تفریح کا اہم ذریعہ ریڈیو
1920ء کی دہائی میں مارکونی کی ایجاد ریڈیوکو کمرشل ازم کی شکل دے دی گئی
گو کہ عصرِ حاضر میں دنیا میں پیغام رسانی کے کئی ایک ذرایع موجود ہیں جن میں TV، ڈیجیٹل فون، موبائل فون، کمپیوٹر، وائرلیس سیٹ وغیرہ وغیرہ مگر پیغام رسانی کا ایک اور ذریعہ بھی ہے جس کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے اور وہ ہے ریڈیو، قبل اس کے کہ ہم ریڈیو کی افادیت و اہمیت پر بات کریں مناسب ہو گا کہ ریڈیوکے موجد مارکونی کی شخصیت پر تھوڑی بات کر لیں۔
مارکونی جس کا پورا نام گگیلمو مارکونی تھا نے 20 اپریل 1876ء کو اٹلی کے شہر پولوگنا میں جنم لیا، مارکونی نے جس گھرانے میں جنم لیا وہ گھرانہ کافی آسودہ حال گھرانہ تھا۔ مارکونی نے جب شعورکی دنیا میں قدم رکھا تو اس نے اس چیز پر غوروفکر کرنا شروع کر دیا کہ پیغام رسانی کے ذرایع کو آسان سے آسان تر بنایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں وہ ایک سے ایک تجربے کرتا رہا اور 1895ء میں وہ فقط 19 برس کی عمر میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا یعنی اس نے پیغام رسانی کا جدید ترین طریقہ ایجاد کر لیا جب کہ 1896ء میں اس نے اپنی اس ایجاد کا عملی مظاہرہ بھی کر دکھایا۔ جب کہ 1898ء میں مارکونی نے پیغام رسانی کا باقاعدہ سلسلہ شروع کر دیا۔ البتہ 1901ء میں مارکونی 30 برس کی عمر میں اپنی ایجاد یعنی پیغام رسانی کے ذریعے کو ریڈیو کی شکل دینے میں کامیاب ہو گیا، چنانچہ مارکونی کی ایجاد ہی کا کمال تھا کہ 1909ء میں غرق ہوتے ہوئے ایک بحری جہاز کے بہت سارے مسافروں کو پیغام رسانی کا ذریعہ استعمال کرتے ہوئے بچا لیا گیا۔
1910ء وہ برس تھا جب آئر لینڈ سے ارجنٹائن تک مارکونی کی ایجاد کی مدد سے پیغام رسانی کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔ جب کہ آئر لینڈ سے ارجنٹائن کا درمیانی فاصلے ہے چھ ہزار میل یعنی نو ہزارکلو میٹر البتہ 1920ء کی دہائی میں مارکونی کی ایجاد ریڈیوکو کمرشل ازم کی شکل دے دی گئی اور ریڈیو کا استعمال تجارتی بنیادوں پر ہونے لگا اور اس کے بعد پیغام رسانی کا یہ ذریعہ یعنی ریڈیو دنیا بھر میں عام ہونے لگا۔ البتہ یہ ریڈیو ہی کی ایجاد تھی جس سے استفادہ کرتے ہوئے دیگر پیغام رسانی کے ذرایع تلاش کیے گئے جن میں سر فہرست ٹیلی ویژن ہے۔
جب کہ وائرلیس سیٹ، ٹیلی فون، موبائل فون، انٹرنیٹ وغیرہ بھی ہیں۔ چنانچہ 1909ء وہ برس تھا جب مارکونی کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے اسے گولڈ میڈل سے نوازا گیا جب کہ اس وقت ماکونی کی عمر عزیز فقط 33 برس تھی۔ جب کہ 20 جولائی 1937ء کو مارکونی نے 61 برس اور ٹھیک تین ماہ کی عمر میں وفات پائی۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا ریڈیو 1920ء کی دہائی میں کمرشل ازم کی بنیادوں پر عام ہونا شروع ہو چکا تھا۔ البتہ ریڈیو کی حقیقی افادیت دوسری عالمگیر جنگ کے دوران سامنے آئی۔
