کہیے دل کی بات
محبت میں ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جب عشق کا فرشتہ پھولوں کے ہار لیے اس جذبے کو سراپا عشق بنا دیتا ہے۔
کائنات تخلیق کرنے والے نے اس کی بقا کا راز محبت جیسے جذبے میں پنہاں کر دیا، یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو یوں تو ہر جان دار کے اندر موجود ہے لیکن اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے اس جذبے کے تحت اپنی زندگی کے اس سفر کو نہ صرف خوب صورت اور سہل بناتا ہے بلکہ یہی وہ جذبہ ہے جو بنی نوع انسان میں قربت اور تعاون کی بنیاد بنتا ہے۔
محبت کی اقسام یوں تو بہت ہیں لیکن وہ ساری محبتیں کچھ رشتوں اور تعلقات کے ناتے انسان کے اندر ودیعت ہوئی ہیں جب کہ محبت کا ایک جذبہ ایسا ہے جس کا رنگ سب سے نمایاں اور ذایقہ سب سے الگ ہے۔ محبت کی اس قسم کی تاریخ اتنی پرانی ہے جتنا کہ خود انسان کی، اور اس کی اہمیت اتنی ہے کہ جتنا کہ زندگی کے لیے ضروری چیزوں کی۔
ادراک کی نگاہوں سے جب کائنات پر غور و خوص کریں تو ہر چیز ایک جذبے کی دوڑ میں بندھی دکھائی دے گی، ایک خاص محبت میں لپٹی نظر آئی، پھول پر غور کریں تو وہ اپنی خوش بو کے فراق مین ڈوبا نظر آئے گا، چاند پر نگاہ کریں تو وہ اپنی چاندنی کے لیے دیوانا دکھائی دے گا، کرنیں اپنے اجالے پر فدا ہیں۔ غرض کہ دریا، پہاڑ، سمندر، ندی کنارے آسمان اس میں ڈوبے محسوس ہوں گے۔
یہ اس جذبہ کی حقانیت اور اہمیت ہی تو ہے کہ ہم اس جذبے کے بغیر ادب کا شاید تصور بھی نہیں کرسکتے۔ مختلف دانش وروں نے جذبہ محبت کو اپنے اپنے طور پر بیان کیا ہے کسی کا کہنا ہے کہ محبت ایک آفاقی جذبہ ہے جو قدرت کی جانب سے ہمارے دلوں مین اترتا ہے اور سب کچھ مسخر کرلیتا ہے بعض یہ کہتے ہیں کہ ''محبت بے خودی کا جذبہ ہے اس میں ارادہ کا عمل دخل نہیں محبت ہوتی نہیں ہوجاتی ہے۔'' کچھ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ''محبت اندھی ہوتی ہے مگر اس کی آنکھیں بڑی خوب صورت ہیں۔'' غرض کہ اس لافانی جذبے کو جتنا جاننے سمجھنے کی کوشش کی یہ پیاز کی پرت کی مانند نئے رنگ نئے انداز میں سامنے آتی چلی گئی اور ہر رنگ پہلے سے کہیں بڑھ کر خوب صورت و دل کش نظر آتا گیا۔ یہ جذبہ محبت امر ہے جو دلوں میں اترکر ہماری روح میں حلول کر جاتا ہے۔ ہم انسان تو تہہ خاک ہو جاتے ہیں مگر یہ جذبہ کبھی نہیں مرتا ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ شاید جب ہم قبروں میں جا سوتے ہیں تو محبت ہمارے سرہانے بیٹھی جاگ رہی ہوتی ہے۔ ہم بنا محبت کے نہ جی سکتے ہیں نہ ہی مر سکتے ہیں۔
کچھ ناقدین کے نزدیک محبت ایک نفسیاتی مسئلہ ہے اچانک کوئی ہمارے دل پر قابض ہوکر ہم سے ہماری ذات چھین کر خود ہم پر قابض ہو جائے اور ہم بہ خوشی اس قبضے پر راضی ہو جائیں، محبت میں ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جب عشق کا فرشتہ پھولوں کے ہار لیے اس جذبے کو سراپا عشق بنا دیتا ہے اور یہیں سے انسان اپنی محبت کے آگے بے خودی کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتاہے اور سوہنی ماہیوال، ہیر رانجھے، سسی پنوں، شیریں فرہاد اور لیلیٰ مجنوں کی کہانیاں وجود میں آتی ہیں۔ جب عشق گلی گلی دیوانہ بناکر اپنے غلام کو نچاتا ہے تو عاشق اپنے محبوب کے لیے دودھ کی نہر نکال لیتا ہے اور پگلی دیوانی عشق میں ڈوبی وہ جھلی کچا گھڑا ہاتھوں میں تھام کر اپنے دیوانے سے ملنے کی لگن میں دریا میں کود پڑتی ہے، یوں عشق مجازی کی مثالیں بن جاتی ہیں اور ہم ان مثالوں کو اپنی آنکھوں سے لگا کر اپنے لبوں سے چوم کر ان لازوال اور انمول محبتوں کو ہمیشہ اپنے دلوں میں زندہ رکھتے ہیں۔
