سیاست میں کوڑھ کون ختم کرے گا
انقلاب تو اس نظام بد کے خلاف مطلوب ہے جو آپ نے آئین سے بالا بنایا اور چلایا۔ اب تو آئین کا نفاذ شروع ہو گیا۔
NEW YORK:
نواز شریف عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد جی ٹی روڈ پر عوامی عدالت لگانے، اس کا فیصلہ سنانے اور ''انقلاب'' کے خواب دکھانے کے بعد جاتی عمرہ میں واقع اپنے گھر پہنچ کر آیندہ کی ''حکمت عملی'' بنا رہے ہیں۔ اس بحث سے قطع نظر کہ ''معصوم'' مارچ میں کتنے آدمی تھے ،حکمراں جماعت جی ٹی روڈ کے سفر کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاج یا کسی پاور شو کے بجائے سابق وزیر اعظم سے عوام کی والہانہ محبت کے اظہار سے تعبیر کر رہی ہے جب کہ اپوزیشن کا موقف ہے کہ نواز شریف کا جی ٹی روڈ پر بریکیں لگانے اور اپنی ٹور (چال) دکھانے کا مقصد اعلیٰ عدلیہ اور مسلح افواج پر تنقید کرنا اور انھیں نشانہ بنانا تھا۔
انھوں نے اپنے ''تاریخی'' خطابات میں عوام سے چند سوالات بھی کیے کہ ''کیا پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک میں یہ کھیل تماشا ہو رہا ہے؟اس ملک میں ایک انقلاب ہونا چاہیے یا نہیں؟ کیا انقلاب کے لیے تیار ہو؟'' ان سوالات کے جوابات عوام نے تو شاید دیے یا نہیں مگر میرے کانوں میں مزید سوالات گونجتے رہے کہ میاں صاحب اچانک راتوں رات نظریاتی و انقلابی کیسے ہوگئے؟ انھیں ایک دم سے رضا ربانی کی تقریر کیسے یاد آگئی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اب تمام اداروں کو مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔
کیا پھر کوئی ''عمرانی''معاہدہ ہونے جا رہا ہے؟ جس میں تمام گناہوں ، پاپوں اور کرپشن سے معافی مل جائے گی... اور کرپٹ حکمرانوں کو ایک بار پھر کھل کھیلنے کا موقع میسر آجائے گا۔حالانکہ وفاق اور پنجاب دونوں میں نواز شریف کی حکومت ہے پھر یہ مارچ کس کے خلاف تھا، کیا نواز شریف یہ تو نہیں چاہتے کہ انھیں ''فیس سیونگ ''یا ''محفوظ راستہ'' فراہم کردیا جائے اور آیندہ کے لیے ان کے مال و دولت پر نظر نہ رکھی جائے۔
اس مارچ کی کہانی بھی سن لیں جسے اگر میں 7اسٹار انقلاب کہوں تو بہتر ہوگا۔ 5اسٹار سہولیات سے مزین انقلابی کنٹینر کے ساتھ ایمبولینس، موبائل اسپتال، سیکڑوں گاڑیوں پر مشتمل پروٹوکول، موبائل کینٹین ، ہراول دستوں میں ایم این ایز، ایم پی ایز، بلدیاتی نمایندے، سرکاری اہلکار اور سول کپڑوں میں پولیس اہلکار بھی تھے۔
300کلومیٹر کے اس انقلابی ریلے میں کچھ اور تو بہا نہیں مگر اربوں روپے کے سرکاری فنڈز ضرور بہہ گئے حالانکہ اتنا خرچ تو ماؤزے تنگ کے 9656کلومیٹر لمبے اورایک سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والے چینی انقلاب میں نہیں ہوا تھا، اور پھر نواز شریف جب اسلام آباد سے نکلے تو انھیں خود علم نہیں تھا کہ وہ کس نظریے کے تحت اور کیوں جا رہے ہیںجب کہ ماؤ اوراس کے انقلابی جاں لیوا سفر کے لیے چین کے گیارہ صوبوں سے گزرے، ان نہتے پیدل بھوکے ننگے لوگوں نے اس ''ریلی''کے دوران 24 دریا عبور کیے، 18ایسے دشوار گزار پہاڑی سلسلوں سے بھی گزرے جن میں برفپوش پہاڑ بھی شامل تھے اور ان میں سے ایک پہاڑ کی اونچائی 16000 فٹ تھی۔اس لمبے سفر میں17تا 26میل روزانہ پیدل بھوک پیاس ہی انقلابیوں کا رخت سفر، زاد راہ تھا یا وہ لازوال بے مثال جذبہ جو صرف ماؤ جیسی محیر العقول لیڈر شپ ہی پیدا کرسکتی ہے۔