یہ وہ دور تھا جب برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن یعنی ( BB) دنیا بھر میں سنا جانے لگا، بالخصوص ایشیائی ممالک میں جب کہ اسی دور میں ریڈیو سیلون کی نشریات بھی سامعین کی توجہ کا مرکز رہیں جب کہ اسی دور میں ایک ایک ریڈیو اسٹیشن موجودہ ویت نام کے مقام پر قائم کیا گیا اس ریڈیو اسٹیشن کی نشریات بالخصوص انڈین لوگوں کے لیے نشر کی جاتی تھیں اس ریڈیو اسٹیشن کو چلانے والے انڈین آرمی کے باغی و نامور آزادی پسند رہنما سبھاش چندر بوس کے قریبی ساتھی احسان قادر تھے۔ اس ریڈیو کی نشریات سے سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج کی سرگرمیوں کی روئیداد بیان کی جاتی۔ اس ریڈیو کی نشریات کوئی تین برس یعنی 1942ء سے 1945ء تک جاری رہیں تاوقتیکہ سبھاش چندر بوس 18 اگست 1945ء کو ایک فضائی حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔
ہماری محدود ترین معلومات یہ ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت موجودہ پاکستان میں دو ریڈیو اسٹیشن تھے۔ ریڈیو پاکستان لاہور و ریڈیو پاکستان پشاور اور ریڈیو پاکستان کے اولین اناؤنسر تھے مصطفی علی ہمدانی جن کی آواز 13 و 14 کی درمیانی شب ریڈیو پاکستان لاہور سے اس طرح سننے والوں کی سماعتوں سے ٹکرائی کہ یہ ریڈیو پاکستان لاہور ہے۔ اس طرح مصطفی علی ہمدانی ریڈیو پاکستان کے اولین اناؤنسر قرار پائے۔ آغاز میں ریڈیو پاکستان کی نشریات کا دورانیہ و دائرہ محدود تھا۔ البتہ یہ دائرۂ کار وسعت اختیار کرتا گیا۔ جب کہ ریڈیو پاکستان کراچی کا آغاز 1950ء کو ہوا یہی شنید ہے جو لوگ ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوتے گئے ان میں ذوالفقار علی بخاری المعروفZ.H بخاری، محمدعلی، مصطفی قریشی، روبینہ بدر، عرش منیر، قاضی واجد، محمود علی، حمایت علی شاعر یہ حیدرآباد دکن، اورنگ آباد سے بھی تقسیم سے قبل منسلک رہے تھے۔
طلعت حسین، راشد محمود، موہنی حمیدہ یہ خاتون ریڈیو لاہور سے بچوں کا پروگرام بچوں کی دنیا پیش کرتی تھیں۔ شمیم آپا کے نام سے بعد ازاں شادی کے بندھن میں بندھیں اور امریکا منتقل ہو گئیں۔ الطاف الرحمن، محسن علی، محمد تقی، ارشاد حسین کاظمی، حسن کاظمی، نائلہ جعفری، ثمینہ جعفری، صادق السلام، سیدہ نازکاظمی، علی حسن ساجد ان صاحب نے 28 فروری 1989ء کو 14 منٹ دورانیہ کا ہمارا انٹرویو ریڈیو پاکستان کراچی سے نشر کیا تھا یہ صحافت سے بھی وابستہ ہیں اور بچوں کے لیے میگزین نکالتے ہیں۔ عبیدہ انصاری، چوہدری سلطان المعروف نظام دین، حامد رانا، زاہدہ خان، ضیا محی الدین، راحت کاظمی، ساحرہ کاظمی، عظیم سرور، اطہر شاہ خان، عبدالحکیم، عشرت ہاشمی، عظمت انصاری، اشفاق احمد، مرینہ احمد،جمشید انصاری قیام پاکستان کے بعد ایک عرصے تک ریڈیو تفریح و معلومات کا بہترین ذریعہ رہا۔ حامد میاں کے ہاں اور تلقین شاہ وغیرہ طویل سلسلے تک ریڈیو سے نشر ہوتے رہے۔ ڈرامے، فلمیں وغیرہ گیت گیتوں بھری کہانیاں نئی فلموں کیے تعارفی پروگرام، مختلف اوقات میں نشر ہوتے رہتے۔
