مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا

دعاگو ہوں کہ جس گلی اور محلے میں کھیلتے کودتے ہوئے میرا بچپن گزرا تھا اس کے باسی سدا خوش اور آباد رہیں۔

میروں کے کوٹ کے اندر جس طرح علی محمد شاہ اور ہمارے گھرکے درمیان مشرقی اور شمالی سمتوں میں محض ایک ایک دیوار حائل تھی، اسی طرح ہمارے گھرکی مغربی دیوار کے اس طرف بڑے میر، مرحوم میر محمد بخش خان تالپورکی وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ہوئی حویلی تھی۔ ہمارے گھرکے صحن میں اس دیوار کے ساتھ نیم کا درخت ہوا کرتا تھا جس کے نیچے ہم اپنی گائے یا بھینس باندھا کرتے تھے۔

بچپن میں جب ہم چھپن چھپائی کھیلتے ہوئے یا ویسے ہی شرارتاً درخت پر چڑھتے تو اماں ابا سے ڈانٹ پڑتی کہ اس طرح حویلی کی بے پردگی ہوتی تھی۔ علی محمد شاہ کانا تھا، بوڑھا ہوگیا تھا مگر اس کی بیوی نسبتاً جوان تھی، نام تو اس کا پتہ نہیں کیا تھا لیکن سب اسے بی بی کہہ کے پکارتے تھے، پستہ قد اور مضبوط جسم کی عورت تھی۔ یکریو شیدی نامی مضبوط جسم کا ایک قداور شخص دن بھر ان کی ڈیوڑھی میں کلہاڑے سے جلانے کی لکڑیاں چیرتا رہتا تھا۔ بیچارا علی محمد شاہ اسے اپنا عقید تمند سمجھتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ وہ رضاکارانہ طور پر یہ خدمت انجام دیتا ہے کہ غریب ہونے کی وجہ سے وہ دوسروں کی طرح نذرانہ پیش کرنے سے قاصر تھا۔

علی محمد شاہ تعویذ گنڈے کا کام تو کرتا ہی تھا، پانی بھی پڑھ کردیتا تھا اور بیماروں، خصوصاً بچوں پر دم بھی کرتا تھا جس کے لیے علی الصبح اس کے گھر کے باہر دیہاتی عورتیں جمع ہونا شروع ہوجاتی تھیں، لیکن اس کا اصل کام جن نکالنا تھا جو وہ اپنے گھر کے صحن میں کرتا تھا۔ اگرچہ کوٹ کے باہر اس کا اوتارا (آستانہ) بھی تھا اس کی معمولات زیادہ تر نوجوان عورتیں اور لڑکیاں ہوتیں، جن پر دورانِ عمل وہ تشدد بھی کرتا تھا۔

ویسے تو ہم بلا روک ٹوک اس کے گھر چلے جاتے تھے لیکن ایسے موقعوں پر وہ گھر کا بیرونی دروازہ اندر سے بند کروا دیتا تھا اورکسی کو اندر نہیں آنے دیا جاتا تھا، یہاں تک کہ وہ جس عورت یا لڑکی کا جن نکال رہا ہوتا تھا اس کے لواحقین بھی باہر بیٹھ کر اس کی چیخیں سنا کرتے تھے، ہم بھی اپنے صحن میں چارپائی کے سہارے دیوار پر چڑھ کر تماشہ دیکھا کرتے۔ اس کام سے علی محمد شاہ کو ٹھیک ٹھاک آمدنی ہوجاتی تھی جس سے گھر چلتا تھا۔

اس کے دو بیٹے کھمن شاہ اور پوڑھو بھی تھے، کھمن شاہ بڑا اور جوان تھا لیکن باپ کی کمائی پر عیش کرتا تھا، پوڑھو شاھ اور میں ہم عمر تھے لیکن ہماری دوستی اس لیے نہ ہوسکی کہ میرا سارا دن اسکول میں گزرتا تھا اور ان کے مذہب میں بچوں کو پڑھانا شاید حرام تھا لہذا وہ کبھی بھولے سے بھی اسکول نہیں گیا۔ اتفاق سے باپ کی طرح وہ بھی کانا تھا اور اس کا سارا دن آوارہ گردی میں گزرتا تھا۔ ہم ابھی بچے ہی تھے جب اس کے بڑے بھائی کھمن شاھ کی شادی ہوئی تھی۔ اس کی بیوی جہیز میں ایک ہٹا کٹا مسٹنڈا بھائی بھی لائی تھی جو قصائی کا کام کرتا تھا۔