انقلاب کی منزل کے لیے نکلے 90ہزارجاں باز جن میں سے صرف 30ہزار ہی منزل کو مبارک ٹھہرے جب کہ ماؤ کے بدلے میں یہ انقلاب باقاعدہ اسپانسرڈ تھا، اور اگلی حکمت عملی میں بھی یہ انقلاب اسپانسرڈ ہی رہے گا، اور نواز شریف یوں ہی پوچھتے رہیں گے کہ ''مجھے کیوں نکالا گیا؟'' حالانکہ انھیں اس بات کا اب تک جواب مل گیا ہوگا کہ انھیں کیوں نکالا ۔ اگر نہیں علم تو وہ سارے پراجیکٹس جن میں نندی پور، قائدِاعظم سولر پلانٹ، میٹرو، اورنج ٹرین، ایل این جی، نیلم جہلم منصوبہ، صاف پانی منصوبہ، سستی روٹی، لیپ ٹاپ اسکیم، سرکلر ڈیٹ، تھری جی، فور جی لائسنسز وغیرہ سر فہرست ہیں کو ہی سامنے رکھ لیں تو دوسری رائے نہیں قائم کر سکیں گے۔
لیکن اس ملک میں ایسا کیا کیاجائے کہ جس کا ہاتھ کرپشن سے روکو وہ اپنے آپ کو ''ہیرو''سمجھنے لگتا ہے، یہ ان سیاستدانوں کی مرہون منت ہے کہ آج ملک تاریخ کے اس دوراہے پر کھڑا ہے جہاں سے لڑکھڑا کر اگر گیا تو خاکم بدہن خاکم بدہن دوبارہ اُٹھ نہیں سکے گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہی کرپٹ سیاستدان انقلاب کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں... اور پھر کہا جاتا ہے کہ یہ سیاستدان ہمارا کل اثاثہ ہیں جنہوں نے ملک کے ادارے تباہ کردیے۔ حقیقت میں ہمارے ہاں سیاست بھی کوڑھ کے مرض کی طرح اس ملک کے لیے ایک بدعا بن کر رہ گئی ہے۔اس اچھوت کے مرض کو جرمنی سے آئی ہوئی ایک فرشتہ ایک مسیحی راہبہ ڈاکٹر روتھ فاؤ نے ختم کردیا۔اُن کے ساتھ کام کرنے والی ڈاکٹر زرینہ فضل بھائی کا نام نہ لیا جائے تو زیادتی ہوگی۔
میرے خیال میں آج سیاست میں بھی جذام کا مرض شامل ہوگیا ہے جسے نکالنے کے لیے شاید باہر سے ماہرین امپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
میاں صاحب کوئی نیا آئین، کیا اب بن سکتاہے؟ ناممکن، بالکل ناممکن۔ یہ آگ سے بڑھ کر کھیل ہوگا۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آئین پاکستان 1973کو جو اسلامی اور جمہوری ہے، جو وفاقی اور پارلیمانی اور سب سے بڑھ کر اتنی لڑتی بھڑتی قوم کی متفقہ دستاویز ہے، اسے کیسے اور کون تبدیل کرسکتا ہے؟ آپ اگر تاریخ سے اتنے ہی نابلد ہیں کہ نہیں معلوم کہ آئینی بحرانوں نے پاکستان کوکتنا برباد کیا، اسے توڑا۔ بلاشبہ آپ 35 سال سے اسٹیٹس کو کی سیاست میں ہی رہے اور اب اس پر احتساب و قانون کی کاری ضرب کے پہلے متاثر ہیں۔
انقلاب تو اس نظام بد کے خلاف مطلوب ہے جو آپ نے آئین سے بالا بنایا اور چلایا۔ اب تو آئین کا نفاذ شروع ہو گیا۔ یہ ہی انقلاب ہے یہ آنہیں رہا، آگیا۔ذہن نشین رہے انقلاب کے شوق اس ملک میں بڑے بڑوںنے پالے۔یہ جمہوری و سیاسی عمل کا ملک ہے۔ اس میں رکاوٹیں الگ بات لیکن یہ قوم انقلابی ہے نہ یہاں کبھی کوئی انقلابی آیا۔ حقیقی جمہوریت کی آمد ہی انقلاب ہے۔
