’مجھے پاکستانی کہا جائے‘
میرا سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ میں پاکستان اتنی دیر سے کیوں آئی۔
لاہور:
ستاسی (87) برس قبل برلن شہر سے ڈیرھ سو کلومیٹر دور لیپزک میں ایک بچی نے جنم لیا۔ بہن بھائیوں میں اُس کا نمبر چوتھا تھا۔ ابتدائی تعلیم برلن اور لپیزک سے حاصل کی۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ چھوٹا بھائی بیمار ہوگیا، دن رات بھائی کی دیکھ بھال میں گزرنے لگے لیکن خراب معاشی حالات کے باعث بھائی مرگیا۔ کالج میں داخلے کی درخواست دی مگر وقت گزر چکا تھا لہذا درخواست مسترد ہوگئی۔
اُسی دوران دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوچکا تھا۔ امریکیوں نے لیپزگ شہر پر بمباری کی۔ فوجیں زمین پر اُتاریں اور شہر پر قبضہ کرلیا۔ جنگ نے خاندان کو معاشی طور پر تباہ کردیا۔ باپ بیروزگار ہوگیا، گھر تباہ ہوگیا اورخاندان سڑک پر آگیا۔ باپ نے مجبور ہوکر بچوں کو دادی کے گھر بھیج دیا اور خود جعلی کاغذات بنوا کر وائسباڈین چلا گیا۔ وہاں وہ پبلشنگ کے کاروبار سے منسلک ہوگیا۔ حالات بہتر ہونے لگے تو اُس نے بچوں کو اپنے پاس بلالیا، اُس نے بچوں کو تعلیم دلوائی، انہیں اخلاقیات، حُسنِ سلوک، رواداری اور سب سے بڑھ کر حقوق العباد کا درس دیا اور زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کی اجازت دے دی۔ وقت گزرتا گیا، سب بچوں نے اپنی اپنی فیلڈ میں کامیابی حاصل کی لیکن جو عزت، شہرت، نیک نامی اور مسیحائی اُس بچی کے حصے میں آئی، اُس کی خواہش آج دنیا کا ہرانسان کرتا ہے۔
میں اب کہانی کی طرف واپس آتا ہوں، باپ کی خواہش تھی کہ بیٹی اُس کے ساتھ پبلشنگ کے کاروبار میں ہاتھ بٹائے لیکن دوسری جنگ عظیم کے دوران فوجیوں کی مرہم پٹی اور تیمارداری کی وجہ سے بیٹی کی دلچسپی میڈیسن میں بڑھنے لگی تھی۔ چناچہ بیٹی نے یونیورسٹی آف مینز کے شعبہ میڈیسن میں داخلہ لے لیا۔ بون یونیورسٹی سے گائناکولوجی میں اسپیشلائزیشن کی اور اِنٹرنی کے طور پر کام شروع کردیا۔ اِس دوران وہ مختلف قسم کے لوگوں سے ملتی رہیں اور اُن کا رجحان مذہب کی جانب بڑھنے لگا۔ لہذا 1956ء میں پیرس کے Daughters of heart of marry میں بطور نرس کام شروع کردیا۔ ادارے نے اُن کو بھارت میں اپنی برانچ میں کام کرنے کے لیے منتخب کیا لیکن اللہ نے انہیں کسی اور کام کے لئے منتخب کرلیا تھا۔
یہ پیرس سے کراچی پہنچیں لیکن ویزے میں مسئلے کے باعث کچھ دن کراچی رک گئیں۔ کراچی میں اُن کی ملاقات غیر ملکی ڈاکٹروں اور نرسوں کے ایک گروہ سے ہوئی جو پاکستان میں جذام (کوڑھ) کے مریضوں پر کام کررہے تھے۔ یہ اُن کے ساتھ شامل ہوگئیں۔ اُس وقت کراچی میں جذام کے مریضوں کی حالت جانوروں سے بدتر تھی۔ خاندان والے جذام (کوڑھ) کے مریض کو ایک کمرے میں بند کردیتے تھے، جہاں اُس کا گوشت چوہے اور چیونٹیاں کھاتے تھے۔ اکثر مریضوں کو شہر سے دور جنگل میں پھینک دیا جاتا تھا جہاں وہ سسک سسک کر موت کا انتظار کرتے تھے اور حیوانیت کی انتہا یہ تھی کہ جب کوئی مریض مرجاتا تھا تو خاندان والے اُس کا جنازہ پڑھنے بھی نہیں آتے تھے۔ کوڑھ کے باقی مریض ہی اُس کا جنازہ پڑھتے تھے اور خود ہی اُس کو دفنا دیتے تھے۔ مریضوں کی یہ حالت اُن کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ زندہ انسانوں کی لاچاری اور بے بسی نے اُن کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈال دیا تھا۔