یکم جنوری 1987ء کو ریڈیو پاکستان سے نئی طرز کی نشریات کا آغاز ہو۔ اس کے تحت ہر ایک گھنٹے کے بعد صدا کار و پروڈیوسر آتے اور اپنا پروگرام پیش کرتے۔ یہ سلسلہ 16 مارچ 1989ء کو ختم کر دیا گیا۔ یوں بھی نئی طرز نشریات میں حکومتی پروپیگنڈا کثرت سے پیش کیا جاتا جیسے کہ وزیراعظم جونیجو کے پانچ نکاتی پروگرام پر گفتگو اس قسم کا طرز عمل سامعین کو ریڈیو سے دور کرتا چلا گیا البتہ FM ریڈیو کے کافی تعداد میں چینل سامنے آئے اور نئے نئے صداکار بھی ان میں ایک نمایاں نام مظفر احمد بھی ہے۔
یہ ایک ادبی شخصیت بھی ہیں ان کی ادبی جھلک ان کی گفتگو میں بھی نمایاں ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ریڈیو صداکاروں کی گفتگو سن کر ہم جیسے غیر اردو ان صداکاروں کی گفتگو سے اپنا اردو تلفظ ٹھیک کیا کرتے تھے۔ اب کیفیت یہ ہے گو کہ ریڈیو پروگرام اردو میں نشر ہوتے ہیں، مگر صداکار گفتگو میں کثرت سے انگریزی زبان کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ البتہ صداکار مظفر احمد جیسے لوگ ان حالات میں ایک مثال ہیں۔ بہرکیف عصرِ حاضر میں بھی کثیر تعداد میں لوگ ریڈیو سنتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ریڈیو کی افادیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ریڈیو سے تفریح کے ساتھ ساتھ سماجی اصلاح کا کام بھی لیا جائے۔ تعلیمی و معلوماتی پروگرام بھی نشر کیے جا سکتے ہیں۔ قانونی مشورے بھی عوام الناس کو دیے جا سکتے ہیں۔ طبعی مسائل پر بھی معلومات فراہم کی جا سکتی ہیں۔
مارکونی جس کا پورا نام گگیلمو مارکونی تھا نے 20 اپریل 1876ء کو اٹلی کے شہر پولوگنا میں جنم لیا، مارکونی نے جس گھرانے میں جنم لیا وہ گھرانہ کافی آسودہ حال گھرانہ تھا۔ مارکونی نے جب شعورکی دنیا میں قدم رکھا تو اس نے اس چیز پر غوروفکر کرنا شروع کر دیا کہ پیغام رسانی کے ذرایع کو آسان سے آسان تر بنایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں وہ ایک سے ایک تجربے کرتا رہا اور 1895ء میں وہ فقط 19 برس کی عمر میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا یعنی اس نے پیغام رسانی کا جدید ترین طریقہ ایجاد کر لیا جب کہ 1896ء میں اس نے اپنی اس ایجاد کا عملی مظاہرہ بھی کر دکھایا۔ جب کہ 1898ء میں مارکونی نے پیغام رسانی کا باقاعدہ سلسلہ شروع کر دیا۔ البتہ 1901ء میں مارکونی 30 برس کی عمر میں اپنی ایجاد یعنی پیغام رسانی کے ذریعے کو ریڈیو کی شکل دینے میں کامیاب ہو گیا، چنانچہ مارکونی کی ایجاد ہی کا کمال تھا کہ 1909ء میں غرق ہوتے ہوئے ایک بحری جہاز کے بہت سارے مسافروں کو پیغام رسانی کا ذریعہ استعمال کرتے ہوئے بچا لیا گیا۔