میاں محمد بخش کہتے ہیں کہ... لسے دا کی زور محمد... نس جانا یا رونا۔
نواز شریف عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد جی ٹی روڈ پر عوامی عدالت لگانے، اس کا فیصلہ سنانے اور ''انقلاب'' کے خواب دکھانے کے بعد جاتی عمرہ میں واقع اپنے گھر پہنچ کر آیندہ کی ''حکمت عملی'' بنا رہے ہیں۔ اس بحث سے قطع نظر کہ ''معصوم'' مارچ میں کتنے آدمی تھے ،حکمراں جماعت جی ٹی روڈ کے سفر کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاج یا کسی پاور شو کے بجائے سابق وزیر اعظم سے عوام کی والہانہ محبت کے اظہار سے تعبیر کر رہی ہے جب کہ اپوزیشن کا موقف ہے کہ نواز شریف کا جی ٹی روڈ پر بریکیں لگانے اور اپنی ٹور (چال) دکھانے کا مقصد اعلیٰ عدلیہ اور مسلح افواج پر تنقید کرنا اور انھیں نشانہ بنانا تھا۔
انھوں نے اپنے ''تاریخی'' خطابات میں عوام سے چند سوالات بھی کیے کہ ''کیا پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک میں یہ کھیل تماشا ہو رہا ہے؟اس ملک میں ایک انقلاب ہونا چاہیے یا نہیں؟ کیا انقلاب کے لیے تیار ہو؟'' ان سوالات کے جوابات عوام نے تو شاید دیے یا نہیں مگر میرے کانوں میں مزید سوالات گونجتے رہے کہ میاں صاحب اچانک راتوں رات نظریاتی و انقلابی کیسے ہوگئے؟ انھیں ایک دم سے رضا ربانی کی تقریر کیسے یاد آگئی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اب تمام اداروں کو مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔
کیا پھر کوئی ''عمرانی''معاہدہ ہونے جا رہا ہے؟ جس میں تمام گناہوں ، پاپوں اور کرپشن سے معافی مل جائے گی... اور کرپٹ حکمرانوں کو ایک بار پھر کھل کھیلنے کا موقع میسر آجائے گا۔حالانکہ وفاق اور پنجاب دونوں میں نواز شریف کی حکومت ہے پھر یہ مارچ کس کے خلاف تھا، کیا نواز شریف یہ تو نہیں چاہتے کہ انھیں ''فیس سیونگ ''یا ''محفوظ راستہ'' فراہم کردیا جائے اور آیندہ کے لیے ان کے مال و دولت پر نظر نہ رکھی جائے۔
اس مارچ کی کہانی بھی سن لیں جسے اگر میں 7اسٹار انقلاب کہوں تو بہتر ہوگا۔ 5اسٹار سہولیات سے مزین انقلابی کنٹینر کے ساتھ ایمبولینس، موبائل اسپتال، سیکڑوں گاڑیوں پر مشتمل پروٹوکول، موبائل کینٹین ، ہراول دستوں میں ایم این ایز، ایم پی ایز، بلدیاتی نمایندے، سرکاری اہلکار اور سول کپڑوں میں پولیس اہلکار بھی تھے۔
300کلومیٹر کے اس انقلابی ریلے میں کچھ اور تو بہا نہیں مگر اربوں روپے کے سرکاری فنڈز ضرور بہہ گئے حالانکہ اتنا خرچ تو ماؤزے تنگ کے 9656کلومیٹر لمبے اورایک سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والے چینی انقلاب میں نہیں ہوا تھا، اور پھر نواز شریف جب اسلام آباد سے نکلے تو انھیں خود علم نہیں تھا کہ وہ کس نظریے کے تحت اور کیوں جا رہے ہیںجب کہ ماؤ اوراس کے انقلابی جاں لیوا سفر کے لیے چین کے گیارہ صوبوں سے گزرے، ان نہتے پیدل بھوکے ننگے لوگوں نے اس ''ریلی''کے دوران 24 دریا عبور کیے، 18ایسے دشوار گزار پہاڑی سلسلوں سے بھی گزرے جن میں برفپوش پہاڑ بھی شامل تھے اور ان میں سے ایک پہاڑ کی اونچائی 16000 فٹ تھی۔اس لمبے سفر میں17تا 26میل روزانہ پیدل بھوک پیاس ہی انقلابیوں کا رخت سفر، زاد راہ تھا یا وہ لازوال بے مثال جذبہ جو صرف ماؤ جیسی محیر العقول لیڈر شپ ہی پیدا کرسکتی ہے۔