ہمارے محلے میں علی محمد شاھ کے گھر کے علاوہ تین چارگھر اور بھی تھے جن کے دروازے میروں کی بھینسوں کے باڑے والی گلی میں کھلتے تھے۔ ان میں پہلا گھرگلو چریو نامی ایک پاگل کا تھا جس کی بوڑھی ماں بھیک مانگ کر اپنا اور بیٹے کا پیٹ پالتی تھی۔ گلوکا ایک بھائی اور بھی تھا جو لوگوں کے گھروں میں پانی بھرا کرتا تھا، اس کو جو مزدوری ملتی تھی اس سے گھر چلتا تھا لیکن وہ زیادہ عرصہ یہ بوجھ نہ اٹھاسکا، ہمت ہار بیٹھا اور اپنے پاگل بھائی اور ماں کو چھوڑ کرکہیں چلا گیا۔

1964ء میں ٹنٹو غلام علی میں آنے والی قیامت خیزطوفانی بارش درجنوں دوسرے انسانوں اور ہزاروں مویشیوں کے ساتھ گلو چریو کے لیے بھی پیغامِ اجل لائی جس کی لاش دوسرے دن شہر سے باہر پڑی ہوئی ملی تھی۔ پاگل بیٹے کی موت نے بوڑھی ماں کو بھی جینے کے عذاب سے نجات دلا دی اور وہ جلد ہی ابدی نیند سوگئی۔ ایک عرصے تک ان کا گھر خالی پڑا رہتا تھا۔


اس کے ساتھ ملحقہ دوسرا گھر سومار ٹپالی کا تھا، کبھی ڈاکیہ یا پوسٹ مین رہا ہوگا تبھی ٹپالی کہلاتا تھا۔ افراد خانہ میں اس کی بیوی ماسی مریم، دو بیٹیاں جن میں سے ایک کا نام گلاں مجھے اب بھی یاد ہے، اور تین بیٹے شعبان، رسول بخش اور بابونی شامل تھے۔ بڑا شعبان ٹرک ڈرائیور تھا، منجھلا رسول بخش باپ کے ساتھ ملکر پان بیڑی کا کھوکھا چلاتا تھا جب کہ چھوٹا بابونی ایک عدد بیل گاڑی کا مالک تھا جو کرائے پر چلتی تھی۔ گلاں اور اس کی بڑی بہن دونوں شادی شدہ تھیں لیکن اپنے شوہروں سے ان کی بنتی نہیں تھی اس لیے باپ کے گھر میں رہتی تھیں جس نے دونوں کو الگ الگ ایک ایک کمرہ دے رکھا تھا۔

بڑی کے ساتھ خدا جانے کیا مسئلہ تھا، سارا دن اپنے کمرے میں بند رہتی اور کسی سے ملتی جلتی نہیں تھی، گلاں البتہ وکھرے قسم کی جوان اور پرکشش عورت تھی جس کے دو کمسن بیٹے بھی تھے۔ سومار کے تینوں بیٹے غیر شادی شدہ تھے جن میں سے بڑا شعبان تو جوانی ہی میں فوت ہوگیا تھا، باقی دونوں ٹنڈے سے ہمارے نقل مکانی کرنے تک اسی حال میں تھے جس کا میں اوپر ذکرکر چکا ہوں۔

