برطرف وزیر اعظم سے اتفاق و اختلاف
لاہور کی چورنگیوں اور سڑکوں کے جال بچھا کر وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ پنجاب کارڈ کھیلیں گے مگر یہ ہرگز ممکن نہیں
یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ برطرف شدہ وزیر اعظم نے موجودہ آئین پاکستان کی 70 ویں سالگرہ سے ایک روز قبل جو بیان دیا اس میں انھوں نے واشگاف آواز میں فرمایا کہ پاکستان کا موجودہ آئین اور نظام وائرس زدہ ہے تو اس نظام اور آئین کو بدلنا ہوگا۔ اس نعرے کی کیا ضرورت تھی، فوری طور پر آپ جرأت کرتے اور آپ کی چونکہ اسمبلی میں اکثریت ہے۔ فوری طور پر اسمبلی کو نئے وزیر اعظم سے برطرف کروا کے اور انتخاب کا اعلان کرواتے۔
آپ انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں، صرف ایک روز قبل جب آپ وزیر اعظم تھے تب تلک یہ نظام نہ تعفن زدہ تھا نہ آلودہ تھا نہ یہ وائرس کی پرورش گاہ تھا۔ چونکہ آپ کے حکومتی فریج میں رکھا تھا اور جیسے ہی حکومتی فریج سے باہر نکالا گیا پورا نظام اور آئین وائرس زدہ ہوگیا۔
کس قدر انسان اپنی ذات سے مخلص اور دوسروں کے لیے الگ پیمانے رکھتا ہے آپ سال سال بھر اسمبلی میں نہ آتے تھے، سائبر کرائم کے نام پر لوگوں کی آزادیاں سلب کرنے کی باتیں ہوئیں۔ لوگ کہتے ہیں جاکے دیکھو لاہور کو اور موازنہ کرو کراچی کی شاہراہوں سے، یقینا آپ درست فرماتے ہیں مگر یہ سب کاسمیٹک چینج ہے لوگوں کی زندگیاں نہیں بدلیں اور نہ کوئی دستور یا لائحہ عمل آپ نے غریبوں کے لیے وضع کیا۔
ملتان سے رحیم یار خان تک آپ کے دور میں کیا تبدیلی آئی، جمشید دستی کے آپ پر جو الزامات ہیں ان کی خاصی اہمیت ہے، لیکن جو شخص جمہوریت کی باتیں زورشور سے کرتاہے یا جو میڈیا پر کثرت سے گفتگو کرتا ہے۔ اس کے لیے جمہوریت ہے جو سارا سال دورے پر ہوتا ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسی کو جمہوریت کہتے ہیں۔ ایک دور ایسا بھی تھا کہ کراچی تا پشاور طالبان اور ان کے حامی افراد کا قبضہ ہونے کا تاثر تھا کہ ضرب عضب فوج کو شروع کرنا پڑا۔
پاکستان خیر کی سرزمین ہے مذہبی منافرت کے لیے ملک تشکیل نہ دیا گیا یہاں ہندو اور کرسچن کو بھی اپنے عقائد کی آزادی ہے۔ عربوں کی آپس کی کشمکش میں پاکستان کو ڈالنے کی کوشش کی گئی جب کہ ایڈوانی بھارت سعودی اور اسرائیلی اشتراک اب قریب تر ہوچکا ہے۔
داعش نے کوشش کی تھی وہ ایک نیا ملک قائم کرلے مگر وہ وقت کے ساتھ مٹ گئے اور اسلام میں نئی فرقہ پرستی کی گنجائش نہ رہی اور اگر کوئی اسلام کو سیاسی فوائد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرے گا تو اللہ رب العزت خود اس کی باز پرس کرے گا۔ انقلاب کے لیے نکلنے والے کو انقلاب کی تاریخ سے واقفیت رکھنا ضروری ہے ان کی تنظیم اور اس کے مقاصد مفلوک الحال طبقات کا تجزیہ بھی ضروری ہے۔
دور نہ جائیں حسن ناصر جو ایوب خان کے زمانے میں قلعے لاہور میں منتقل کیے گئے ان کی ایک آواز پر ولیکا مل کے اردگرد 1960 میں تقریباً 60 ہزار مزدور ناشتہ دان ہاتھ میں لیے جمع ہوجاتے تھے۔ ان میں شومیکر، بیٹری بنانے والے، سیکیورٹی، پرنٹنگ پریس، ریلوے مزدور، پاور لومز اور ڈی ایس ایف کے طلبا، ہوائی جہاز (PIA) یونین اور تقریباً پورے شہرکی مزدور تنظیمیں۔
