خطرناک پلاسٹک اسکریپ کی کلیئرنس کاانکشاف
پالیسی کیخلاف ڈرائی پورٹس پرایک عام سرٹیفکیٹ پرکنسائنمنٹس ریلیزکیے جا رہے ہیں،ذرائع
QUETTA:
محکمہ کسٹمز کی خشک گودیوں کے ذریعے خطرناک پلاسٹک اسکریپ کی کلیئرنس کا عمل جاری ہے اور متعلقہ درآمدکنندگان کی جانب سے محض ایک عام سرٹیفکیٹ ظاہر کرنے پرخطرناک پلاسٹک اسکریپ کے کنسائمنٹس ریلیزکیے جارہے ہیں جو درآمدی پالیسی کے برخلاف ہے۔
باخبرذرائع نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ صرف جنوری 2013 کے دوران پنجاب کی مختلف خشک گودیوں سے مجموعی طور پر2500ٹن خطرناک پلاسٹک اسکریپ کے کنسائنمنٹس ریلیزکیے گئے جن میں56فیصد لاہور پریم نگر،38فیصدٹھوکر نیاز بیگ جبکہ 3فیصد لاہورڈرائی پورٹ اور 3 فیصد ملتان ڈرائی پورٹ سے ریلیزکیے گئے۔ واضح رہے مذکورہ خطرناک پلاسٹک اسکریپ درآمدکنندگان کی جانب سے محض ایک عام سرٹیفکیٹ ظاہر کرنے پرریلیزہورہے ہیں جو امپورٹ پالیسی آرڈر کی کھلی خلاف ورزی ہے جبکہ اس قسم کا اسکریپ درآمد کرنے کیلیے برآمدی ملک سے اس کے خطرناک نہ ہونے کا کلیئرنس سرٹیفکیٹ لینا لازم ہے۔
ذرائع کے مطابق امپورٹ پالیسی آرڈر، بیسل کنونشن کے وضع کیے گئے قانون پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنانے پر زور دیتاہے، بیسل کنونشن ایسے27 ویسٹ اسٹریم اور18 اجزا کی نشاندہی کرتا ہے جن کی موجودگی کسی بھی پلاسٹک اسکریپ پراڈکٹ کو ماحول دشمن اور انسانی استعمال کیلیے خطرناک بنا دیتی ہیں لیکن ان حقائق کے باوجود پاکستان میں یورپ اورمشرق وسطیٰ سے خطرناک پلاسٹک اسکریپ کی درآمد کا عمل خلاف قانون بلا روک ٹوک کے جاری ہے۔ ذرائع نے انکشاف کیاکہ درآمد کنندگان کی جانب سے اس خطرناک اسکر یپ کوان سرٹیفکیٹس میں مکمل ماحول دوست اور محفوظ قراردیا جاتا ہے۔
جس کی تحقیقات ضروری ہے اور تحقیقات میں متعلقہ کسٹم حکام سے بھی قانونی تقاضوں کے مطابق بازپرس کرنا چاہیے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں سیوریج اورنکاسی کے پائپ، طبی فضلہ، کیبل انسولیشن، بوتلیں، خوراک کے کنٹینراور پیکیجنگ فلم سمیت ہرقسم کا پلاسٹک اسکریپ درآمد کیا جاتا ہے جو زہر آلود اور کیڑے مار دوا، پیسٹ ڈمپ، پیتھوجینز اور نامعلوم ساخت کے زہریلے مادے سے آلودہ ہوتے ہیںاور زندگی کیلیے انتہائی مہلک خطرات پیدا کرسکتے ہیں۔
محکمہ کسٹمز کی خشک گودیوں کے ذریعے خطرناک پلاسٹک اسکریپ کی کلیئرنس کا عمل جاری ہے اور متعلقہ درآمدکنندگان کی جانب سے محض ایک عام سرٹیفکیٹ ظاہر کرنے پرخطرناک پلاسٹک اسکریپ کے کنسائمنٹس ریلیزکیے جارہے ہیں جو درآمدی پالیسی کے برخلاف ہے۔
باخبرذرائع نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ صرف جنوری 2013 کے دوران پنجاب کی مختلف خشک گودیوں سے مجموعی طور پر2500ٹن خطرناک پلاسٹک اسکریپ کے کنسائنمنٹس ریلیزکیے گئے جن میں56فیصد لاہور پریم نگر،38فیصدٹھوکر نیاز بیگ جبکہ 3فیصد لاہورڈرائی پورٹ اور 3 فیصد ملتان ڈرائی پورٹ سے ریلیزکیے گئے۔ واضح رہے مذکورہ خطرناک پلاسٹک اسکریپ درآمدکنندگان کی جانب سے محض ایک عام سرٹیفکیٹ ظاہر کرنے پرریلیزہورہے ہیں جو امپورٹ پالیسی آرڈر کی کھلی خلاف ورزی ہے جبکہ اس قسم کا اسکریپ درآمد کرنے کیلیے برآمدی ملک سے اس کے خطرناک نہ ہونے کا کلیئرنس سرٹیفکیٹ لینا لازم ہے۔
ذرائع کے مطابق امپورٹ پالیسی آرڈر، بیسل کنونشن کے وضع کیے گئے قانون پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنانے پر زور دیتاہے، بیسل کنونشن ایسے27 ویسٹ اسٹریم اور18 اجزا کی نشاندہی کرتا ہے جن کی موجودگی کسی بھی پلاسٹک اسکریپ پراڈکٹ کو ماحول دشمن اور انسانی استعمال کیلیے خطرناک بنا دیتی ہیں لیکن ان حقائق کے باوجود پاکستان میں یورپ اورمشرق وسطیٰ سے خطرناک پلاسٹک اسکریپ کی درآمد کا عمل خلاف قانون بلا روک ٹوک کے جاری ہے۔ ذرائع نے انکشاف کیاکہ درآمد کنندگان کی جانب سے اس خطرناک اسکر یپ کوان سرٹیفکیٹس میں مکمل ماحول دوست اور محفوظ قراردیا جاتا ہے۔
جس کی تحقیقات ضروری ہے اور تحقیقات میں متعلقہ کسٹم حکام سے بھی قانونی تقاضوں کے مطابق بازپرس کرنا چاہیے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں سیوریج اورنکاسی کے پائپ، طبی فضلہ، کیبل انسولیشن، بوتلیں، خوراک کے کنٹینراور پیکیجنگ فلم سمیت ہرقسم کا پلاسٹک اسکریپ درآمد کیا جاتا ہے جو زہر آلود اور کیڑے مار دوا، پیسٹ ڈمپ، پیتھوجینز اور نامعلوم ساخت کے زہریلے مادے سے آلودہ ہوتے ہیںاور زندگی کیلیے انتہائی مہلک خطرات پیدا کرسکتے ہیں۔