ان کے گھر کے ساتھ ہی صدیق ریڈیوکی بیٹھک تھی، بوڑھا آدمی تھا، اصل شکارپور کا رہائشی تھا اور میروں کے پاس بطور منشی ملازم تھا۔ جس کسی کو میر صاحبان خصوصاً میر بندہ علی خان کوکچھ گوش گزار کرنا ہوتا وہ پہلے منشی صدیق کے پاس آتا جو اس کا مدعا سن کر عرضی لکھ کر دیتا جو سیکریٹری وکیو، منیجر خانصاحب ابراہیم یا بنگلے کے کیئر ٹیکر چاچا آچر میں سے کسی ایک کے ذریعے میر صاحب کو پیش کی جاتی تھی۔ سیکڑوں لوگوں کے راز اس کے سینے میں دفن تھے اور وہ اپنے لیے ہوئے حلف کے تحت وہ راز فاش نہ کرنے کا پابند تھا۔

شہر میں میروں کی دکانوں کا کرایہ وصول کرنا بھی اس کی ذمے داری تھی۔ اس کو ریڈیو اس لیے کہتے تھے کہ بولتا بہت تھا۔ تنہا آدمی تھا اور اپنی بیٹھک ہی میں رہتا تھا۔ تینوں وقت کا کھانا میر صاحب کی حویلی سے آتا تھا جو کوئی باندی دے جایا کرتی تھی۔ اس کے حلف کے ذکر سے یاد آیا، وہ عرضی لکھوانے کے لیے آنے والے کسی بھی آدمی سے جرح نہیں کرتا تھا کیونکہ اسے حکم تھا کہ سائل جو کہے وہ لکھ دو خواہ تم جانتے ہو کہ وہ غلط بیانی کر رہا ہے۔

صدیق ریڈیو کی بیٹھک کے بعد اس گلی کا آخری گھر جمن شاہ حلوائی کا تھا جس میں وہ اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا۔ بچے وغیرہ تھے نہیں اوپر سے پردے کی سخت پابندی نے، جو اس زمانے کے سیدوں کا طرہ امتیاز تھا، جمن شاہ کی بیوی کو عملاً قیدِ تنہائی میں رکھا ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے ان کے گھر کے صحن میں کنواں بھی تھا اور میں نے بچپن میں کئی بار اس کو ڈول اور رسی کی مدد سے اس میں سے پانی نکالتے دیکھا تھا۔

خود جمن شاھ کی کوٹ سے نکل کر شہر میں داخل ہونے والی گلی کے پہلے چؤک میں مٹھائی کی دکان ہوا کرتی تھی۔ علی الصبح گھر سے قرآن شریف پڑھنے جامع مسجد جاتے ہوئے ہم اکثر اسے کڑھائی میں پوریاں تلتے ہوئے دیکھا کرتے تھے۔ شاید مٹھائی کم بکتی تھی کہ وہ جلد ہی دکان اپنی بڑھا گیا اور وہاں ہوٹل کھل گیا جہاں منہ اندھیرے ریڈیو سیلون سے بھارتی فلمی گانے سننے کو ملتے تھے۔ جمن شاہ بیچارا پھر کبھی کبھار گھوڑے پر گندم کی بوری لادے شہر میں داخل ہوتے یا اپنے گھر جاتے ہوئے نظر آتا تھا کہ اب وہ آس پاس کے گاؤں دیہات میں مریدوں سے گدائی کرنے (نذرانہ وصول کرنے) تک محدود ہوکر رہ گیا تھا۔

گلو چریو کا گھر پہلے ہی اجڑ چکا تھا، سومار ٹپالی کے گھر میں اب شاید گلاں کے بچے رہتے ہوں، صدیق ریڈیو کا قصہ تو کب کا تمام ہو چکا ہوگا کہ آج سے کوئی 60 سال قبل، جب کا یہ ذکر ہے، وہ 85-80 سال کا عمر رسیدہ آدمی تھا۔ میروں کی بھینسوں کی تعداد اب ممکن ہے پہلے جتنی نہ رہی ہو، لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کا باڑا اپنی جگہ ضرور موجود ہوگا۔ علی محمد شاہ کی تیسری نسل میں سے کوئی جن نکالنے کا فن سیکھا یا نہیں، میں نہیں جانتا تاہم دعاگو ہوں کہ جس گلی اور محلے میں کھیلتے کودتے ہوئے میرا بچپن گزرا تھا اس کے باسی سدا خوش اور آباد رہیں۔
Load Next Story