یہ تھے کمیونسٹ پارٹی کے رہنما جو کئی برس تک پارٹی ممنوع قرار دیے جانے کے بعدپٹھان کالونی، منگھوپیرسے کالا بورڈ ملیر تک صبح سویرے یا اندھیری رات میں پیدل سفر کرتے تھے اور یہ کس ماں کے لاڈلے تھے جن کی ماں موت پر ہوائی جہاز چارٹرڈ کرکے حیدرآباد دکن سے لاہور بیٹے کی میت لینے آئی تھیں۔
ایسے آسودہ حال اور غریبوں کا درد رکھنے والوں سے ہمارا ملک محروم کردیا گیا۔ اب تو ملک لوٹنے والے روپیوں کے عوض مال و اسباب بٹورنے والے سیاسی رہنما ہوتے ہیں جن کو مقتدر لیڈران عوامی لیڈر کے خواب دکھا کر لاتے ہیں، جو اسلام کو بادشاہت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ عوامی جمہوری انقلاب بھی ان لوگوں کا ایک شوق ہے مگر انقلاب شوق کی چیز نہیں اس کے لیے مزدور یونین اور طلبا یونین اور کسان انجمنوں کا اتحاد اور شاعر و ادیب و دانشوروں کی کڑی سے کڑی ملاکر مارچ ضروری ہے جن لوگوں نے حسن ناصر جیسے بہادر شہزادے کو دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ انقلاب کیا ہوتا ہے؟
اور امارت کو کس طرح نابود کیا جاتا ہے۔ ایسے بہادر ذی ہوش غریب پرور سرزمین پاکستان سے نابود کردیے گئے۔ جو لوگ عیش و عشرت کی پسندیدہ زندگی گزارنے کے عادی ہیں اور غریبوں کو ووٹنگ کے لیے استعمال کرنے میں مہارت رکھتے ہیں وہی اب انقلاب کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ ناچیز جو جملے بھی لکھ رہا ہے وہ سنی سنائی نہیں بلکہ انقلابی نوجوانوں کے ساتھ وقت گزار رہے ہیں یہ ہم لوگ تھے جنھوں نے 1969-68 اور سن 70 میں مزار قائد پر مخدوم محی الدین کے قومی ترانوں کا ورد کیا ایک دو نہیں ہزارہا لوگ مزدور و کسان اور طلبا پاکستانی پرچم اور سرخ پھریرے ہاتھوں میں اور نغمہ کے یہ بول بینڈ کی دھنوں پر:
یہ جنگ ہے جنگ آزادی' آزادی کے پرچم کے تلے
اس دیش کے رہنے والوں کی مزدوروں کی دہقانوں کی۔مگر اس ملک کے حکمرانوں نے مظالم کی چکی میں پیس کر تحریکوں کو دبایا ملک توڑنا پسند کیا مگر عوام کے سامنے سر نہ جھکایا اور آج ماضی کی تاریخ یاد دلائی جا رہی ہے لہٰذا ان کی خدمت میں عرض ہے کہ شیخ مجیب زمانہ طالب علمی سے لیڈری کرتا تھا وہ دھان منڈی ڈھاکا کا ایک عام سا فرد تھا، وہ کسی محل میں نہ رہتا تھا غلط یا صحیح اس نے قوم کو پروگرام دیا تھا۔ مگر آج حکمرانوں نے عوام کو کون سا منشور دیا اور اب آیندہ کا کیا پروگرام دے رہے ہیں ۔
پاکستان کے جمہوری لیڈروں کا ذرا احوال تو دیکھیے کہ 50برس گزرنے کے بعد بھی پاکستان کے لیڈروں نے خواہ وہ کسی جماعت کے ہوں انھوں نے اسٹوڈنٹس یونین بحال نہ ہونے دی۔ ان کے مقابلے میں تو گاندھی اور نہرو کو دیکھیے کہ انھوں نے قیام پاکستان کے لیے علی گڑھ یونیورسٹی کو استعمال کرنے پر فساد برپا نہ کیا۔
مانا کہ انگریز کی حکومت تھی مگر علی گڑھ اور اس کے ارد گرد ہندو اکثریت میں تھے۔ کم ازکم فساد تو برپا کرسکتے تھے۔ قائد اعظم نے طلبا کو باقاعدہ کئی بار خطاب کیا مگر کہیں سے یہ شور سننے میں نہ آیا کہ طالب علموں کو سیاست سے دور رہنا چاہیے ورنہ تعلیم میں حرج ہوگا۔ مگر ہماری حکومت اور ملک جو طلبا تحریک کا مرہون منت ہے۔ اس میں طلبا تحریک شجر ممنوع ہے۔
