سنا ہے آج ویلنٹائن ڈے ہے
یہ کیسی روایت ہے کہ صرف دوسروں کی بہن بیٹیوں کے لیے جائز ہے اور اپنی بار ی میں سب مولوی استغفراللہ بن جاتے ہیں۔
عورت کا وجود دلکشی کی علامت ہے، کائنات میں اگرسب سے خوب صورت کوئی مخلوق ہے تو وہ عورت ہی ہے، صندل رویوں اور لطیف احساس سے مردکے دل کو اپنے سراپے کا اسیر کرنے والی عور ت اپنے وجود میں ایک شاعری ہے، عورت کا روپ کائنات کا سب سے شریر ہتھیارہے،دبی دبی مسکراہٹ سے یہ بڑے بڑے سورماؤں کو چت کردیتی ہے،اس کی نگاہیں خنجر ہیں،گلاب کی پنکھڑی کی مانند ہونٹ جب کچھ سرگوشی کرتے ہیں تو گویا پہلو سے نکل کردل ہاتھ میں آجاتاہے،اگرچہ یہ وجود مرد کے مقابلے میں نازک ہے تاہم اس کے نخرے اور ادائیں اس نزاکت کو ایک البیلا سا احساس دیتے ہیں، اپنی زلفوں کو لہرا کر یہ روپ متی جب بل دیتی ہے تو دل جیسے کوئی مٹھی میں لے کر مسل دیتا ہے ،اسکاٹ لینڈ یارڈ کے مضبوط شکنجے پرخوامخواہ الزام ہے، عورت کی گرفت اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔
اس کے جال میں آنے والا شخص بے بس ہوکر بھی خود کو امریکا کا مجسمہ آزادی سمجھتا ہے، یہ ندی کی طرح شورکرتی ہے اور جب کوئی اس کے سحرمیں گرفتار ہوکر اس کے پانی سے کھیلنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ سمندر کی لہروں کی طرح بہاکرلے جاتی ہے، عورت صبح کی تازہ ہوا کی طرح فرحت بخش ہے، شام کو یہ باد صبا کا روپ دھارلیتی ہے، رات کو یہ چاندنی بن کر صحن میں اتر آتی ہے، ہوش مندوں کے ہوش اڑانے والی اور درد مندوں کا درد بڑھانے والی نیند میں خواب بن جاتی ہے، عورت کے کومل روپ کو فتح کرنا مرد کا خواب رہاہے، اس خوب صورت بلا کو اپنی دسترس میں کرنا مرد کی فطری خواہش ہے اور جب کوئی ازابیلا اپنا زوردکھاتی ہے، کوئی مارلن منرو ضد کرتی ہے تو مرد کا شوق دوآتشہ ہوجاتا ہے، وہ فرہاد بن جاتاہے اور اپنی شیریں کے حصول کے لیے دودھ کی نہرکھودنے نکل پڑتاہے، زمانے بدلے ، صدیاں بیت گئیں، روایتوں کا پانی وقت کے پلوں سے بہہ بہہ کر ماضی کے سمندر میں گم ہوتا رہا مگر نہیں بدلا توعورت کوچاہے جانے کا انداز' اس پر اپنی وفا ثابت کرنے کے لیے مرد ہرمنزل سے گزرنے کے لیے آج بھی تیار رہتا ہے۔
پتھروں کے زمانے کے قابیل نے توایک روایت کی ابتداکی تھی، اس نے عورت کے حصول کے لیے دنیا کا پہلا قتل کیا اور آج تک لوگ قتل کررہے ہیں اور قتل ہورہے ہیں، یہ حسن کی دیوی توبہ شکن ہے، اس کی چال دلوں میں بجلی کی لہر دوڑا دیتی ہے، ایک تو وہ قتل عام ہے جو خون کی صورت میں زمین پر بہہ گیا، کسی کی گردن گئی تو کسی کا کلیجہ نکل گیا، ایک قتل عام وہ ہے جو اس عورت کے نگاہوں