فیکٹری آتشزدگی نا قابل شناخت افراد کی تدفین کی اجازت دی جائے اہل خانہ
پیاروں کی لاشیں دیدی جائیں تاکہ مذہبی رسومات ادا کرسکیں،لواحقین نے حلف نامے داخل کردیے ،عدالت نے نوٹس جاری کردیا
سانحہ بلدیہ گارمنٹس فیکٹری میں ہلاک شدگان کے20 سے زائد ورثا نے تاحال شناخت نہ ہونے والے اپنے پیاروں کی لاشیں دفنانے اور انکی نماز جنازہ ادا کرنے کے لیے سندھ ہائیکورٹ میں درخواستیں دائر کردیں۔
جن میں موقف اختیارکیا گیا ہے کہ11ستمبر 2012 کو ہونیوالے حادثے میں انکے رشتے دار ہلاک ہوگئے تھے لیکن اب سانحے کو کئی ماہ گزر جانے کے باوجود لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ نہیں ہوسکے اور لاشیں ورثا کے حوالے نہیں کی گئیں جس کی وجہ سے انکی تدفین نہیں ہوسکی اور نماز جنازہ بھی ادا نہیں کرسکے،درخواست گزاروں نے ہائیکورٹ میں حلف نامے داخل کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ اس صورتحال میں اس امر پر راضی ہوچکے ہیں کہ ان کے پیاروں کی اجتماعی نماز جنازہ اور تدفین کردی جائے۔
اس لیے انھیں فیکٹری آتشزدگی کے مقدمے میں فریق بننے کی اجازت دی جائے اور انھیں اپنے پیاروں کی لاشیں دیدی جائیں تاکہ وہ مذہبی رسومات ادا کرسکیں،جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے پائلر، فیکٹری مالکان اور دیگر فریقین کو15فروری کیلیے نوٹس جاری کردیے۔
رشتے داروں کی باقیات مانگنے والوںمیں دہلی کالونی بلدیہ ٹائون کے مرحوم شرجیل کے بھائی خرم ،عبداللہ کے والد نظیف شاہ،محمد حنیف کے بیٹے محمد شریف ، محمد اکمل کی بیوہ شاہدہ پروین ، ریاض احمد کی بیوہ مسمات نازیہ خاتون ، اروبا خاتون کی بیٹی ثمینہ جاوید،شفیق کے بھائی سہیل ، مسمات رباب اور سمیرا صبا کے والد عظمت علی ،منور شاہ کا بیٹا محمود شاہ ، محمد جمیل کے بھائی محمد وسیم ،عبدالمتین کے بیٹے عدیل خان ، عیسیٰ کے کزن کمال الدین ،ایلزبتھ کی والدہ سعیدہ منور جارج،دلاور حسین کے والد آصف عزیز، شمشاد علی کی اہلیہ رفیق النسا، غلام محمد کے بیٹے محمد طفیل ، عبدالجبار کے والد عبدالحفیظ،محمد جمیل کے والد محمد دانش،شمس الاسلام کے والد شفیق الاسلام اور زینب کے بھائی محمد جاوید شامل ہیں، درخواست میں موقف اختیارکیاگیاہے کہ وہ غریب ، بے بس شہری ہیں۔
انھوں نے اپنی بساط کے مطابق اپنے پیاروں کی شناخت کے لیے ہرممکن اقدام کیا، لیکن شناخت کا ایک ہی طریقہ ڈی این اے ٹیسٹ ہے جو ان کی پہنچ سے دور ہے ، اسلیے ان کے پیاروں کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کے عمل کا انتظارکرنے کے بجائے ہلاک شدگان کی باقیات ان کے حوالے کردی جائیں۔
جن میں موقف اختیارکیا گیا ہے کہ11ستمبر 2012 کو ہونیوالے حادثے میں انکے رشتے دار ہلاک ہوگئے تھے لیکن اب سانحے کو کئی ماہ گزر جانے کے باوجود لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ نہیں ہوسکے اور لاشیں ورثا کے حوالے نہیں کی گئیں جس کی وجہ سے انکی تدفین نہیں ہوسکی اور نماز جنازہ بھی ادا نہیں کرسکے،درخواست گزاروں نے ہائیکورٹ میں حلف نامے داخل کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ اس صورتحال میں اس امر پر راضی ہوچکے ہیں کہ ان کے پیاروں کی اجتماعی نماز جنازہ اور تدفین کردی جائے۔
اس لیے انھیں فیکٹری آتشزدگی کے مقدمے میں فریق بننے کی اجازت دی جائے اور انھیں اپنے پیاروں کی لاشیں دیدی جائیں تاکہ وہ مذہبی رسومات ادا کرسکیں،جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے پائلر، فیکٹری مالکان اور دیگر فریقین کو15فروری کیلیے نوٹس جاری کردیے۔
رشتے داروں کی باقیات مانگنے والوںمیں دہلی کالونی بلدیہ ٹائون کے مرحوم شرجیل کے بھائی خرم ،عبداللہ کے والد نظیف شاہ،محمد حنیف کے بیٹے محمد شریف ، محمد اکمل کی بیوہ شاہدہ پروین ، ریاض احمد کی بیوہ مسمات نازیہ خاتون ، اروبا خاتون کی بیٹی ثمینہ جاوید،شفیق کے بھائی سہیل ، مسمات رباب اور سمیرا صبا کے والد عظمت علی ،منور شاہ کا بیٹا محمود شاہ ، محمد جمیل کے بھائی محمد وسیم ،عبدالمتین کے بیٹے عدیل خان ، عیسیٰ کے کزن کمال الدین ،ایلزبتھ کی والدہ سعیدہ منور جارج،دلاور حسین کے والد آصف عزیز، شمشاد علی کی اہلیہ رفیق النسا، غلام محمد کے بیٹے محمد طفیل ، عبدالجبار کے والد عبدالحفیظ،محمد جمیل کے والد محمد دانش،شمس الاسلام کے والد شفیق الاسلام اور زینب کے بھائی محمد جاوید شامل ہیں، درخواست میں موقف اختیارکیاگیاہے کہ وہ غریب ، بے بس شہری ہیں۔
انھوں نے اپنی بساط کے مطابق اپنے پیاروں کی شناخت کے لیے ہرممکن اقدام کیا، لیکن شناخت کا ایک ہی طریقہ ڈی این اے ٹیسٹ ہے جو ان کی پہنچ سے دور ہے ، اسلیے ان کے پیاروں کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کے عمل کا انتظارکرنے کے بجائے ہلاک شدگان کی باقیات ان کے حوالے کردی جائیں۔