قائد اعظم کو کبھی بھی علی گڑھ میں کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا حالانکہ علی گڑھ والوں کو یہ معلوم تھا کہ جس ملک کی تعمیر کا خیال قائد اعظم پیش کر رہے ہیں وہ علی گڑھ سے بہت دور ہے اور تمام لوگ وہاں ہجرت نہ کرسکیں گے۔ لہٰذا وہ مزید اقلیت میں ہوجائیں گے۔ مگر اس وقت برصغیر میں ہندو مسلم اختلافات اتنے شدید نہ تھے ورنہ تعمیر پاکستان کی تحریک بدنظمی کا شکار ہوجاتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت برصغیر میں بلند پایہ لیڈران کا زور تھا ایسے لیڈران یعنی مولانا محمد علی جوہر جیسے کہ گاندھی جی بھی خلافت موومنٹ میں مولانا جوہر کے ہمنوا ہوگئے نہ کہ کوئی بیوپاری عوامی لیڈر بن بیٹھے۔
یہ تو پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ ملک سے دانشور اور انقلابی ناپید ہوگئے اور گاہے بہ گاہے فوجی ملک کو بچانے کے لیے حکمراں بنتے گئے۔ اگر برصغیر میں بلند پایہ حکمراں آج موجود ہوتے تو یہ خطہ امن کا گہوارا ہوتا۔ چونکہ دونوں جانب مسائل کے حل کرنے کے لیے لیڈران کوشاں نہیں ہیں اس لیے اشتعال کی سیاست کو فروغ مل رہا ہے لیکن برطرف وزیر اعظم نے اپنا یہ پروپیگنڈا کروا رکھا ہے کہ وہ برصغیر میں امن کے خواہاں ہیں جب کہ ان کے مخالفین خطے کو راکھ کا ڈھیر بنانا چاہتے ہیں۔ یہ محض سریلے نغمے تک محدود آہنگ ہے۔ لیکن دونوں ملکوں کے لیڈران ان خوابوں کو حقیقت نہیں بنانا چاہتے جس سے جنگ کی ہنگامہ خیزی ختم ہو اور خوشحال پاکستان کا بول بالا ہو۔ لاہور کی چورنگیوں اور سڑکوں کے جال بچھا کر وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ پنجاب کارڈ کھیلیں گے مگر یہ ہرگز ممکن نہیں کیونکہ غریبوں کے لیے ملک میں کام نہ ہوا۔
آپ انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں، صرف ایک روز قبل جب آپ وزیر اعظم تھے تب تلک یہ نظام نہ تعفن زدہ تھا نہ آلودہ تھا نہ یہ وائرس کی پرورش گاہ تھا۔ چونکہ آپ کے حکومتی فریج میں رکھا تھا اور جیسے ہی حکومتی فریج سے باہر نکالا گیا پورا نظام اور آئین وائرس زدہ ہوگیا۔
کس قدر انسان اپنی ذات سے مخلص اور دوسروں کے لیے الگ پیمانے رکھتا ہے آپ سال سال بھر اسمبلی میں نہ آتے تھے، سائبر کرائم کے نام پر لوگوں کی آزادیاں سلب کرنے کی باتیں ہوئیں۔ لوگ کہتے ہیں جاکے دیکھو لاہور کو اور موازنہ کرو کراچی کی شاہراہوں سے، یقینا آپ درست فرماتے ہیں مگر یہ سب کاسمیٹک چینج ہے لوگوں کی زندگیاں نہیں بدلیں اور نہ کوئی دستور یا لائحہ عمل آپ نے غریبوں کے لیے وضع کیا۔
ملتان سے رحیم یار خان تک آپ کے دور میں کیا تبدیلی آئی، جمشید دستی کے آپ پر جو الزامات ہیں ان کی خاصی اہمیت ہے، لیکن جو شخص جمہوریت کی باتیں زورشور سے کرتاہے یا جو میڈیا پر کثرت سے گفتگو کرتا ہے۔ اس کے لیے جمہوریت ہے جو سارا سال دورے پر ہوتا ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسی کو جمہوریت کہتے ہیں۔ ایک دور ایسا بھی تھا کہ کراچی تا پشاور طالبان اور ان کے حامی افراد کا قبضہ ہونے کا تاثر تھا کہ ضرب عضب فوج کو شروع کرنا پڑا۔
