کیا وہ گداگر نہیں ہیں
یہ معاشرے کے وہ عناصر ہوتے ہیں جو خود لڑ کر اپنے لیے مقام حاصل کرنے کے بجائے دوسروں کے حصے میں سے طلب کرنے لگتے ہیں
ہمارے ملک کے گداگر تو بیچارے خوامخواہ بدنام ہیں، سارا دن سڑکوں، بازاروں، گلیوں، محلوں میں چند روپوں کی خاطر لعنت ملامت سہتے رہتے ہیں، برا بھلا سنتے رہتے ہیں، ان کا دل گردہ دیکھو کہ برے برے لقب سن کر بھی ماتھے پر شکن تک نہیں لاتے ہیں اور آپ کو دعائیں دیتے نہیں تھکتے ہیں، لیکن ہم ہیں کہ انھیں بخشنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں، اگر کسی روز وہ پلٹ کر ہم سے یہ سوال پوچھ بیٹھیں کہ گداگری تو ہمارا پیشہ ہے۔
اس لیے ہم سارا دن تمہاری گالیاں اور برا بھلا سہتے رہتے ہیں، لیکن یہ تو ذرا بتلاؤ کہ اس ملک میں بڑے سے بڑا اعلیٰ منصب رکھنے والے سے لے کر کرپٹ سیاست دانوں، جاگیرداروں، وزیروں، مشیروں، سرمایہ داروں، بیوروکریٹس سے اشرافیہ تک اور صنعت کاروں، بزنس مین سے لے کر بلڈرز تک کیا گداگر نہیں ہیں؟ کیا وہ سارا وقت منہ اور جیب پھاڑے مانگتے نہیں پھرتے ہیں، جہاں سے جو ہاتھ لگ جائے لے کر رفوچکر نہیں ہوجاتے ہیں؟
کیا ان سب کی نیتیں اور کرتوت بدکار نہیں ہیں، کیا لوٹ مار، کرپشن، فراڈ پر ان کی رال سارا وقت بہتی نہیں رہتی ہے؟ آپ انتہائی اوپر سے لے کر نیچے تک کسی کے پاس بھی جائز کام لے کر چلے جاؤ، کیا وہ مانگنا شروع نہیں کر دیتے ہیں؟ کیا کرپٹ عوامی نمایندے سارا وقت اپنے لیے مراعات نہیں مانگتے پھرتے ہیں؟ کیا وہ سب گداگر نہیں ہیں؟ آپ ہی بتاؤ، لیکن ان پر تو کوئی لعنت ملامت نہیں بھیجتا ہے۔
ان کو تو کوئی برا بھلا نہیں کہتا ہے، بلکہ الٹا سارا وقت آپ ان کی خوشامد اور چاپلوسیوں میں لگے رہتے ہیں، وہ آپ کو جہاں مل جائیں، آپ ان کے لیے فوراً قالین بن جاتے ہیں، ایک سے ایک بڑا قصیدہ گانے لگ جاتے ہیں۔ کیا آپ بھی خود گداگر نہیں ہیں، جب آپ اور وہ سب بھی گداگر ہیں تو صرف ہمیں ہی گالیاں سننے کو کیوں ملتی ہیں، سب ہمیں ہی نفرت کی نگاہوں سے کیوں دیکھتے ہیں، سب ہمیں ہی دیکھتے چھپنے کیوں لگ جاتے ہیں؟ جب کہ آپ دوسری طرف ملک کے بڑے بڑے گداگروں کے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں۔
حضور اعلیٰ کبھی اپنی اداؤں پر غور کیجیے گا۔ ہم سب کا پیشہ ایک ہی ہے، ہم سب ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، ہم سب ہی کرنسی نوٹوں کے عاشق ہیں، تو پھر صرف چند عاشق ہی کیوں رسوا ہیں۔ ہم خدا کے نام پر مانگتے پھرتے ہیں، وہ عوام کے نام پر لوٹ مار کرتے پھرتے ہیں، لیکن ہم دونوں میں ایک بات تو مشترک ہے کہ دونوں ہی مانگتے وقت بڑے بڑے سہانے سپنے دکھاتے ہیں۔ اب جب کہ یہ طے ہوگیا کہ ہماری اکثریت گداگر ہے تو پھر آئیے ہم اپنے پیشے کے آغاز کو تاریخ میں ڈھونڈتے ہیں۔
گیارہویں صدی قبل مسیح کے یہودی ''یاوی'' نامی ایک دیوتا کو مانتے تھے، ان کے نزدیک بیت المقدس اور اسرائیل کے خلاف لڑائی کے لیے آسمانوں سے اترنے والے دستے کی قیادت یہ ''یاوی'' نامی دیوتا کر رہا تھا۔ یہودیوں کی مقدس کتابوں کے مطابق ''یاوی'' نے بری عادات اور برے کردار کے حامل افراد کو سزا کے طور پر انھیں اور ان کے بچوں کو حکم دیا کہ وہ شہر میں بھیک مانگیں۔