1910ء وہ برس تھا جب آئر لینڈ سے ارجنٹائن تک مارکونی کی ایجاد کی مدد سے پیغام رسانی کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔ جب کہ آئر لینڈ سے ارجنٹائن کا درمیانی فاصلے ہے چھ ہزار میل یعنی نو ہزارکلو میٹر البتہ 1920ء کی دہائی میں مارکونی کی ایجاد ریڈیوکو کمرشل ازم کی شکل دے دی گئی اور ریڈیو کا استعمال تجارتی بنیادوں پر ہونے لگا اور اس کے بعد پیغام رسانی کا یہ ذریعہ یعنی ریڈیو دنیا بھر میں عام ہونے لگا۔ البتہ یہ ریڈیو ہی کی ایجاد تھی جس سے استفادہ کرتے ہوئے دیگر پیغام رسانی کے ذرایع تلاش کیے گئے جن میں سر فہرست ٹیلی ویژن ہے۔
جب کہ وائرلیس سیٹ، ٹیلی فون، موبائل فون، انٹرنیٹ وغیرہ بھی ہیں۔ چنانچہ 1909ء وہ برس تھا جب مارکونی کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے اسے گولڈ میڈل سے نوازا گیا جب کہ اس وقت ماکونی کی عمر عزیز فقط 33 برس تھی۔ جب کہ 20 جولائی 1937ء کو مارکونی نے 61 برس اور ٹھیک تین ماہ کی عمر میں وفات پائی۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا ریڈیو 1920ء کی دہائی میں کمرشل ازم کی بنیادوں پر عام ہونا شروع ہو چکا تھا۔ البتہ ریڈیو کی حقیقی افادیت دوسری عالمگیر جنگ کے دوران سامنے آئی۔
یہ وہ دور تھا جب برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن یعنی ( BB) دنیا بھر میں سنا جانے لگا، بالخصوص ایشیائی ممالک میں جب کہ اسی دور میں ریڈیو سیلون کی نشریات بھی سامعین کی توجہ کا مرکز رہیں جب کہ اسی دور میں ایک ایک ریڈیو اسٹیشن موجودہ ویت نام کے مقام پر قائم کیا گیا اس ریڈیو اسٹیشن کی نشریات بالخصوص انڈین لوگوں کے لیے نشر کی جاتی تھیں اس ریڈیو اسٹیشن کو چلانے والے انڈین آرمی کے باغی و نامور آزادی پسند رہنما سبھاش چندر بوس کے قریبی ساتھی احسان قادر تھے۔ اس ریڈیو کی نشریات سے سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج کی سرگرمیوں کی روئیداد بیان کی جاتی۔ اس ریڈیو کی نشریات کوئی تین برس یعنی 1942ء سے 1945ء تک جاری رہیں تاوقتیکہ سبھاش چندر بوس 18 اگست 1945ء کو ایک فضائی حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔
ہماری محدود ترین معلومات یہ ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت موجودہ پاکستان میں دو ریڈیو اسٹیشن تھے۔ ریڈیو پاکستان لاہور و ریڈیو پاکستان پشاور اور ریڈیو پاکستان کے اولین اناؤنسر تھے مصطفی علی ہمدانی جن کی آواز 13 و 14 کی درمیانی شب ریڈیو پاکستان لاہور سے اس طرح سننے والوں کی سماعتوں سے ٹکرائی کہ یہ ریڈیو پاکستان لاہور ہے۔ اس طرح مصطفی علی ہمدانی ریڈیو پاکستان کے اولین اناؤنسر قرار پائے۔ آغاز میں ریڈیو پاکستان کی نشریات کا دورانیہ و دائرہ محدود تھا۔ البتہ یہ دائرۂ کار وسعت اختیار کرتا گیا۔ جب کہ ریڈیو پاکستان کراچی کا آغاز 1950ء کو ہوا یہی شنید ہے جو لوگ ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوتے گئے ان میں ذوالفقار علی بخاری المعروفZ.H بخاری، محمدعلی، مصطفی قریشی، روبینہ بدر، عرش منیر، قاضی واجد، محمود علی، حمایت علی شاعر یہ حیدرآباد دکن، اورنگ آباد سے بھی تقسیم سے قبل منسلک رہے تھے۔
