رنی کوٹ پاکستان کی شان

دنیا کے عظیم ترین قلعوں میں شامل پاکستانی شاہکار کا تذکرہ

رنی کوٹ کے اندر حکومت نے میری کوٹ تک پختہ سڑک تعمیر کرائی تھی۔ یہ سڑک بھی ٹوٹ پھوٹ چکی۔ فوٹو : فائل

کراچی سے حیدرآباد جاتے ہوئے سپر ہائی وے کے بائیں جانب انڈس ہائی وے پر واقع مشہور قصبے سن سے جنوب مغرب میں کیرتھر پہاڑی سلسلہ دکھائی دینے لگتا ہے۔ اسی پہاڑی مقام پر دنیا کے کلاں ترین قلعوں میں شامل،قلعہ رنی کوٹ تعمیر کیا گیا۔یہ حیدرآباد شہر سے اسّی کلومیٹر دور واقع ہے۔

ماہرین آثارقدیمہ کے مطابق رنی کوٹ چھبیس کلومیٹر (سولہ میل )رقبے پر مختلف پہاڑیوں کے مابین پھیلا ہوا ہے ۔اس کا شمار دنیا کے ان گنے چنے قلعوں میں ہوتا ہے جن کو اس سائنسی دور میں بھی ٹھیک سے دیکھا بھالا نہیں جا سکا۔ اگرچہ قلعہ تک رسائی کے لیے قصبہ سن سے تیس کلومیٹرپختہ سڑک موجود ہے۔

یہ سچائی پردہ اخفا میں ہے کہ یہ قلعہ کس نے تعمیر کیا۔تاہم مورخین کی رو سے اسے ساسانی،سیتھین،یونانی یا پارتھیائی اقوام میں سے کسی ایک نے بنایا۔ یہ تعمیر کردہ قلعہ فن تعمیر کا قدیم نمونہ ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ کے کئی اہم ادوار اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہے۔ قبل مسیح کے دور کے بعد یہ عربوں کی فتوحات کے زمانے، مغل دور اور تالپور دور میں بھی وقت کے حکمرانوں کے زیر استعمال رہا۔رنی کوٹ قلعے کے اندر میری کوٹ اور شیر گڑھ کے نام سے دو اور قلعے واقع ہیں۔ ان دونوں چھوٹے قلعوں کے دروازے رنی کوٹ کے دروازوں جیسے ہیں۔ فوجی نکتہ نگاہ سے میری کوٹ محفوظ پناہ گاہ ہے جہاں رہائشی حصّہ اورزنان خانہ موجود تھا۔نیزکچھ فوج رکھنے کا بندوبست بھی ہے۔

اس تاریخی مقام سے کئی تاریخی واقعات منسوب ہیں جن میں سے بیشتر پر ابھی مستند تحقیق ہونا باقی ہے۔ ساتھ ساتھ قلعہ کے اندر مختلف مقامات سے بھی کئی دیومالائی کہانیاں منسوب ہیں۔مثال کے طور پر قلعے کے اندر مغربی حصے سے پھوٹنے والا چشمہ جس کو پریوں کا چشمہ کہتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پونم رات یعنی چاند کی 14 تاریخ کو یہاں پریاں نہانے آتی ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ صدیوں پرانے اس تاریخی مقام کو محفوظ و مامون بنانے کے لیے محکمہ آثار قدیمہ اور محکمہ سیاحت کی جانب سے کوئی مناسب اقدامات نہیں کیے گئے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ قلعے میںایک ملازم بھی مقرر نہیں جو اس قلعہ کی حفاظت کرنا تو دور کی بات ہے،پہرے داری ہی کر سکے۔

قلعہ اب محکمہ ثقافت کے تحت آتا ہے مگر یہ محکمہ بھی اس کی دیکھ بھال کا حق کماحقہ انداز میں ادا نہیں کر رہا۔عالمی سطح پر مشہور اتنے بڑے ورثے کی رکھوالی کے لیے محکمے کے پاس ایک بھی ملازم نہیں اور یہ لاوارث بنا ہوا ہے۔ جب یہ محکمہ آثار قدیمہ ،وفاقی حکومت کے ماتحت تھا تب یہاں ایک چوکیدار مقرر تھا۔ اس کے ریٹائر ہونے کے بعد کسی کو بطور چوکیدار مقرر نہیں کیا گیا۔قلعہ کو دیکھنے کے بعد اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ محکمہ ثقافت کی اس تاریخی مقام سے پہلے کبھی دلچسپی نہیں رہی اور نہ ہی اب ہے۔


قلعے کی مختلف دیواریں جو پہلے ہی خستہ اور زبوں حالت میں تھیں، ان کو گزشتہ دو سال کی بارشوں نے مزید تباہ حال کردیا ہے۔ میری کوٹ، شیر گڑھ اور خود اصل قلعے کی جنوبی دیوار بہت کمزور ہو چکی ۔یہ تمام دیواریں پوری توجہ سے مرمت کی طلبگار ہیں۔قلعے میں سیاحوں کے لیے کوئی سہولت موجود نہیں۔ نہ ہی اس جگہ کوئی گائڈ دکھائی دیتا ہے۔کوئی شیڈ ہے نہ بیٹھنے کی جگہ اور نہ ہی واش روم وغیرہ کی سہولت موجود ہے۔ 1980ء کے عشرے میں میری کوٹ میں ضلع کونسل نے ایک ریسٹ ہاؤس تعمیر کیا تھا، جو اب تباہ حال ہو چکا۔ اس کی چھت گر چکی۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ اس کے باوجود روزانہ قلعے کی سیر کرنے درجنوں سیاح آتے ہیں۔

رنی کوٹ کے اندر حکومت نے میری کوٹ تک پختہ سڑک تعمیر کرائی تھی۔ یہ سڑک بھی ٹوٹ پھوٹ چکی۔ اس پر دو پْل جنھیں برساتی نالے کو پار کرنے کا کام کرنا ہے، دس سال سے زیر تعمیر ہیں۔پلوں کی 80 یا 85 فٹ تعمیر باقی ہے جہاں پر یہ کام روک دیا گیا ۔

مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ ٹھیکیدار اور حکومت کے درمیان مالی تنازع جنم لینے کی وجہ سے معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ نہ عدالت سے فیصلہ آرہا ہے نہ حکومت کوئی پیشرفت کر کے معاملہ نمٹا رہی ہے۔

پچھلے چند برس سے حکومت کی بے رخی کے باعث قلعہ کے اندرناجائز تجاوزات وجود میں آنے لگی ہیں۔مقامی آبادی قلعے کے علاقوں میں ٹریکٹر گھما کر اس تاریخی مقام کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ میری کوٹ کے قریب زیر تعمیر پل کے پاس بدھ دور کی جگہ دو کمرے زیر تعمیر نظر آئے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں پر ایک مقامی بااثر شخص ہوٹل بنانا چاہتا ہے۔ تعجب کی بات یہ کہ سیاحت کے فروغ کے لیے محکمہ کسی کو 500 فٹ زمین بھی دینے کے لیے تیار نہیں مگر غیرقانونی طور پر بااثر لوگ کئی ایکڑ پر قبضہ کر رہے ہیں۔میری کوٹ سے مغرب میںگبول قبیلے کا ایک گاؤں قلعے کے اندر واقع ہے۔ یہ لوگ یہاں پر چھوٹی موٹی کاشتکاری بھی کرتے ہیں۔

رنی کوٹ دنیا کا سب سے بڑا قلعہ بتایا جاتا ہے مگر اس کے باوجود حکام یہاں سیاحت کو فروغ دینے میں ناکام رہے ہیں ۔کراچی سے قلعے تک رسائی آسان ہے اور قومی شاہراہ کے ذریعے یہاں پہنچا جا سکتا ہے. کراچی سے نکلنے کے بعد دادو کی جانب انڈس ہائی وے پر سفر کریں۔ اس سڑک کی حالت بہترین ہے۔ سندھی قوم پرست لیڈر،جی ایم سید کے آبائی قصبے سن تک ایک گھنٹے کا سفر ہے۔ اس قصبے سے کچھ آگے ایک دوراہا آتا ہے۔ ایک زنگ آلود بورڈ پر اعلان کیا گیا ہے کہ رنی کوٹ یہاں سے لگ بھگ تیس کلو میٹر دور واقع ہے۔ اگرچہ سڑک کافی خراب ہے پھر بھی یہ فاصلہ تیس سے چالیس منٹ میں طے ہوجاتا ہے۔

اب یہ اہم سوال کہ کیا اس قلعے کی سیر کراچی والوں کے لیے محفوظ ہے؟ کیا اس علاقے میں ڈاکو موجود ہیں؟ اس کا جواب کافی پیچیدہ ہے۔بہت سے خاندان ، کراچی کے باسی اور گورے بھی یہاں آتے ہیں ۔ مقامیوں کا اصرار ہے کہ یہ جگہ محفوظ ہے مگر اس کی کوئی ضمانت نہیں۔ علاقے میں پولیس کہیں نظر نہیں آتی۔مگر مثبت پہلو یہ ہے کہ آپ یہاں ایک دن کے اندر گھوم پھر کر واپس آسکتے ہیں۔یہ قلعہ سندھ کی شاندار اور بہت اہم آثار قدیمہ کی باقیات میں سے ہے۔ لیکن محکمہ آثار قدیمہ کی لاپرواہی کا منہ بولتا ثبوت بھی واضح نظر آتا ہے۔سیاحوں کی حفاظت اور قیام کے انتظامات ناقص ہیں۔ اگر حکومت یہ انتظامات بہم پہنچا دے تونہ صرف دنیا بھر سے سیاح رنی کوٹ آئیں گے بلکہ لوگوں کی آمدورفت بڑھنے سے مقامی آبادی کو کاروبار کے بہترین مواقع میسر آ سکتے ہیں۔
Load Next Story