چناچہ انہوں نے پاکستان سے اِس مرض کو ختم کرنے کا بیڑہ اُٹھالیا۔ یہ گائناکولوجسٹ تھیں اور جذام کے علاج کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھیں۔ لہذا یہ جذام کے علاج کی تحقیق میں مصروف ہوگئیں۔ اللہ نے انہیں عزت دی اور تھوڑے ہی عرصے میں اُن کا طریقہ علاج کامیاب ہوگیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جن مریضوں کو اُن کے سگے بہن بھائی ہاتھ تک نہیں لگاتے تھے اور ماں باپ انہیں دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے تھے، اُن مریضوں کو انہوں نے گلے لگایا۔ یہ اُن مریضوں کا ماتھا چومتیں، اُن سے ہاتھ ملاتیں، اُن کے ساتھ کھانا کھاتیں اور انہیں زندگی گزارنے کی اُمید دیتیں۔
انہوں نے ایک کمرے کی ڈسپنسری کو جذام کے مریضوں کے لیے زندگی کی اُمید میں تبدیل کیا جہاں اُن مریضوں کا مفت علاج ہوتا تھا۔ اِس کام کے لیے رقم German Leprosy Relief Association نے فراہم کی۔ 1965ء میں انہوں نے Leprosy Control Program (جذام کنٹرول پروگرام) شروع کیا اور اسے پورے پاکستان میں پھیلا دیا۔ 1968ء میں حکومتِ پاکستان کی مدد سے Leprosy Control Program کو 'Marie Adelaide Leprosy Center' کے ساتھ پارٹنرشپ کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ پارٹنرشپ کامیاب ہوئی اور آج اُس پارٹنر شپ کے تحت 157 جذام کنٹرول سینٹر کام کررہے ہیں۔ دن رات کی محنت رنگ لائی اور 1996ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پاکستان کو ایشیا میں سب سے پہلے جذام (کوڑھ) پر قابو پانے والا ملک قرار دے دیا۔
ستاون (57) سال پاکستان میں انسانی خدمت کا یہ سلسلہ جاری رہا اور پھر 10 اگست 2017ء کو یہ ستاسی (87) سال کی عمر میں صبح چار بجے کراچی کے آغا خان اسپتال میں لاکھوں آنکھوں کو نم چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ آپ یقیناً اب تک اِس مسیحا کا نام جان چکے ہوں گے۔ جی ہاں! یہ پاکستان کی مدر ٹریسا اور لاکھوں انسانوں کی محسن ڈاکٹر ''رتھ کتھرینا مارتھا فاؤ' کی لازوال خدمات کی چھوٹی سی کہانی تھی۔
مجھے یہ بات لکھنے میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم ڈاکٹر رتھ فاؤ کی خدمات کا بدلہ نہیں دے سکتے لیکن جو عزت پاکستانی قوم نے ڈاکٹر رتھ فاؤ کو دی ہے، اُس کی بھی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان نے 1969ء میں اُنہیں ستارہ امتیاز سے نوازا۔ 1979ء میں ہلال امتیاز، 1988ء میں پاکستانی شہریت، 1989ء میں ہلال پاکستان، 2003ء میں جناح ایوارڈ، 2003ء میں ''In the name of ALLAH'' ایوارڈ، 2004ء میں آغا خان یونیورسٹی کی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری، 2004ء میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، 2006ء میں ویمن آف داائیر ایوارڈ، 2006ء میں وزارتِ صحت کی جانب سے سرٹیفیکیٹ آف اپریسی ایشن اور Nesvita Woman of Strength Award سے نوازا گیا۔ اُن کی وفات پر وزیراعظم پاکستان نے 19 اگست 2017ء کو سینٹ پیٹرکس کیتھیڈرل میں سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین کا اعلان کیا۔
یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر رتھ فاؤ جیسی کہانیاں صدیوں بعد سننے کو ملتی ہیں اور ایسے مسیحا کی خدمات کا صلہ ہم اِس دنیا میں نہیں دے سکتے۔ ان انسانوں کا انتخاب قدرت کرتی ہے اور وہ ہی انہیں اِس کا بدلہ دینے پر قادر ہے۔ ہم بھی کس قدر خوش قسمت لوگ ہیں کہ ڈاکٹر رتھ فاؤ جیسی ہستیاں ہماری سر زمین کا حصہ رہیں۔ اِس ملک کی مٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُس نے انسانیت کی خدمت کرنے والے پودوں کی پرورش کی ہے اور انہیں قد آور درخت بنتے دیکھا ہے۔ انہیں پاکستان سے محبت تھی، اُن کی پاکستان سے محبت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ پوری دنیا میں جہاں بھی جاتی تھیں تو اپنا تعارف پاکستانی کی حیثیت سے کرواتی تھیں۔ شلوار قمیض پہنتی اور سر پر دوپٹہ لیتی تھیں۔
جب اُن سے پوچھا گیا کہ آپ کو زندگی میں کسی دکھ کا سامنا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ،
اور جب پوچھا گیا کہ اگر آپ کو دوبارہ زندگی ملے تو آپ کی کیا خواہش ہوگی؟ رتھ فاؤ کا جواب تھا کہ،
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
ستاسی (87) برس قبل برلن شہر سے ڈیرھ سو کلومیٹر دور لیپزک میں ایک بچی نے جنم لیا۔ بہن بھائیوں میں اُس کا نمبر چوتھا تھا۔ ابتدائی تعلیم برلن اور لپیزک سے حاصل کی۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ چھوٹا بھائی بیمار ہوگیا، دن رات بھائی کی دیکھ بھال میں گزرنے لگے لیکن خراب معاشی حالات کے باعث بھائی مرگیا۔ کالج میں داخلے کی درخواست دی مگر وقت گزر چکا تھا لہذا درخواست مسترد ہوگئی۔
اُسی دوران دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوچکا تھا۔ امریکیوں نے لیپزگ شہر پر بمباری کی۔ فوجیں زمین پر اُتاریں اور شہر پر قبضہ کرلیا۔ جنگ نے خاندان کو معاشی طور پر تباہ کردیا۔ باپ بیروزگار ہوگیا، گھر تباہ ہوگیا اورخاندان سڑک پر آگیا۔ باپ نے مجبور ہوکر بچوں کو دادی کے گھر بھیج دیا اور خود جعلی کاغذات بنوا کر وائسباڈین چلا گیا۔ وہاں وہ پبلشنگ کے کاروبار سے منسلک ہوگیا۔ حالات بہتر ہونے لگے تو اُس نے بچوں کو اپنے پاس بلالیا، اُس نے بچوں کو تعلیم دلوائی، انہیں اخلاقیات، حُسنِ سلوک، رواداری اور سب سے بڑھ کر حقوق العباد کا درس دیا اور زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کی اجازت دے دی۔ وقت گزرتا گیا، سب بچوں نے اپنی اپنی فیلڈ میں کامیابی حاصل کی لیکن جو عزت، شہرت، نیک نامی اور مسیحائی اُس بچی کے حصے میں آئی، اُس کی خواہش آج دنیا کا ہرانسان کرتا ہے۔