طلعت حسین، راشد محمود، موہنی حمیدہ یہ خاتون ریڈیو لاہور سے بچوں کا پروگرام بچوں کی دنیا پیش کرتی تھیں۔ شمیم آپا کے نام سے بعد ازاں شادی کے بندھن میں بندھیں اور امریکا منتقل ہو گئیں۔ الطاف الرحمن، محسن علی، محمد تقی، ارشاد حسین کاظمی، حسن کاظمی، نائلہ جعفری، ثمینہ جعفری، صادق السلام، سیدہ نازکاظمی، علی حسن ساجد ان صاحب نے 28 فروری 1989ء کو 14 منٹ دورانیہ کا ہمارا انٹرویو ریڈیو پاکستان کراچی سے نشر کیا تھا یہ صحافت سے بھی وابستہ ہیں اور بچوں کے لیے میگزین نکالتے ہیں۔ عبیدہ انصاری، چوہدری سلطان المعروف نظام دین، حامد رانا، زاہدہ خان، ضیا محی الدین، راحت کاظمی، ساحرہ کاظمی، عظیم سرور، اطہر شاہ خان، عبدالحکیم، عشرت ہاشمی، عظمت انصاری، اشفاق احمد، مرینہ احمد،جمشید انصاری قیام پاکستان کے بعد ایک عرصے تک ریڈیو تفریح و معلومات کا بہترین ذریعہ رہا۔ حامد میاں کے ہاں اور تلقین شاہ وغیرہ طویل سلسلے تک ریڈیو سے نشر ہوتے رہے۔ ڈرامے، فلمیں وغیرہ گیت گیتوں بھری کہانیاں نئی فلموں کیے تعارفی پروگرام، مختلف اوقات میں نشر ہوتے رہتے۔
یکم جنوری 1987ء کو ریڈیو پاکستان سے نئی طرز کی نشریات کا آغاز ہو۔ اس کے تحت ہر ایک گھنٹے کے بعد صدا کار و پروڈیوسر آتے اور اپنا پروگرام پیش کرتے۔ یہ سلسلہ 16 مارچ 1989ء کو ختم کر دیا گیا۔ یوں بھی نئی طرز نشریات میں حکومتی پروپیگنڈا کثرت سے پیش کیا جاتا جیسے کہ وزیراعظم جونیجو کے پانچ نکاتی پروگرام پر گفتگو اس قسم کا طرز عمل سامعین کو ریڈیو سے دور کرتا چلا گیا البتہ FM ریڈیو کے کافی تعداد میں چینل سامنے آئے اور نئے نئے صداکار بھی ان میں ایک نمایاں نام مظفر احمد بھی ہے۔
یہ ایک ادبی شخصیت بھی ہیں ان کی ادبی جھلک ان کی گفتگو میں بھی نمایاں ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ریڈیو صداکاروں کی گفتگو سن کر ہم جیسے غیر اردو ان صداکاروں کی گفتگو سے اپنا اردو تلفظ ٹھیک کیا کرتے تھے۔ اب کیفیت یہ ہے گو کہ ریڈیو پروگرام اردو میں نشر ہوتے ہیں، مگر صداکار گفتگو میں کثرت سے انگریزی زبان کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ البتہ صداکار مظفر احمد جیسے لوگ ان حالات میں ایک مثال ہیں۔ بہرکیف عصرِ حاضر میں بھی کثیر تعداد میں لوگ ریڈیو سنتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ریڈیو کی افادیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ریڈیو سے تفریح کے ساتھ ساتھ سماجی اصلاح کا کام بھی لیا جائے۔ تعلیمی و معلوماتی پروگرام بھی نشر کیے جا سکتے ہیں۔ قانونی مشورے بھی عوام الناس کو دیے جا سکتے ہیں۔ طبعی مسائل پر بھی معلومات فراہم کی جا سکتی ہیں۔