انقلاب کی منزل کے لیے نکلے 90ہزارجاں باز جن میں سے صرف 30ہزار ہی منزل کو مبارک ٹھہرے جب کہ ماؤ کے بدلے میں یہ انقلاب باقاعدہ اسپانسرڈ تھا، اور اگلی حکمت عملی میں بھی یہ انقلاب اسپانسرڈ ہی رہے گا، اور نواز شریف یوں ہی پوچھتے رہیں گے کہ ''مجھے کیوں نکالا گیا؟'' حالانکہ انھیں اس بات کا اب تک جواب مل گیا ہوگا کہ انھیں کیوں نکالا ۔ اگر نہیں علم تو وہ سارے پراجیکٹس جن میں نندی پور، قائدِاعظم سولر پلانٹ، میٹرو، اورنج ٹرین، ایل این جی، نیلم جہلم منصوبہ، صاف پانی منصوبہ، سستی روٹی، لیپ ٹاپ اسکیم، سرکلر ڈیٹ، تھری جی، فور جی لائسنسز وغیرہ سر فہرست ہیں کو ہی سامنے رکھ لیں تو دوسری رائے نہیں قائم کر سکیں گے۔
لیکن اس ملک میں ایسا کیا کیاجائے کہ جس کا ہاتھ کرپشن سے روکو وہ اپنے آپ کو ''ہیرو''سمجھنے لگتا ہے، یہ ان سیاستدانوں کی مرہون منت ہے کہ آج ملک تاریخ کے اس دوراہے پر کھڑا ہے جہاں سے لڑکھڑا کر اگر گیا تو خاکم بدہن خاکم بدہن دوبارہ اُٹھ نہیں سکے گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہی کرپٹ سیاستدان انقلاب کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں... اور پھر کہا جاتا ہے کہ یہ سیاستدان ہمارا کل اثاثہ ہیں جنہوں نے ملک کے ادارے تباہ کردیے۔ حقیقت میں ہمارے ہاں سیاست بھی کوڑھ کے مرض کی طرح اس ملک کے لیے ایک بدعا بن کر رہ گئی ہے۔اس اچھوت کے مرض کو جرمنی سے آئی ہوئی ایک فرشتہ ایک مسیحی راہبہ ڈاکٹر روتھ فاؤ نے ختم کردیا۔اُن کے ساتھ کام کرنے والی ڈاکٹر زرینہ فضل بھائی کا نام نہ لیا جائے تو زیادتی ہوگی۔
میرے خیال میں آج سیاست میں بھی جذام کا مرض شامل ہوگیا ہے جسے نکالنے کے لیے شاید باہر سے ماہرین امپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
میاں صاحب کوئی نیا آئین، کیا اب بن سکتاہے؟ ناممکن، بالکل ناممکن۔ یہ آگ سے بڑھ کر کھیل ہوگا۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آئین پاکستان 1973کو جو اسلامی اور جمہوری ہے، جو وفاقی اور پارلیمانی اور سب سے بڑھ کر اتنی لڑتی بھڑتی قوم کی متفقہ دستاویز ہے، اسے کیسے اور کون تبدیل کرسکتا ہے؟ آپ اگر تاریخ سے اتنے ہی نابلد ہیں کہ نہیں معلوم کہ آئینی بحرانوں نے پاکستان کوکتنا برباد کیا، اسے توڑا۔ بلاشبہ آپ 35 سال سے اسٹیٹس کو کی سیاست میں ہی رہے اور اب اس پر احتساب و قانون کی کاری ضرب کے پہلے متاثر ہیں۔
انقلاب تو اس نظام بد کے خلاف مطلوب ہے جو آپ نے آئین سے بالا بنایا اور چلایا۔ اب تو آئین کا نفاذ شروع ہو گیا۔ یہ ہی انقلاب ہے یہ آنہیں رہا، آگیا۔ذہن نشین رہے انقلاب کے شوق اس ملک میں بڑے بڑوںنے پالے۔یہ جمہوری و سیاسی عمل کا ملک ہے۔ اس میں رکاوٹیں الگ بات لیکن یہ قوم انقلابی ہے نہ یہاں کبھی کوئی انقلابی آیا۔ حقیقی جمہوریت کی آمد ہی انقلاب ہے۔
میاں محمد بخش کہتے ہیں کہ... لسے دا کی زور محمد... نس جانا یا رونا۔