پاکستان خیر کی سرزمین ہے مذہبی منافرت کے لیے ملک تشکیل نہ دیا گیا یہاں ہندو اور کرسچن کو بھی اپنے عقائد کی آزادی ہے۔ عربوں کی آپس کی کشمکش میں پاکستان کو ڈالنے کی کوشش کی گئی جب کہ ایڈوانی بھارت سعودی اور اسرائیلی اشتراک اب قریب تر ہوچکا ہے۔
داعش نے کوشش کی تھی وہ ایک نیا ملک قائم کرلے مگر وہ وقت کے ساتھ مٹ گئے اور اسلام میں نئی فرقہ پرستی کی گنجائش نہ رہی اور اگر کوئی اسلام کو سیاسی فوائد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرے گا تو اللہ رب العزت خود اس کی باز پرس کرے گا۔ انقلاب کے لیے نکلنے والے کو انقلاب کی تاریخ سے واقفیت رکھنا ضروری ہے ان کی تنظیم اور اس کے مقاصد مفلوک الحال طبقات کا تجزیہ بھی ضروری ہے۔
دور نہ جائیں حسن ناصر جو ایوب خان کے زمانے میں قلعے لاہور میں منتقل کیے گئے ان کی ایک آواز پر ولیکا مل کے اردگرد 1960 میں تقریباً 60 ہزار مزدور ناشتہ دان ہاتھ میں لیے جمع ہوجاتے تھے۔ ان میں شومیکر، بیٹری بنانے والے، سیکیورٹی، پرنٹنگ پریس، ریلوے مزدور، پاور لومز اور ڈی ایس ایف کے طلبا، ہوائی جہاز (PIA) یونین اور تقریباً پورے شہرکی مزدور تنظیمیں۔
یہ تھے کمیونسٹ پارٹی کے رہنما جو کئی برس تک پارٹی ممنوع قرار دیے جانے کے بعدپٹھان کالونی، منگھوپیرسے کالا بورڈ ملیر تک صبح سویرے یا اندھیری رات میں پیدل سفر کرتے تھے اور یہ کس ماں کے لاڈلے تھے جن کی ماں موت پر ہوائی جہاز چارٹرڈ کرکے حیدرآباد دکن سے لاہور بیٹے کی میت لینے آئی تھیں۔
ایسے آسودہ حال اور غریبوں کا درد رکھنے والوں سے ہمارا ملک محروم کردیا گیا۔ اب تو ملک لوٹنے والے روپیوں کے عوض مال و اسباب بٹورنے والے سیاسی رہنما ہوتے ہیں جن کو مقتدر لیڈران عوامی لیڈر کے خواب دکھا کر لاتے ہیں، جو اسلام کو بادشاہت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ عوامی جمہوری انقلاب بھی ان لوگوں کا ایک شوق ہے مگر انقلاب شوق کی چیز نہیں اس کے لیے مزدور یونین اور طلبا یونین اور کسان انجمنوں کا اتحاد اور شاعر و ادیب و دانشوروں کی کڑی سے کڑی ملاکر مارچ ضروری ہے جن لوگوں نے حسن ناصر جیسے بہادر شہزادے کو دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ انقلاب کیا ہوتا ہے؟
اور امارت کو کس طرح نابود کیا جاتا ہے۔ ایسے بہادر ذی ہوش غریب پرور سرزمین پاکستان سے نابود کردیے گئے۔ جو لوگ عیش و عشرت کی پسندیدہ زندگی گزارنے کے عادی ہیں اور غریبوں کو ووٹنگ کے لیے استعمال کرنے میں مہارت رکھتے ہیں وہی اب انقلاب کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ ناچیز جو جملے بھی لکھ رہا ہے وہ سنی سنائی نہیں بلکہ انقلابی نوجوانوں کے ساتھ وقت گزار رہے ہیں یہ ہم لوگ تھے جنھوں نے 1969-68 اور سن 70 میں مزار قائد پر مخدوم محی الدین کے قومی ترانوں کا ورد کیا ایک دو نہیں ہزارہا لوگ مزدور و کسان اور طلبا پاکستانی پرچم اور سرخ پھریرے ہاتھوں میں اور نغمہ کے یہ بول بینڈ کی دھنوں پر:
یہ جنگ ہے جنگ آزادی' آزادی کے پرچم کے تلے
اس دیش کے رہنے والوں کی مزدوروں کی دہقانوں کی۔مگر اس ملک کے حکمرانوں نے مظالم کی چکی میں پیس کر تحریکوں کو دبایا ملک توڑنا پسند کیا مگر عوام کے سامنے سر نہ جھکایا اور آج ماضی کی تاریخ یاد دلائی جا رہی ہے لہٰذا ان کی خدمت میں عرض ہے کہ شیخ مجیب زمانہ طالب علمی سے لیڈری کرتا تھا وہ دھان منڈی ڈھاکا کا ایک عام سا فرد تھا، وہ کسی محل میں نہ رہتا تھا غلط یا صحیح اس نے قوم کو پروگرام دیا تھا۔ مگر آج حکمرانوں نے عوام کو کون سا منشور دیا اور اب آیندہ کا کیا پروگرام دے رہے ہیں ۔
پاکستان کے جمہوری لیڈروں کا ذرا احوال تو دیکھیے کہ 50برس گزرنے کے بعد بھی پاکستان کے لیڈروں نے خواہ وہ کسی جماعت کے ہوں انھوں نے اسٹوڈنٹس یونین بحال نہ ہونے دی۔ ان کے مقابلے میں تو گاندھی اور نہرو کو دیکھیے کہ انھوں نے قیام پاکستان کے لیے علی گڑھ یونیورسٹی کو استعمال کرنے پر فساد برپا نہ کیا۔
مانا کہ انگریز کی حکومت تھی مگر علی گڑھ اور اس کے ارد گرد ہندو اکثریت میں تھے۔ کم ازکم فساد تو برپا کرسکتے تھے۔ قائد اعظم نے طلبا کو باقاعدہ کئی بار خطاب کیا مگر کہیں سے یہ شور سننے میں نہ آیا کہ طالب علموں کو سیاست سے دور رہنا چاہیے ورنہ تعلیم میں حرج ہوگا۔ مگر ہماری حکومت اور ملک جو طلبا تحریک کا مرہون منت ہے۔ اس میں طلبا تحریک شجر ممنوع ہے۔
قائد اعظم کو کبھی بھی علی گڑھ میں کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا حالانکہ علی گڑھ والوں کو یہ معلوم تھا کہ جس ملک کی تعمیر کا خیال قائد اعظم پیش کر رہے ہیں وہ علی گڑھ سے بہت دور ہے اور تمام لوگ وہاں ہجرت نہ کرسکیں گے۔ لہٰذا وہ مزید اقلیت میں ہوجائیں گے۔ مگر اس وقت برصغیر میں ہندو مسلم اختلافات اتنے شدید نہ تھے ورنہ تعمیر پاکستان کی تحریک بدنظمی کا شکار ہوجاتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت برصغیر میں بلند پایہ لیڈران کا زور تھا ایسے لیڈران یعنی مولانا محمد علی جوہر جیسے کہ گاندھی جی بھی خلافت موومنٹ میں مولانا جوہر کے ہمنوا ہوگئے نہ کہ کوئی بیوپاری عوامی لیڈر بن بیٹھے۔
یہ تو پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ ملک سے دانشور اور انقلابی ناپید ہوگئے اور گاہے بہ گاہے فوجی ملک کو بچانے کے لیے حکمراں بنتے گئے۔ اگر برصغیر میں بلند پایہ حکمراں آج موجود ہوتے تو یہ خطہ امن کا گہوارا ہوتا۔ چونکہ دونوں جانب مسائل کے حل کرنے کے لیے لیڈران کوشاں نہیں ہیں اس لیے اشتعال کی سیاست کو فروغ مل رہا ہے لیکن برطرف وزیر اعظم نے اپنا یہ پروپیگنڈا کروا رکھا ہے کہ وہ برصغیر میں امن کے خواہاں ہیں جب کہ ان کے مخالفین خطے کو راکھ کا ڈھیر بنانا چاہتے ہیں۔ یہ محض سریلے نغمے تک محدود آہنگ ہے۔ لیکن دونوں ملکوں کے لیڈران ان خوابوں کو حقیقت نہیں بنانا چاہتے جس سے جنگ کی ہنگامہ خیزی ختم ہو اور خوشحال پاکستان کا بول بالا ہو۔ لاہور کی چورنگیوں اور سڑکوں کے جال بچھا کر وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ پنجاب کارڈ کھیلیں گے مگر یہ ہرگز ممکن نہیں کیونکہ غریبوں کے لیے ملک میں کام نہ ہوا۔