استاد نصرت فتح علی خان کو مداحوں سے بچھڑے 20 سال بیت گئے

حکومت پاکستان نے نصرت فتح علی خان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغہ برائےحسن کارکردگی سے نوازا

نصرت فتح علی خان نے 13 اکتوبر 1948 کو فیصل آباد کے قوال گھرانے میں آنکھ کھولی۔ فوٹو: فائل

سروں کے بادشاہ اور شہنشاہ قوال استاد نصرت فتح علی خان کو مداحوں سے بچھڑے20 سال بیت گئے مگر ان کی آواز کا جادو آج بھی سرچڑھ کر بول رہا ہے۔

1948میں فیصل آباد میں معروف قوال فتح علی خان کے ہاں پیدا ہونے والے نصرت فتح علی خان قوالی اورلوک موسیقی میں اپنی پہچان آپ تھے، نصرت فتح علی خان کا پہلا تعارف خاندان کے دیگرافراد کی گائی ہوئی قوالیوں سے ہوا۔ ''حق علی مولا علی'' اور ''دم مست قلندرمست مست'' نے انہیں شناخت عطا کی۔



موسیقی میں نئی جہتوں کی وجہ سے ان کی شہرت پاکستان سے نکل کرپوری دنیا میں پھیل گئی۔ بین الاقومی سطح پر صحیح معنوں میں ان کا تخلیق کیا ہوا پہلا شاہکار 1995 میں ریلیز ہونے والی فلم''ڈیڈ مین واکنگ'' تھا جس کے بعد انہوں نے ہالی ووڈ کی ایک اور فلم ''دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ'' کی بھی موسیقی ترتیب دی۔




ہالی ووڈ کے بعد بالی ووڈ نے بھی نصرت فتح علی خان کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ انہوں نے کئی بھارتی فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔پاکستان کی حکومت نے بھی نصرت فتح علی خان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں تمغہ برائےحسن کارکردگی سے نوازا، اس کے علاوہ 1995 میں انہیں یونیسکو میوزک ایوارڈ دیا گیا جبکہ 1997 میں انہیں گریمی ایوارڈز کے لئے نامزد کیا گیا۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی جریدے ٹائم میگزین نے 2006 میں ایشین ہیروز کی فہرست میں ان کا نام بھی شامل کیا۔



نصرت فتح علی خان نے درجنوں ملکوں میں پرفارم کرکے گوروں کو بھی جھومنے پر مجبور کیا، استاد نصرت فتح علی خان کا گایا ہواکلام اورقوالی آج بھی کئی محفلوں کی جان ہے، وطن کی محبت سے سرشار استاد نصرت فتح علی خان نے کیرئیر کا آخری ملی نغمہ ''میرا ایمان پاکستان'' گایا اور شدید علالت کے باعث نصرف فتح علی خان 16اگست 1997کواس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔
Load Next Story