کے تیوربدلنے سے ہوتاہے، کمر کے زاویے بدلنے سے بھی دل قتل ہوجاتے ہیں ، لاشوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں ،کشتوں کے پشتے لگ جاتے ہیں، مرد کا وجود سن ہوجاتاہے، مرد زورآور ہے مگر ا س قاتلہ کے آگے بے بس ہوجاتا ہے، سکندراور دارا جیسوں کو بھی اس اجلے روپ نے اپنا شکار کیا، اس کے من کو کوئی بھی بھاسکتا ہے ، کوئی پیمانہ نہیں ہے۔
اس کے دل میں بات بیٹھ جائے تو شاہ بھی فقیر ہے اور پھر یہ فقیر کو اپنا شاہ بنالیتی ہے،اس کا تصور بالکل جداہے اور اس تصور کو کوئی بھی الفاظ کے دائرے میں نہیں لاسکتا، یہ کبھی بھی کسی کے حق میں بھی فیصلہ دے سکتی ہے، میرے حق میں بھی اس کا فرمان جاری ہوسکتا ہے اور آپ کو بھی نوازسکتی ہے ۔ ویسے سنا ہے آج ویلنٹائن ہے ، موقع اچھا ہے، دستور ہے ، روایت ہے، ایک پھول پکڑادینے سے دل کی بات زبان پر آجائے گی، محبت ایک عالمگیر جذبہ ہے، اس کے اظہار میں تو کوئی حرج نہیں اور ویلنٹائن ڈے تو پوری دنیا میں منایاجاتاہے،دنیا بھر میں لوگ اپنے چاہنے والوں کو تحائف دیتے ہیں، آج ایسادن ہے کہ کوئی تحفہ دینے سے جھجکتا بھی نہیں ہے، تحفہ لینے والا بھی نہ نہیں کرسکتا، اگرنہ کرے گا تو اس پر دقیانوسی ہونے کا ٹھپہ لگ جائے گا، مغربی دنیا میں تو ویلنٹائن کو صرف محبوب کی الفت اور محبوبہ کی توجہ حاصل کرنے تک محدود رکھا جاتا ہے مگربرصغیر پاک وہند میں اس کے معنی اس لحاظ سے قدرے وسیع تر ہیں کہ ویلنٹائن ڈے پر لڑکیاں اپنی سہیلیوں کو تحائف دیتی ہیں، لڑکے تواس طرح کرتے ہوئے نہیں پائے گئے مگر جب کوئی لڑکی اپنی سہیلی کے لیے ویلنٹائن ڈے کارڈ تیارکررہی ہوتی ہے تو کئی فائدے ہوتے ہیں۔
ایک تو یہ کہ ماں منع نہیں کرسکتی کہ بیٹی دقیانوسی ہونے کا فتویٰ نہ لگادے، دوسرایہ کہ یہ کارڈ سہیلی سے باآسانی سہیلا تک پہنچ جائے تو انتظام وانصرام میں کوئی دقت پیش نہیں آتی،سببآسانی ہوجاتا ہے، ایک تیسرافائدہ یہ کہ اگر یہ کارڈ واقعتاًکسی سہیلی تک ہی پہنچ رہاہے تو لڑکی کو اس بات کی ہمت آجاتی ہے کہ آج سہیلی تک پہنچادیا کل محبوب تک بھی رسائی ہوجائے گی، غرض ویلنٹائن ڈے نے دلوں کوملانے کے لیے خاطرخواہ اقدامات کررکھے ہیں، ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کرنیوالے شاید دقیانوسی ہیں ،اس دن کی بھلے سے کوئی بھی تاریخ ہو،ہسٹری میں کیا رکھا ہے، بات تو حال کی ہے، زمانہ بدل گیا اور یہ یونان کی گھسی پٹی کہانیوں کو سنارہے ہوتے ہیں، پاکستانی معاشرے کو ایک صحت مند رجحان کی ضرورت ہے، محبت کے اظہار کے عالمی دن پر محبت کے فروغ کی ضرورت ہے، ویلنٹائن ڈے بالکل جائز ہے، یہ حلال ہے،ویلنٹائن ڈے منانے والوں سے بس میرا ایک سوال ہے! آپ نے دوسرے کی بیٹی کے ہاتھ میں تو پھول پکڑادیاہے خود آپ کی بٹیارانی کوکسی نے گھاس نہیں ڈالی۔ یا آپ کے علم میں نہیں کہ آپ کی بہن کو کیا تحفہ ملاہے؟ میرا خیال ہے کہ اس روایت کو بیلنس ہونا چاہیے، اگر ہم کسی کی بہو، بہن اور بیٹی کو تحفہ دے سکتے ہیں تو ہماری بہن، بہو اور بیٹیوں میں کیاعیب ہے، یہ کیسی روایت ہے کہ صرف دوسروں کی بہن بیٹیوں کے لیے جائز ہے اور اپنی بار ی میں سب مولوی استغفراللہ بن جاتے ہیں۔
اس کے جال میں آنے والا شخص بے بس ہوکر بھی خود کو امریکا کا مجسمہ آزادی سمجھتا ہے، یہ ندی کی طرح شورکرتی ہے اور جب کوئی اس کے سحرمیں گرفتار ہوکر اس کے پانی سے کھیلنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ سمندر کی لہروں کی طرح بہاکرلے جاتی ہے، عورت صبح کی تازہ ہوا کی طرح فرحت بخش ہے، شام کو یہ باد صبا کا روپ دھارلیتی ہے، رات کو یہ چاندنی بن کر صحن میں اتر آتی ہے، ہوش مندوں کے ہوش اڑانے والی اور درد مندوں کا درد بڑھانے والی نیند میں خواب بن جاتی ہے، عورت کے کومل روپ کو فتح کرنا مرد کا خواب رہاہے، اس خوب صورت بلا کو اپنی دسترس میں کرنا مرد کی فطری خواہش ہے اور جب کوئی ازابیلا اپنا زوردکھاتی ہے، کوئی مارلن منرو ضد کرتی ہے تو مرد کا شوق دوآتشہ ہوجاتا ہے، وہ فرہاد بن جاتاہے اور اپنی شیریں کے حصول کے لیے دودھ کی نہرکھودنے نکل پڑتاہے، زمانے بدلے ، صدیاں بیت گئیں، روایتوں کا پانی وقت کے پلوں سے بہہ بہہ کر ماضی کے سمندر میں گم ہوتا رہا مگر نہیں بدلا توعورت کوچاہے جانے کا انداز' اس پر اپنی وفا ثابت کرنے کے لیے مرد ہرمنزل سے گزرنے کے لیے آج بھی تیار رہتا ہے۔
پتھروں کے زمانے کے قابیل نے توایک روایت کی ابتداکی تھی، اس نے عورت کے حصول کے لیے دنیا کا پہلا قتل کیا اور آج تک لوگ قتل کررہے ہیں اور قتل ہورہے ہیں، یہ حسن کی دیوی توبہ شکن ہے، اس کی چال دلوں میں بجلی کی لہر دوڑا دیتی ہے، ایک تو وہ قتل عام ہے جو خون کی صورت میں زمین پر بہہ گیا، کسی کی گردن گئی تو کسی کا کلیجہ نکل گیا، ایک قتل عام وہ ہے جو اس عورت کے نگاہوں کے تیوربدلنے سے ہوتاہے، کمر کے زاویے بدلنے سے بھی دل قتل ہوجاتے ہیں ، لاشوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں ،کشتوں کے پشتے لگ جاتے ہیں، مرد کا وجود سن ہوجاتاہے، مرد زورآور ہے مگر ا س قاتلہ کے آگے بے بس ہوجاتا ہے، سکندراور دارا جیسوں کو بھی اس اجلے روپ نے اپنا شکار کیا، اس کے من کو کوئی بھی بھاسکتا ہے ، کوئی پیمانہ نہیں ہے۔
