اہم ڈگری نہیں بلکہ

دراصل ہمارے ہاں فقدان، مطالعہ کا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ محض ڈگریاں حاصل کرکے ہم زندگی میں کامیاب ہوجائیں گے۔

مطالعہ ایک اٹل حقیقت ہے اور تعلیم یافتہ ہونے کی شرط ہے، اگر آپ مطالعہ نہیں کرتے تو یہ جان لیجیئے کہ آپ وقت کا زیاں کررہے ہیں اور اِس صورت میں اپنی ناکامیوں کے ذمہ دار آپ خود ہیں۔

انسانی نفسیات ہے کہ حضرت انسان مختلف حیلوں، بہانوں اور تاویلوں سے اپنی کوتاہیوں کا موردِ الزام دوسروں کو ٹھہراتا ہے، تاکہ خود کو بری الذمہ کرتے ہوئے اپنے ضمیر کی عدالت میں سرخرو ہوسکے۔ نفسیات کے اِس اصول کو جاننے کے بعد میں نے اِس کی روشنی میں اپنے تعلیمی کیرئیر کا جائزہ لیا۔ میرا خیال ہے کہ دوسروں کو سمجھانے سے بہتر ہے انسان خود کو سمجھ جائے اور جو انسان خود کو سمجھ جاتا ہے وہ دوسروں کو بھی سمجھ پاتا اور سمجھا لیتا ہے کیونکہ کسی کو سمجھانے کے لیے اُسے سمجھنا ضروری ہے۔

زندگی میں اونچا مقام اور نام حاصل کرنا ہمیشہ سے میرا خواب رہا ہے لیکن سمت کا تعین کبھی ٹھیک سے نہیں کیا۔ یونیورسٹی میں جب ماسٹرز کرنے لگا تو انگریزی، ابلاغ عامہ اور نفسیات زیرِ غور تھے جن میں سے فیصلہ ابلاغ عامہ کے حق میں ہوا لیکن ڈگری شروع کرنے کے بعد احساس ہوا کہ اِس میں تو محض صحافت ہی پڑھائی جاتی ہے جبکہ میرا خواب تو ایکٹنگ، ڈرامہ رائیٹنگ اور انٹرٹینمنٹ تھا۔ بہرحال وقت گزرتا گیا اور جرنلزم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ڈگری حاصل کرلی۔ چند سال عملی صحافت کرنے کے بعد اپنی عافیت لکھنے پڑھنے میں سمجھی اور ایم فل، پی ایچ ڈی کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں مستقل طور پر یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کردیا۔

صحافت میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد محسوس ہوا کہ انگلش یا کسی اور مضمون میں ڈگری حاصل کرتا تو ملازمت کے زیادہ مواقع میسر آتے۔ کئی مرتبہ انگریز میں ماسٹرز کرنے کا ارادہ کیا لیکن دوستوں اور اساتذہ کے عدم اتفاق کی وجہ سے چار و ناچار ارادہ موخر کیا اور ابلاغِ عامہ میں ایم فِل شروع کردیا۔ وقت گزرتا گیا اور میں نے محض ملازمت کے حصول لیے ڈگریاں حاصل کرنے کی سوچ سے کسی حد تک چھٹکارا پاچکا تھا تو اُس وقت میرے اندر کے فنکار نے انگڑائی لی اور خیال آیا کہ میرا خواب تو کچھ تخلیقی کام کرنا تھا، اور اُس وقت مجھے احساس ہوا کہ میرے مزاج اور خواہش کو تسکین تو اردو ادب پڑھنے سے ملے گی تب پھر محسوس ہوا کہ ماسٹرز تو اردو میں کرنا چاہیے تھا۔

اب جب کبھی میں اپنے ماضی پر نگاہ ڈالتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ دراصل کسی مضمون یا شعبے کا انتخاب غلط نہیں ہوتا کیونکہ ہمارے اندر کسی نہ کسی حد تک اِس کا رجحان موجود ہوتا ہے۔ دس سال پہلے یونیورسٹی میں ہمیں بلاشبہ صحافت کے مضامین پڑھائے گئے لیکن بعد میں عملی صحافت بالخصوص الیکٹرانک میڈیا نے صحافت اور انٹرٹیمنٹ کو یکجا کرتے ہو انفوٹینمنٹ متعارف کرایا۔


دراصل ہمارے ہاں فقدان، مطالعہ کا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ محض ڈگریاں حاصل کرکے ہم زندگی میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اپنی زندگی میں ایک کے بعد دوسرے اور پھر تیسرے مضمون میں ماسٹرز کرنے کا سوچا لیکن میں غلط تھا۔ بہترین طریقہ یہ ہے جس شعبے کی طرف رجحان محسوس ہو اُس کا مطالعہ شروع کردیا جائے۔ طلبا گلہ کرتے ہیں کہ ابلاغ عامہ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ملازمت نہیں ملتی۔

ابلاغ عامہ کا نصاب آسان ہے لیکن اِس شعبے سے وابستہ لوگوں سے قانون، معیشت، معاشرت اور دیگر شعبوں سے متعلق رائے لی جاتی ہے یا انہوں نے عوام کو اِن سب کے متعلق آگاہ کرنا ہوتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ صحافت کا طالبعلم معاشرے کی رہنمائی تو کرے لیکن اپنی رہنمائی کے لیے کتاب پڑھے نہ اخبار۔ الیکٹرانک میڈیا کی اِس دوڑ میں ایسے اینکرز جو کہ لکھتے پڑھتے نہیں ہیں، اُن کی سطحی سوچ اور جذباتی تجزیے پڑھے لکھے سامعین کو متاثر نہیں کرسکتے ہیں۔ مطالعہ نہ ہونے کی وجہ سے جہاں بنیادی علم نہیں ہوتا وہیں طلبا کا زبان و بیان شدید مسائل کا شکار نظر آتا ہے۔ پاکستان میں صحافت کے طلبا و طالبات کے لیے معیاری اردو لکھنا اور بولنا ناگزیر ہے لیکن حقائق بتاتے ہیں کہ انگریزی کی نسبت اردو زیادہ پسماندگی کا شکار ہے۔

ڈگری کسی بھی مضمون میں حاصل کی جائے، اِس کی افادیت اور ملازمت کے ملنے کا انحصار آپ کی اپنی قابلیت پر ہوتا ہے۔ صحافت کے علاوہ دیگر شعبوں میں ڈگری لینے والے نوجوان بھی سالوں پاپڑ بیلتے ہیں تب جاکر زندگی میں کسی مقام پر پہنچتے ہیں۔ مطالعہ ایک اٹل حقیقت ہے اور تعلیم یافتہ ہونے کی شرط ہے، اگر آپ مطالعہ نہیں کرتے تو یہ جان لیجیئے کہ آپ وقت کا زیاں کررہے ہیں اور اِس صورت میں اپنی ناکامیوں کے ذمہ دار آپ خود ہیں۔ ڈگری کے انتخاب کو غلط قرار دینا کسی صورت درست نہیں۔ محنت کو شعار بنانے والے طلبا و طالبات کسی بھی میدان میں ہوں کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی
Load Next Story