اس کے برعکس نیک کردار کے حامل افراد کے بچوں کی امداد کی ذمے داری معاشرے کے سپرد کر دی گئی۔ انھیں اس ذلت و رسوائی سے محفوظ کر لیا گیا، جس کا نشانہ معاشرے میں منفی شہرت رکھنے والے شہریوں اور ان کی اولاد بنتی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ رومن ایمپائر میں گداگری کا تصور موجودہ گداگری کے طریقوں سے بہت مختلف تھا، اس وقت سلطنت کی فصیلوں سے باہر بکثرت ایسے فقیر دیکھے جا سکتے تھے جو شہر میں داخل ہونے والوں سے بھیک مانگتے تھے۔
ان میں سے کچھ تو وہ بدقسمت تھے جو فی الحقیقت کسی جسمانی معذوری کا شکار تھے، جب کہ ان میں سے بہت سارے وہ معتوب افراد بھی شامل ہوتے تھے، جنھیں بادشاہ بطور سزا اپاہج کرنے کے بعد شہر سے باہر پھینک دیتے تھے اور ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ باقی نہ رہتا تھا کہ وہ بھیک مانگ کر اپنے لیے خورو نوش کا بندوبست کریں۔ جب کہ عیسائی مورخین کا دعویٰ ہے کہ جس وقت حضرت عیسیٰ عیسائیت کی تعلیمات لے کر آئے، اس وقت یروشلم کے عوام گداگروں اور بھیک کے الفاظ سے قطعاً ناآشنا تھے۔
عربی ادب میں سب سے پہلے گداگری اور گداگر کا تذکرہ عرب نثر نگار اور فلسفی الجاہد کی کتاب ''کتاب البخالہ'' (کنجوسوں کی کتاب) میں ملتا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے گداگروں کے لیے ''موکدی'' کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ایران میں گداگری کے پیشے نے منگول حکمرانوں کے زوال کے بعد زور پکڑا۔ مذہب کے نام پر گداگری کا قدیم ترین تصور ہندو مت میں پایا جاتا ہے۔
بیسویں صدی میں شہرت پانے والے سگمنڈ فرائیڈ سترہویں صدی میں گزرنے والے عظیم مفکر ہابز سے متاثر تھے، ان دونوں کا ماننا تھا کہ انسان کی جبلت میں لالچ، خودغرضی، ظلم، ذاتی تسکین کی خواہش موجود ہے، ان ہی جبلتوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر انسان پرآسائش گھر، دولت، اچھی نوکری، اعلیٰ رتبوں اور مرتبوں کی خواہش رکھتا ہے، لیکن طلب اور رسد کے مابین وسیع تر فرق کے باعث یہ چیزیں یا سہولیات یا آسائشیں ہر شخص کو میسر نہیں آ پاتی ہیں۔ یہ ہی کمی معاشرے میں بسنے والے مختلف گروہوں کے مابین کشکمش اور تصادم کو جنم دیتی ہیں۔
دونوں کا کہنا ہے کہ ''وسائل محدود اور انسانی خواہشات لامحدود ہوتی ہیں''۔ محدود اور لامحدود کے مابین فرق کے باعث پیدا ہونے والی جنگ میں کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں مقابلے کی سکت نہیں ہوتی یا پھر وہ لڑلڑ کر تھک چکے ہوتے ہیں۔ یہ معاشرے کے وہ عناصر ہوتے ہیں جو خود لڑ کر اپنے لیے مقام حاصل کرنے کے بجائے دوسروں کے حصے میں سے طلب کرنے لگتے ہیں، یعنی گداگری کا پیشہ اپنا لیتے ہیں۔
ہم اگر ٹھنڈے دل اور دماغ کے ساتھ اور سگمنڈ فرائیڈ اور ہابز کی تشریح کی روشنی میں اپنے ملک کے اعلیٰ عہدوں اور مرتبوں والوں کی گداگری کو دیکھیں تو ہمیں ان کی حرکات پر قطعاً غم وغصہ نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ ان سب میں مقابلے کی سکت نہیں ہے، اس لیے سب ہمارے حصے کو لوٹ مار کرکے کھا رہے ہیں۔ اصل میں یہ سب گداگر ہیں، جو 70 سال سے یہ ہی پیشہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ آئیں پہلے تو ان سب کو معاف کردیتے ہیں اور پھر ان سب کو اپنے ملک کی سرحدوں کے پار چھوڑ آتے ہیں، تاکہ یہ ہمارے ملک میں آنے جانے والوں سے مانگ کر تسکین حاصل کرتے رہیں۔