محبت وعشق کے جال سے رہائی ممکن نہیں،کسی نے کہا جا خدا کرے تجھے کسی سے محبت ہو جائے اس نے سٹپٹا کر کہا ''یہ خوب صورت بددعا ہے اور بے ساختہ لب بول اٹھے ہاں مجھے بھی محبت کی شیرنی چکھ لینے دو اس کا ذایقہ میں بھی چکھوں کہ جس کے لمس کو چھوکر اس کے جام کو پی کر انسان مست ہو جاتا ہے آنکھیں سونے کے باوجود اندھا ہو جاتا ہے اپنی ہستی بھلا کر دوسرے کی ذات کو خود میں جذب کر لیتا ہے، یہ محبت کے ہی معجزے ہیں جو ادنا سے انسان کو کسی کی نگاہ میں عرش معلیٰ میں بٹھا دیتا ہے اور انسان خالی ہاتھ ہونے کے باوجود خود کو دنیا کا خوش نصیب ترین انسان سمجھ کر خود پر نازاں ہوتا ہے کہ وہ سوغات محبت سے مالا مال اعزاز عشق کا مالک ہے، جو بہت کم لوگوں کی تقدیر میں ہوتا ہے کیوں کہ محبت بہت نایاب و انمول ہے جو ہر کسی کو اپنا فیض نہیں بخشتی محبت کی دیوی جس پر مہربان ہوکر خود کو اس پر نچھاور کر بیٹھی سمجھو وہ سب کچھ پاگیا۔
محبت کی سوغاتیں ہر محبوب بڑی عقیدت سے اپنے دل سے لگائے محبت سے حرف شکایت بھی ادا نہیں کرتا کیوں محبت تو عطیہ خداوندی ہے، محبت کی مہک چھپائے نہ چھپے اور جذبہ محبت دبائے نہ دبے محبت کا جگنو جب آنکھوں کے رستے دل میں اترتا ہے تو وجود ہر نس میں اپنی روشنی کو بھر دیتا ہے جب زبان خاموش ہوتی ہے تو محبت بولتی ہے گفتگو کرتی ہے، مگر محبت لفظوں سے محبت کرتی ہے اور لفظ محبت کی آکسیجن ہے جس کے بغیر محبت گھٹ کر رہ جاتی ہے اور بالآخر خاموش محبت کے رنگ پھیکے پڑکر اپنی روشنی کو کھودیتے ہیں ۔
محبت اظہار پاکر جھوم اٹھتی ہے سرمستی میں ڈوب کر محو رقص ہوجاتی ہے۔ محبت کے جذبے کو چھپاکر، دباکر رکھنا اس کے ساتھ نا انصافی ہے۔ محبت کا اظہار محبوب سے کردینا ہی محبت کی معراج ہے۔
محبت کی اقسام یوں تو بہت ہیں لیکن وہ ساری محبتیں کچھ رشتوں اور تعلقات کے ناتے انسان کے اندر ودیعت ہوئی ہیں جب کہ محبت کا ایک جذبہ ایسا ہے جس کا رنگ سب سے نمایاں اور ذایقہ سب سے الگ ہے۔ محبت کی اس قسم کی تاریخ اتنی پرانی ہے جتنا کہ خود انسان کی، اور اس کی اہمیت اتنی ہے کہ جتنا کہ زندگی کے لیے ضروری چیزوں کی۔
ادراک کی نگاہوں سے جب کائنات پر غور و خوص کریں تو ہر چیز ایک جذبے کی دوڑ میں بندھی دکھائی دے گی، ایک خاص محبت میں لپٹی نظر آئی، پھول پر غور کریں تو وہ اپنی خوش بو کے فراق مین ڈوبا نظر آئے گا، چاند پر نگاہ کریں تو وہ اپنی چاندنی کے لیے دیوانا دکھائی دے گا، کرنیں اپنے اجالے پر فدا ہیں۔ غرض کہ دریا، پہاڑ، سمندر، ندی کنارے آسمان اس میں ڈوبے محسوس ہوں گے۔
یہ اس جذبہ کی حقانیت اور اہمیت ہی تو ہے کہ ہم اس جذبے کے بغیر ادب کا شاید تصور بھی نہیں کرسکتے۔ مختلف دانش وروں نے جذبہ محبت کو اپنے اپنے طور پر بیان کیا ہے کسی کا کہنا ہے کہ محبت ایک آفاقی جذبہ ہے جو قدرت کی جانب سے ہمارے دلوں مین اترتا ہے اور سب کچھ مسخر کرلیتا ہے بعض یہ کہتے ہیں کہ ''محبت بے خودی کا جذبہ ہے اس میں ارادہ کا عمل دخل نہیں محبت ہوتی نہیں ہوجاتی ہے۔'' کچھ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ''محبت اندھی ہوتی ہے مگر اس کی آنکھیں بڑی خوب صورت ہیں۔'' غرض کہ اس لافانی جذبے کو جتنا جاننے سمجھنے کی کوشش کی یہ پیاز کی پرت کی مانند نئے رنگ نئے انداز میں سامنے آتی چلی گئی اور ہر رنگ پہلے سے کہیں بڑھ کر خوب صورت و دل کش نظر آتا گیا۔ یہ جذبہ محبت امر ہے جو دلوں میں اترکر ہماری روح میں حلول کر جاتا ہے۔ ہم انسان تو تہہ خاک ہو جاتے ہیں مگر یہ جذبہ کبھی نہیں مرتا ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ شاید جب ہم قبروں میں جا سوتے ہیں تو محبت ہمارے سرہانے بیٹھی جاگ رہی ہوتی ہے۔ ہم بنا محبت کے نہ جی سکتے ہیں نہ ہی مر سکتے ہیں۔
کچھ ناقدین کے نزدیک محبت ایک نفسیاتی مسئلہ ہے اچانک کوئی ہمارے دل پر قابض ہوکر ہم سے ہماری ذات چھین کر خود ہم پر قابض ہو جائے اور ہم بہ خوشی اس قبضے پر راضی ہو جائیں، محبت میں ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جب عشق کا فرشتہ پھولوں کے ہار لیے اس جذبے کو سراپا عشق بنا دیتا ہے اور یہیں سے انسان اپنی محبت کے آگے بے خودی کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتاہے اور سوہنی ماہیوال، ہیر رانجھے، سسی پنوں، شیریں فرہاد اور لیلیٰ مجنوں کی کہانیاں وجود میں آتی ہیں۔ جب عشق گلی گلی دیوانہ بناکر اپنے غلام کو نچاتا ہے تو عاشق اپنے محبوب کے لیے دودھ کی نہر نکال لیتا ہے اور پگلی دیوانی عشق میں ڈوبی وہ جھلی کچا گھڑا ہاتھوں میں تھام کر اپنے دیوانے سے ملنے کی لگن میں دریا میں کود پڑتی ہے، یوں عشق مجازی کی مثالیں بن جاتی ہیں اور ہم ان مثالوں کو اپنی آنکھوں سے لگا کر اپنے لبوں سے چوم کر ان لازوال اور انمول محبتوں کو ہمیشہ اپنے دلوں میں زندہ رکھتے ہیں۔
محبت وعشق کے جال سے رہائی ممکن نہیں،کسی نے کہا جا خدا کرے تجھے کسی سے محبت ہو جائے اس نے سٹپٹا کر کہا ''یہ خوب صورت بددعا ہے اور بے ساختہ لب بول اٹھے ہاں مجھے بھی محبت کی شیرنی چکھ لینے دو اس کا ذایقہ میں بھی چکھوں کہ جس کے لمس کو چھوکر اس کے جام کو پی کر انسان مست ہو جاتا ہے آنکھیں سونے کے باوجود اندھا ہو جاتا ہے اپنی ہستی بھلا کر دوسرے کی ذات کو خود میں جذب کر لیتا ہے، یہ محبت کے ہی معجزے ہیں جو ادنا سے انسان کو کسی کی نگاہ میں عرش معلیٰ میں بٹھا دیتا ہے اور انسان خالی ہاتھ ہونے کے باوجود خود کو دنیا کا خوش نصیب ترین انسان سمجھ کر خود پر نازاں ہوتا ہے کہ وہ سوغات محبت سے مالا مال اعزاز عشق کا مالک ہے، جو بہت کم لوگوں کی تقدیر میں ہوتا ہے کیوں کہ محبت بہت نایاب و انمول ہے جو ہر کسی کو اپنا فیض نہیں بخشتی محبت کی دیوی جس پر مہربان ہوکر خود کو اس پر نچھاور کر بیٹھی سمجھو وہ سب کچھ پاگیا۔
محبت کی سوغاتیں ہر محبوب بڑی عقیدت سے اپنے دل سے لگائے محبت سے حرف شکایت بھی ادا نہیں کرتا کیوں محبت تو عطیہ خداوندی ہے، محبت کی مہک چھپائے نہ چھپے اور جذبہ محبت دبائے نہ دبے محبت کا جگنو جب آنکھوں کے رستے دل میں اترتا ہے تو وجود ہر نس میں اپنی روشنی کو بھر دیتا ہے جب زبان خاموش ہوتی ہے تو محبت بولتی ہے گفتگو کرتی ہے، مگر محبت لفظوں سے محبت کرتی ہے اور لفظ محبت کی آکسیجن ہے جس کے بغیر محبت گھٹ کر رہ جاتی ہے اور بالآخر خاموش محبت کے رنگ پھیکے پڑکر اپنی روشنی کو کھودیتے ہیں ۔
محبت اظہار پاکر جھوم اٹھتی ہے سرمستی میں ڈوب کر محو رقص ہوجاتی ہے۔ محبت کے جذبے کو چھپاکر، دباکر رکھنا اس کے ساتھ نا انصافی ہے۔ محبت کا اظہار محبوب سے کردینا ہی محبت کی معراج ہے۔