ہر راستے کے اختتام پر گھنٹہ گھر
فیصل آباد میں آپ مشرقی راستہ اختیار کریں یا مغربی، شمالی یا جنوبی، ہر راستے کا اختتام گھنٹہ گھر پر ہوتا ہے۔
کل تک جو طاہر القادری کو بے سرا کہتے تھے آج ان کے سُر میں سُر ملا رہے ہیں، کل انشاء اللہ ان کے ساتھ راگ درباری میں سنگت بھی کریں گے۔
ڈاکٹرطاہر القادری کی اچانک کینیڈا سے آمد نے پاکستانی سیاست کے بحرالکاہل میں اونچے درجے کا طوفان برپا کر دیا۔ ماضی سے بیزار، حال کی بدحالی اور مستقبل سے مایوس قوم کو جو 65 سال سے سیاسی جلسے جلوسوں میں آوے ہی آوے، جاوے ہی جاوے جیسے نعرے لگا لگا کر ہانپ رہی تھی کیونکہ جس کو آنا تھا وہ آ نہیں رہا تھا اور جس کو جانا تھا وہ جا نہیں رہا تھا۔ ایسے میں ڈاکٹر صاحب نے ''چپ چاپ دھرنے'' کا نسخہ کیمیا اور چار روز وہ ڈی چوک دھرنا پاکستانی قوم کو عطا کیا۔ جس کی وجہ سے دھواں دھار دھرنا کلچر کو فروغ حاصل ہوا۔ مثلاً احتجاجی دھرنا، توجہ دلاؤ دھرنا، ڈنگ پٹاؤ دھرنا، مک مکاؤ دھرنا، دھرنے کی حمایت میں دھرنا، دھرنے کی مخالفت میں دھرنا وغیرہ۔ طاہر القادری کا مقصد صرف اتنا تھا کہ اسمبلیوں میں آرٹیکل 63, 62 کی چھلنی کے چھنے امیدوار ہی پہنچیں۔ ظاہر ہے یہ کام محض قادری صاحب کی نیک خواہشات اور دلی تمناؤں کے سہارے تو ہو نہیں سکتا۔ اور نہ اکیلے ایماندار، ہر دل عزیز فخرو بھائی سے جن کا ووٹ ویٹو پاور بھی نہیں رکھتا۔ جب کہ الیکشن کمیشن کے چار ارکان نامزد کردہ ہیں۔ کیونکہ ماضی میں 1977ء کے انتخابات کے وقت الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان اچھی شہرت کے حامل اور غیر متنازعہ تھے۔ حکومت بھی PPP کی ہی تھی۔ PNA کی تحریک چلی، دھاندلی کے خلاف کہرام برپا ہوا اور مارشل لاء کا راستہ صاف ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک ماہر پیراک کے بھی ہاتھ پیر باندھ کر دریا میں ڈال دیں اور توقع کریں کہ وہ تیر کر دریا پار کر لے گا یہ ناممکن ہے۔ بے چارہ دریا تو دریا سوئمنگ پول میں بھی سوائے ڈبکیاں کھانے اور کلی غرارے کرنے کے کچھ نہیں کر سکتا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا طاہر القادری 65 سالہ قائم و دائم Status Quo کو توڑ سکیں گے؟
1۔ جب کہ قائد اعظم جیسے زیرک سیاستدان بھی اسٹیٹس کو کے پجاریوں کے متعلق صرف یہ کہہ کر خاموش ہو گئے کہ مجھے معلوم ہے کہ میری جیب میں کھوٹے سکے بھی نہیں۔2۔ ایوب خان جیسے طاقتور آمر نے زرعی اصلاحات اور ایبڈو قوانین کے ذریعے جاگیردارانہ اور موروثی سیاستدانوں کو سیاست سے بے دخل کر دیا تھا، لیکن جونہی ان کو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے کنونشن مسلم لیگ بنانی پڑی تو ساری اقتدار مافیا موروثی سیٹوں کے گفٹ پیک لے کر کنونشن مسلم لیگ میں گھس گئی۔ 3۔ سوشلسٹ نظریات کے حامی، روشن خیال ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کے ساتھ پاکستانی سیاست پر دھاوا بولا تو بڑے بڑے برج الٹ کر رکھ دیے۔ پھر رفتہ رفتہ، آہستہ آہستہ Talented جاگیردار، وڈیرے پارٹی میں داخل ہوتے گئے اور Committed سوشلسٹ روشن خیال رہنما اور ورکرز پارٹی سے بے دخل ہوتے گئے۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا ہو گا؟ کیونکہ اب تو مرحوم پیر پگارا بھی ہم سے بچھڑ چکے جو ہر وقت بوٹوں کی چاپ سن کر قوم کو آگاہ کر دیتے تھے کہ سنبھل جاؤ ورنہ جھاڑو پھرے گی۔ ستارے گردش میں ہیں۔اس وقت الیکشن پر اثرانداز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل مطالبات و خدشات کے ناگ پھن پھیلائے پھنکار رہے ہیں:
1۔ الیکشن کمیشن کی تحلیل۔ 2۔ کراچی میں انارکی اور نئی حلقہ بندیاں۔ 3۔ صدر مملکت اور صوبائی گورنروں کی سبکدوشی وغیرہ۔ جب کہ جاری حکومت کے تحلیل ہونے میں چند ہفتے رہ گئے ہیں، عبوری سیٹ اپ کا اعلان ہفتے دس دن میں ہونا ضروری ہے۔ قادری صاحب نے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے لیے سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن داخل کر دی، سماعت ہو گئی۔ تحریک منہاج القرآن اور تحریک انصاف میں دوستی کا باضابطہ آغاز ہو چکا ہے، جس کا اعلان پی ٹی آئی کے وفد سے طویل مذاکرات کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی پریس کانفرنس میں کیا۔
جوں جوں انتخابات قریب آ رہے ہیں الیکشن کمیشن پر اعتراضات میں اضافہ، سیاسی اختلافات میں شدت، معاشی حالات میں گراوٹ اور امن و امان کی صورتحال میں ابتری پیدا ہو رہی ہے، کوئی مانے یا نہ مانے، مجھے تو اس کے ڈانڈے ٹیکنو کریٹک عبوری حکومت کی طرف بڑھتے نظر آ رہے ہیں، اگر انتخابات ملتوی ہوئے تو التواء کے بہانے اور منعقد ہوئے تو دھاندلی کے بہانے۔
A۔ فرض کریں قادری صاحب کی رٹ پٹیشن کے نتیجے میں پی پی پی کی عمر دراز بھی ہو سکتی ہے۔ جس سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنا صدر مملکت دوبارہ منتخب کرانے کی کوشش کرے گی کیونکہ اس سال کے آخر میں صدر زرداری ریٹائر ہونے والے ہیں، نتیجتاً ایک نیا خلفشار پیدا ہو گا۔
B۔ دوبارہ فرض کریں کہ Stay ملنے سے پہلے نگراں عبوری حکومت قائم ہو جاتی ہے، ایسی صورت میں یہ Stay شہباز شریف والا اسٹے Stay ثابت ہو سکتا ہے (جو اپنے پانچ سال پورے کر رہے ہیں)۔ ایسے میں نگراں عبوری حکومت کے ساتھ صرف غیر سیاسی ٹیکنو کریٹک کا بقیہ نتھی کرنا پڑے گا۔ اس حکومت کے لیے تین سال کی کیا اہمیت ہے؟ سہ بار فرض کیجیے کہ سپریم کورٹ قادری صاحب کی پٹیشن کو مسترد کر دیتی ہے، اس لاجک کے ساتھ کہ ملکی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ چنانچہ اسمبلیوں میں وہی 65 سالہ پرانے چہرے گرگے ہنستے مسکراتے، لڑتے جھگڑتے نظر آئیں گے، جن کو دیکھ کر عوام کی وہی حالت ہو گی جیسے لال کپڑے کو دیکھ کر فائٹنگ بُل کی ہوتی ہے۔ نتیجتاً قادری صاحب کا ملک گیر ''انقلابی احتجاج'' عمران خان کی سونامی، ساری ''چنگ چی'' سیاسی پارٹیاں قادری صاحب کی چھتری تلے، نتیجتاً مجبوراً نگران عبوری حکومت کو ٹیکنو کریٹک حکومت میں تبدیل کر کے حالات نارمل ہونے تک جاری رکھنا پڑے گا جس کے لیے تین سال تو لگ ہی جاتے ہیں۔
اب بھی نجات کا ایک راستہ ہے۔ اگر سیاستدانوں میں سیاسی شعور ہے اور عوام میں ''تبدیلی ہر قیمت پر'' کا موڑ دیکھ سکتے ہیں تو جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ چھاپ والی سیاسی پارٹیاں ہنگامی بنیاد پر کم از کم 50% سیٹیں اپنے جانثار، وفادار، پڑھے لکھے کارکنوں کے لیے وقف کر دیں، جن کا تعلق اوسط، غریب طبقے سے ہو، تا کہ ایوانوں میں عوامی نمایندوں کی اکثریت نظر آئے ، ورنہ۔۔۔۔۔!
فیصل آباد شہر کے بیچوں بیچ ایک گھنٹہ گھر ہے، چاہے آپ مشرقی راستہ اختیار کریں یا مغربی، شمالی راستہ اختیار کریں یا جنوبی، ہر راستے کا اختتام گھنٹہ گھر پر ہوتا ہے۔ پاکستانی قوم نے 65 سال سے کبھی جاگیردارانہ جمہوریت کا راستہ تو کبھی وردی پوش جمہوریت کا راستہ اختیار کر کے دیکھ لیا۔ اختتام گھنٹہ گھر پر جا کر ہی ہوا۔ آخری اور واحد راستہ ٹیکنو کریٹک حکومت کا بچا ہے، اگر اس کا انجام بھی ''ٹن ٹن ٹن'' ہوا تو پھر خونی انقلاب کا راستہ کون روکے گا؟ جو گھنٹہ گھر سے تو شروع ہو گا، (رہے نام اللہ کا) نہ گھر بچے گا، نہ گھنٹہ بجے گا۔
ڈاکٹرطاہر القادری کی اچانک کینیڈا سے آمد نے پاکستانی سیاست کے بحرالکاہل میں اونچے درجے کا طوفان برپا کر دیا۔ ماضی سے بیزار، حال کی بدحالی اور مستقبل سے مایوس قوم کو جو 65 سال سے سیاسی جلسے جلوسوں میں آوے ہی آوے، جاوے ہی جاوے جیسے نعرے لگا لگا کر ہانپ رہی تھی کیونکہ جس کو آنا تھا وہ آ نہیں رہا تھا اور جس کو جانا تھا وہ جا نہیں رہا تھا۔ ایسے میں ڈاکٹر صاحب نے ''چپ چاپ دھرنے'' کا نسخہ کیمیا اور چار روز وہ ڈی چوک دھرنا پاکستانی قوم کو عطا کیا۔ جس کی وجہ سے دھواں دھار دھرنا کلچر کو فروغ حاصل ہوا۔ مثلاً احتجاجی دھرنا، توجہ دلاؤ دھرنا، ڈنگ پٹاؤ دھرنا، مک مکاؤ دھرنا، دھرنے کی حمایت میں دھرنا، دھرنے کی مخالفت میں دھرنا وغیرہ۔ طاہر القادری کا مقصد صرف اتنا تھا کہ اسمبلیوں میں آرٹیکل 63, 62 کی چھلنی کے چھنے امیدوار ہی پہنچیں۔ ظاہر ہے یہ کام محض قادری صاحب کی نیک خواہشات اور دلی تمناؤں کے سہارے تو ہو نہیں سکتا۔ اور نہ اکیلے ایماندار، ہر دل عزیز فخرو بھائی سے جن کا ووٹ ویٹو پاور بھی نہیں رکھتا۔ جب کہ الیکشن کمیشن کے چار ارکان نامزد کردہ ہیں۔ کیونکہ ماضی میں 1977ء کے انتخابات کے وقت الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان اچھی شہرت کے حامل اور غیر متنازعہ تھے۔ حکومت بھی PPP کی ہی تھی۔ PNA کی تحریک چلی، دھاندلی کے خلاف کہرام برپا ہوا اور مارشل لاء کا راستہ صاف ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک ماہر پیراک کے بھی ہاتھ پیر باندھ کر دریا میں ڈال دیں اور توقع کریں کہ وہ تیر کر دریا پار کر لے گا یہ ناممکن ہے۔ بے چارہ دریا تو دریا سوئمنگ پول میں بھی سوائے ڈبکیاں کھانے اور کلی غرارے کرنے کے کچھ نہیں کر سکتا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا طاہر القادری 65 سالہ قائم و دائم Status Quo کو توڑ سکیں گے؟
1۔ جب کہ قائد اعظم جیسے زیرک سیاستدان بھی اسٹیٹس کو کے پجاریوں کے متعلق صرف یہ کہہ کر خاموش ہو گئے کہ مجھے معلوم ہے کہ میری جیب میں کھوٹے سکے بھی نہیں۔2۔ ایوب خان جیسے طاقتور آمر نے زرعی اصلاحات اور ایبڈو قوانین کے ذریعے جاگیردارانہ اور موروثی سیاستدانوں کو سیاست سے بے دخل کر دیا تھا، لیکن جونہی ان کو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے کنونشن مسلم لیگ بنانی پڑی تو ساری اقتدار مافیا موروثی سیٹوں کے گفٹ پیک لے کر کنونشن مسلم لیگ میں گھس گئی۔ 3۔ سوشلسٹ نظریات کے حامی، روشن خیال ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کے ساتھ پاکستانی سیاست پر دھاوا بولا تو بڑے بڑے برج الٹ کر رکھ دیے۔ پھر رفتہ رفتہ، آہستہ آہستہ Talented جاگیردار، وڈیرے پارٹی میں داخل ہوتے گئے اور Committed سوشلسٹ روشن خیال رہنما اور ورکرز پارٹی سے بے دخل ہوتے گئے۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا ہو گا؟ کیونکہ اب تو مرحوم پیر پگارا بھی ہم سے بچھڑ چکے جو ہر وقت بوٹوں کی چاپ سن کر قوم کو آگاہ کر دیتے تھے کہ سنبھل جاؤ ورنہ جھاڑو پھرے گی۔ ستارے گردش میں ہیں۔اس وقت الیکشن پر اثرانداز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل مطالبات و خدشات کے ناگ پھن پھیلائے پھنکار رہے ہیں:
1۔ الیکشن کمیشن کی تحلیل۔ 2۔ کراچی میں انارکی اور نئی حلقہ بندیاں۔ 3۔ صدر مملکت اور صوبائی گورنروں کی سبکدوشی وغیرہ۔ جب کہ جاری حکومت کے تحلیل ہونے میں چند ہفتے رہ گئے ہیں، عبوری سیٹ اپ کا اعلان ہفتے دس دن میں ہونا ضروری ہے۔ قادری صاحب نے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے لیے سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن داخل کر دی، سماعت ہو گئی۔ تحریک منہاج القرآن اور تحریک انصاف میں دوستی کا باضابطہ آغاز ہو چکا ہے، جس کا اعلان پی ٹی آئی کے وفد سے طویل مذاکرات کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی پریس کانفرنس میں کیا۔
جوں جوں انتخابات قریب آ رہے ہیں الیکشن کمیشن پر اعتراضات میں اضافہ، سیاسی اختلافات میں شدت، معاشی حالات میں گراوٹ اور امن و امان کی صورتحال میں ابتری پیدا ہو رہی ہے، کوئی مانے یا نہ مانے، مجھے تو اس کے ڈانڈے ٹیکنو کریٹک عبوری حکومت کی طرف بڑھتے نظر آ رہے ہیں، اگر انتخابات ملتوی ہوئے تو التواء کے بہانے اور منعقد ہوئے تو دھاندلی کے بہانے۔
A۔ فرض کریں قادری صاحب کی رٹ پٹیشن کے نتیجے میں پی پی پی کی عمر دراز بھی ہو سکتی ہے۔ جس سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنا صدر مملکت دوبارہ منتخب کرانے کی کوشش کرے گی کیونکہ اس سال کے آخر میں صدر زرداری ریٹائر ہونے والے ہیں، نتیجتاً ایک نیا خلفشار پیدا ہو گا۔
B۔ دوبارہ فرض کریں کہ Stay ملنے سے پہلے نگراں عبوری حکومت قائم ہو جاتی ہے، ایسی صورت میں یہ Stay شہباز شریف والا اسٹے Stay ثابت ہو سکتا ہے (جو اپنے پانچ سال پورے کر رہے ہیں)۔ ایسے میں نگراں عبوری حکومت کے ساتھ صرف غیر سیاسی ٹیکنو کریٹک کا بقیہ نتھی کرنا پڑے گا۔ اس حکومت کے لیے تین سال کی کیا اہمیت ہے؟ سہ بار فرض کیجیے کہ سپریم کورٹ قادری صاحب کی پٹیشن کو مسترد کر دیتی ہے، اس لاجک کے ساتھ کہ ملکی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ چنانچہ اسمبلیوں میں وہی 65 سالہ پرانے چہرے گرگے ہنستے مسکراتے، لڑتے جھگڑتے نظر آئیں گے، جن کو دیکھ کر عوام کی وہی حالت ہو گی جیسے لال کپڑے کو دیکھ کر فائٹنگ بُل کی ہوتی ہے۔ نتیجتاً قادری صاحب کا ملک گیر ''انقلابی احتجاج'' عمران خان کی سونامی، ساری ''چنگ چی'' سیاسی پارٹیاں قادری صاحب کی چھتری تلے، نتیجتاً مجبوراً نگران عبوری حکومت کو ٹیکنو کریٹک حکومت میں تبدیل کر کے حالات نارمل ہونے تک جاری رکھنا پڑے گا جس کے لیے تین سال تو لگ ہی جاتے ہیں۔
اب بھی نجات کا ایک راستہ ہے۔ اگر سیاستدانوں میں سیاسی شعور ہے اور عوام میں ''تبدیلی ہر قیمت پر'' کا موڑ دیکھ سکتے ہیں تو جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ چھاپ والی سیاسی پارٹیاں ہنگامی بنیاد پر کم از کم 50% سیٹیں اپنے جانثار، وفادار، پڑھے لکھے کارکنوں کے لیے وقف کر دیں، جن کا تعلق اوسط، غریب طبقے سے ہو، تا کہ ایوانوں میں عوامی نمایندوں کی اکثریت نظر آئے ، ورنہ۔۔۔۔۔!
فیصل آباد شہر کے بیچوں بیچ ایک گھنٹہ گھر ہے، چاہے آپ مشرقی راستہ اختیار کریں یا مغربی، شمالی راستہ اختیار کریں یا جنوبی، ہر راستے کا اختتام گھنٹہ گھر پر ہوتا ہے۔ پاکستانی قوم نے 65 سال سے کبھی جاگیردارانہ جمہوریت کا راستہ تو کبھی وردی پوش جمہوریت کا راستہ اختیار کر کے دیکھ لیا۔ اختتام گھنٹہ گھر پر جا کر ہی ہوا۔ آخری اور واحد راستہ ٹیکنو کریٹک حکومت کا بچا ہے، اگر اس کا انجام بھی ''ٹن ٹن ٹن'' ہوا تو پھر خونی انقلاب کا راستہ کون روکے گا؟ جو گھنٹہ گھر سے تو شروع ہو گا، (رہے نام اللہ کا) نہ گھر بچے گا، نہ گھنٹہ بجے گا۔