اس لیے ہم سارا دن تمہاری گالیاں اور برا بھلا سہتے رہتے ہیں، لیکن یہ تو ذرا بتلاؤ کہ اس ملک میں بڑے سے بڑا اعلیٰ منصب رکھنے والے سے لے کر کرپٹ سیاست دانوں، جاگیرداروں، وزیروں، مشیروں، سرمایہ داروں، بیوروکریٹس سے اشرافیہ تک اور صنعت کاروں، بزنس مین سے لے کر بلڈرز تک کیا گداگر نہیں ہیں؟ کیا وہ سارا وقت منہ اور جیب پھاڑے مانگتے نہیں پھرتے ہیں، جہاں سے جو ہاتھ لگ جائے لے کر رفوچکر نہیں ہوجاتے ہیں؟
کیا ان سب کی نیتیں اور کرتوت بدکار نہیں ہیں، کیا لوٹ مار، کرپشن، فراڈ پر ان کی رال سارا وقت بہتی نہیں رہتی ہے؟ آپ انتہائی اوپر سے لے کر نیچے تک کسی کے پاس بھی جائز کام لے کر چلے جاؤ، کیا وہ مانگنا شروع نہیں کر دیتے ہیں؟ کیا کرپٹ عوامی نمایندے سارا وقت اپنے لیے مراعات نہیں مانگتے پھرتے ہیں؟ کیا وہ سب گداگر نہیں ہیں؟ آپ ہی بتاؤ، لیکن ان پر تو کوئی لعنت ملامت نہیں بھیجتا ہے۔
ان کو تو کوئی برا بھلا نہیں کہتا ہے، بلکہ الٹا سارا وقت آپ ان کی خوشامد اور چاپلوسیوں میں لگے رہتے ہیں، وہ آپ کو جہاں مل جائیں، آپ ان کے لیے فوراً قالین بن جاتے ہیں، ایک سے ایک بڑا قصیدہ گانے لگ جاتے ہیں۔ کیا آپ بھی خود گداگر نہیں ہیں، جب آپ اور وہ سب بھی گداگر ہیں تو صرف ہمیں ہی گالیاں سننے کو کیوں ملتی ہیں، سب ہمیں ہی نفرت کی نگاہوں سے کیوں دیکھتے ہیں، سب ہمیں ہی دیکھتے چھپنے کیوں لگ جاتے ہیں؟ جب کہ آپ دوسری طرف ملک کے بڑے بڑے گداگروں کے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں۔
حضور اعلیٰ کبھی اپنی اداؤں پر غور کیجیے گا۔ ہم سب کا پیشہ ایک ہی ہے، ہم سب ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، ہم سب ہی کرنسی نوٹوں کے عاشق ہیں، تو پھر صرف چند عاشق ہی کیوں رسوا ہیں۔ ہم خدا کے نام پر مانگتے پھرتے ہیں، وہ عوام کے نام پر لوٹ مار کرتے پھرتے ہیں، لیکن ہم دونوں میں ایک بات تو مشترک ہے کہ دونوں ہی مانگتے وقت بڑے بڑے سہانے سپنے دکھاتے ہیں۔ اب جب کہ یہ طے ہوگیا کہ ہماری اکثریت گداگر ہے تو پھر آئیے ہم اپنے پیشے کے آغاز کو تاریخ میں ڈھونڈتے ہیں۔
گیارہویں صدی قبل مسیح کے یہودی ''یاوی'' نامی ایک دیوتا کو مانتے تھے، ان کے نزدیک بیت المقدس اور اسرائیل کے خلاف لڑائی کے لیے آسمانوں سے اترنے والے دستے کی قیادت یہ ''یاوی'' نامی دیوتا کر رہا تھا۔ یہودیوں کی مقدس کتابوں کے مطابق ''یاوی'' نے بری عادات اور برے کردار کے حامل افراد کو سزا کے طور پر انھیں اور ان کے بچوں کو حکم دیا کہ وہ شہر میں بھیک مانگیں۔
اس کے برعکس نیک کردار کے حامل افراد کے بچوں کی امداد کی ذمے داری معاشرے کے سپرد کر دی گئی۔ انھیں اس ذلت و رسوائی سے محفوظ کر لیا گیا، جس کا نشانہ معاشرے میں منفی شہرت رکھنے والے شہریوں اور ان کی اولاد بنتی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ رومن ایمپائر میں گداگری کا تصور موجودہ گداگری کے طریقوں سے بہت مختلف تھا، اس وقت سلطنت کی فصیلوں سے باہر بکثرت ایسے فقیر دیکھے جا سکتے تھے جو شہر میں داخل ہونے والوں سے بھیک مانگتے تھے۔
