور ہم اپنے بچوں کو اُن کے ڈراموں کا دلدادہ اور عادی بنا رہے ہوتے ہیں۔ سربجیت سنگھ کی پھانسی کی سزا معاف کر کے ہم یکطرفہ جذبہ خیر سگالی دکھا رہے ہوتے ہیں اور بھارت مقبول بٹ، اجمل قصاب اور افضل گورو کو پھانسی پر لٹکا کر ہمیں سبق سکھا رہا ہوتا ہے۔ اِن سب تلخ حقائق اور شواہد کے باوجود اگر ہم اب بھی بھارت سے کسی خیر اور اچھائی کی آس لگائے بیٹھے ہیں تو پھر یہ ہمارا ہی قصور ہے۔
جیسے اِن کے آ جانے سے ہر سمت اور ہر جا ماحول یکسر بدل جائے گا، محبتوں کی نئی برکھا برسنے لگے گی، خوش رنگ خوابوں کے نئے نقوش تراشے جائیں گے، بہار آفریں موسموں کے نئے منظر سجائے جائیں گے اور سرحدوں کے آس پاس دونوں جانب برسوں سے پرورش پانے والی دلوں کی کدورتیں، نفرتیں اور رنجشیں یک دم ختم ہو جائیں گی۔ ہندو ذہنیت اور پاکستان دشمن خیالات اچانک تبدیل ہو کر پیار و محبت کے نئے جذبوں اور نئے ولولوں میں بدل جائیں گے۔ کشمیر کا تنازعہ بڑی خوش اسلوبی سے حل ہو جائے گا اور دونوں ملکوں کے درمیان نفاق اور نفرت کی کوئی دیوار بھی ہمیں باہم شیر و شکر ہونے سے روک نہیں سکے گی۔ تجارت کے نام پر بھارت کی ہر شے پاکستان کے بازاروں ، مارکیٹوں اور دکانوں میں پہنچ جائے گی اور ہماری حکومت اپنے اِس نئے خیر خواہ اور ہر دلعزیز کو فیوریٹ قرار دیکر اِس امن کی خواہش کے مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اپنا کلیدی کردار بخوبی نبھائے گی۔ ہر طرف خوشحالی اور امن کا دور دورہ ہو گا۔
اِدھر کے لوگ باآسانی ادھر جا سکیں گے اور ادھر کے لوگ بلاخوف و خطر یہاں آ پائیں گے۔ کوئی ویزا کی پابندی نہیں ہو گی۔ بس سامان باندھا اور ٹکٹ لے کر بھارت یاترا کے سفر پر نکل گئے۔ کتنی سہل اور آسان ہو جائے گی ہماری زندگی۔ جو بچے آج ہندو زبان کے فقرے اپنی روزمرہ کی گفتگو میں استعمال کر نے میں کچھ ہچکچاہٹ اور خوف کا شکار ہیں اُنہیں پھر کوئی دشواری نہیں رہے گی ۔ وہ بے اختیار اپنے باپ کو پتا جی اور ماں کو ماتا جی کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کریں گے۔ بیویاں اپنے شوہروں کو پتی اور مجازی خدا اپنی بیگمات کو پتنی اور لکشمی پکارتے دکھائی دیں گے۔ اسکولوں اور کالجوں میں نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے پر رنگ پھینکنے کی رسم بلا کسی تذبذب اور ہچکچاہٹ کے با قاعدگی کے ساتھ ہولی کے تہوار کے طور پر مناتے ہوئے نظر آئیں گے۔ سرحدوں اور فاصلوں کا امتیاز اور احساس باقی نہیں رہے گا ۔ ثقافت اور مذہب کا فرق بھی مٹ جائے گا اور دونوں ملکوں کے لوگ سیکولرزم کے اُصولوں کے تحت اور ہندو رسم و رواج کے عین مطابق ایک دوسرے کو راکھی باندھ رہے ہوں گے۔
ہندوستانی چاہے ہماری عید کا تہوار نہ منائے لیکن ہم دیوالی ضرور منا رہے ہوں گے۔ کیونکہ ہم اُس کی محبت میں دیوانہ وار پاگل ہوئے جا رہے ہیں۔ ذرا سی کوئی اچھی خبر وہاں سے کیا آ جاتی ہے ہم امن کی امید کا سبق دہرانا شروع کر دیتے ہیں۔ اِس کے برعکس بھارتی شہریوں کے رویوں پر اگر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہو گا کہ انڈین پریمیر لیگ میں سلیکشن کے وقت کسی پاکستانی کھلاڑی کو اِس قابل بھی نہ سمجھا گیا کہ وہ دنیا کے دیگر کھلاڑیوں کی صف میں کھڑے ہو کر اِس ٹورنامنٹ کا حصہ بنے۔ ممبئی میں شیو شینا کے کارکن اتنے با اثر اور طاقتور ہیں کہ ہمارا کوئی کھلاڑی وہاں اپنا کھیل اور اپنی پرفارمنس شو نہیں کر سکتا۔ وہاں کی و فاقی حکومت اِن دہشت گردوں کے آگے اتنی بے بس اور لاچار ہے کہ اپنے غیر ملکی مہمانوں کو اپنے ہی پالے ہوئے دہشتگردوں کے شر سے بچا نہ سکی۔
پاکستان کے اِن کھلاڑیوں کی بجائے اگر دنیا کی کسی دوسری ٹیم کے ساتھ یہ توہین آمیز سلوک ممبئی کے بال ٹھاکرے اور اُس کے حواریوں کا ہوتا تو بھی کیا بھارتی حکومت اتنی مجبور اور کمزور ہوتی کہ اُس ٹیم کے لیے دوسرے شہروں میں میچ کھیلنے کا انتظام کرتی پھرتی۔ حال ہی میں ہماری ویمن کرکٹ ٹیم کے ساتھ وہاں جو ہتک آمیز رویہ اور سلوک روا رکھا گیا۔ اُس کے بعد تو ہمیں کم از کم اپنے ذہنوں پر سوار اِس خوش فہمی کو جھٹک کر پھینک دینا چاہیے کہ بھارت کبھی ہمارا دوست اور خیر خواہ ہو سکتا ہے۔ سمجھوتہ ٹرین کو آگ لگانے کے واقعے کی بازگشت آج بھی ہمارے کانوں میں گونج رہی ہے لیکن ہم اِس ہندو ذہنیت سے اب بھی کسی بہتری اور خیر کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ بھارت میں دہشت گردی کا کوئی بھی معمولی سا واقعہ ہو جائے تو سرکاری طور پر پہلا الزام پاکستان کی ایجنسیوں پر لگا دیا جاتا ہے۔ جب کہ ہم گزشتہ دس سال سے پرائی دہشت گردی کی آگ میں تباہ برباد ہوئے جا رہے ہیں لیکن ہم نے ایک مرتبہ بھی اِس دہشت گردی کا الزام بھارتی خفیہ ایجنسی را پر نہیں لگایا۔
صوبہ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے واضح اشارے ملے ہیں لیکن ہم کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر اِس الزام تراشی سے گریزاں ہیں۔ مشرقی پاکستان کو ہم سے جُدا کرنے میں بھارتی حکومت کے براہِ راست ملوث ہونے اور دو قومی نظریہ پر کاری ضرب لگانے کے اندرا گاندھی دعوے کو قصہ پارینہ سمجھ کر نظرانداز کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہندوستان کا ہندو بنیا آج بھی تقسیم ہند کی تلخیوں کو بھلا نہیں پایا ہے اور وہ اب بھی اکھنڈ بھارت کے مشن کو آگے بڑھانے کی جستجو میں تن من دھن سے لگا ہوا ہے۔ اِس کے لیے وہ کسی سنہری موقعے کے تلاش میں ہے۔ مسلمانوں سے اور خاص کر پاکستانیوں سے دلی پرخاش اور شدید نفرت رکھنے والوں سے امن کی آس اور اُمید لگانے والے شاید کسی غلط فہمی اور خود فریبی کا شکار ہیں۔ بھارت سے دوستی اور یاری کا سبق تو ہمیں روزانہ صبح و شام پڑھایا جا رہا ہے لیکن بھارت میں کتنے لوگ امن کی خواہش سے واقف اور آشنا ہیں۔ یہ کس پرندے کا نام ہے اُنہیں ہر گز نہیں پتہ۔ اُنہیں تو بس یہ معلوم ہے کہ دنیا میں اگر کوئی اُن کا دشمن ہے تو وہ صرف پاکستان ہے۔
ہمارا پانی روک کر ہمارے بہتے دریاؤں کو خشک اور ہماری لہلہا تی زمینوں کو بنجر کیا جا رہا اور ہم اُن کی محبت میں دیوانہ وار ہو کر اُن کی فلموں کو اپنے سنیماؤں کی زینت بنا رہے ہیں۔ بھارت کے کسی شہر میں کوئی بھی پاکستانی ٹی وی چینل نہیں دیکھا جا سکتا اور ہم اپنے بچوں کو اُن کے ڈراموں کا دلدادہ اور عادی بنا رہے ہوتے ہیں۔ سربجیت سنگھ کی پھانسی کی سزا معاف کر کے ہم یکطرفہ جذبہ خیر سگالی دکھا رہے ہوتے ہیں اور بھارت مقبول بٹ، اجمل قصاب اور افضل گورو کو پھانسی پر لٹکا کر ہمیں سبق سکھا رہا ہوتا ہے۔ اِن سب تلخ حقائق اور شواہد کے باوجود اگر ہم اب بھی بھارت سے کسی خیر اور اچھائی کی آس لگائے بیٹھے ہیں تو پھر یہ ہمارا ہی قصور ہے۔