میں اب کہانی کی طرف واپس آتا ہوں، باپ کی خواہش تھی کہ بیٹی اُس کے ساتھ پبلشنگ کے کاروبار میں ہاتھ بٹائے لیکن دوسری جنگ عظیم کے دوران فوجیوں کی مرہم پٹی اور تیمارداری کی وجہ سے بیٹی کی دلچسپی میڈیسن میں بڑھنے لگی تھی۔ چناچہ بیٹی نے یونیورسٹی آف مینز کے شعبہ میڈیسن میں داخلہ لے لیا۔ بون یونیورسٹی سے گائناکولوجی میں اسپیشلائزیشن کی اور اِنٹرنی کے طور پر کام شروع کردیا۔ اِس دوران وہ مختلف قسم کے لوگوں سے ملتی رہیں اور اُن کا رجحان مذہب کی جانب بڑھنے لگا۔ لہذا 1956ء میں پیرس کے Daughters of heart of marry میں بطور نرس کام شروع کردیا۔ ادارے نے اُن کو بھارت میں اپنی برانچ میں کام کرنے کے لیے منتخب کیا لیکن اللہ نے انہیں کسی اور کام کے لئے منتخب کرلیا تھا۔
یہ پیرس سے کراچی پہنچیں لیکن ویزے میں مسئلے کے باعث کچھ دن کراچی رک گئیں۔ کراچی میں اُن کی ملاقات غیر ملکی ڈاکٹروں اور نرسوں کے ایک گروہ سے ہوئی جو پاکستان میں جذام (کوڑھ) کے مریضوں پر کام کررہے تھے۔ یہ اُن کے ساتھ شامل ہوگئیں۔ اُس وقت کراچی میں جذام کے مریضوں کی حالت جانوروں سے بدتر تھی۔ خاندان والے جذام (کوڑھ) کے مریض کو ایک کمرے میں بند کردیتے تھے، جہاں اُس کا گوشت چوہے اور چیونٹیاں کھاتے تھے۔ اکثر مریضوں کو شہر سے دور جنگل میں پھینک دیا جاتا تھا جہاں وہ سسک سسک کر موت کا انتظار کرتے تھے اور حیوانیت کی انتہا یہ تھی کہ جب کوئی مریض مرجاتا تھا تو خاندان والے اُس کا جنازہ پڑھنے بھی نہیں آتے تھے۔ کوڑھ کے باقی مریض ہی اُس کا جنازہ پڑھتے تھے اور خود ہی اُس کو دفنا دیتے تھے۔ مریضوں کی یہ حالت اُن کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ زندہ انسانوں کی لاچاری اور بے بسی نے اُن کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈال دیا تھا۔
چناچہ انہوں نے پاکستان سے اِس مرض کو ختم کرنے کا بیڑہ اُٹھالیا۔ یہ گائناکولوجسٹ تھیں اور جذام کے علاج کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھیں۔ لہذا یہ جذام کے علاج کی تحقیق میں مصروف ہوگئیں۔ اللہ نے انہیں عزت دی اور تھوڑے ہی عرصے میں اُن کا طریقہ علاج کامیاب ہوگیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جن مریضوں کو اُن کے سگے بہن بھائی ہاتھ تک نہیں لگاتے تھے اور ماں باپ انہیں دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے تھے، اُن مریضوں کو انہوں نے گلے لگایا۔ یہ اُن مریضوں کا ماتھا چومتیں، اُن سے ہاتھ ملاتیں، اُن کے ساتھ کھانا کھاتیں اور انہیں زندگی گزارنے کی اُمید دیتیں۔
انہوں نے ایک کمرے کی ڈسپنسری کو جذام کے مریضوں کے لیے زندگی کی اُمید میں تبدیل کیا جہاں اُن مریضوں کا مفت علاج ہوتا تھا۔ اِس کام کے لیے رقم German Leprosy Relief Association نے فراہم کی۔ 1965ء میں انہوں نے Leprosy Control Program (جذام کنٹرول پروگرام) شروع کیا اور اسے پورے پاکستان میں پھیلا دیا۔ 1968ء میں حکومتِ پاکستان کی مدد سے Leprosy Control Program کو 'Marie Adelaide Leprosy Center' کے ساتھ پارٹنرشپ کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ پارٹنرشپ کامیاب ہوئی اور آج اُس پارٹنر شپ کے تحت 157 جذام کنٹرول سینٹر کام کررہے ہیں۔ دن رات کی محنت رنگ لائی اور 1996ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پاکستان کو ایشیا میں سب سے پہلے جذام (کوڑھ) پر قابو پانے والا ملک قرار دے دیا۔