اس کے دل میں بات بیٹھ جائے تو شاہ بھی فقیر ہے اور پھر یہ فقیر کو اپنا شاہ بنالیتی ہے،اس کا تصور بالکل جداہے اور اس تصور کو کوئی بھی الفاظ کے دائرے میں نہیں لاسکتا، یہ کبھی بھی کسی کے حق میں بھی فیصلہ دے سکتی ہے، میرے حق میں بھی اس کا فرمان جاری ہوسکتا ہے اور آپ کو بھی نوازسکتی ہے ۔ ویسے سنا ہے آج ویلنٹائن ہے ، موقع اچھا ہے، دستور ہے ، روایت ہے، ایک پھول پکڑادینے سے دل کی بات زبان پر آجائے گی، محبت ایک عالمگیر جذبہ ہے، اس کے اظہار میں تو کوئی حرج نہیں اور ویلنٹائن ڈے تو پوری دنیا میں منایاجاتاہے،دنیا بھر میں لوگ اپنے چاہنے والوں کو تحائف دیتے ہیں، آج ایسادن ہے کہ کوئی تحفہ دینے سے جھجکتا بھی نہیں ہے، تحفہ لینے والا بھی نہ نہیں کرسکتا، اگرنہ کرے گا تو اس پر دقیانوسی ہونے کا ٹھپہ لگ جائے گا، مغربی دنیا میں تو ویلنٹائن کو صرف محبوب کی الفت اور محبوبہ کی توجہ حاصل کرنے تک محدود رکھا جاتا ہے مگربرصغیر پاک وہند میں اس کے معنی اس لحاظ سے قدرے وسیع تر ہیں کہ ویلنٹائن ڈے پر لڑکیاں اپنی سہیلیوں کو تحائف دیتی ہیں، لڑکے تواس طرح کرتے ہوئے نہیں پائے گئے مگر جب کوئی لڑکی اپنی سہیلی کے لیے ویلنٹائن ڈے کارڈ تیارکررہی ہوتی ہے تو کئی فائدے ہوتے ہیں۔
ایک تو یہ کہ ماں منع نہیں کرسکتی کہ بیٹی دقیانوسی ہونے کا فتویٰ نہ لگادے، دوسرایہ کہ یہ کارڈ سہیلی سے باآسانی سہیلا تک پہنچ جائے تو انتظام وانصرام میں کوئی دقت پیش نہیں آتی،سببآسانی ہوجاتا ہے، ایک تیسرافائدہ یہ کہ اگر یہ کارڈ واقعتاًکسی سہیلی تک ہی پہنچ رہاہے تو لڑکی کو اس بات کی ہمت آجاتی ہے کہ آج سہیلی تک پہنچادیا کل محبوب تک بھی رسائی ہوجائے گی، غرض ویلنٹائن ڈے نے دلوں کوملانے کے لیے خاطرخواہ اقدامات کررکھے ہیں، ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کرنیوالے شاید دقیانوسی ہیں ،اس دن کی بھلے سے کوئی بھی تاریخ ہو،ہسٹری میں کیا رکھا ہے، بات تو حال کی ہے، زمانہ بدل گیا اور یہ یونان کی گھسی پٹی کہانیوں کو سنارہے ہوتے ہیں، پاکستانی معاشرے کو ایک صحت مند رجحان کی ضرورت ہے، محبت کے اظہار کے عالمی دن پر محبت کے فروغ کی ضرورت ہے، ویلنٹائن ڈے بالکل جائز ہے، یہ حلال ہے،ویلنٹائن ڈے منانے والوں سے بس میرا ایک سوال ہے! آپ نے دوسرے کی بیٹی کے ہاتھ میں تو پھول پکڑادیاہے خود آپ کی بٹیارانی کوکسی نے گھاس نہیں ڈالی۔ یا آپ کے علم میں نہیں کہ آپ کی بہن کو کیا تحفہ ملاہے؟ میرا خیال ہے کہ اس روایت کو بیلنس ہونا چاہیے، اگر ہم کسی کی بہو، بہن اور بیٹی کو تحفہ دے سکتے ہیں تو ہماری بہن، بہو اور بیٹیوں میں کیاعیب ہے، یہ کیسی روایت ہے کہ صرف دوسروں کی بہن بیٹیوں کے لیے جائز ہے اور اپنی بار ی میں سب مولوی استغفراللہ بن جاتے ہیں۔