ان میں سے کچھ تو وہ بدقسمت تھے جو فی الحقیقت کسی جسمانی معذوری کا شکار تھے، جب کہ ان میں سے بہت سارے وہ معتوب افراد بھی شامل ہوتے تھے، جنھیں بادشاہ بطور سزا اپاہج کرنے کے بعد شہر سے باہر پھینک دیتے تھے اور ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ باقی نہ رہتا تھا کہ وہ بھیک مانگ کر اپنے لیے خورو نوش کا بندوبست کریں۔ جب کہ عیسائی مورخین کا دعویٰ ہے کہ جس وقت حضرت عیسیٰ عیسائیت کی تعلیمات لے کر آئے، اس وقت یروشلم کے عوام گداگروں اور بھیک کے الفاظ سے قطعاً ناآشنا تھے۔
عربی ادب میں سب سے پہلے گداگری اور گداگر کا تذکرہ عرب نثر نگار اور فلسفی الجاہد کی کتاب ''کتاب البخالہ'' (کنجوسوں کی کتاب) میں ملتا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے گداگروں کے لیے ''موکدی'' کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ایران میں گداگری کے پیشے نے منگول حکمرانوں کے زوال کے بعد زور پکڑا۔ مذہب کے نام پر گداگری کا قدیم ترین تصور ہندو مت میں پایا جاتا ہے۔
بیسویں صدی میں شہرت پانے والے سگمنڈ فرائیڈ سترہویں صدی میں گزرنے والے عظیم مفکر ہابز سے متاثر تھے، ان دونوں کا ماننا تھا کہ انسان کی جبلت میں لالچ، خودغرضی، ظلم، ذاتی تسکین کی خواہش موجود ہے، ان ہی جبلتوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر انسان پرآسائش گھر، دولت، اچھی نوکری، اعلیٰ رتبوں اور مرتبوں کی خواہش رکھتا ہے، لیکن طلب اور رسد کے مابین وسیع تر فرق کے باعث یہ چیزیں یا سہولیات یا آسائشیں ہر شخص کو میسر نہیں آ پاتی ہیں۔ یہ ہی کمی معاشرے میں بسنے والے مختلف گروہوں کے مابین کشکمش اور تصادم کو جنم دیتی ہیں۔
دونوں کا کہنا ہے کہ ''وسائل محدود اور انسانی خواہشات لامحدود ہوتی ہیں''۔ محدود اور لامحدود کے مابین فرق کے باعث پیدا ہونے والی جنگ میں کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں مقابلے کی سکت نہیں ہوتی یا پھر وہ لڑلڑ کر تھک چکے ہوتے ہیں۔ یہ معاشرے کے وہ عناصر ہوتے ہیں جو خود لڑ کر اپنے لیے مقام حاصل کرنے کے بجائے دوسروں کے حصے میں سے طلب کرنے لگتے ہیں، یعنی گداگری کا پیشہ اپنا لیتے ہیں۔
ہم اگر ٹھنڈے دل اور دماغ کے ساتھ اور سگمنڈ فرائیڈ اور ہابز کی تشریح کی روشنی میں اپنے ملک کے اعلیٰ عہدوں اور مرتبوں والوں کی گداگری کو دیکھیں تو ہمیں ان کی حرکات پر قطعاً غم وغصہ نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ ان سب میں مقابلے کی سکت نہیں ہے، اس لیے سب ہمارے حصے کو لوٹ مار کرکے کھا رہے ہیں۔ اصل میں یہ سب گداگر ہیں، جو 70 سال سے یہ ہی پیشہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ آئیں پہلے تو ان سب کو معاف کردیتے ہیں اور پھر ان سب کو اپنے ملک کی سرحدوں کے پار چھوڑ آتے ہیں، تاکہ یہ ہمارے ملک میں آنے جانے والوں سے مانگ کر تسکین حاصل کرتے رہیں۔