ستاون (57) سال پاکستان میں انسانی خدمت کا یہ سلسلہ جاری رہا اور پھر 10 اگست 2017ء کو یہ ستاسی (87) سال کی عمر میں صبح چار بجے کراچی کے آغا خان اسپتال میں لاکھوں آنکھوں کو نم چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ آپ یقیناً اب تک اِس مسیحا کا نام جان چکے ہوں گے۔ جی ہاں! یہ پاکستان کی مدر ٹریسا اور لاکھوں انسانوں کی محسن ڈاکٹر ''رتھ کتھرینا مارتھا فاؤ' کی لازوال خدمات کی چھوٹی سی کہانی تھی۔
مجھے یہ بات لکھنے میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم ڈاکٹر رتھ فاؤ کی خدمات کا بدلہ نہیں دے سکتے لیکن جو عزت پاکستانی قوم نے ڈاکٹر رتھ فاؤ کو دی ہے، اُس کی بھی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان نے 1969ء میں اُنہیں ستارہ امتیاز سے نوازا۔ 1979ء میں ہلال امتیاز، 1988ء میں پاکستانی شہریت، 1989ء میں ہلال پاکستان، 2003ء میں جناح ایوارڈ، 2003ء میں ''In the name of ALLAH'' ایوارڈ، 2004ء میں آغا خان یونیورسٹی کی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری، 2004ء میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، 2006ء میں ویمن آف داائیر ایوارڈ، 2006ء میں وزارتِ صحت کی جانب سے سرٹیفیکیٹ آف اپریسی ایشن اور Nesvita Woman of Strength Award سے نوازا گیا۔ اُن کی وفات پر وزیراعظم پاکستان نے 19 اگست 2017ء کو سینٹ پیٹرکس کیتھیڈرل میں سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین کا اعلان کیا۔
یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر رتھ فاؤ جیسی کہانیاں صدیوں بعد سننے کو ملتی ہیں اور ایسے مسیحا کی خدمات کا صلہ ہم اِس دنیا میں نہیں دے سکتے۔ ان انسانوں کا انتخاب قدرت کرتی ہے اور وہ ہی انہیں اِس کا بدلہ دینے پر قادر ہے۔ ہم بھی کس قدر خوش قسمت لوگ ہیں کہ ڈاکٹر رتھ فاؤ جیسی ہستیاں ہماری سر زمین کا حصہ رہیں۔ اِس ملک کی مٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُس نے انسانیت کی خدمت کرنے والے پودوں کی پرورش کی ہے اور انہیں قد آور درخت بنتے دیکھا ہے۔ انہیں پاکستان سے محبت تھی، اُن کی پاکستان سے محبت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ پوری دنیا میں جہاں بھی جاتی تھیں تو اپنا تعارف پاکستانی کی حیثیت سے کرواتی تھیں۔ شلوار قمیض پہنتی اور سر پر دوپٹہ لیتی تھیں۔
جب اُن سے پوچھا گیا کہ آپ کو زندگی میں کسی دکھ کا سامنا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ،
''میرا سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ میں پاکستان اتنی دیر سے کیوں آئی۔ مجھے بہت پہلے پاکستان آجانا چاہیے تھا اور اِس مٹی کے لوگوں کی خدمت کرنی چاہیے تھی''
اور جب پوچھا گیا کہ اگر آپ کو دوبارہ زندگی ملے تو آپ کی کیا خواہش ہوگی؟ رتھ فاؤ کا جواب تھا کہ،
''میری خواہش ہے کہ اگر مجھے دوبارہ زندگی ملے تو مجھے پاکستان میں ہی پیدا کیا جائے، اور مجھے پاکستانی کہا جائے''
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی